قانون ِ توہین رسالت ۔۔۔تاریخی پس منظر

مسلمان اپنے آقاو مولا حضور سرور عالم ﷺ کے نام و ناموس پر مرمٹنے اور اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنے کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتے ہیں۔ اس پر تاریخ کی کسی جرح سے نہ ٹوٹنے والی ایسی شہادت موجود ہے جو ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو خواہ ایشیا ہویا پورپ، افریقہ ہو یا کوئی اور خطۂ ارض، جہاں بھی اقتدار حاصل رہا، وہاں کی عدالتوں نے اسلامی قانون کی رو سے شاتمان رسولﷺ کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ اس کے برعکس جب کبھی یا جہاں کہیں ان کے پاس حکومت نہیں رہی، وہاں جانثا ران تحفظ ناموس رسالتﷺ نے غیر مسلم حکومت کے رائج الوقت قانون کی پروا کیے بغیر گستاخان رسولﷺ کو کیفر کردار تک پہنچایا اور خود ہنستے مسکراتے تختۂ دار پر چڑھ گئے۔
بر صغیر پاک و ہند میں برطانوی دور استعمار سے قبل حتی کہ مغل شہنشاہ اکبر کے سیکولر دور میں بھی شاتم رسول ﷺ کو سزائے موت دی گئی۔ لیکن جب اس ملک پر سازشوں کے ذریعے انگریزوں کا غاصبانہ قبضہ ہوا تو انہوں نے توہین رسالتﷺ کے اس قانون کو یکسر موقوف کردیا۔ پھر انگریز حکومت ہی کی شہہ پر جب ہندوؤں‘آریہ سماجیوں اور مہا سبھائیوں نے مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہوئے پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ و السلام کی ذات گرامی پر حملے کرنے شروع کردئیے تو مسلمانوں نے شاتمان رسولﷺ کو قتل کرکے‘اقرار جرم کرتے ہوئے دارو ر سن کی روایت کو ازسر نو زندہ کیا۔
مسلمانوں کے احتجاج اور مولانا محمد علی جوہرؒ کی تحریک پر اس وقت قانون ساز اسمبلی نے ۱۹۲۷ئ؁ میں معمولی سی دفعہ۲۹۵؍ اے کا تعزیرات ہند میں اضافہ کیا‘ جس کی رو سے توہین مذہب کے جرم کی سزا دو سال تک قید یا جرمانہ مقرر ہوئی‘ لیکن اس سے مسلمانوں کی اشک شوئی نہ ہوسکی۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد یہ توقع تھی کہ یہاں توہین رسالتﷺ کے جرم کی شرعی سزا، سزائے موت کا قانون پھر سے بحال ہو جائے گا، لیکن کسی بھی مقننہ یا حکومت کو اس بارے میں پیش رفت کی توفیق نصیب نہ ہوئی، اسی اثناء میں اسلام دشمن قو توں نے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعہ یہاں کے نوجوانوں کو دین سے برگشتہ کرنے کے لیے لادینی لٹریچر بھی پھیلانا شروع کر دیا ۔ اس سلسلہ میں ایک کمیونسٹ مشتاق راج کا ذکر ضروری ہے جس کی اشتعال انگیزی قانون توہین رسالت اور اس کتاب کی تصنیف کا باعث بنی۔ اس کی خدمات روس کی حکومت نے حاصل کی ہوئی تھیں۔
مشتاق راج نے۱۹۸۳ء میںHeavenly Communism (آفاقی اشتمالیت) نامی ایک کتاب لکھی جو ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ میں مفت تقسیم کی گئی۔ یہ کتاب راقم الحروف کو جسٹس میاں صادق اکرام نے لاکر دی۔ اگر چہ ’میں مصنف کے مبلغ علم سے واقف تھا‘ مگر یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کتاب میں کمیونزم کا مذہبی نقطہ نظر سے کس طرح جائزہ لیا گیا ہے، میں نے کتاب پڑھنا شروع کی۔ جیسے جیسے کتاب پڑھتا گیا، میری قوت برداشت جواب دیتی چلی گئی۔ مجھ پر غم و غصہ کی جو کیفیت طاری ہوئی، وہ نا قابل بیان ہے۔ اس کتاب میں نہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ تمسخر کیا گیا، بلکہ مذاہب اور ادیان کا بھی مذاق اڑایا گیا تھا۔ دینی پیشواؤں کو ’’مذہبی شیطان‘‘ کہا گیا، انبیائے کرام علیہم السلام پر نہایت گھٹیا اور سوقیانہ حملے کئے گئے اور انتہایہ کہ حضور ختمی مرتبتﷺ کی شان میں بھی گستاخی کی جسارت کی گئی ۔میں نے نہایت صبرو ضبط سے کام لیتے ہوئے ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیور سٹس( پاکستان زون) کا اجلاس طلب کیا، جس میں پاکستان کے نامور علمائے دین کے علاوہ بیرون ملک سے عالم اسلام کے دو ممتاز اسکالرز ڈاکٹر ربیع المدخلی اور پروفیسر سعید صالح نے بھی شرکت کی۔ سب علماء کا متفقہ فتویٰ تھا کہ شاتم رسولﷺ واجب القتل ہے لہٰذا حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس ناپاک کتاب کو فوری طور پر ضبط کرلے اور بغیر کسی تاخیر کے توہین رسالتﷺ کا قانون بنا کر اسے نافذ العمل کر دیا جائے، تاکہ آئندہ کسی بدبخت کو اہانت رسولﷺکی جرأت نہ ہو سکے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور بار کونسل نے بھی راقم کی تحریک پر مشتاق راج کو بار کی کنیت سے خارج کردیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسے گرفتار کرکے عبرت ناک سزادی جائے اور اس ناپاک کتاب کی ساری کاپیاں فوری ضبط کرلی جائیں۔ اہل لاہور کو جب اس کتاب کی اشاعت کا علم ہوا تو ان کے جذبات مشتعل ہوگئے اور حکومت نے امن و امان کی صورت حال اور بار ایسوسی ایشن کی قرار داد کے پیش نظر اسے زیر دفعہ۲۹۵ ؍اے گرفتار کر لیا‘ کیونکہ تعزیرات پاکستان میں اس وقت تک توہین رسالتﷺ جیسے سنگین اور انتہائی دل آزار جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی۔ ملک عزیز کے تمام مکاتب فکر کے علمائ، وکلائ، بار ایسوسی ایشنز اور دینی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس سلسلہ میں فوری طور پر قانون سازی کی جائے۔ پاکستان کے قومی اخبارات نے بھی اس کی تائید کی اور اس کی حمایت میں اداریے لکھے۔ بالآخر اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامیان پاکستان کے اس مطالبہ کانوٹس لیا اور شیخ غیاث محمد، سابق اٹارنی جنرل کی تحریک پر حکومت سے سفارش کی کہ توہین رسالتﷺ اور ار تداد کی سزا، سزائے موت مقرر کی جائے۔ اس کے باوجود حکومت وقت نے اس نازک مسئلہ کو مستحق توجہ نہ سمجھا‘ لہٰذا راقم الحروف نے فیڈرل شریعت کورٹ میں اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق اور تمام صوبوں کے گورنروں کے خلاف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ۲۰۳ کے تحت۱۹۸۴ء میں اپنے ساتھ تمام مکاتب فکر کے علمائ،سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق جج صاحبان، سابق وزرائے قانون، سابق اٹارنی جنرل، سابق ایڈووکیٹ جنرل، لاہور ہائی کورٹ بار اور دیگر بار کونسلوں کے صدر صاحبان سمیت ایک سو پندرہ شہریوں کو شامل کرکے شریعت پٹیشن نمبرا ؍ایل۱۹۸۴ء دائر کی۔ مقدمہ کی سماعت کا آغاز راقم الحروف کی بحث سے ہوا۔ عدالت نے عوام الناس کے نام نوٹس جاری کردیے تھے۔ کمرہ ٔعدالت اور اس کے باہر ہر روز عوام کا ہجوم اس مقدمہ کی کارروائی کی سماعت کے لیے موجود ہوتا۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران عجیب و غریب واقعات پیش آئے، جن میں دو بڑے دلچسپ اور قابل ذکر ہیں۔ اس پٹیشن میں سابق جج لاہور ہائی کورٹ جناب جسٹس چوہدری محمد صدیق بحیثیت فریق اول ہمارے ساتھ شامل تھے، جب کہ دوسری طرف سے ان کے صاحبزادے جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جو اس وقت ایڈووکیٹ جنرل تھے‘ پیش ہوئے۔ میں نے عدالت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ اس تاریخی مقدمہ میں باپ بیٹا ایک دوسرے کے مقابل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیٹے نے شریعت پٹیشن کی مکمل طور پر حمایت کی اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز نے بھی اس پٹیشن کی تائید میں دلائل پیش کئے اور عدالت سے درخواست کی کہ اس در خواست شریعت کو منظور کرلیا جائے۔ ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی ڈپٹی اٹارنی جنرل نے، جو حکومت پاکستان کی جانب سے پیش ہوئے، ہمارے اس موقف سے اتفاق کیا کہ شاتم رسولﷺ واجب القتل ہے ،لیکن یہ قانونی اعتراض اٹھایا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کو اس کی سماعت کا اختیار نہیں ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے پیش نظر ایک اور مسئلہ بھی تھا کہ آیا شاتم رسولﷺ کی سزا کا معاملہ قانون سازا سمبلی سے متعلق ہے یا فیڈرل شریعت کورٹ اس بارے میں وفاق پاکستان کو حکم نامہ جاری کرنے کی مجازہے۔ بہر حال فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اسی اثناء میں ایک اور سنگین واقعہ رونما ہوا۔ ماہ جولائی۱۹۸۴ء ؁میں ایک خاتون ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے معلم انسانیت حضور ختمی مرتبﷺ کی شان میں کچھ ایسے نازیبا الفاظ استعمال کیے جو سامعین اور امت مسلمہ کی دل آزاری کا باعث تھے۔ جس پر سیمینار میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ جب یہ خبر اخبار میں شائع ہوئی تو ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیور سٹس نے اپنے خصوصی اجلاس میں پاکستان کے تمام سربر آوردہ علماء اور وکلاء کی جانب سے اس کی پر زور مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کی کہ وہ فوری طور پر شاتم رسول ﷺ کے بارے میں سزائے موت کا قانون منظور کرے اور فیڈرل شریعت کورٹ سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ شریعت پٹیشن پر اپنا فیصلہ صادر کرے۔ اسلامی جذبے سے سرشار خاتون مرحومہ آپا نثار فاطمہ نے اس قابل اعتراض تقریر کا قومی اسمبلی میں سختی سے نوٹس لیا اور پھر راقم الحروف کے مشورے سے قومی اسمبلی میں تعزیرات پاکستان میں ایک مزید دفعہ۲۹۵؍ سی کابل، جس کی رو سے شاتم رسولﷺ کی سزا ، سزائے موت تجویز کی گئی، پیش کیا اور اس سلسلہ میں اس وقت کے وزیر قانون وانصاف جناب اقبال احمد خان سے ملاقات کی لیکن انہوں نے اس بل کی حمایت سے اس لیے معذرت کا اظہار کیا کہ قرآن میں اس کی سزا مقرر نہیں۔ اس کے علاوہ غیر متوقع صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب کئی اسلامی ذہن رکھنے والے اراکین اسمبلی بھی اس بل سے پوری طرح متفق نہیں تھے کیونکہ وہ توہین رسالتﷺ جیسے سنگین جرم کے لیے صرف عمر قید کی سزا کافی سمجھتے تھے، لیکن جب یہ بل اسمبلی میں جنت مکانی آپا نثار فاطمہ مرحومہ نے پیش کیا تو مسلمانوں کے متفقہ مطالبہ کے پیش نظر کسی کو اس کی مخالفت کی جرات نہ ہو سکی، البتہ وزارت قانون کی طرف سے اس بل میں یہ ترمیم کردی گئی کہ شاتم رسولﷺ کی سزا ، سزائے موت یا عمر قید ہوگی۔ اس طرح دفعہ۲۹۵؍ سی کا تعزیرات پاکستان میں اضافہ کردیا گیا۔ لیکن چونکہ اس دفعہ سے راقم الحروف، مرحومہ آپا نثار فاطمہ، علمائے کرام، وکلاء اور مسلمان عوام مطمئن نہیں تھے، اس لیے دوبارہ فیڈرل شریعت کورٹ میں ۲۹۵؍ سی کو راقم نے مسلم ماہرین قانون کی تنظیم کی جانب سے اس بناء پر چیلنج کردیا کہ توہین رسالت کی سزا بطور حد سزائے موت مقرر ہے اور حد کی سزا میں کمی یا اضافہ کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت یکم اپریل۱۹۸۷ئ؁ کو شروع ہوئی، جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو بھی معاونت کی دعوت دی گئی۔ بعض علماء کا خیال تھا کہ یہ قابل معافی جرم ہے اور بعض نے یہ بھی کہا کہ حاکم وقت سزائے موت سے کم تر سزا دینے کا بھی مجاز ہے۔ اس مقدمہ کی سماعت لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں فیڈرل شریعت کورٹ کے فل بنچ، جو جناب جسٹس گل محمد خان چیف جسٹس، جناب جسٹس عبدالکریم خان کندی، جناب جسٹس عبادت یار خان، جناب جسٹس عبدالرزاق تھیہم اور جناب جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خاں پر مشتمل تھا، کے سامنے ہوئی۔ من جملہ دیگر علماء کرام کے مولانا سید محمد متین ہاشمی، مفتی مولانا غلام سرور قادری، مولانا حافظ یوسف صلاح الدین اور جناب سیدریاض الحسن نوری قابل ذکر ہیں۔ مولانا حافظ صلاح الدین کا، جو جماعت اہل حدیث کے محقق عالم ہیں، پہلی شریعت پٹیشن میں موقف تھا کہ شاتم رسول کا جرم ناقابل معافی ہے، لیکن بعد میں انہوں نے موجودہ مقدمہ کی پٹیشن کے دوران بحث اپنے پہلے موقف سے رجوع کرتے ہوئے جرم مذکورہ کو قابل معافی بتلایا، جب کہ مولانا مفتی غلام سرور قادری ،شاتم رسول ﷺ کو ردہ یعنی ارتداد کی بناء پر واجب القتل تو سمجھتے تھے، لیکن اسے قابل معافی جرم بھی قرار دیتے تھے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل میاں عبدالستار نجم پیش ہوئے۔ وہ بھی اس جرم کو قابل معافی جرم قرار دیتے ہوئے اس کو منشائے رسول رحمتﷺ سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس حکومت پنجاب کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل جناب نذیر احمد غازی اور جناب جلال الدین خلد،حکومت سرحد کی جانب سے میاں محمد اجمل، جواب پشاور رہائی کورٹ کے فاضل جج ہیں، سندھ اور بلوچستان کی طرف سے وہاں کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز نے ہمارے موقف کی مکمل تائید اور حمایت کی۔ ان کے علاوہ ملک کے ممتاز اسکالر مولانا سید محمد متین ہاشمی اور جناب ریاض الحسن نوری مشیر وفاقی شرعی عدالت نے عمر قید کی سزا کے اسلامی احکام سے منافی ہونے کے بارے میں موثر دلائل پیش کیے۔سندھ کی حکومت نے بھی شاتم رسولﷺ کی سزا ، سزائے موت تسلیم کی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا موقف تھا کہ سزا کے لیے نیت کی ضرورت نہیں ہے۔
توہین رسالت ﷺ کے مقدمہ میں علماء کرام، صوبوں کے اسسٹنٹ اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر وکلاء صاحبان کے علاوہ عاجز کو رفیق محترم جناب ڈاکٹر ظفر علی راجا ایڈووکیٹ کی شب و روز معاونت حاصل رہی ہے،جس میں ان کا خلوص اور ملی حمیت کا جذبہ کار فرما رہا ہے۔ بالآخر وہ ساعت سعید بھی آگئی، جب فیڈرل شریعت کورٹ نے متفقہ طور پر، اس گدائے شہہ عرب و عجم کی، پٹیشن منظور کرتے ہوئے توہین رسالت ﷺ کی متبادل سزا عمر قید کو غیراسلامی اور قرآن و سنت کے خلاف قرار دیا اور حکومت پاکستان کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ عمر قید کی سزا کو دفعہ۲۹۵ ؍سی سے حذف کیا جائے جس کے لیے حکومت کو ۳۰ ؍اپریل سال۱۹۹۱ء ؁تک کی مہلت دی گئی۔ اس فیصلہ کے بعد پھر ایک عجیب مرحلہ پیش آیا فیڈرل شریعت کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت نے جو نفاذ اسلام اور قرآن و سنت کے قانون کی بالادستی کا منشور لے کر بر سراقتدار آئی تھی، سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی جس کانوٹس بھی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی جانب سے مجھے موصول ہوگیا جس پر راقم نے وزیراعظیم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو پیغام بھجوایا کہ حکومت اس اپیل کو فوری طور پر واپس لے ورنہ اس انتہائی حساس مسئلہ پر مسلمانوں کے جذبات اس حکومت کے خلاف مشتعل ہو جائیں گے اور اس حکومت کا بھی خدا نخواستہ وہی انجام ہوگا جو اس کی پیش رو حکومت بے نظیر کا ہو چکا ہے جس نے اسلامی قوانین کو اپنی کابینہ میں ظالمانہ اور فرسودہ قرار دے کر قصاص اور دیت کے قانون کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے راقم کی درخواست پر کابینہ کی اس کارروائی کا سختی سے نوٹس لے کر قانون قصاص و دیت کے خلاف گور نمنٹ کی اپیل خارج کردی تھی۔ پھر یہ حکومت غضب الٰہی کا شکار ہو کر نہ صرف اپنی کابینہ بلکہ پوری اسمبلی کے ساتھ بر خاست کردی گئی۔خدا کا شکر ہے کہ وزیر اعظیم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف نے توجہ مبذول کرانے پر فوری اور بروقت نوٹس لیا اور برسر عام اعلان کیا کہ اس اپیل کا انہیں قطعی علم نہ تھا ورنہ ایسی غلطی کبھی سرزد نہیں ہو سکتی تھی۔اگر اس جرم کی سزائے موت سے بھی سنگین تر اسلامی سزا موجود ہوتی تو ہم اسے بہر صورت نافذ کرتے۔ چنانچہ ان کے حکم سے توہین رسالت کی سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ سے یہ اپیل واپس لے لی گئی۔ جو بوجہ دستبر داری خارج ہوگئی جس کے بعد یہ قانون مکمل طور پر سارے ملک میں نافذ ہوگیا۔ اس طرح نہ صرف عاجز، مرحومہ آپانثار فاطمہ اور مولانا سید محمد متین ہاشمی مرحوم کی بلکہ پوری امت مسلمہ کی دلی آرزو پوری ہوئی۔ اس فیصلہ کی بدولت حضور رسالت مابﷺ کی ایک ایسی سنت تازہ ہوئی جس پر تمام مسلمانوں کے ایمان کا داردمدار ہے۔ جس کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ کے فاضل چیف جسٹس جناب گل محمد خان مرحوم اور ان کے تمام رفقاء جج حضرات بھی پوری امت مسلمہ کی جانب سے مستحق مبارک باد ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بھی انڈین پینل کوڈ(Indian Penal Code) کی طرح برٹش گورنمنٹ کی پالیسی کے تحت قانون توہین رسالتﷺ سرے سے موجود ہی نہیں تھا مگر اب بفضلہ تعالیٰ یہ قانون سارے پاکستان میں نافذالعمل ہے، جسے مکمل طور پر قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت تھی ۔اور اس قانون کے تحت گستاخان رسولﷺ کے خلاف ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔۔۔۔۔
اس ۔۔۔ کے کچھ مسودات مکہ مکرمہ، حرم نبویﷺ اور طائف میں لکھے گئے، اس لیے اہل دل کو اس میں جو حسن اور دل کشی نظر آئے، وہ ان ہی حسین مقامات کا عکس جمیل ہے اور جو خامیاں اور غلطیاں نظر آئیں، اس میں میری کوتاہیوں کا دخل ہے۔ قارئین محترم سے گزارش ہے کہ غلطیوں سے جو سہواً ہوگئی ہیں، مطلع فرمائیں تاکہ انہیں دور کیا جاسکے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *