متحدہ ہندوستان میں تحریک اہانتِ رسولﷺ

لحم خنزیر کھانے اور ام الخبائث پینے والا فرنگی،مکار ہم وطن اور انگریز کی ناجائز اولاد قادیانی سمجھ بیٹھے تھے کہ پیہم غلامی اور فرنگی تہذیب کے مسلسل کاری حملوں سے ہندوستان کے مسلمان پر موت کا سکوت طاری ہے۔ اس کی ایمانی نبضیں ڈوب چکی ہیں ۔اس کے قلب کی اسلامی دھڑ کنیں خاموش ہوگئی ہیں ۔اس کے ماتھے کی حدت ،ٹھنڈ ک میں بدل گئی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کا آخری ٹیسٹ لینا چاہا تاکہ اس کے بعد اسے سپرد خاک کر دیا جائے۔انہوں نے ہندوستان میں شتم رسول کی تحریک چلادی۔مختلف شہروں سے ناموس رسالتؐ پہ کتے بھونکنے لگے۔غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مسلمانوں نے ایک بھرپور انگڑائی لی اور شیروں کی طرح ان کتوں پر پل پڑے ان کا ایسا حشر کیا کہ ہر ایک کو عبرت کی مثال بنا دیا۔
راجپال نے توہین رسالت کی ،ملت اسلامیہ کا شیر غازی علیم الدین شہید اس پے جھپٹا اور اسے چیر پھاڑ کے رکھ دیا۔۔۔۔رام گوپال نے سرورکائنات ﷺ کی شان میں گستاخی کی ۔۔۔غازی مرید حسین اس پہ لپکا اور اسے راہی ملک نار کیا۔۔۔سوامی شردھانند نے ہذیان بکا۔۔۔غازی عبدالرشید نے اسے جہنم واصل کیا۔۔۔نتھو رام نے دریدہ دہنی کی ۔۔۔۔غازی عبدالقیوم نے اسے ابو جہل اور ابو لہب کے پاس پہنچا دیا ۔۔۔چنچل سنگھ نے بکواس کیا ۔۔۔غازی عبداللہ نے ایک ہی وار میں اسے ہاویہ میں پٹخا دیا۔۔۔کھیم چند گنبد خضراء کی طرف منہ کر کے بھونکا۔۔۔غازی منظور حسین نے اس جہنمی کتے کو اس کے دیس میں پہنچا دیا۔۔۔پالامل نے اپنا متعفن منہ کھولا۔۔۔تو۔۔۔غازی محمد صدیق نے اسے موت کا رقص کرایا۔۔۔اور اسے جہنم کے لپکتے بھوکے شعلوں کی خوراک بنا دیا۔۔۔۔ملعون بھیشو نے ہرزا سرائی کی ۔۔۔تو۔۔۔غازی عبدالمنان نے اسے موت کے گھاٹ اتارا۔۔۔۔۔۔چرن داس نے جب اپنے غلیظ منہ سے غلاظت اگلی۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔غازی میاں محمد نے اس کے وجود کو ادھیڑدیا اور اسے اللہ کے شدید انتقام کے سپرد کر دیا ۔۔۔۔۔۔جب ویداسنگھ نے زہر میں ڈوبی ہوئی اپنی بچھو نمازبان کھولی ۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔غازی احمد دین نے اسے قتل کر کے ملت اسلامیہ کے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچائی ۔۔۔ہر دیال سنگھ جب قصر نبوت کی طرف پھنکارا۔۔۔تو غازی معراج دین نے اس کی زبان مروڑدی ۔۔۔گردن توڑ دی۔۔۔۔۔۔جب عبدالحق قادیانی نے زہر اگلا۔۔۔۔۔۔ حاجی محمد مانک اس پر رعد بن کے کڑکا۔۔۔۔۔۔اور اسے نار جہنم میں بیٹھے مرزا قادیانی کی جھولی میں پھینک دیا۔۔۔ جب نعمت احمر حرمت رسولؐ پہ حملہ آور ہوا۔۔۔تو غازی فاروق نے اسے خاک وخون میں تڑپایا۔۔۔۔۔۔ اور اسے دوزخ کی اتھاہ گہرائیوں میں جھونک دیا۔۔۔۔۔۔!!!
ان عظیم عاشقان رسولؐنے صحابہ کرام ؓ اور قرون اولیٰ کے فنافی الرسول ؐ مجاہدین کو مخاطب کر کے کہہ دیا کہ ہم آپ سے شرمندہ نہیں ۔ہم نے گلے میں غلامی کا طوق ،ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں پہننے کے باوجود گستاخان رسول سے وہی سلوک کیا جو اپنے عہد میں تم کیا کرتے تھے۔ ہم نے اس کسمپرسی کے عالم میں بھی اپنے آقاﷺ سے بے وفائی نہیں کی ۔
ان شہیدوں نے ماں باپ کے بڑھاپوں کے سہاروں کی پرواہ نہ کی …بیویوں کے سہاگ اجڑنے کو خاطر میں نہ رکھا …بچوں کی یتیمی ان کے رستے میں رکاوٹ نہ بنی…مال و اسباب کی کشش ان کے پاؤں کی زنجیر نہ بن سکی…حتیٰ کہ انہوں نے اپنی متاع زیست بھی سرور کونین ؐ کی عزت پر نچھاور کر دی…وہ دار پہ جھولتے ہوئے اپنی خاموش زبان سے یہ اعلان کر رہے ہوتے تھے :
’’اے دنیا ! دیکھو ۔… ہمیں اپنے آقا ﷺ اپنے والدین سے زیادہ پیارے ہیں۔ہمیں اپنے آقا ﷺ اپنے بچوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ہمیں اپنے آقاﷺ دنیا کی رعنائیوں اور دنیا کے مال و اسباب سے زیادہ عزیز ہیں ۔ہمیں اپنے آقا ﷺ اپنی جان سے زیادہ قیمتی ہیں ۔
جب ان شہیدوں کو پھانسی سے نیچے اتار اجاتا تو ان کی کھلی آنکھوں میں ایسی چمک ہوتی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہو جاتیں…کیونکہ وہ ان آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار کر چکے ہوتے تھے۔ان کے لبوں پر ایک دلآویز مسکراہٹ ہوتی…کیونکہ وہ چہرۂ مصطفی ﷺ کی زیارت کر چکے ہوتے تھے ۔ان کے چہرے پر طمانیت کا نور ہوتا… کیونکہ وہ جنت میں اپنا مقام عالی شان دیکھ چکے ہوتے تھے…مسلمانوں ! یہ مجاہدینِ ناموس رسالت ،ملت اسلامیہ کی آبرو ہیں۔…یہ اسلام کے چہرے کا غازہ ہیں ۔اسلام اپنے ان فرزندوں پہ ناز کرتا ہے ۔انہوں نے اپنی جانیں نثار کرکے ہندوستان میں اسلام کو حیات بخشی ۔انہوں نے پھانسی پہ جھول کے ہمیں غیرت رسول کا عملی درس دیا۔انہوں نے موت کو گلے لگا کر ہمیں یہ پیغام دیا ۔… کہ …مسلمانو! جب تک زندہ رہو اللہ کے حبیب ﷺ کے کسی گستاخ کو زندہ نہ رہنے دینا۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *