بلاد مشرق میں قانون توہین رسالت

جزیرۃ العرب میں قرن نبوت اور دور خلافت کے بعد بھی تنقیص رسالت کی سزا ،سزائے موت بر قرار رہی ہے ۔جس کی تصدیق صاحب ’’المصنف ‘‘کے اس بیان کردہ واقعہ سے ہوتی ہے ،جس میں ایوب بن یحییٰ نے عدن میں ایک نصرانی کو بطور حد یہی سزا دی ۔جس کی توثیق اس وقت کے حکمران عبد الملک نے کر دی تھی ۔
اسی طرح بلاد شام میں بھی یہی قانون نافذ رہا ہے ،جس کے تحت ایک نصرانی کو امام ابن تیمیہ ؒ اور شیخ الحدیث علامہ زین العابدین کے استغاثہ پر ماخوذ کیا گیا تھا۔مصر میں بھی اسی قانون کے مطابق فیصلے ہوتے رہے ہیں ،کیونکہ وہاں تمام مکاتب فقہ جن کی اپنی اپنی علیحدہ عدالتیں قائم تھیں اسی سزا پر متفق تھے۔
اسپین میں جب تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی ہے وہاں کی تمام عدالتوں میں اسی قانون حد پر عمل در آمد ہوتا رہا ہے جس کا ذکر قرطبہ کے چیف جسٹس ابو الفضل قاضی عیاض نے اپنی کتاب ’’الشفا‘‘میں کیا ہے ۔ اسی کتاب میں ابن حاتم کے مقدمہ کا بھی ذکر ہے ،جس کو گستاخی مآب ﷺ کے جرم پر علمائے اندلس کے متفقہ فیصلے کی بناء پر واجب القتل قرار دیا گیا تھا۔
ترکیہ اور سمر قند اور بخارا میں اسی قانون اسلامی کا ذکر ہمیں علامہ آلوسی اور علامہ ابو اللیث سمر قندی کے ذریعہ پہنچا ہے ۔افغانستان میں اسی قانون کے تحت قادیانی مرتد کو سنگ سار کیا گیا تھا،جس کا تفصیلی ذکر شہیدان ناموس رسالت میں کیا گیا ہے ۔
ایران میں آج بھی یہی قانون سزائے موت ،برطانیہ اور دوسرے یوروپی ملکوں سے سفارتی تعلقات کی پروا کیے بغیر نافذ ہے اور اسی کے تحت گستاخ رسول ﷺ سلمان رشدی کو واجب القتل قرار دیا گیا ۔اسی لیے وہ بد بخت یورپ اور امریکہ کے حفاظتی خول کے اندر زندہ در گور ہے۔
ہندوستان میں جب تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی ہے اسی قانون حد کے تحت مجرموں کو سزا دی جاتی رہی ہے ۔ان میں سے مغل دور حکومت کے ایک اہم مقدمہ کا ہم یہاں ذکر کریں گے ایک مقدمہ تو اکبر کے دور سے متعلق ہے جب کہ جاہل ’ان پڑھ ‘ بادشاہ کو اس کے خوشامدی اور چاپلوس درباریوں نے جن میں فیضی اور ابو الفضل پیش پیش تھے اسلام سے بیگانہ کر دیا تھااور اکبر مکمل طور پر ہندو مہارانیوں کے زیر اثر تھا۔تمام کاروبار حکومت دین الٰہی کے نام سے سیکولر خطوط پر چل رہے تھے۔اس تاریخی مقدمہ کا ذکر تفصیلی طور پر اکبر ہی کے نو رتن ملا عبدالقادر بدایونی نے اپنی منتخب التواریخ میں کیا ہے جو درج ذیل ہے :
’’عبد الرحیم قاضی متھرا نے شیخ (شیخ عبدالغنی قاضی القضاۃ )کے پاس ایک استغاثہ بھیجا جس میں بیان کیا گیا کہ کہ وہاں مسلمان ایک مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیے ہوئے تھے لیکن ایک سرکش مالدار برہمن نے سارا عمارتی سازو سامان اٹھوالیا اور اس سے صنم کدہ کی تعمیر شروع کرا دی ۔ میں نے جب اس کے خلاف تادیبی کاروائی کا ارادہ کیا تو اس نے گواہوں کی موجودگی میں حضور اکرم ﷺ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کی اس نے سخت توہین کی ۔شیخ موصوف نے اس کو طلب کیا لیکن اس نے پیش ہونے سے انکار کر دیا ،جس پر بادشاہ نے بربل اور شیخ ابو الفضل کو بھجوایا اور وہ اس کو لے آئے ۔شیخ ابو الفضل نے جو کچھ گواہوں سے سنا تھا بیان کیا اور کہا کہ اس بات کی تحقیق ہو گئی ہے کہ اس نے گالیاں دی تھیں ۔ اس کی سزا کے معاملہ میں علماء کے دو گروہ ہو گئے ۔ایک نے اسے واجب القتل قرار دے کر سزائے موت کا مطالبہ کیا اور دوسرا اس کے خلاف تعزیر اور جرمانہ پر زور دے رہا تھا۔اس معاملہ میں بحث طول پکڑ گئی شیخ نے بادشاہ سے اس کے قتل پر اصرار کیا ۔بادشاہ نے صراحتاً اس کی اجازت نہ دی اور گول مول کہہ دیا کہ شرعی سزا کا تعلق تم سے ہے ،ہم سے کیا پوچھتے ہو ؟وہ برہمن اس جھگڑے میں مدتوں قید میں پڑا رہا ۔شاہی محل کی بیگمات اس کی رہائی کے لیے سفارشیں کرتی رہیں لیکن بادشاہ شیخ کا بہت لحاظ کرتا تھا اس لیے اس نے رہائی کا حکم بھی نہیں دیا ۔شیخ نے جب اس کے قتل کے لیے بہت زیادہ اصرار کیا تو بادشاہ نے وہی جواب دیا ہم تو تم سے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ تم جو مناسب جانو کرو(کیونکہ اس معاملہ کا تعلق شرع سے ہے) جس کے بعد شیخ نے فوراًہی اس برہمن کے قتل کا حکم دے دیا چنانچہ اس کی تعمیل میں اس کی گردن مار دی گئی ۔
ملا عبد القادر بدایونی جو اس مقدمہ کی ساری روداد سے واقف تھے اس سلسلہ میں آگے بیان کرتے ہیں: ’’اچانک دور سے بادشاہ کی نظر مجھ پر پڑی تو میری طرف متوجہ ہوا اور نام لے کر آگے بلایا اور کہا :’’آگے آؤ‘‘میں جب سامنے پہنچا تو پوچھا:’’کیا تم نے بھی یہ مسئلہ سنا ہے کہ اگر ایک شخص کے قتل پر ننانوے روایتیں ہوں اور رہائی کے لیے صرف ایک روایت ملتی ہو تو مفتی کو چاہیے کہ وہ اس ایک روایت کو ترجیح دے‘‘میں نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے جیسا کہ حضور فرماتے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ ’’ان الحدود و العقوبات تدور بالشبہات‘‘ میں نے اس کا مطلب فارسی میں سمجھایا کہ شبہات سے سزاؤں میںکمی ہو جاتی ہے ۔نہایت افسوس کے ساتھ پوچھا ’’کیا شیخ اس مسئلے سے واقف نہ تھا‘‘۔
ہندو رانیوں اور خوشامدی درباریوں کے اکسانے کے باوجود اکبر کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ شیخ سے اس بارے میں باز پرس کر سکے کیونکہ وہ جانتاتھا کہ علماء کی اکثریت شیخ موصوف کی تائید میں ہے ۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *