اسلام اور ناموسِ رسالتؐ پر کروسیڈی(صلیبی) حملے اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داری

فردہو یا قوم، دونوں کے وجود کے دو پہلو ہیں: ایک جسمانی اور طبیعی اور دوسرا روحانی، اخلاقی، نظریاتی اور تہذیبی جس سے اس کی شناخت واضح ہوتی ہے۔ جس طرح نفس اور جسم پر ہروہ حملہ یا ضرب جو قانون سے ماوراہو، ایک جرم اور لائق تعزیر ہے، اسی طرح روحانی اور نظریاتی وجود اور شناخت پر حملہ ناقابلِ برداشت ہے اور اس پر جارحیت کے خلاف مزاحمت، ہر فرد اور قوم کا قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ معاملہ ملک کے اندر ہو یا اس کا تعلق اقوامِ عالم سے ہو، انسانوں، معاشروں اور تہذیبوں کے درمیان امن و آشتی اور سلامتی و استحکام کا انحصار قانون اور ضابطوں کے احترام اور ان پر عمل اور ان کی نگرانی پر ہے۔ ان حدود کو پامال کرنے کا نتیجہ انتشار، تصادم اور فساد فی الارض کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
۱۱ستمبر۲۰۱۲ء کو اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر جو حملہ امریکا کی کچھ شیطانی قوتوں نے یوٹیوب پر جاری ہونے والی ایک فلم کی شکل میں کیا اور جس سوچے سمجھے انداز میں پوری چابک دستی کے ساتھ مسلمانوں کے ایمان، نظریاتی وجود اور عزت و غیرت کو چیلنج کیا، اور پھر جس تحدی اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے آزادیِ اظہار کے نام پر سرکاری تحفظ فراہم کیا گیا، اس نے فطری طور پر عالمِ اسلام میں ایک آگ سی لگا دی۔ امریکی حکومت، میڈیا، دانش وروں اور دوسری مغربی اقوام کے کرتادھرتا عناصر نے، خصوصیت سے فرانس کے میڈیا اور حکومت نے جو رویہ اختیار کیا، اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مصر کے صدر کے استثنا کے ساتھ، تمام ہی مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور بے عملی نے مسلمان عوام کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا کہ وہ اپنے ایمان اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے میدان میںاُتریں۔ یہ ان کا حق ہی نہیں، فرض تھا جسے انھوں نے اور ان کی دینی قیادت نے پورا کیا۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ کچھ مقامات پر اس ردعمل نے تشدد کا رخ اختیار کرلیا جس کے نتیجے میں ۳۰سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ بدنما صورت بہت ہی محدود اور انگلیوں پر گنے جانے والے مقامات پر رونما ہوئی ہے اور وہاں بھی مظاہرین کے بے قابو ہوجانے سے بھی کہیں زیادہ نقصان سرکاری اہل کاروں کے قوت کے استعمال اور تصادم کے نتیجے میں واقع ہوا ہے۔ لیبیا کے واقعے کے علاوہ کہیں بھی پہل مظاہرین نے نہیں کی حالانکہ مغربی میڈیا اور ان کے مقامی نام نہاد لبرل حاشیہ نشین اصل مسئلے سے توجہ کو ہٹاکر، تشدد یا بے اعتدالی کے معدودے چند واقعات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ امت مسلمہ کی اپنی قیادت نے تشدد کی مذمت کی ہے اور احتجاج کو پرامن اور جمہوری اور اخلاقی حدود میں رکھنے کی سختی سے تلقین کی ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی ان آداب کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے۔ بلاشبہہ ایک جان کا بھی ناحق جانا غلط اور ناقابلِ معافی ہے، لیکن اْمت مسلمہ کے دینی اور قانونی ردعمل کو مسلمانوں کے غصے (rage)اور انتقام (revenge)کا نام دے کر بحث کارُخ بدلنا ایک شرم ناک کھیل ہے جس کا اسی طرح پردہ چاک کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح اصل کروسیڈی اور صہیونی حملے کا مؤثر جواب اور مسئلے کے مستقل حل کے لیے منظم اور مؤثر کوشش ضروری ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس مسئلے کے تمام اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے، بگاڑ کے اصل اسباب کی نشان دہی کی جائے، اور حالات کو سدھارنے کے لیے جس حکمت عملی کو اختیار کرنا ضروری ہے اس کو صاف الفاظ میں بیان کیا جائے۔
ناموسِ رسالتؐ پر حملہ یا نئی تہذیبی جنگ
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جن قبطی، عیسائی شدت پسند اور اسرائیلی صہیونی شرپسندوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ایک نہایت گھٹیا، مکروہ اور غلیظ فلم کے ذریعے اسلام اور اس کے پاک نبیؐ کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بناکر پوری اْمت مسلمہ کے خلاف جس جارحیت کا ارتکاب کیا ہے، اس کے بنیادی حقائق ہرکس و ناکس کے سامنے آگئے ہیں، اس لیے ان کے اعادے کی ضرورت نہیں۔ نیز یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اسلام اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کو سب و شتم، جھوٹ اور افترا اور خبث باطن اور زہرناک دشمنی پر مبنی خیالی الزامات اور اتہامات کا نشانہ بنانا مغربی اہلِ قلم، مشنری اداروں اور میڈیا کا شیوہ رہا ہے، اور اس کا اعتراف مشہور عیسائی مؤرخ ڈبلیو منٹگمری واٹ نے ان الفاظ میں کیا ہے:’’دنیا کے تمام عظیم انسانوں میں سے کسی کو بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ بدنام نہیں کیا گیا‘‘۔
لیکن آج جس طرح، جس زبان میں اور جس تسلسل سے یہ جارحانہ کارروائیاں ہورہی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ پھر اس پر مستزاد، میڈیا اور سوشل میڈیا کی نئی قوت کہ چشم زدن میں یہ آگ دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج مغربی میڈیا، دانش وروں کی اکثریت اور امریکا اور یورپی اقوام کی سیاسی قوت، سب اپنے اپنے انداز میں اس خطرناک کھیل میں شریک ہیں جس کی وجہ سے مسئلے کی جوہری نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ آج امریکی دستور کی پہلی ترمیم جس کا تعلق مذہب اور ریاست کی علیحدگی اورآزادیِ راے اور اظہار کی آزادی سے متعلق ہے، اور اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے اعلامیے کا سہارا لے کر اسلام، پیغمبرؐاسلام اور اْمت مسلمہ کو مطعون کرنے اور ان کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکانے اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے عزائم اور منصوبوں کا پرچار ہی نہیں، ان پر دعوتِ عمل دینے کا جو کام ہورہا ہے اس کا نوٹس نہ لینا اور حالات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے بروقت اقدام نہ کرنا ایک مجرنامہ غفلت ہوگی۔
علمی تنقید اور اور دلیل پر مبنی اختلافِ راے نہ کبھی محل نظر تھا اور نہ آج ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا جو غلغلہ مغربی اہلِ قلم نے برپا کیا، وہ بھی کسی نہ کسی طرح براشت کرلیا گیا۔ لیکن جس نظریاتی، تہذیبی اور سیاسی جنگ کو اب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلط کیا جارہا ہے، وہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور یورپی اقوام کی عسکری قوت اور سیاسی معرکے کا اصل ہدف مسلم دنیا بن گئی ہے، اور عالمِ اسلام کے سیاسی، معاشی اور تہذیبی نقشے کو اپنے حسبِ خواہش تبدیل کرنے کا عمل بڑی چابک دستی سے کارفرما ہے۔ امریکی قیادت بڑی معصومیت سے کہہ رہی ہے کہ اس فلم سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، اور ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ بہت سے افراد ایسی مذموم اور قبیح حرکتوں کو ناپسند بھی کرتے ہوں گے، لیکن یہ کہنا کہ امریکی اور یورپی قیادت کا دامن اس پورے کھیل سے پاک ہے جو تسلسل کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، کسی طرح بھی قابلِ یقین نہیں۔ نائن الیون کے معاً بعد جس جنگ کا آغاز جارج بش نے Crusadeکی تاریخی اصطلاح کو استعمال کر کے کیا تھا، وہ محض زبان کی لغزش (slip of the tongue) نہ تھی اور بعد کے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ ع
ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ
گوانتاناموبے میں بار بار قرآنِ پاک کی بے حْرمتی کی گئی ہے، افغانستان کے بگرام کے عسکری اڈے پر۱۰۰سے زیادہ قرآنِ پاک نذرِ آتش کیے گئے ہیں، امریکا کے اعلیٰ فوجی ادارے جوائنٹ فورسز اسٹاف کالج میں اسلام کے خلاف لیکچرز نصاب میں شامل کیے گئے، جن میں اسلامی دنیا کو دشمن قرار دیتے ہوئے مکہ اور مدینہ کو ایٹم بم سے اُڑا دینے تک کا پیغام دیا گیا۔ اسی طرح ڈینش رسالے میں ہتک آمیز خاکے چھاپے گئے۔ امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآنِ پاک جلانے کی ملک گیر مہم چلائی ، فرانس کے رسالے چارلی ہیس فور میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تضحیک آمیز خاکے شائع ہوئے۔ ہالینڈ میں پارلیمنٹ کے رکن نے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی، ناروے میں اسلام دشمنی کے نام پر خود اپنے ۷۰سے زیادہ نوجوانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا— یہ سب غیرمربوط واقعات نہیں ایک پوری اسکیم کا حصہ نظر آتے ہیں اور اْمت مسلمہ کا ضمیر اس خطرے کو بھانپ رہا ہے، اور حکمرانوں کا رنگ ڈھنگ جو بھی ہو ، عوام امریکا اور مغربی اقوام پر بھروسا نہیں کرتے اور اپنے دفاع کے لیے مضطرب ہیں۔ اب یہ منظرنامہ اتنا واضح ہوتا جا رہا ہے کہ خود مغرب کے اہلِ نظر کا ایک طبقہ اس خطرناک کھیل پر اپنی پریشانی کا اظہارکر رہا ہے اور اسے خود مغربی اقوام اور خصوصیت سے عوام کے مفاد کے منافی محسوس کر رہا ہے۔
آزادیِ رائے کی آڑ میں مذموم مقاصد
سام بیسائل کی ’مسلمانوں کی معصومیت‘ (Innocence of Muslims)کے نام پر امریکی اور یہودی سرمایے سے بنائی ہوئی یہ شیطانی فلم امریکی سفیر رچرڈ گلینڈ کے الفاظ میں: ’’ایک شخص کا ذاتی فعل ہے، یہ سارے امریکا کی رائے نہیں‘‘ مگر یہ رائے تسلیم کرنا عقل اور تاریخ دونوں کے ساتھ مذاق ہوگا۔ فلم کتنی قبیح اور اشتعال انگیز ہے اس کے بارے میں صرف ایک پاکستانی صحافی جناب حامدمیر کے یہ الفاظ پڑھ لینا کافی ہیں کہ:
’’۱۱؍ستمبر۲۰۰۱ئ؁ کو نیویارک اور القاعدہ کے حملوں سے ۳ہزار امریکی مارے گئے تھے لیکن ۱۱؍ستمبر۲۰۱۲ء ؁کو یوٹیوب پر جاری کی جانے والی اس فلم نے کروڑوں مسلمانوں کی روح کو زخمی کیا۔ میں اس فلم کو چندمنٹ سے زیادہ نہیں دیکھ سکا۔ اس خوف ناک فلم کی تفصیل کو بیان کرنا بھی میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ بس یہ کہوں گا کہ اس فلم کے چند مناظر دیکھ کر سام بیسائل کے مقابلے پر اسامہ بن لادن بہت چھوٹا انتہاپسند محسوس ہوا۔ یہ اعزاز اب امریکا کے پاس ہے کہ اس صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد سام بیسائل اپنی انتہائی گندی اور بدبودار ذہنیت کے ساتھ صدراوباما کی پناہ میں ہے‘‘۔(روزنامہ جنگ،۱۷ستمبر ۲۰۱۲ء )
امریکا ، مغربی حکمران اور میڈیا ’آزادیِ اظہارِ رائے‘ کے نام پر اس صہیونی اور صلیبی جنگ کے کمانڈروں کا پشتی بان ہے اور مسلمانوں کو درس دے رہا ہے کہ’’ معاملہ آزادی کے بارے میں دوتصورات کا ہے‘‘ (ملاحظہ ہو:) Two Versions of Freedom Behind Clashes انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون،۸ ۱ستمبر۲۰۱۲ئ؁)۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی اور اس کے تصورات سے اس معاملے کا دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ بات تہذیبوں کے تصادم سے آگے بڑھ کر امریکا اوریورپی اقوام کے اسلام اور اسلامی دنیا کے بارے میں عزائم کی ہے، اور جو کردار یہ فلم ساز، خاکہ نگار، صحافی، سیاسی اداکار انجام دے رہے ہیں وہ امریکا اور یورپ کی سامراجی قوتوں کے نقشہ ٔجنگ میں اپنے مقام پر بالکل ٹھیک فِٹ ہوتا ہے اور اب اس کا اعتراف خود ان کے درمیان سے شاہد منھم سے بھی آنے لگا ہے۔
دی گارڈین کا کالم نگار سیماس ملن اپنے ۸۱ستمبر ۲۱۰۲ئ؁ کے مضمون میں (جس کا عنوان بھی چونکا دینے والاہے، (یعنی: ’’تعجب کی بات صرف یہ ہے کہ شرق اوسط میں اور زیادہ پْرتشدد مظاہرے کیوں نہیں ہوئے‘‘) لکھتا ہے:
’رُشدی کے معاملے اور ڈنمارک سے شائع ہونے والے متنازعہ خاکوں کے تناظر میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین عام طور پر مسلمان اپنے اجتماعی تشخص پر حملہ سمجھتے ہیں جیساکہ نعروں اور اہداف سے واضح ہے۔ جس چیز نے احتجاج کو بھڑکایا وہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو پہنچنے والا زخم گویا کہ ایک غرور سے بھری طاقت نے لگایا ہے جس نے کئی عشروں سے عرب اور مسلم دنیا پر حملہ کیا ہے، انھیں غلام بنایا ہے، اور ان کی تذلیل کی ہے‘۔
ایک اور دانش ور جیمز روزلنگٹن جو کیمبرج یونی ورسٹی میں تاریخ میں پی ایچ ڈی کا محقق ہے، الجزیرہ میں اپنے مضمون میں کہتا ہے:
’’بیش تر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی مسلم دشمن ویڈیو امریکا کے لذت پرست کلچر اور اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کا فطری نتیجہ ہے۔ مختصراً یہ کہ بہت سے مسلمانوں کے لیے یوٹیوب کی کلِپ ان کی زندگیوں اور کلچر پر امریکا کے بگاڑ پیدا کرنے والے اثرات کی علامت ہے‘‘۔
Counter Punch جو ایک مشہور آن لائن رسالہ ہے اس کے ۱۸؍ستمبر۲۰۱۲ء کے شمارے میں جیف سپیرو اپنے مضمون Islamophobia, Left and Rightمیں لکھتا ہے:
’’لیکن خود فلم کے بارے میں کیا کہا جائے؟ غیرپیشہ ورانہ فلم کاری کا اتنا پھٹیچر نمونہ ایسا شعلہ ٔجوالہ (فلیش پوائنٹ) کیوں بن گیا؟ یہ فلم ایک ایسے وقت میں تیار کی گئی ہے، جب کہ یورپ اور امریکا میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں نے ایک ایسا اسلام دشمن نظریہ اپنا لیا ہے جو تقریباً بالکل ٹھیک ٹھیک روایتی یہود مخالف کلیدی طریقوں کو دہراتا ہے‘‘۔
بات صرف اس فضا کی نہیں، اس فضا کو بنانے، اسے تقویت دینے، اسے اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ہے۔ ہدف اُمت مسلمہ کی شناخت اور اس کا سیاسی اور تہذیبی کردار ہے۔ مسئلہ دینی، اخلاقی اور تہذیبی ہے اور بلاشبہہ ایک خاص سیاسی اور geo-strategic تناظر نے اسے اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ بات اب صرف ان افراد تک محدود نہیں جو اس میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں، اصل مسئلہ ان قوتوں کا ہے جو ان کو پناہ دیے ہوئے ہیں اور جن کی پالیسیاں، جن کے تضادات اور دوعملیاں اور جن کے سیاسی اور عسکری مفادات ہی نے ان کو یہ کھیل کھیلنے کا موقع دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اظہار رائے کی آزادی اور امریکا اور یورپی ممالک کے جن دستوری حقوق کے نام پر اسلام اور پیغمبرؐاسلام اور مسلم اُمہ پر جو وَار کیے جارہے ہیں ان کی حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔
امریکی دستور اور آزادیِ رائے کے دعوے کی حقیقت
امریکی صدر، وزیرخارجہ، سفرا، دانش ور اور صحافی ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں وہ ہے امریکی دستور کی پہلی ترمیم۔ نیز اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اورانسانی حقوق کا یورپی کنونشن (European Convention on Human Rights) ہیں۔ دعویٰ ہے کہ ان دستاویزات کی روشنی میں مغربی تہذیب اور امریکا اور یورپ کے سیاسی اور قانونی نظام کی بنیاد فرد کی آزادی ہے اور یہ وہ بنیادی قدر ہے جس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں اور خواہ اس کی زد دنیا کے دوسرے مذاہب، اقوام اور انسانوں کے ایمان، عزت، تہذیب، اقدار اور ثقافتی اور دینی وجود اور شناخت پر کچھ بھی پڑے اور کتنے ہی انسانوں کی دل آزاری اور ان کی مقتدر شخصیات کی بے حُرمتی اور تضحیک ہو۔
ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے کہ آزادی بلاشبہہ ایک بنیادی انسانی قدر ہے اور ہم اس کی اہمیت اور قدردانی میں کسی سے پیچھے نہیں، لیکن آزادی تو ممکن ہی کسی ضابطۂ کار کے اندر ہوتی ہے ورنہ مادرپدر آزادی جلد انارکی بن جاتی ہے۔
جرمن مفکر ایمانویل کانٹ نے بڑے دل نشیں انداز میں اس عقدہ کو یہ کہہ کر حل کردیا تھا کہ ’’مجھے ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے لیکن میرے ہاتھ کی جولانیاں وہاں ختم ہوجاتی ہیں جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے‘‘۔ آزادی اسی وقت خیر کا ذریعہ ہوگی جب وہ دوسروں کی آزادی اور حقوق پر دست اندازی کا ذریعہ نہ بنے۔ اظہار رائے کی آزادی کے معنٰی نفرت، تضحیک اور تصادم کے پرچار کی آزادی نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کو باقی تمام اقدار سے الگ کرکے نہیں لیا جاسکتا۔ اس کا واضح ترین ثبوت یہ ہے کہ ہرشخص آزاد ہے لیکن اسے یہ آزادی حاصل نہیں کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی دوسرے شخص کا غلام بن جائے۔ حتیٰ کہ دنیا کے بیش تر قوانین میں آج بھی خودکشی ایک جرم ہے، اس لیے کہ آپ خود اپنی جان لینے کے لیے آزاد نہیں ہیں۔ نہ کوئی دوسرا بلاحق کے آپ کی جان لے سکتا ہے اور نہ آپ خود اپنی جان کو تلف کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
مغرب کے اربابِ اقتدار اور اہلِ دانش اور خود ہمارے ممالک میں ان کے نام نہاد لبرل پیروکار امریکی دستور کی پہلی ترمیم کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکی دستور کی بنیاد جیفرسن کا یہ مقولہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور قانون اور دستور کے تحت سب کا مساوی مقام ہے۔ امریکی دستور کی پہلی ترمیم اپنی جگہ اہم ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ:
’’کانگرس کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو کسی مخصوص مذہب کا احترام کرتا ہو، یا ان کے آزادانہ استعمال کو منع کرتا ہو، یا آزادیِ اظہار میں کمی کرتا ہو، یا رائے کی آزادی، پریس کی آزادی، عوام کے جمع ہونے کا حق اور شکایت پیدا ہونے پر حکومت کے پاس درخواست دینے کے حق سے روکتا ہو‘‘۔
اس میں ترمیم نمبر۴بھی ہے، جو کہتی ہے:
’’عوام کا اپنی ذات کی حد تک تحفظ کا حق، مکانات، کاغذات اور سامان کے تحفظ کے حق، اور غیرمعقول تلاشیوں اور ضبطیوں کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔کوئی وارنٹ جاری نہیں کیا جائے گا جسے کسی ممکنہ جواز کی تائید حاصل نہ ہو، اور جس جگہ کی تلاش مقصود ہو اور چیزیں قبضے میں لینا ہوں ان کو وضاحت سے بیان نہ کیا گیا ہو‘‘۔
اسی طرح ترمیم ۵ہے جس کے ذریعے جان، مال اور آزادی کے لیے due law processکے بغیر محرومی کوممنوع کیا گیا ہے۔ ترمیم نمبر۸ہے جس میں excessive(بہت زیادہ، ظالمانہ) زرضمانت، جرمانہ اور سزا کو منع کیا گیا ہے اور یہ اصول ترمیم نمبر۹میں تسلیم کرلیا گیا ہے کہ :
’’دستور میں کسی خاص حق کے اندراج کے یہ معنی نہیں لیے جانے چاہیے کہ عوام کو حاصل دوسرے حقوق سے انھیں محروم کیا جائے یا ان کی تحقیر کی جائے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ پہلی ترمیم جہاں اظہارِ راے کی آزادی دیتی ہے یا ریاست کی طرف سے مذہب کو مسلط کرنے کا دروازہ بند کرتی ہے وہیں مذہب کی آزادی بھی دیتی ہے۔ نیز اگر دستور میں دیے ہوئے باقی تمام حقوق کو قانون اور اخلاق کا پابند کیا گیا ہے تو اظہارِ راے کی آزادی کو اس سے آزاد اور مبرا کیسے کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی سپریم کورٹ نے ۱۹۴۲ئ؁ کے اپنے ایک اہم فیصلے میں اس امر کو واضح کردیا ہے مگر امریکی حکمران اور دانش ور اس کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے:
تقریروں کی کچھ ایسی متعین اور محدود قسمیں ہیں جن کو روکنے یا سزا دینے پر کوئی دستوری مسئلہ کبھی نہیں اْٹھایا گیا۔ اس میں فحش اور ناشائستہ، ملحدانہ، جھوٹے الزام لگانے والے یا ایسے توہین آمیز اور اشتعال انگیز الفاظ جو اپنی ادائیگی سے ہی امن کا فوری بگاڑ پیدا کریں شامل ہیں۔ اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس طرح کے الفاظ کسی بھی نقطۂ نظر کی وضاحت کا لازمی حصہ نہیں ہوتے اور سچائی تک پہنچنے کے لیے اتنی کم سماجی قدروقیمت رکھتے ہیں کہ نظم اور اخلاقیات میں کوئی بھی سماجی مفاد جو ان سے پہنچ سکتا ہو، واضح طور پر بے وزن ہوجاتا ہے۔
آزادیِ رائے اور مغرب کا دہرا معیار
الجزیرہ میں ۱۸؍ستمبر ۲۰۱۲ئ؁ کو ایرک بلیخ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی عوام اور اہم ادارے ایسی قانون سازی کے حق میں ہیں جس کے نتیجے کے طور پر نفرت پھیلانے والے خیالات کے اظہار کا دروازہ بند کیا جاسکے، جیساکہ کتاب قانون کی حد تک یورپ کے کئی ممالک بشمول ڈنمارک میں ایسے قوانین موجود ہیں۔ گو وہ بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے طوفان کو نہیں روک سکے۔
پروفیسر ایرک بلیخ جو مڈل برے کالج میں علمِ سیاسیات کا پروفیسر ہے، کہتا ہے کہ امریکی راے عامہ کے تمام سروے جو ۱۹۹۷ئ؁ سے ۲۰۰۸ئ؁ تک ہوئے ہیں ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی عوام کی اکثریت اس کے حق میں ہے کہ ایسی آرا کے پبلک اظہار پر پابندی ہونی چاہیے جو نفرت پھیلانے اور خصوصیت سے دوسری نسل کے لوگوں کے خلاف زہر اُگلنے والے ہوں۔
امریکا اور یورپی اقوام کے دوغلے پن کا سب سے بڑا ثبوت صہیونیت، اسرائیلی اور خصوصیت سے جرمنی میں ہٹلر کے دور میں یہودیوں پر توڑے جانے والے مظالم جن کو ہولوکاسٹ کہا جاتا ہے ، کے بارے میں قانون سازی اور عملاً anti-Semitism (یہود مخالف)کے نام پر اسرائیل، یہودیت، صہیونیت کے بارے میں کسی بھی مخالف رائے کے اظہار یا ہولوکاسٹ کے انکار، حتیٰ کہ ان کے بارے میں صہیونیوں کے پروپیگنڈے کے بارے میں کسی بھی شک و شبہے تک کا اظہار قانوناً جرم بنا دیا گیا ہے۔ دسیوں افراد کو ان قوانین کے تحت سزائیں دی گئی ہیں، اس سے اظہارِرائے کی آزادی کے مقدس اصول پر کوئی حرف نہیں آیا۔
رابرٹ فسک نے لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ کے ۱۳؍ستمبر ۲۰۱۲ئ؁ کے شمارے میں نیوزی لینڈ کے ایک ایڈیٹر سے اپنی گفتگو نقل کی ہے، جس نے بڑے فخر سے دعویٰ کیا کہ اس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنانے والے ڈینش کارٹون اپنے اخبار میں شائع کیے :
’’جب میں نے اس سے یہ پوچھا کہ جب اسرائیل لبنان پر دوبارہ حملہ کرے گا تو کیا تم ایک ایسا کارٹون شائع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہو جس میں ایک ربی (rabbi) کے سر میں بم لگا ہو، تو اس نے مجھ سے فوراً اتفاق کیا کہ یہ یہود مخالف ہوگا‘‘۔
امریکی دستور کی پہلی ترمیم کی دہائی دینے والوں اور آزادیِ اظہارِ رائے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہی وہ تضاد ہے جس نے ان کی اصول پرستی، آزادی نوازی اور جمہوریت پسندی کا پول کھول دیا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے خبث باطن کو واشگاف کردیا ہے۔
یورپ کے۳۴ممالک میں anti-Semitism اور ہولوکاسٹ کے خلاف قوانین موجود ہیں جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہارِ رائے جرم ہے جس پر قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ امریکا میں بھی ایک دوسرے انداز میں یہ قانون تک موجود ہے جسے: Global Anti-Semitism Review Act of 2004کہا جاتا ہے اور عملاً جس کے نتیجے میں یہودی مذہب تک کو تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ اگر صہیونی لابی کے زیراثریہ قانون سازی ہوسکتی ہے تو ۶ء ۱ارب مسلمانوں اور ان کی۵۷آزاد مملکتوں کے جائز دینی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی کیوں نہیں کی جاسکتی؟
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے The Universal Declaration of Human Rightsکی دفعہ ۲۹میں قانون کے تحت معقول پابندیوں کا ان الفاظ میں واضح ذکر موجود ہے:
’’اپنے حقوق اور آزادیوں کے استعمال میں ہرشخص ایسی حدود کا پابند ہوگا جن کا تعین قانون محض اس مقصد سے کرے گا کہ دوسروں کے حقوق اور آزادی کا تحفظ اور احترام ہو، اور اخلاقیات اور امن و امان اورجمہوری معاشرے میں عوامی بہبود کے منصفانہ تقاضوں کو پورا کیا جاسکے‘‘۔
اسی طرح European Convention on Human Rights کی دفعہ ۱۰میں اظہارِ رائے کی آزادی اور اس کی حدود دونوں کا واضح الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے:
۱۔ ہرشخص کو آزادیِ اظہارکا حق حاصل ہے۔ اس میں رائے قائم کرنے کی آزادی، سرکاری مقتدرہ کی مداخلت یا سرحدات سے بے نیاز ہوکر معلومات اور خیالات کو وصول کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے۔ یہ دفعہ حکومت کو اس بات سے نہیں روکے گی کہ براڈ کاسٹنگ، نشرواشاعت، ٹیلی ویژن اور سینما کے لیے لائسنس جاری کرے۔
۲۔ ان آزادیوں کے استعمال میں، چونکہ ان کے ساتھ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں، ایسی شرائط، پابندیوں یا جرمانوں کی پابندی ہوگی جو قانون نے طے کیے ہوں اور کسی جمہوری معاشرے میں ضروری ہوں۔ ملک کی سلامتی، علاقائی یک جہتی، عوامی تحفظ، امن و امان کے تحفظ، جرائم کی روک تھام اور صحت عامہ اور اخلاق کے تحفظ، دوسروں کی شہرت اور حقوق کا تحفظ، اور ایسی معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے جو اعتماد اور نیک نیتی سے دی گئی ہوں، اور عدلیہ کی بالادستی اور عدالت کی غیر جانب داری کو برقرار رکھ سکیں۔ (آرٹیکل ۱۰)
آزادیِ رائے: حددو کے تعین کی ضرورت
امریکا سے آنے والی فلم اور اس پر عالمِ اسلام کے ردعمل کی روشنی میں اس وقت پوری مغربی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی ایک تعداد میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ آزادیِ اظہاررائے کی حدود کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ آزادی اور اس کا ذمہ دارانہ استعمال ایک ہی سکّے کے دو رْخ ہیں، جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کی قیادت ان حالات میں کیا کردار ادا کرتی ہے اور جو قربانیاں مسلمان عوام دے رہے ہیں، کیا ان کو کسی مثبت پیش رفت کا ذریعہ بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟
انڈی پنڈنٹ اخبار نے اپنے حالیہ ادارتی کالم میں اس ضرورت کا اعتراف کیا ہے۔ فرانسیسی اخبار Charlie Heboمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے کے بارے میں انڈی پنڈنٹ کہتا ہے:
’’ایک آزاد پریس کا دفاع کرنے کی اس کی خواہش قابلِ تعریف ہوسکتی ہے لیکن اس نتیجے سے بچنا ناممکن ہے کہ اس کا رویہ (یعنی ایسے خاکوں کی اشاعت)غیرذمہ دارانہ ہے۔ اس اقدام سے لازماً دوسرے مشتعل ہوں گے۔ اس سے بھی زیادہ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ یہ لازماً تشدد کو اُبھارے گا اور اموات واقع ہوں گی۔ سنسرشپ کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن دوسروں کے گہرے عقائد کا لحاظ نہ کرنا بھی قابلِ مذمت ہے۔ اخبار کے ایڈیٹر کو اپنا رسالہ فروخت کرنے سے پہلے ان خاکوں کو ہٹا لینا چاہیے اس سے قبل کہ دیر ہوجائے‘‘۔
لندن کے اخبار دی آبزوَر۲۳ستمبر۲۰۱۲ئ؁ کے شمارے میں Henry Porterاپنے مضمون میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ: ’’ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ہم آزادیِ رائے کو ذمہ داری سے استعمال کریں۔ یورپ اور امریکا میں مذہبی اور نسلی جذبات اُبھارنے کے خلاف قوانین موجود ہیں جن کو فلم اور کارٹونوں نے توڑا ہوگا‘‘۔
نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا مضمون Giants Free Speech Issue Bedevils Web (آزادیِ رائے کے مسئلے نے ویب کے بڑوں کو چکرا دیا ہے)میں یہ چبھتے ہوئے سوالات اْٹھائے گئے ہیں کہ اگر گوگل کے خیال میں اس بے ہودہ فلم کو یوٹیوب پر ڈالنا اظہارِ رائے کی آزادی کا حصہ ہے تو پھر اسی گوگل نے لیبیا اور مصر کے لیے اس کی اشاعت کیوں روک دی ہے۔ اسی طرح انڈیا اور انڈونیشیا کے لیے بھی اسے روکا گیا ہے۔ اگر ان ممالک کے لیے روکا جاسکتا ہے تو باقی دنیا کے لیے کیا چیز مانع ہے؟ کیا اسی کا نام اصول پرستی ہے؟
بات صرف اس حد تک دوغلے پن اور دھاندلی کی نہیں۔ Counter Punch کے ایک مضمون نگار نے ۱۴؍ستمبر۲۰۱۲ئ؁ کی اشاعت میں گوگل کے بارے میں ناقابلِ انکار شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ Jewish Pressکی یکم اگست۲۰۱۲ء ؁کی اشاعت کے مطابق گوگل نے ایک نہیں ۱۷۱۰؍ویڈیو جن میں خاصی بڑی تعداد کا تعلق ہولوکاسٹ سے تھا ۲۴گھنٹے کے اندر اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیے۔ اسی طرح جولائی ۲۰۱۱ئ؁ میں فیس بک نے اسرائیل کے کہنے پر فلسطینی اداروں کے درجنوں اکاؤنٹ بند کردیے حالانکہ ان کے مندرجات کسی قانون سے متصادم نہ تھے۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ فرانس کی حکومت نے مشہور مصنف اور نام وَر فلسفی روجر گارودی کو اسرائیل کے بارے میں ایک کتاب لکھنے پر قید کی سزا دی تھی اور آسٹریا میں۱۹۸۹ئ؁ میں انگریز مؤرخ ڈیوڈ ارونگ کو ہولوکاسٹ کے بارے میں اپنی تحقیق شائع کرنے پر تین سال جیل کی سزا بھگتنا پڑی تھی۔
اس وقت جو احتجاج پوری دنیا میں ہوا ہے اس سے مغربی اخبارات میں پہلی بار یہ آواز اُٹھنا شروع ہوئی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، اور آزادیِ اظہار رائے کے نام پر کیا جارہا ہے، اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ ہے وہ وقت کہ جب مسلم اُمہ کی سیاسی قیادت اپنی ذہنی غلامی اور سیاسی محکومی کے شکنجے سے نکلے اور اْمت کے اور اپنے دین کے حقوق کی پاس داری کے لیے مؤثر اور متحدہ اقدام کرے۔
۲۳؍ستمبر ۲۰۱۲ء ؁کے دی آبزوَر نے ’مسلم غصہ اور برہمی‘ کے عنوان سے اپنے اداریے کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے کہ خود مغرب کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ تصادم کے بجاے تعاون کا کوئی راستہ نکل سکے:
’’اس لیے کہ اسلامی دنیا کو بالغ نظری سے ہرسطح پر سمجھنے کا متبادل یہ ہے کہ مغرب عالمی آبادی کے ایک بڑے حصے کو صرف دشمن کی نظر سے دیکھے۔ بجائے اس کے ان اختلافات اور سطحات اور دائروں کا احساس کرے جہاں گفتگو اور رضامندی ممکن ہے۔ یہی وہ کانٹے کی بات ہے جو لامحالہ تنازع اور تصادم کی بنیاد ہے‘‘۔
مسئلہ کسی خوش فہمی کا نہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت اپنے مفادات کا صحیح اِدراک کرے اور اپنے مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اختیار کرے تو نئے راستے استوار ہوسکتے ہیں۔
اُمت مسلمہ کے لیے حکمت عملی
ہم ایک بار پھر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امریکا اور مغربی اقوام اور مقتدر حلقوں کا رویہ معاندانہ ہے اور ان کے کھیل کو سمجھ کر اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے حکمت عملی بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وار کیے جارہے ہیں ان پر مؤثر اور بروقت احتجاج اور اپنی اصولی پوزیشن کو جرأت کے ساتھ پیش کرنا اولین ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں قرآن نہ فرار اور مداہنت کو گوارا کرتا ہے اور نہ عدل اور توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے اور انتقام میں حدود کو پامال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، ان کی اطاعت اور ان سے وفاداری اسلام کی اساس اور مسلمان کی شناخت ہے اور ناموسِ رسولؐ کی حفاظت ہر مسلمان کا تقاضائے ایمان ہے۔ یہ رشتہ ایمان کا، اطاعت کا اور محبت کا رشتہ ہے۔ آپؐ رحمت للعالمین تھے اور ہرمسلمان کے لیے فرداً فرداً اور پوری اُمت کے لیے نمونہ ہیں (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌo الاحزاب ۲۱:۳۳)۔ اتباعِ رسولؐ ہی اللہ سے محبت کا تقاضا ہے (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّّٰہُ غَفُوْرُ رَّحِیْمٌo آل عمران: ۳۱:۳)، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لیے ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ محترم اور مقدم ہیں (اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْo الاحزاب ۶:۳۳)۔قرآن پاک میں صاف ارشاد ہے کہ ’’ہم نے اللہ کے رسولؐ کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ اور اس کا (یعنی رسولؐ کا) ساتھ دو۔ اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو (اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِداً وَّمُبَشِّراً وَّ نَذِیْراً o لِتُوْمِنْوُا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ط وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلاًo الفتح:۸:۴۸-۹)یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رْسواکن عذاب مہیا کردیا گیا ہے (اِنَّ الَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ o لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَاباً مُّہِیْناً o (الاحزاب ۵۷:۳۳)
ان آیات کی روشنی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو تعلق امت مسلمہ کا قائم ہوا ہے اس کا تقاضا ہے کہ آپؐ کی اہانت کو کسی صورت میں بھی برداشت نہ کیا جائے اور ہر وہ اقدام کیا جائے جس سے آپ ؐکی عزت قائم و دائم ہو۔ ان حالات میں جب اسلام اور مسلمانوں سے زیادتی کی جارہی ہو تو مسلمانوں کا رویہ انصاف اور حق پر مبنی مزاحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ ہدایت ربانی ہے کہ:
’’اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ برائی کا بدلہ ویسی ہی بُرائی ہے، پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جاسکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(الشورٰی ۳۹:۴۲-۴۲)
ہمیں یہ اصولی ہدایت بھی دی گئی ہے کہ: ذٰلِکَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ o ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْہِ لَیَنْصُرَنَّہُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ o (الحج: ۶۰:۲۲) ’’یہ تو ہے ان کا انجام۔ اور جو کوئی بدلہ لے، ویسا ہی جیسا اس کے ساتھ کیا گیا اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے‘‘۔ اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی بہت واضح الفاظ میں دے دی ہے کہ اصل اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ برائی کو برائی سے بدلنے کے بجائے اسے نیکی، خیر اور حسن سے بدلنے کی سعی کی جائے، تاکہ اللہ کی زمین برائی سے پاک ہو اور خیر اور حسنات سے معمور ہوسکے۔ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o (المومنون ۶۹:۲۳)’’اے نبیؐ، برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہے‘‘۔ نیز ارشاد ربانی ہے کہ: وَلاَ تَسَتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَالسَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ۳۴:۴۱) ’’اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔
مختصراً یہ ہے وہ ہدایتِ ربانی جس کی روشنی میں آج مسلم اُمت کو آج کے حالات میں اپنی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ہمیں ہر مداہنت سے اپنے دامن کو بچانا ہے اور پوری دیانت سے دین اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور آپؐ کی عزت و شخصیت کا دفاع کرنا ہے تو دوسری طرف اپنے مخالفین کے مقابلے کے لیے وہ طریقے اختیار کرنا ہیں جن سے بالآخر خیر رُونما ہو اور دنیا ان مقاصد کی طرف بڑھ سکے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلوب ہیں۔
بات بہت واضح ہے۔ جو کچھ آج ہورہا ہے وہ نہ صرف غلط اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی کھلی جارحیت ہے بلکہ اس کے پیچھے جو مقاصد ہیں اور جو جو قوتیں پشت پناہی کررہی ہیں ان کا اِدراک اور توڑ دونوں ضروری ہیں۔ امریکی حکومت کا یہ دعویٰ کہ اس کا کوئی ہاتھ اس کے پیچھے نہیں ہے، ناقابلِ یقین ہے۔ امریکی ریاست اور سول سوسائٹی بشمول میڈیا ڈھکے اور چھپے کردار اداکررہے ہیں۔ آزادیِ اظہار کے نام پر ان قوتوں کو تحفظ دینا اس کی کھلی مثال ہے۔معاملہ محض چندسرپھرے انتہاپسندوں اور مذہبی جنونیوں کا نہیں، اس پردہ زنگاری کے پیچھے بہت سے کردار ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ بلاشبہہ ہرواقعہ افسوس ناک، دل خراش اور مناسب ردعمل کا متقاضی ہے اور اس سلسلے میں اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کا فرض ہے کہ بروقت اس کا نوٹس لے اور مناسب اور مؤثر ردعمل کا اظہار کرے لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا اصل مسئلہ ان واقعات کے پیچھے جو ذہن(mind-set) ، جو پالیسیاں، جو خطرناک عزائم اور دیرپا اور اسٹرے ٹیجک منصوبے اصل کارفرما قوت ہیں ان کا مقابلہ اس سے بھی کچھ زیادہ ضروری ہے۔
حکمت عملی کے تین اہم پہلو:
اس سلسلے میں جو حکمت عملی بنائی جائے اس کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جن میں سے ہرایک اہم ہے اور ہر ایک کے لیے ضروری اقدام اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کی ذمہ داری ہے:
٭ اوّل: اسلام کی دعوت کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنے کا اہتمام اور کم از کم مسلم ممالک میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام جو اس پیغام کا صحیح نمونہ اور علَم بردار ہو۔ اسلام کے خلاف جو طوفان برپا کیا ہوا ہے اس کا جواب بھی اسلام کی صحیح دعوت کو پہنچانے میں ہے۔ ہرمخالفت دعوت کے لیے ایک تاریخی موقع بھی فراہم کرتی ہے تاکہ جو بات جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے اس کا پردہ چاک کیا جاسکے اور حقیقت اپنے اصل رنگ میں سب کے سامنے آجائے۔
٭ دوم: سیاسی، سفارتی اور قانونی سطح پر ایسے انتظامات کا اہتمام کرنا، جس سے اللہ اور اس کے رسولوں کی توہین کا یہ سلسلہ ختم ہوسکے اور آزادیِ اظہار کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ اور ان آداب کے فریم ورک میں ہوسکے جو مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کا ذریعہ بنیں اور نفرتوں کے طوفانوں سے انسانیت کو محفوظ کیا جاسکے۔ اس کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں بشرطیکہ صحیح خطوط پر مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش کی جائے۔
٭ سوم: مسلم ممالک میں تعلیم اور اخلاقی اقدار کے فروغ اور انصاف اور حقوق و فرائض کے احترام اور معاشی اور سماجی فلاح پر مبنی معاشرے اور ریاست کا قیام۔ مغربی اقوام سے مشترک مقاصد اور مفادات کی بنیاد پر باعزت دوستی اور اچھے معاشی تعلقات سب کے لیے مفید اور تقویت کا باعث ہوسکتے ہیں، لیکن موجودہ محکومی کا جو نقشہ آج نظرآتا ہے وہ دُنیوی اور دینی ہردواعتبار سے بڑے خسارے کا سودا ہے۔ انسانی اور مادی وسائل کے باب میں اُمت مسلمہ کسی سے پیچھے نہیں لیکن آج ہمارے وسائل دوسروں کی خدمت کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور مسلمان عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور حکمران ذاتی عیش و عشرت اور مغربی اقوام کی خوشنودی کے حصول میں مصروف ہیں، بلکہ اپنی بقا اور اپنے اقتدار کے لیے ان کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور اُمت کے مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ جب تک گھر کی اصلاح نہ ہو اور اُمت کے وسائل اُمت کی فلاح، استحکام اور تقویت کے لیے استعمال نہ ہونے لگیں، حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ صحیح قیادت ہی حالات کو نیا رُخ دے سکتی ہے۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اسلام، اللہ کے رسولﷺ اور اُمت مسلمہ کے خلاف عالمی سطح پر کیا کچھ ہورہا ہے اور مسلمان حکمران اپنے خول میں بند اور اپنے مفادات کے حصول میں مگن ہیں۔ صرف ایک سربراہ مملکت نے امریکا کے صدر سے صاف الفاظ میں کہا کہ امریکی سفارت کاروں کی ہلاکت پر افسوس ہے لیکن اصل مسئلہ اسلام کے خلاف وہ جارحانہ اقدام ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو احتجاج پر مجبور کیا ہے۔ ہمارے اپنے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ اصل واقعہ کے سات دن کے بعد جب ملک بھر میں احتجاج کی گونج برپا ہوگئی تو انھیں ہوش آیا اور پھر بھی ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے والوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کے بجاے عشق رسولؐ کے نام پر تعطیل میں عافیت تلاش کی۔ احتجاجی تحریک میں اس قیادت کا کوئی وجود نظر نہ آیا اور امن و امان کے قیام اور احتجاج کو صحیح انداز میں مؤثر بنانے میں ان کا کوئی کردار نہ تھا۔ عالمی سطح پر بھی اُمت کے نقطۂ نظر کو پیش کرنے اور مسلم ممالک کو منظم کرنے اور متحرک کرنے کی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ یہ بڑی اندوہناک صورتِ حال ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام اور قیادت کی سوچ اور ترجیحات میں بُعدالمشرقین ہے۔ اغیار کی جارحانہ کارروائیوں پر احتجاج اُمت کا حق بھی ہے اور فرض بھی— لیکن اصل مسئلہ صرف احتجاج کا نہیں، اپنے گھر کو درست کرنے، صحیح قیادت کو بروئے کار لانے اور اپنی قوت کو اس طرح مجتمع کرنے اور ترقی دینے کا ہے کہ اُمت اپنا تاریخی کردار ادا کرسکے۔
اصل چیلنج یہ ہے کہ کیا ہم اغیار کی اس کثیرجہتی جارحیت کا مؤثر جواب دینے کو تیار ہیں؟

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *