تمہارا یہ ’آزادی ٔاظہار‘!

واقعتاً کئی ایک ذہنوں میں یہ بات آتی ہے کہ مغرب میں آزادی اظہار کی جب ایک ریت پائی جاتی ہے اور ان کا اپنا ایک طرز زندگی ہے توآخر کیسے ان کو ہم ’اپنے ‘ طرز حیات کا پابند کر دیں اور ان سے کہیں کہ تمہیں اپنے لوگوں کو وہ بات کہنے یا لکھنے سے روک کر رکھنا ہوگا جسے ہمارے یہاں ’’توہین رسالت ‘‘باور کیا جاتا ہے اور جو کہ ہم مسلمانوں کے لیے ایک ناقابل برداشت فعل ہے ؟آخر وہ تو مسلمان نہیں کہ ہم انہیں ناموس رسالت کا پابند کریں ،خصوصاً جبکہ ’آزادی اظہار‘ان کی تہذیب اور ان کے طرز حیات کے اندر ایک نہایت مرکزی حیثیت کا حامل اصول ہے ۔اپنے اس اصول سے وہ ہمارے کسی عقیدے کے لحاظ میں بھلا کیسے دستبردار ہو جائیں !
یہی نہیں ،کئی ایک کے یہاں تو یہ تاثر بیٹھا ہوا ہے کہ صاحب !مغرب میں تو آدمی چاہے جس چیز پر بھی بات کرے ،جس انداز سے کرے ،جب تک معاملہ ’زبان‘یا ’قلم‘تک محدود ہے اور نوبت کسی زیادتی physical assaultتک نہیں پہنچ رہی تو اس پر بھلا وہاں کیا قدغن ہو سکتی ہے ؟کوئی کتنی بھی غلط سے غلط بات کرے ،اس کا اپنا منہ ہے جو مرضی بولے ،مغرب کا یہی تو فرق ہے کہ وہاں لوگوں کی زبانیں پکڑنے کی کوشش نہیں کی جاتی!
ہولوکاسٹ کے گستاخ ،کی توبہ بھی قبول نہیں !
تو پھر آیئے دیکھتے ہیں کہ مغرب میں کسی کی زبان پکڑنے کا دستور واقعی پایا جاتا ہے یا نہیں ..اور آیا مغرب ،میں کسی قوم کے ہاں ’نازک‘مانے جانے والے الفاظ وتعبیرات پر قدغن ہے یا صرف ہمارے ہی مقدسات پر بھونکنے کی آزادی ہے ……آیئے اس کے لیے ایک عدالتی واقعہ ملاحظہ کرتے ہیں :
واقعہ کسی بھی پرانے زمانے کا نہیں،اور پرانے زمانے کا ہو بھی نہیں سکتا ورنہ تو شایدشیکسپیر اور چارلس ڈکنز کو بھی ،سام دشمنی ‘ Anti-Semitismپر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر لیا جاتا !اِسی زمانے کا ہے اور صرف تین سال پرانا ہے ۔یوں تو مغرب کی تاریخ پر نظررکھنے والا ہر شخص کہے گا کہ واقعہ ہمارے اسی دور کا ہو سکتا ہے ۔واقعہ کسی ’تنگ نظر‘ایشیائی یا افریقی معاشرے کا بھی نہیں کہ جس کی آسانی سے ’مذمت ‘ہو جائے ،بلکہ قلب یورپ کا ہے :
تین سال بیشتر(اب چھ سال۔ادارہ) جب واقعہ پیش آیا تو تمام ذرائع ابلاغ میں نشر ہوا۔پیر ،۲۰فروری ۲۰۰۶ ؁ء کی رپورٹ بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ پر آج (۱۲فروری ۲۰۰۹؁ء )کی تاریخ تک موجود ہے اور اگر آپ ذیل میں دیے گئے سرنامے پر کلک کریں تو شاید آج بھی آپ کو ویسے کی ویسے ملے ۔رپورٹ کے چند پیرے ہم آپ کے ملاحظہ کے لیے انگریزی نص بمع ترجمہ پیش کرتے ہیں :
Holocaust denier lrving is jailed
ہولو کوسٹ کے انکار کے مرتکب ارونگ کو سزائے قید
ُُپھرذیلی عنوان ہے:
British historian David Irving has been found guilty in Vienna of denying the Holocaust of European Jews and sentenced to three years in prison.
یورپی یہودیوں (پر گزرنے والی)ہولوکاسٹ کے انکار کا مرتکب پائے جانے والے برطانوی تاریخ داں ڈیوڈ ارونگ کو ویانا میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اور اب خبر کے کچھ پیرے:
He had pleaded guilty to the charge, based on a speech and interview he gave in Austria in 1989.
اس نے اپنے اوپر عائد الزام کی بابت اعتراف جرم کیا ،جس کی بنیاد اس کی ایک تقریر اور ایک انٹرویو بنا جو اس نے ۱۹۸۹؁ء میں آسٹریا میں دیا تھا۔
“I made a mistake when I said there were no gas chambers at Auschwitz,” he told the court in the Austrian capital.
آسٹریا کے دار الحکومت میں اس نے عدالت کو بیان دیتے ہوئے کہا ’’مجھ سے غلطی ہوئی جب میں نے یہ کہا کہ آسچوٹس میں (عقوبت کے ) کوئی گیس چیمبر ز نہیں تھے‘‘
Irving appeared stunned by the sentence, and told reporters:
“I’m very shocked and I’m going to appeal”
ارونگ سزا کا سن کر ہکا بکا نظر آیا ۔رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے اس نے کہا:’’مجھے شدید حیرانی ہوئی ہے اور میں اپیل دائر کروں گا‘‘۔
An unidentified onlooker told him: “Stay strong!”. Irving’s lawyer said he considered the verdict “a little too stringent”. “I would say it’s a bit of a message trial”,said Elmar Kresbach,
ایک تماشائی نے ،جس کی شناخت نہ ہو سکی ،اس موقعہ پر اس کی ہمت بندھاتے ہوئے اسے مخاطب کیا:’’حوصلہ رکھو‘‘۔
اردنگ کے وکیل ایلمر کریس بیچھ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں فیصلہ ذرا سا زیادہ سخت تھا ۔انہوں نے کہا میں یہ کہوں گا کہ یہ مقدمہ دراصل ایک ’پیغام ‘تھا۔
Irving,67,arrived in the court room handcuffed, wearing a blue suit, and carrying a copy of Hitler’s War, one of many books he has written on the Nazis, and which challenges the extent of the Holocaust.
۶۷ سالہ ارونگ کمرۂ عدالت میں حاضر ہوا تو اس کو ہتھکڑیاں پہنائی ہوئی تھیں ۔وہ نیلے کوٹ پینٹ میں ملبوس اپنی کتاب’ہٹلر کی جنگ ‘ اٹھائے ہوئے تھا،جو کہ نازیوں پر لکھی گئی اس کی متعدد کتب میں سے ایک ہے اور جس میں ہولوکاسٹ کی (مبینہ )شدت کو مشکوک ٹھہرایا گیا ہے ۔
Irving was arrested in Austria in November, on a warrant dating back to 1989,when ha gave a speech and interview denying the existence of gas chambers at Aushwitz.
ارونگ کو نومبر میں آسٹریا میں گرفتار کیا گیا تھا،اس کے وارنٹ کی تاریخ ۱۹۸۹ئ؁یعنی کافی پرانی تھی، جب ایک انٹرویو کے اندر اس نے آسچ وٹس میں (عقوبت کے لیے استعمال کئے جانے والے )گیس چیمبرز کے وجود کا انکار کیا تھا۔
‘I’ve changed
’میرا موقف بدل چکا ہے‘
He admitted that in 1989 he had denied that Nazi Germany had killed millions of Jews. He said this is what he believed, until he later saw the personal files of Adolf Eichmann, the chief organiser of the Holocaust.
اس نے اعتراف کیا کہ ۱۹۸۹ئ؁ میں واقعی اس نے نازی جرمنوں کے ہاتھوں کئی ملین یہودیوں کے قتل ہونے کا انکار کیا تھا۔اس نے کہا کہ تب اس کا یہی خیال تھا،جب تک کہ بعدازاں اس نے ہولوکاسٹ کے ناظم اعلیٰ ایڈولف ایچ مین کی ذاتی فائلیں خود نہ دیکھ لیں۔
“I said that, then, based on my knowledge at the time, but by 1991 when I came across the Eichmann papers, I wasn’t saying that anymore and I woudn’t say that now,”Irving told the court.
“The Nazis did murder millions of Jews”.
’’یہ میں نے تب اپنے اس وقت تک کے علم کی بنیاد پر کہا تھا ،مگر ۱۹۹۱ء میں جب مجھے ایچ مین کے وثائق دیکھنے کو ملے تب سے میں نے یہ کہنا موقوف کر دیا تھااور اب میں یہ بات نہیں کہتا ہوں‘‘،ارونگ نے عدالت کے سامنے (اپنے حالیہ موقف کی بابت)بیان دیتے ہوئے کہا:’’یقینا نازیوں نے کئی ملین یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا‘‘۔
In the past ,he had claimed that Adolf Hitler knew little, if anything, about the Holocaust, and that the gas chambers were a hoax.
The judge in his 2000 libel trial declared him “an active Holocaust denier.. anti -Semitic and racist”.
ماضی میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اڈولف ہٹلرکو ہولوکاسٹ (کے عقوبت خانوں )کا اگر علم تھا بھی توکچھ زیادہ علم نہ تھا اور یہ کہ ’گیس چیمبرز‘محض ایک ڈھکوسلہ رہا ہے۔
۲۰۰۰ئ؁ میں (برطانیہ کے اندر چلنے والے بہتان کے )مقدمہ میں جج نے اس کو ’ہولوکاسٹ ‘کا سرگرم انکاری سام دشمن اور ’نسل پرست ‘ قرار دیا تھا۔
On Monday, before the trail began, he told reporters: ” I’m not a Holocaust denier. Obviously, I’ve changed my views.”
“History is a constantly growing tree – the more you know, the more documents become available, the more you learn, and I have learned a lot since 1989″.
پیر کو ،عدالت کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے اس نے اخباری نمائندں سے بات کرتے ہوئے کہا :’’یہ ایک واضح بات ہے کہ میں اپنے نظریات تبدیل کر چکا ہو ں ۔’تاریخ ‘ایک ایسا درخت ہے جس کی نمو جاری رہتی ہے ۔جتنا آپ معلومات میں آگے بڑھتے ہیں اتنا ہی آپ کو زیادہ وثائق اور دستاویزات میسر آتی ہیں اور اتنا ہی آپ کے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور ۱۹۸۹ئ؁ سے لے کر اب تک میں بہت کچھ نیا جان چکا ہوں۔
Of his guilty plea, he told reporters:”I have no choice” . He said it was “ridiculous” that he was being tried for expressing an oponion.
اپنے اعتراف جرم کی بابت اس نے نامہ نگاروں کو بتایا :میرے پاس کوئی چارۂ کار نہ تھا ۔اس نے کہا کہ یہ ایک بے ہودہ بات ہے کہ اس کو اپنی رائے کا اظہار کرنے پر عدالت میں کھینچ لایا گیا۔
یوں تو مغرب کی نظر میں مانے جانے والے ’فکری جرائم ‘(Thought Crimes)کے مرتکب افراد کی ایک طویل فہرست آ پ کو فراہم کی جاسکتی ہے اور جس سے کہ ’آزادیِ اظہار ‘کی حدود بھی آپ پر بخوبی واضح ہو جائیں گی ،مگر ان میں سے ڈیوڈ ارونگ کی دلچسپ مثال ہم نے خاص اس لیے منتخب کی ہے کہ ارونگ عدالت میں کھڑا ہو کر صاف کہہ رہا ہے کہ میں اپنے اس پرانے قول سے رجوع کر چکا ہوں ،اب میں ویسے ہی اس بات کا قائل نہیں رہ گیا ہوں اور نہ اب وہ بات میں کبھی کہوں گا اور یہ کہ یہ میری معلومات کا نقص تھا اور مجھے اپنی غلطی تسلیم ہے اس کے باوجود ڈیوڈ ارونگ کو تین سال قید کی سزا ملتی ہے ۔اول تو محض ایک اعتقاد رکھنے کے معاملے میں آدمی پر قدغن !کہاں ہے آزادیٔ فکر ؟پھرمحض اس کا ایک انٹرویو اور ایک تقریر میں آجانا قابل مواخذہ جرم ،جس پر (۱۹۸۹ء تا ۲۰۰۶ئ)سترہ سال گزرنے کے باوجود اس کو عدالت کے کٹہرے میں لے آیا جاتا ہے، کہاں ہے آزادی اظہار ؟اور پھر ایک شخص کے تائب ہو جانے کے بعد اور عدالت میں بار بار اس توبہ کاتذکرہ ہونے کے باوجود اس کو ہتھکڑیاں ڈال کر سر محضر لایا جاتا ہے اور سزا سنا دی جاتی ہے ،آخر ایک اعتقاد ،ایک نظریہ اور ایک قول ہی تو تھا جس سے اب اس نے رجوع کر لیا ہے ۔’ہولوکاسٹ کے گستاخ‘کی تو توبہ تک قبول نہیں ہے ۔
ہاںمیرے ’روشن خیال ‘متعجب نہ ہوں ،،معاشروں میں کچھ چیزوں کی حرمت قائم کر دیے بغیر گزارہ نہیں ۔یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ ’’حرمت ‘‘ہمارے یہاں تاج دار مدینہ ﷺ کے مقام کو اور اس سے پہلے اسے مبعوث کرنے والی ہستی کو اور اس کی نازل کردہ کتاب اور اس کے دین کے شعائر کوحاصل ہے ۔کسی نہ کسی چیز کی حرمت تو ہر معاشرے کی ہی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔
یہ تو قسمت قسمت کی بات ہے ،’حرمت و ناموس‘کے حوالے سے ہمارے نصیب میں کیا آیا اور ان کے نصیب میں کیا آیا۔نبی ﷺ نے حنین کے موقع پر انصار کو اپنی محبت جتانے کے لیے کہا تھا کہ ’’کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ دوسرے لوگ اونٹوں اور بھیڑوں بکریوں کے غنائم لیے اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم رسول ﷺ کو لیے اپنے گھروں کو لوٹوـ‘‘۔
تو پھر کیا ہمیں یہ پسند نہیں کہ روز قیامت جہاں کسی کے پاس پیش کرنے کو ’ہولوکاسٹ ‘یا ’وطن‘کا پورٹریٹ یا اسی جیسے کچھ کھوکھلے شعائر کی حرمت ہو اور وہ اس پر یوں نازاں ہوں گویا آسمان ِ تہذیب کوتھگلی لگا چکے ہوں ،وہاں ہمارے پاس پیش کرنے کے لیے اللہ کی تعظیم اور صاحب مقام محمود ﷺ کی محبت ہو اور صاحب شفاعت ﷺ کی حرمت و ناموس کے ساتھ ہماری ایک غیر متزلزل وابستگی اور ایک مر مٹنے والی فدائیت؟۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *