کیسے بنایا ہتھیار؟ مالیگاؤں میں مسلمان کو مسلمان کے خلاف

ملک میں پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کی مسلم دشمنی کوئی نئی بات نہیں ۔آئے دن ایسے واقعات روشنی میں آتے رہتے ہیں ،جن سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کو کس طرح پولیس جھوٹے معاملات میں پھنسا کر جیل بھیجتی رہتی ہے ۔یہی سبب ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں آج تقریباً سو فیصد مسلمان ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ملک میں خواہ کسی بھی مقام میں کوئی دہشت گردانہ واقعہ ہو ، بغیر کسی تفتیش کے مسلمانوں کو گرفتار کر لینا پولیس کی روایت کا حصہ بن چکا ہے ۔ممبئی سے لے کر دربھنگہ، بنگلور سے لے کر دہلی تک اس قسم کے واقعات بار بار سامنے آتے رہتے ہیں ،مگر کبھی بھی حکومت نے اس کی روک تھام کی کوشش نہیں کی۔جب مسلمان ،وزیراعظم منموہن سنگھ،سونیا گاندھی یا وزیر داخلہ و ریاستوں کے وزراء اعلیٰ سے ملاقات کرتے ہیں ،تو وہ اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں ،گویا یہ سب ان کی جانکاری سے باہر ہو رہا ہو۔وہ یہ بھی بیان دیتے ہیں کہ کسی بے قصور مسلمان کو گرفتار نہیں کیا جائے گا، مگر دوسرے ہی دن کسی کو لشکر طیبہ کا ممبر بتا کر گرفتار کر لیا جاتا ہے ،تو کسی کو انڈین مجاہدین کا دہشت گرد قرار دے کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے ۔اب تک ہزاروں مسلم نوجوان اسی قسم کے الزامات میں جیل میں بند ہیں ۔بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی طرح کئی فرضی انکاؤنٹر اس ملک میں ہوتے رہے ہیں ،جن کا شکاربھی مسلمان ہی ہو رہے ہیں ،مگر آج بھی ان کی نہ تو عدالتی تفتیش ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی سماعت ہوتی ہے۔پولیس خود ایک منظم غنڈہ گروہ بن چکی ہے ،جس کے خلاف کہیں کوئی تفتیش نہیں ہوتی۔غنڈوں کو بھی خوف رہتا ہے ،مگر جب پولیس ہی غنڈہ گردی کرنے لگے تو داد رسی کس عدالت میں کی جائے؟کئی واقعات ایسے بھی سامنے آئے جب پولیس نے نوجوانوں کو پہلے تو مخبر بنایا اور پھر انہیں دہشت گردی کے کیس میں پھنسا دیا۔مالیگاؤں (مہاراشٹر)کے ابرار احمد کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
ابرار احمد (40)مالیگاؤں کے ایک ایسے گھر میں رہتا ہے ،جس میں نہ کوئی کال بیل ہے اور نہ ہی کوئی نمبر درج ہے۔اس کے گھر کو ڈھونڈ نکالنا آسان کام نہیں ۔ویسے وہ بھی نہیں چاہتا ہے کہ مالیگاؤں کے لوگ اس کے گھر کی طرف آئیں۔وہ ملنے جلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ابرار احمد 6سال پہلے ایک وانٹیڈ بن گیا ،جب مالیگاؤں میں سیریل بلاسٹ ہوئے اور 31افراد نے اپنی جانیں گنوادیں۔8ستمبر 2006کے ان دھماکوں کی تفتیش اے ٹی ایس نے شروع کی اور جلد ہی یہ خبر میڈیا میں آئی کہ اس نے اس معاملے کو حل کر لیا ہے۔مہاراشٹر اے ٹی ایس نے اسے اصل چشم دید گواہ بنایا تھا،مگر حقیقت میں وہ پولیس کا مخبر تھا۔اصل میں 9/11کو امریکا میں ہوئے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملے کئے اور اس تباہ شدہ ملک کومزید تباہی کی طرف دھکیلنا شروع کیا تو مالیگاؤں کے مسلمانوں نے بھی صدائے احتجاج بلند کی۔انہوں نے مظاہرے کیے اور ایسا ہی ایک احتجاج تشدد میں بدل گیا۔پولیس نے مسلمانوں پر فائرنگ کر کے کچھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اس کے بعد مسلمانوں کے اندرونی معلومات کی جانکاری لینے کے لیے ان کے اندر مخبروں کے جال بچھا دیے گئے۔ مسلمانوں کو ہی اس کے لیے تیار کیا گیا کہ وہ مسلم محلوں کی خبریں لا کے پولیس کو دیں ،چنانچہ ابرار احمد بھی ایسے ہی مخبروں میں سے ایک تھا۔وہ مسلم محلوں کی خبریں لا کر دیتا تھا اور ان کی بنیاد پر پولیس مسلم محلوں میں مہم چلایا کرتی تھی۔چنانچہ جب 8ستمبر کو مالیگاؤ ں میں بم دھماکے ہوئے تو پولیس نے کچھ مسلم نوجوانوں کو حراست میں لے لیا اور گواہ بنایا گیا ابرار احمد کو ۔گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں پر مقدمے چلنے لگے اور ان کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل کر دی گئی ۔یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ مہارشٹر اے ٹی ایس کی کمان ہیمنت کرکرے نے سنبھالی اور انہوں نے اصل مجرموںکو بے نقاب کر دیا ۔ہیمنت کرکرے کی تفتیش کے مطابق ان دھماکوں کے لیے ابھینو بھارت نامی ایک تنظیم کے لوگ ذمہ دار تھے۔اس تنظیم کا آر ایس ایس سے تعلق تھااور بعد میں جن لوگوں کی گرفتاری ہوئی ان میں کرنل پروہت،سادھوی پرگیہ سنگ ٹھاکر اور سوامی اسیما نندسمیت کچھ دوسرے لوگ شامل تھے۔تفتیش میں یہ بھی پتہ چلا کہ اس گروہ نے حیدرا ٓباد کی مکہ مسجد،اجمیر شریف درگاہ اور سمجھوتہ ایکسپریس میں بھی بم دھماکے کیے تھے۔
اب یہ سوچا جا رہا ہے کہ اگر تفتیش ابتدا ء ہی میں غلط راستوں پر نہیں چل پڑتی تو بعد میں ہونے والے سمجھوتہ ایکسپریس کے بلاسٹ کو روکا جا سکتا تھا۔ابرار احمد کا کہنا ہے کہ پولیس کو پتہ تھا کہ جن نو مسلموں کو بلاسٹ کیس میں پکڑا جا رہا ہے ،وہ بے قصور ہیں۔اگر پولیس نے پہلے ہی درست خطوط پر تفتیش کی ہوتی تو ابھینو بھارت کے ذریعہ ہونے والے دیگر نقصانات سے بچایا جا سکتا تھااور بہت سے معصوموں کی زندگیاں بچائی جا سکتیں تھیں ،ابرار کا کہنا ہے کہ میں قصور وار ہوں کچھ زندگیوں کی بربادی کے لیے لیکن تب میں نہیں سمجھ پایا تھا کہ میں کیا کر رہاہوں۔
اسکول میں ہی اپنی پڑھائی کو ادھوری چھوڑ دینے والے ابرار احمد کی زندگی 2001تک بے مقصد تھی ،مگر اس کے بعد پولیس نے اسے اپنا مخبر بنا لیا اور وہ پولیس کے لیے مخبری کرنے لگا۔وہ ڈائریکٹ پولیس کے اعلی افسران اور اے ٹی ایس کے لوگوں سے متعلق رہنے لگا۔اس کے لیے اسے موبائل فون بھی مہیا کرا یا گیا ،اپنی بات کے ثبوت کے طور پر ابرار احمد کے پاس کئی ثبوت موجود ہیں۔اس کی تصویریں ہیں اعلی افسران کے ساتھ اور ان کے بچوں کے ساتھ۔یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک کہ مالیگاؤں بلاسٹ NIAنے اپنے ہاتھوں میں نہیں لے لیا۔
ابرار احمد کا دعویٰ ہے کہ مالیگاؤں کے پہلے بلاسٹ کے بعد اس نے اپنے بہنوئی فاروق واردھا کومطلع کیا تھا کہ بھیونڈی میں ایک مخبر نے اطلاع دی ہے کہ اس نے کچھ لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ مہاراشٹر ،گجرات اورمدھہ پردیش میں کچھ بلاسٹ ہونے والے ہیں ۔اس سے بھی زیادہ چونکانے والا دعویٰ اس نے یہ کیا کہ اس نے لیفٹیننٹ کرنل پرساد شری کانت پروہت(سابق ملٹری انٹلی جنس افسر)اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر سے ملاقات کی تھی۔ اس نے بتایا کہ میں نے پروہت سے 22اکتوبر 2006کو دیولالی (ناسک)میں ملاقات کی تھی۔اس کے مطابق ملاقات کے وقت ارون بارو ٹ اور سدانند پاٹل بھی پروہت کے ساتھ موجود تھے۔کورٹ ڈاکومینٹس کے مطابق اے ٹی ایس نے ابرار کے فون کی نگرانی شروع کی تھی ۔یہ نمبر تھا9823436809۔نگرانی میں اس کی جو بات چیت گرفت میں آئی تھی اس کے مطابق وہ دہشت گردوں کے رابطے میں تھا۔یہ بات چارج شیٹ میں بھی کہی گئی تھی۔سرکاری دستاویز کانمبر HD/CPM/ATS/576/2006جب کہ ابرار احمد کا کہنا ہے کہ اسے سیل فون ATSنے دیا تھا،تاکہ وہ پولیس سے رابطے میں رہے اور خبریں دیتا رہے۔اب NIAنے تفتیش میں اس کے رابطے کی تفصیلات اور اس کے لوکیشن کو کنھگالا ہے ۔NIAکی تفتیش کے مطابق بہت سے ایسے فوٹو گرافس دستیاب ہوئے ہیں جو ATSکے افسران سے اس کے تعلقات کوظاہر کرتے ہیں ۔ایک تصویر میں ابرار ایک ATSافسر اور اس کے بیٹے کے ساتھ نظر آرہا ہے ۔ ایک دوسری تصویرمیں اس کی بیوی جنت النساء پولیس کی گاڑی میں نظر آرہی ہے ،ایک RTIسے ملی جانکاری کے مطابق ATSکانسٹیبل سدا شیو ابھینو پاٹل (ناسک)نے ابرار احمد کو اس وقت منی آرڈر ارسال کیا تھا جب وہ بھائکلہ جیل میں تھا۔مذکورہ کانسٹیبل نے اسے اپنے ہی پتہ سے اگست،ستمبر اور نومبر 2008میں منی آرڈر بھیجا تھا،کانسٹیبل پاٹل کا رہائشی پتہ پولیس ہیڈ کوارٹر ناسک کا ہے۔
ابرار احمد کچھ پولیس افسران کا نام لیتا ہے جن میں کے پی رگھوونشی شامل ہے جو اس وقت ATSچیف تھے،مگر اب کیبنیٹ سکریٹری کے جوائنٹ سکریٹری ہیں ۔راجے وردھن جو اس وقت مالیگاؤں کے پولیس کمشنر تھے،مگر اب اکنامکس آفینس ونگ ممبئی میں ایڈیشنل پولیس کمشنر کے عہدے پر ہیں۔رگھو ونشی اس بات سے انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اسے اس لیے گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ ٹیرریسٹ سیل کا حصہ تھا۔اس کیس کی تفتیش اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس بی ایس پسریجہ کی نگرانی میں ہوئی تھی۔وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کی تفتیش نہیںکہ تھی بلکہ ان کے ماتحت دو افسروں رگھوونشی اور جیسوال نے کی تھی،جو بے حد قابل پولیس افسران ہیں ۔میں یقین نہیں کر سکتا کہ انہوں نے سبوتاژ کی کوئی کوشش کی ہوگی یا تفتیش کو غلط راستے پر ڈالا ہوگا۔ان پر تفتیش کے تعلق سے کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا۔راجے وردھن اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ میں تفتیشی افسر نہیں تھا،بلکہ مالیگاؤں کا ایڈیشنل سپرنٹنڈ نٹ آف پولیس تھا،انہوں نے کہا کہ ابرار احمد کے الزامات نئے نہیں ہیں اس نے ٹرائل کے درمیان بھی اسی قسم کے الزامات لگائے تھے۔[مگر اب عدالت کے ذریعہ ان کو بری کرنے اور اسیمانند کے اعترافِ گناہ اور خود تفتیشی ایجنسیوں کے انکشافات سے ثابت ہوچکا ہے کہ پولیس افسران سراسر دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں اور حقیقت وہی ہے جس کا برملا اظہار ابرار احمد کررہے ہیں۔ ادارہ]٭٭

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *