صہیونی جیلوں میں فلسطینی خواتین

العربیہ ڈاٹ نیٹ نے فلسطین میں اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں فلسطینی خواتین کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں اور مظالم پر ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۱۹۴۸ء کے بعد سے اب تک فلسطین، اسرائیل تنازعہ بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ کشمکش کے ان چھ عشروں میں آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو حوالۂ زنداں کیا گیا۔ ان میں ۱۰ ہزار خواتین بھی شامل ہیں، جنہیں حراستی مراکز میں منتقل کیے جانے کے بعد طرح طرح کے مظالم اور زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی جیلوں میں خواتین کے ساتھ بد سلوکی کے ایسے چند واقعات منظر عام پر آئے ہیں، جن کے مطابق قیدی خواتین کے ساتھ جنسی تشدد،عریاں تفتیش، لالچ اور دھونس کے ذریعہ بلیک میلنگ اور تحقیقات کے دوران وحشیانہ تشدد جیسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔فلسطینی عورتیں جرأت و ہمت کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہیں۔فلسطین کی آزادی کی تحریک انہی خواتین کے جذبوں اور قربانیوں سے پروان چڑھ رہی ہے۔ انہی خواتین نے وہ نڈر بیٹے پروان چڑھائے ہیں جو نسل در نسل عزیمت و بہادری کے نقوش ثبت کر رہے ہیں۔فلسطین کی کتنی مائیں ہیں جن کی گودیں اجڑ گئی ہیں،کتنی سہاگنیں بیوہ ہو گئی ہیں اور کتنی بہنیں ہیں جن کے بھائی لہو رنگ کفن اوڑھ کر فلسطین کی مٹی میں مٹی ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ پھر بھی آزادی اور حریت کے راستے پر گامزن ہیں۔
یہ فلسطینی عورتیں فقط گھر میں مردوں، بیٹوں اور بھائیوں کی کمر ہمت نہیں باندھتیں بلکہ ان میں سے بہت سی خواتین صہیونیوں جیلوں میں بھی اذیتیں برداشت کر رہی ہیں،لیکن آزادی کا راستہ ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ آئیے اسرائیل کے ہاتھوں ستم در ستم اٹھانے والی ان مظلوم فلسطینی خواتین کا کچھ ذکر کرتے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیم کے ڈائریکٹر ریاض الشتر نے مقبوضہ بیت المقدس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے فلسطینی خواتین پر یہودی عورتوں کے حملے کے لیے ’ھشارون‘جیل کی مثال پیش کی، جہاں ایک شدت پسند یہودی مجرمہ نے فلسطینی اسیرہ کا گلا گھونٹ کر اسے مارنے کی کوشش کی تھی۔انسانی حقوق کی تنظیم کے مندوب کا کہناتھا کہ وہ پہلے بھی ھشاورن جیل میں فلسطینی قیدی خواتین کی جانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے خبر دار کر چکے ہیں۔ اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت قید فلسطینی اسیرات کو تکلیف پہنچانے کے لیے ان کی بیرکوں میں اسرائیلی جرائم پیشہ خواتین کو منتقل کر دیاگیا ہے۔
اس کارروائی کے بعد جرائم پیشہ خواتین کی جانب سے بے گناہ فلسطینی اسیرات سے بدسلوکی کے واقعات بھی پے در پے رونما ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطینی قیدی خواتین کی یونٹ میں مختلف قسم کے کیڑے مکوڑے اور حشرات موجود ہیں۔ قابض اسرائیلی بدنام زمانہ جیلوں ھشاورن اور تلمون میں زیر حراست قیدیوںپر بہیمانہ تشدد کر رہے ہیں۔یہ خواتین قیدی عالمی سطح پر قیدیوں کو فراہم کردہ ادنیٰ درجے کے حقوق سے بھی محروم ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے ذرائع کے مطابق ’منڈیلا ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن‘کی مندوب برائے مقبوضہ فلسطین نے اسرائیلی دورے کے بعد واپسی پر رملہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسرائیلی جیلوںمیں خواتین کی جس حالت زار کا مشاہدہ کیا وہ ناقابل بیان ہے۔جیلوں میں اسرائیلی تفتیش کار خواتین قیدیوں پر بد ترین وحشیانہ سلوک روا رکھتے ہیں۔ دوران تفتیش انہیں اذیت ناک طریقوں سے سزائیں دی جاتی ہیں۔ کئی خواتین تکلیف دہ امراض میں مبتلا ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے انہیں کسی قسم کے علاج معالجے کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ قیدی خواتین کے عزیز و اقارب کی طرف سے آنے والی ادویات اور دیگر اشیاء کوبھی ان تک نہیں پہنچنے دیا جاتا۔جیلوں میں کئی خواتین سرطان جیسے موذی امراض میں مبتلا ہیں لیکن ان کے معاملے میں بھی صہیونی حکمراں سختی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کئی اسیرات کے ڈاکٹروں نے سرجری کی سفارش کی ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطالبات کے باوجود اسرائیلی جیل انتظامیہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔بنیادی ضروریات زندگی سے محروم اسرائیلی جیلوں میں ظلم کی چکی میں پستی فلسطینی خواتین کی اعلان شدہ تعداد۔۔۔۔ بتاتے ہیں جب کہ غیر جانب دار ذرائع اس سے کہیں زیادہ تعداد بتاتے ہیں۔ ان میں بہت سی سالہا سال سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔
۳۴ سالہ فلسطینی خاتون قیدی قاہر سعید علی اسعدی کو اسرائیلی عقوبت خانوں میں دس سال بیت گئے ہیں۔ تین مرتبہ عمر قید کے ساتھ۳۰ سال کی اضافی قید سزا پانے والی اس فلسطینی مجاہدہ نے اب اپنے گیارہویں سال کا آغاز صہیونی جیل میں کیا ہے۔خاتون قیدی اسعدی کو ۸؍جون ۲۰۰۲ء کوگرفتار کیا گیا تھا،یہ مجاہدہ چار بچوں کی ماں ہے، جن میں ۱۷؍سال سے کم عمر محمد اور ساندی کو اس بنا پر والدہ سے ملاقات سے روکا جاتا ہے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں۔ ان پر ماں سے ملنے پر یہ پابندی گزشتہ دو سال سے جاری ہے۔اسعدی کو ان کے گھر سے اغوا کے فوراً بعد شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں ۹؍دن زیر زمین عقوبت خانے کے انتہائی برے حالات سے گزار کر تلموند کی عورتوں کی جیل میں منتقل کیا گیا۔ہر طرح کے ظلم وستم سہہ کر بھی فلسطینی قیدی خاتون نے بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اسعدی کے علاوہ چار خواتین اور بھی ہیں جن کو عمر قید کی سزاسنائی گئی ہے۔ان میں سے ایک کو ۱۶؍مرتبہ جب کہ ۳؍ کو ایک ایک مرتبہ عمر قید دی گئی ہے۔ان جیلوں میں ظالمانہ سزاؤں کے ساتھ قابض اسرائیلی فوج کے اضافی مظالم نے ان کی زندگیاں مزید تلخ کردی ہیں۔انہی مظالم میں سے ایک شرم ناک حرکت اسرائیلی فوجیوں نے یہ کی کہ تفتیش کے دوران فلسطینی خاتو ن کے ساتھ عصمت دری کر کے اس کی ویڈیو بنا کر یو ٹوب پر اسے چلا دیا، جس میں فلسطینی خاتون کے ہاتھ باندھ کر اس کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اسے نظر بند رکھا گیا اور اس کے گرد اسرائیلی فوجی نشے کی حالت میں رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اس کی ویڈیو بھی بناتے ہیں۔
شرم ناک ویڈیو کے پس منظر میں مشرقی موسیقی کی دھن چلائی گئی ہے۔ اس فلسطینی خاتون کو ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۷ء کو الخیل سے قابض اسرائیلی فوجیوں نے گرفتار کیا تھااس کی رہائی کے بعد یہ شرم ناک ویڈیو منظر عام پر آئی۔ خاتون کا کہنا تھا کہ جب اس نے یہ فوٹیج دیکھی تو اسے حد درجہ شرمندگی محسوس ہوئی، وہ ایک لمحے کے لیے بھی سو نہیں سکی۔ مکروہ کردار کے حامی یہودی فوجیوں نے اس کی ویڈیو بنا کر اپنی اس شرم ناک حرکت کو خود بے نقاب کیا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموںکی جانب سے جیلوں میں فلسطینی اسیرات کے ساتھ بد سلوکی کے بارے میں اسرائیلی فوج کے خلاف خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے جیسے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ تاہم یہ شکایات جیلوں میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے اعتبار سے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ مغربی میڈیا عام طور پر فلسطینی خواتین پر ہونے والے ظلم کی خبروں کو نظر انداز کر دیتا ہے تاکہ مغرب کے عوام کو اندازہ نہ ہو سکے کہ مغرب کی استعماری حکومتیں جس اسرائیل کی ناز برداریاں کر رہی ہیں، وہ وحشت و دہشت کے کیسے ہولناک طریقے فلسطین کے اصلی باسیوں کو دبانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ خواتین پر ہونے والے مظالم کی حقیقت اگر دنیا کے عوام پر با لخصوص آشکار ہوجائے تو یقینا وہ اپنے حکمرانوں پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ اسرائیل کی نا زبرداریوں کو ترک کر دیں اور اپنے عوام کے ٹیکسوں کے ایک قابل ذکر حصے کو ظالم صہیونیوں کی حمایت پر خرچ نہ کریں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی سطح پر یوم القدس مناتے ہوئے اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں فلسطینی عوام با لخصوص خواتین اور بچوں پر ہونے والے بہیمانہ تشدد کو دنیا کے عوام پر آشکارا کیا جائے، تاکہ انسانیت کے اس ناسور کے خاتمے کے لیے دنیا بھر کے عوام یکسو ہو سکیں

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *