ہند و مذہب اور بلاس فیمی قانون

ہر ملک اور قوم کی کچھ بنیادیں اور اصول ہوتے ہیں۔جنکی مخالفت یا خلاف ورزی پر قوموں کے قوانین میں سخت سزائیں تجویز کی جاتی ہیں۔ہمارے ملک کے قانون میں ملک کے اقتدار اعلی اور یک جہتی کی خلاف ورزی کے گمان پر بھی وقتا فوقتا سخت قوانین بنائے جاتے رہتے ہیں اور آج بھی محض شک کی بنیاد پر ہزاروں شہری جیلوں کی ہوا کھا رہے ہیں۔زیادہ تر معاملوں میں اس موہوم گناہ کے ملزم بری ہو جاتے ہیں۔
قدیم ہندستان میں جو قانون رائج تھا اس میں واضح طور پر خدا کو نہیں بلکہ برہمن نسل کو اقتدار اعلی کا مقام حاصل تھا۔ہندستان کی مقدس کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز برہمن سے پیدا ہوئی ہے یہاں تک کی اعلی ذات کے کشتریوںکو بھی برہمن سے ہی پیدا ہوا بتایا گیا ہے، لہذا برہمن کی مذمت کو ہی سب سے بڑا جرم بتایا گیا ہے۔
بعض حضرات کو حیرت ہوتی ہے کہ مسلمان اپنے پیغمبر کی عصمت کے لئے اتنے جذباتی کیوںہیں اور اسلام میںشاتمِ رسول کے خلاف اتنے سخت قوانین کیوںہیں؟اسلام اور مسلمانوں کے اس رویے کے حق میں مسلسل مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ہم یہاں ہندو روایات میں برہمن کی مذمت کے خلاف شاستروں کے قوانین کا جائزہ لیتے ہیں۔
جس طرح عیسائی حضرات عیسیٰؑ کو ایک مکمل انسان اور ایک مکمل خدا کا درجہ دیتے ہیں اسی طرح ہندو اپنے مہاپروشوں کو خدا کا اوتار یا خدا کی انسانی شکل قراردیتے ہیں ۔ لہذا وہ خدا اور ان کے اوتاروں میں فرق نہیں کرتے۔ وہ اوتاروں کو خدا ہی سمجھتے ہیں ۔ مثلاً رام ، کرشن ، بدھ ، مہاویر یہ سب خدا کے اوتاریا خدا کی انسانی تجسیم ہیں ۔
ہندو روایات میں خدا اور اوتار پر تنقید کرنا ، ان کا انکار کرنا ان کو برا بھلا کہنا کبھی جرم نہیں رہا ۔ متعدد ہندو اوتاروں کے پیروؤں کے درمیان جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں ۔ خدا کے انکار اور الحاد پر مبنی ’چار واق ‘کا فلسفہ ہندو فلسفہ کاایک جزو ہے ۔ چار واق کے فلسفہ میں خدا وید اور مذہب کو رد کیا گیا ہے ۔ گوتم بدھ خدا کے تصور کے سلسلہ میں اپنا عقیدہ واضح کرنے سے پرہیز کرتے رہے ۔ ان کے مذہب میں خدا کا اقرار یا انکا ر کوئی مسئلہ نہیں رہا ۔انہیں بھی وِشنو کا اوتار قبول کیا جاتا ہے۔جب کہ بدھ نے ویدک عمل یگیہ کی مخالفت کی اور اس میں مویشیوں کے بے تحاشہ قتل کے خلاف تحریک چلائی تھی۔
ہندو مذہب میں کل نو فلسفے ہیں اور یہ باہم معاند اور مخالف ہیں ۔ کوئی خدا کے اقرار پر مبنی ہے تو کوئی خدا کے انکار پر ۔ کوئی توحید کی وکالت کرتاہے تو کوئی شر ک کی وکالت کرتا ہے ۔لیکن ہندو روایات میں برہمن کے زمین کے دیوتا ہونے پر یہ فرقے باہم متفق نظر آتے ہیں ۔
ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں کہا گیاہے کہ دنیا میں سب کچھ برہمن سے پیدا ہوا ہے ۔ لہذا سب کچھ برہمن کا ہے اور تمام دیگر ذاتیں برہمن کی وجہ سے ہی روزی حاصل کرتی ہیں ۔ برہمن کے سب سے بڑے دیوتا ہونے پر یہ دلیل دی گئی ہے :۔
دیوا دھنام جگت سروم
منترا دھنام تَ دیوتا
تن منترم برہمنادھمنام
برہمنا مم دیوتا
( یہ کائنات دیوتاؤں کے قبضے میں ہے اور دیوتا منتروں کے قبضے میں ہیں ا ور منتر برہمنوں کے قبضے میں ہیں ،اس لئے برہمن ہی ہمارے دیوتا ہیں۔ )اس طرح برہمن آسمانی لقب ’’بھودیوتا ‘‘ کے حقدار ہیں ۔
ہرنظام کی کچھ عصمتیں ہوتی ہیں ۔ ہندو مذہب کی عصمت برہمن ہیں ۔ لہذا برہمن پر تنقید کرنا سب سے بڑا گناہے ۔ منو اسمرتی کے نویں باب ، شلوک ۳۲۰ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہے وہ خوشحال کشتریہ بھی اگر برہمن کو ایذا پہنچائے تو برہمن اس کو سزاد ے ، کیونکہ کشتریہ برہمنوں سے پیدا ہوئے ہیں ‘‘(منو ۹:۳۲۰)
ویسے ہی اگرچہ برہمن قابل مذمت عمل بھلے ہی کرے تو بھی برہمن قابل عبادت ہے کیونکہ برہمن ہی مطلق دیوتا کی حیثیت میں مشکّل ہوا ہے ۔(منو۹:۳۱۹)
لیکن اگر برہمن کو کو ئی غیر دو جنما ایذا یعنی ایک مرتبہ کی پیدائش اور دوسری مرتبہ زنار پہنکر ہونے والی پیدائش ،پہنچائے تو اس کی سزا زیادہ سخت ہے :
برہمن سے سخت کلامی کرنے پر کشتری ایک سو پڑ قابل تعزیر ہوتا ہے ،ویشیہ ڈیڑھ یا دوسو پڑ اور شودر قتل کی سزا کا حقدار ہوتا ہے۔ ( منو اسمرتی ۸:۲۶۷)
شودر اگر دو جنم والوں کو سخت بات کہے تو اسے زبان چھیدنے کی سزا دی جائے کیونکہ وہ سب سے ذلیل پیر سے پیدا ہوا ہے۔ (منو اسمرتی ۸:۲۷۰)
اگر شودر دوہرے جنم والے کی مذمت کرے تو اس کے منہ میں گرم سلاخ ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے :
’’نام اور ذات کو لے کر اگر شودردوہرے جنم والوں کی مذمت کرے تو جلتے ہوئے دس انگل کی سلاخ اس کے منہ میں ڈالی جائے۔ ( منو ۸:۲۷۱)
جو شودر تکبر کی وجہ سے برہمن کے اوپر تھوکے تو راجا اس کے دونوں ہونٹ کٹوالے ، اگر پیشا ب کرے تو عضو کٹوالے اور اگر ریاح خارج کرے تو اس کا مقعد کٹوادے۔
چونکہ وید برہمن کو اعلی ترین مقام دیتے ہیں ،اس لئے اگر کوئی وید کی مذمت کرے تو اس کی سزا ملک بدری ہے۔ (منو باب دوم )
برہمن کی توہین کرنے سے اچھے خاندان بھی تباہ ہوجاتے ہیں ۔اس کے برخلاف اگر کوئی برہمن کے لئے اپنی جان کی قربانی دے تو وہ فوراً پاک ہوجاتاہے ۔
جو برہمن اور گائے کے لئے مرے تو ان کی فوراً تطہیر ہوجاتی ہے ۔(منو۵:۹۵)
ہندو مذہب کے دیگر دھرم شاسترو ںمیںبھی برہمن اور دیوتاؤں کی مذمت کے خلاف سخت احکامات دیے گئے ہیں ۔
اس کے علاوہ ہندوستان کے نظام حکومت کی سب سے اہم رہنما کتاب ارتھ شاستر نے ظلم واستحصال پر مبنی نظام کے خلاف بولنے سوچنے اور رائے رکھنے والوں کے خلاف سزا ئیں اور اقدامات تجویز کئے ہیں ۔ ان میں سے ایک حوالہ مندرجہ ذیل ہے:
’’حاکم دیوتا کو چاہیے کہ وہ قلعہ اور ملک کے دیو مندروں کی آمدنی کو ایک جگہ جمع کرکے رکھے اور پھر اسے راجا کو دے دے ۔ کسی مشہور مقدس مقام پر ’’ زمین کو پھاڑ کر دیوتا نمو دار ہوا ہے ‘‘ ایسی افواہ پھیلا کر رات میں وہاں دیوتاکی ایک بیدی بنوادی جائے اور میلا لگواکر زائرین اور ناظرین سے وہاں خوب نذر چڑھوائی جائے اور اسے راجا لے لے۔ بغیر موسم کی مندر اور باغ میں کسی درخت پر پھل یا پھول پیدا کرا کر یہ شہرت کرادی جائے کہ یہ تو دیومہما ہے یا سِدّھوں کے لباس میں گھومنے والے خفیہ اہل کار کسی درخت پر بیٹھ کر ’’ مجھے روزانہ ایک ایک انسان چاہیے ورنہ سب کو ایک ہی ساتھ کھا جائو ں گا ‘‘ ۔ ایسا راکشس کاوانک بنایا جائے ، اس کو بے اثر کرنے کے لئے عوام سے چندہ جمع کیا جائے اور وہ مال سرکاری خزانہ میں رکھا جائے یا کسی سوراخ والے کوئیں میں تین یا پانچ سِر والے بناوٹی ناگ کو دکھایا جائے اور اس کو دکھانے کے بدلے میں زائرین سے فیس لی جائے ، پھر اس مال کو سرکاری خزانے میں ڈال دیا جائے یا کسی مندر یا بالمیکی میں سانپ اچانک دکھا کر اسے منتر یا دواسے قابو میں کرلیا جائے اور یہ کہتے ہوئے عقیدتمندوں کو اس کے درشن کرائے جائیں کہ دیکھو دیوتا کا کیسا کمال ہے ۔ جو اشخاص اس پر یقین نہ کریں انہیں چرنامرت کے ہمرا ہ اتنا زیرہ دیا جائے کہ وہ بے ہوش ہوجائیں، پھر یہ مشہور کیا جائے کہ یہ ناگ دیوتا کی بد دعا ہے ، جو شخص دیوتا کی مذمت کرے اسے سانپ سے کٹوادیا جائے۔اور اس کو بھی دیوتا کی ہی بد دعا بتائی جائے ۔
(کوٹلیہ ارتھشاستر، پر کرن ۹۰باب دوم ، چَو کھمبا پرکاشن ، وارانسی )
ہندو مقدس کتابوں میں برہمن کو زمینی دیوتا کہا گیا ہے ۔ جس کاترجمہ زمین کا مالک بھی کیاجاسکتا ہے ۔ ایک پجاری کی حیثیت سے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ خدا کی ناتھ یعنی ناک ’ناک کی رسی‘ اپنے قابو میں کرلیتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کبھی اس کا مطلب یہ رہا ہو کہ برہمن نے اپنی ناتھ خدا کے ہاتھ میں دے دی ہے ۔ لیکن برہمن نے اپنے آپ کو خدا سے بالا تر قرار دینے کے لئے خدا کو قابو میں کر لینے کادعویٰ کیا ۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *