زلزلے کیوں آتے ہیں؟

اللہ کے رسول ﷺ نے قرب قیامت کی جو بے شمار نشانیاں بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں زلزلوں کی کثرت ہوگی۔ کسی زمانے میں جب کہیں سے یہ اطلاع آتی تھی کہ فلاں جگہ زلزلہ آیا ہے اور اتنے لوگ اسکے نتیجے میں لقمۂ اجل بن گئے ہیں تو دیندار اور خوفِ خدا رکھنے والے لوگ توبہ استغفار کرنے لگتے تھے کہ اللہ کے نبی ﷺ کی احادیث مبارکہ کی رو سے یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ مگر آج کل روزانہ ہی کہیں نہ کہیں زلزلے نمودار ہورہے ہیںاور ان کے نتیجہ میں جانی اور مالی خسائر وقوع پزیر ہوتے رہتے ہیں مگر لوگوں کے دلوں میں اس بات کا خوف جاگزیں نہیں ہوتا کہ زلزلوں کا اس شدت کے ساتھ آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے بلکہ دلوں پر خوف کی جگہ ایک بے حسی کی کیفیت طاری ہوچکی ہے اور نصیحت حاصل کرنے کی بجائے تجاہل سے کام لیا جانے لگا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سورۃ الزلزال میں وقوع قیامت کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی:(سورۃ الزلزال۔ آیۃ ۱) مفسرین اس آیت سے یہ معنی لیتے ہیں کہ اس وقت زمین کا کوئی مخصوص حصہ نہیں بلکہ پورے کا پورا کرۂ ارض ہلا دیا جائے گا جس کے نتیجہ میں دنیا کا وجود ختم ہو جائے گا۔ مگر اس عظیم زلزلہ کے واقع ہونے سے پہلے پیغمبرِ اسلام ﷺ کے فرمان کے مطابق زمین کے مختلف حصوں پر زلزلوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یہ سب کچھ اللہ کی مشیت اور حکم سے ہوگا۔ مگر چونکہ ہر کام کے ہونے کی کوئی منطقی وجہ اور اسباب ہوتے اسی طرح سائنسدانوں نے زلزلوں کے وقوع پزیر ہونے کے اسباب بھی تلاش کرلئے ہیں۔ جس طرح بارش اللہ کے حکم سے ہی برستی ہے اور بادل رب کے حکم سے سمندروں سے پانی لے کر جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے وہاں برستے ہیں اور اس طویل عمل کو سائنسدانوں نے مختلف تماثیل کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سورج کی تمازت سے سمندر کا پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور کس طرح وہ بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے اور کیسے بارش ہوتی ہے۔
پہلے وقتوں میں جب سائنس اور ٹکنالوجی کا وجود نہیں تھا اور تحقیق کے باب نہیں کھلے تھے تو مختلف ادوار میں مختلف اقوام زلزلوں سے متعلق عجیب و غریب نظریات رکھتی تھیں۔ کسی قوم کا یہ نظریہ تھا کہ ایک طویل و عریض چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اسکے حرکت کرنے کی وجہ سے زمین ہلتی ہے۔ مذہبی عقیدے کی حامل قوم کا یہ خیال تھا کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کو زمین ہلا کر ڈراتا ہے۔ اسی طرح ہندو دیومالائی تصور یہ تھا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو اس کے نتیجہ میں زمین ہلتی ہے۔ جبکہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات کچھ ملتے جلتے تھے جن کے مطابق زمین کی تہوں میں موجود ہوا جب گرم ہوکر زمین کی پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔
سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے اور اس طرح ہر نئے سانحے کے اس کے اسباب کے بارے میںجاننے کی جستجو نے پرانے نظریات کی نفی کردی ہے۔ یوں تو بہت سی قدرتی آفات کے ظہور پزیر ہونے سے پہلے پیشگی اطلاع فراہم ہو جاتی ہے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باعث کافی بڑے جانی و مالی نقصانات سے بچا جا سکتا ہے، مثلاً سمند ر میں بننے والے خطرناک طوفانوں، ان کی شدت اور ان کے زمین سے ٹکرانے کی مدت کا تعین سٹیلائیٹ کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے اور اس سے بچائو کی تدابیر بروقت اختیار کی جاسکتی ہیں مگر زلزلہ کی آمد نہایت خاموشی سے ہوتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ایک داستان رقم کرکے جا چکا ہوتا ہے۔ بے شک ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو زلزلہ کے گذر جانے کے اس کی شدت ، اس کے مرکز اور آفٹر شاکس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں۔
ماہرین ِ ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں۔ ایک وجہ زیر زمین پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے اور دوسری وجہ آتش فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے۔ زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختل گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیںٹائٹینک پلیٹس کہتے ہیں۔ ان پلیٹوں کے نیچے ایک پگھلا ہوا مادہ جسے میگما کہتے ہیں موجود ہوتا ہے۔ میگما کی حرارت کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے۔ جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دھنس جاتا ہے اور کچھ اوپر کو ابھر جاتا ہے۔ جس سے زمین پر بسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی ہے۔ زلزلہ کی شدت اور دورانیہ کا انحصار میگما کی حرارت اور اسکے نتیجہ میں پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پر ہے۔
اسی طرح جب آتش فشاں پھٹتے ہیں تو لاوا پوری شدت سے زمین کی گہرائیوں سے سطح زمین کی بیرونی تہوں کو پھاڑتا ہوا خارج ہوتا ہے جس سے زمین کی اندرونی پلیٹوں میں شدید قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لہریں زیر زمین تین سے پندرہ کلومیڑ فی سکنڈکی رفتار سے سفر کرتی ہیں اور ماہیت کے حساب سے چار اقسام میں ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ دو لہریں زمین کی سطح کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں جبکہ دیگر دو لہریںجن میں سے ایک پرائمری ویو اور دوسری سیکنڈ ری ویو ہے، زیرِ زمین سفر کرتی ہیں۔ پرائمری لہریں آواز کی لہروں کی مانند سفرکرتی ہوئی زیر زمین چٹانوں اور مائعات سے گزر جاتی ہیں جبکہ سیکنڈری ویوز کی رفتار پرائمری ویوز کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں اور وہ صرف زیر زمین چٹانوں سے گذر سکتی ہیں۔ سیکنڈری ویوز زمینی مائعات میں بے اثر ہوتی ہیں مگر وہ جب چٹانوں سے گذرتی ہیں تو ایل ویوز بن کر ایپی سینٹر یعنی مرکز کو متحرک کردیتی ہیں اور زلزلے کا سبب بنتی ہیں۔ ایل ویوز جتنی شدید ہونگی اتنی ہی شدت کا زلزلہ زمین پر محسوس ہوگا۔
زلزلے اگر زیر سمندر آتے ہیں تو ان کی قوت سے پانی میں شدید تلاطم اور لہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور کافی طاقت ور اور اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کلومیٹر کی رفتار سے بغیر اپنی رفتار اور قوت توڑے ہزاروں میل دور خشکی تک پہونچ کر ناقابلِ یقین تباہی پھیلاتی ہیں جس کی مثال ۲۰۰۴؁ء کے انڈونیشیا کے زلزلے اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی سونامی ہے، جس کی لہروں نے ہندوستان اور سری لنکا جیسے دور دراز ملکوں کے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی تھی جس کی گونج آج بھی متاثرہ علاقوں میں سنائی دیتی ہے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *