نبی ٔ رحمت -حقیقت اورپروپیگنڈہ

رحمۃ للعالمین خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بارے میں علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر شاعری نہیں بلکہ حقیقت کی غمازی کرتاہے جس میں آپ نے کہا:
ستیزہ کاررہاہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفویؐ سے شرار بو لہبی
ڈنمارک کے اخبار کے ذریعہ عمل میں لائی گئی اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سازش بولہبی شرارہ کی شرپسندی کاپہلا شرر نہیں تھا۔ یہ حیات مبارکہ میں شروع ہوگئی تھی اورآ ج تک جاری ہے۔ اسی کے تحت کبھی معاذاللہ مجنون اور شاعرکہاگیاتوکبھی کاہن اورجادوگر ، کبھی خاندانوں میںتفریق ڈالنے والا کہاگیاتو کبھی دیوی دیوتائوں کے قہر کو دعوت دینے والا بتایاگیا ۔ پھر جھوٹے نبیوں کاسلسلہ چلا۔ یہاں تک کہ یورپین مستشرقین نے اپنے سامراجی عروج کے زمانے میںاپنی حکومتوں کے سامراجی عزائم کو پورا کرنے کے لیے اورمسلم ممالک میں مختلف بالواسطہ طریقوں کے ذریعہ تکذیب ، تشکیک اورارتداد کے بیج بوئے۔ اس خصوصی سازش کوا ورینٹل ازم کے خوبصورت غیر مضر نام کی آڑ میں خوب پھیلایاگیا۔ اس کے ذریعہ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ بڑے بڑے فتنے مسلم دنیا میںپھیلائے ۔ ان اہم فتنوں اورمغالطوںمیں’’اسلام کی اشاعت میں تلوار کی طاقت‘‘ کاپروپگنڈہ پورے تسلسل سے کیاگیاہے۔ آج دنیا بھر میں جولوگ نام نہاد آزادی اوررواداری کے منافق علم بردار ہیں وہ دراصل ہٹلر کے بدنام زمانہ وزیر گوئبلز کے اصول ’’جھوٹ کواتنا دہراؤ کہ وہ سچ لگنے لگے ‘‘ پرپور ے تسلسل سے عمل کر رہے ہیں ۔ ایسا کرنے میں انہیں شرم اورندامت نہیں ہورہی ہے ۔ اوراس نام نہاد اطلاعات کے انقلاب کے زمانہ میں بھی شرارت انگیز جھوٹ بولاجارہاہے اورپڑھی لکھی انٹرنیٹ اورگوگل اوریاہوکی دنیا بھی اس سے ویسا ہی متاثر ہورہی ہے جیسادسویں یاپندرھویں صدی کے ان پڑھ لوگ ہواکرتے تھے۔ حالانکہ خود ان شرپسندوں کے درمیان بھی انصاف پسند لوگ گزر ے ہیں۔ جنہوں نے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کا اعتراف کیاہے جیساکہ تھا مس کارلائل نے اپنی مشہورکتاب ’’ ہیروز اینڈ ہیروور شپ ‘‘ میں لکھاہے ، ’’تلوار اور ایسی تلوار کہاں پائو گے۔ حقیقت یہ کہ ہرنیا خیال اپنے آغاز میں ایک کی اقلیت سے شروع ہوتاہے۔ ایک آدمی تلوار لیتاہے اوراس کے ساتھ تبلیغ کرنے کی کوشش کرتاہے۔ایسا اس کے لیے کچھ بھی فائدہ مند نہیں ہوگا۔ سارے لوگوں کے خلاف آپ تلوار اٹھا کردیکھ لیجئے ۔کوئی چیز خود پھیلتی ہے جنتا پھیلنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے‘‘۔ دوسرے تاریخ نگارڈلیسی الیری (Delacy Oleary) نے اسلام ایٹ داکروس روڈ (Islam at the Crossroad) میں اعتراف کیا۔ یہ کہنا کہ کچھ جنونی مسلمانوں نے دنیا میں پھیل کر تلوار کے ذریعہ ہاری ہوئی قوم کو مسلمان بنایا، تاریخ کی بہت بڑی بکواس ہے جسے کبھی تاریخ دانوں نے کہاہو‘‘ ۔ اسلام اور انسانیت کے یہ بدطینت، بدخواہ اسلام اور رسولؐ دشمنی کے جنون میں اتنے بڑے واضح اوراہم حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ عقل حیران ہوجاتی ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جو نبی یتیم پیدا ہوا، مالی لحاظ سے بھی بہت کمزور اورجتھہ کے لحاظ سے بھی بہت کمزور ہو وہ کیسے ’’تلوار اورتلواروالوں ‘‘ کو مائل کریگا ۔ جوخود ۱۳ / سالوں تک ستایا گیا ہرطرح سے پریشان کیاگیا ، جس کے ماننے والے ہر طرح کے ظلم وستم کانشانہ بنائے گئے یہاں تک کہ وطن چھوڑ نے پرمجبور کردیئے گئے اور نئے وطن میں بھی ان کو آرام وامن سے نہیں رہنے دیاگیا۔ ان کمزور بے سہارا لوگوں پر ہی طاقت اورتشدد کا الزام لگایاجارہاہے۔
چند حقائق
٭ کفار ومشرکین مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کرنے کے بعد یعنی ۱ / ہجری سے ۱۱ / ہجری تک اسلامی عقیدہ روز انہ ۲۶۷ / مربع میل کی رفتار سے آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ یہ آخری سال دس لاکھ مربع میل تک پہنچ گیا۔ ان دس سالوں میں غزوات اور سرایا کی تعداد ۸۲ / بتائی گئی ہے جس میں دونوں جانب نقصان ملاکر ۱۰۱۸ / افراد کاتھا۔ زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہی تھی۔
٭ وفات کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں چند سیر جو اورتھوڑی آراضی ہی تحویل میں تھی۔
٭ اسلامی حکومت کی سربراہی کو بھی موروثی نہیں قرار دیا۔
٭ حضرت محمد ﷺ نے مکہ سے ہجرت کے ۸ / سال بعد مکہ فتح کیا تو دس ہزار فوج آپ ﷺ کے ساتھ تھی۔ مگر آپ ﷺ کا سر عاجزی اورشکر کے جذبہ سے اونٹنی کی پیٹھ سے لگا جارہاتھا۔ اور آپﷺ نے اعلان کردیاتھاکہ ’’ آج مارکاٹ کانہیں رحمت کا دن ہے۔‘‘ اہل مکہ کی ۱۳ / سالہ ظلم اور تعدی کے مقابلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رویہ کیا تلوار والے پروپگنڈہ کو غلط ثابت نہیں کرتا؟
٭ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنہوں نے ہر جنگی مہم پر روانگی سے قبل سپہ سالاروں کو ہدایت دی کہ بوڑھوں ، عورتوں ، بچوں ، مذہبی شخصیات اور غیر محارب پر ہاتھ نہ اٹھائیں ۔ پیڑ پودوں اورکھیتی برباد نہ کریں ، لوٹ مارنہ کریں ، عبادت گاہیں مسمار نہ کریں۔
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فلسطین فتح کیا تو کوئی قتل وغارتگری نہیں ہوئی ۔ مگر جب عیسائی دوبارہ غالب آئے تومسلمانوں کا اتنا قتل عام کیا کہ شہر میں گھٹنوںتک خون اکٹھا ہوگیا۔
٭ اسپین میں مسلمانوں نے ۸۰۰ / سال حکومت کی اور عیسائی پوری آزادی سے زندگی گزار تے رہے۔ مگر جب عیسائیوں نے دوبارہ عروج حاصل کیا تو وہاں ایک شخص اذان دینے والا بھی باقی نہ چھوڑا۔
٭ بھارت میںمسلمانوں نے ۱۰۰۰ /سال حکومت کی مگر آج بھی ان کی تعداد کل آبادی کا ۲۰ -۱۵ فیصدہی ہے اوران مقامات میں کیرالہ ، آسام، بنگال میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے جہاں مسلمانوں کے ساتھ حکومت یا تلوار نہیں تھی۔ اس کے مقابلہ میں جہاں اسلام تلوار کے ساتھ رہا : دہلی اورلکھنؤ ، پٹنہ، حیدرآباد وغیرہ وہاں مسلمانوں کی تعداد کم ہے۔
٭ دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی کے ملک انڈونیشیا میںبھی تلوار نہیں گئی۔ مسلم تاجروں اورعلماء کرام نے ہی اسلام کی اشاعت کاکام کیا۔
٭مشرقی افریقہ میں مسلم فوجوں کی تلوار نہیں گئی مگروہاں مسلمان کثرت میں ہیں اورعیسائیوں کوتلوار اوردولت کی کثرت کے باوجود افریقہ میں وہ فروغ نہیں ملاجو وہ چاہتے تھے۔
٭ عرب ملک میں ۱۴۲۷ / سالوں کی مسلم حکومت کے باوجود آج بھی ایک کروڑچالیس لاکھ عیسائی موجود ہیں۔
٭ ۱۹۳۴ء سے ۱۹۸۴ء کے درمیان اسلام کی توسیع کی رفتار ۲۳۵ فیصد رہی جبکہ عیسائیت کی رفتار توسیع یاقبولیت محض ۴۷ فیصدرہی۔ آج بھی امریکہ اوریورپ میں بڑی تعداد میں قبولِ اسلام ہورہاہے، وہ کس ’’تلوار‘‘ کی برکت ہے۔
٭ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے محض چند ہزار انسانی جانوں کے نقصان کے عوض دس لاکھ مربع میل میں امن وسکون کا ایسا ماحول پیداکردیاکہ ایک عورت ریگستان میں اکیلے سونااچھالتے ہوئے سفر کرے اوراسے سوائے جنگلی جانور وں کے کسی کاخطرہ نہ ہو۔ اس کامقابلہ وہ تہذیب کہاں کرسکتی ہے جس نے جنگ عظیم اول اور دوئم میںکروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ جس نے درجنوں ممالک کے کروڑوں باشندوں کوصدیوں تلوار کے بل بوتے پر غلام بنائے رکھا۔ جو آج بھی پیٹرول پر قبضہ کرکے بے دریغ انسانی جانوں کا ضیاع کررہی ہے۔ وہ فسادی تہذیب آج انسانی تاریخ کے عظیم ترین مصلح اورمربی کو تلوار کانتیجہ بتارہی ہے۔ آج شاید کسی بھی زمانہ سے زیادہ اس بات کا موقع ، ضرورت اورذرائع ہیں کہ امت مسلمہ، محبان رسول ؐ آگے بڑھ کر اپنے قول وفعل سے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ہر پہلو کو بلاکم وکاست دنیا کے سامنے پیش کرے اور روزِ محشر ساقی ٔ کوثر کے سامنے سر خروئی کا جواز فراہم کرے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *