محمد صلی اللہ علیہ و سلم – سب کے لیے ۔ کیسے؟

اللہ رب کائنات نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :
’’ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے ،تمہاری زندگیاں سنوارتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘ (البقرۃ:۱۵۱)
اللہ تعالیٰ نے تخلیق بنی آدم کے ساتھ ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے بھی اسی طرح انتظام فرمایا جیسا کہ اس کے جسمانی تقاضوں بھوک و پیاس ،لباس وغیرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک پورا نظام سورج ،چاند ،ستاروں،ہوا،بادل،پہاڑ،جنگل کی شکل میں پیدا فرمادیا ہے ۔ایک نظام جسمانی وجود کے لیے ضروری ہے اور ایک سلسلہ روحانی بقاء اور ارتقاء کے لیے ضروری ہے ۔چونکہ اسلام ان معروف معنوں میں مذہب نہیں جس کے زیر اثر مشہور ہے کہ مذہب صرف چند رسومات کو بجا لانے کا نام ہے ۔حضرت محمد ﷺ جو دین لائے ہیں وہ مکمل انسانی معاشرہ اور انسانی زندگی کی ہر چیز کو محیط ہے، انسانی زندگی کے ہر پہلو اور معاشرہ کی ہر ضرورت کو اسی ربّانی ہدایت کے مطابق پورا کرنا ہی دین پر عمل کرنا ہے ۔انسان کی مکمل جسمانی اور روحانی ،معاشرتی و اخلاقی بقاء و ارتقاء کا انتظام شریعت محمدی میں موجود ہے۔مراسم عبودیت جیسے نماز ،روزہ ،تلاوت،اذکار تو شاید تمام ادیان میں روحانی ارتقاء کا ذریعہ رہے ہوں مگر یہ تربیت محمدی اور رسالت محمدی کا ہی اعجاز ہے کہ اپنی روزانہ کی زندگی کی ضروریات اور معمولات کو بھی الٰہی رہنمائی کے تحت پورا کرنے کو روحانی ارتقاء کا ذریعہ بنا دیا۔انسانی معاشرہ میں :
تکریم بنی آدم ؑ؛ حقوق بنی آدم ؑ؛ وحدت بنی آدم ؛ؑ مساوات بنی آدم ؑ کی وسیع ترین بنیادوں پروہ خوبصورتی ،حسن اور ہم آہنگی، وہ جذبۂ قربانی پیدا کی گئی جو انسانی تاریخ میں بے مثال ہے۔حضور ﷺ کی زندگی کے ایک نمونہ سے اس بات کی وضاحت آسان ہو گی ۔چند صحابہ کرامؓ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،آپ کے ساتھ کچھ ایام گزارے۔آپ کے معمولات کا مشاہدہ کیا اور غالباً عبادت و ریاضت یا اللہ کے بندوں سے تعلق میں ویسا خشک نہیں پایا جیسا کہ اس زمانہ کی ’’دینی ذہنیت‘‘کے حساب سے ہونا چاہیے تھا،توانہوں نے کہا کہ بھائی حضور ﷺ تواللہ کے محبوب اور مقرب ہیں ان کے لیے تو الگ ہی معاملہ ہے۔ پھر انہوں نے الگ الگ طے کیا کہ میں بیوی کے پاس نہیں جاؤں گا، کسی نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور ایک نے کہا کہ میں اکثر اوقات نماز کی حالت میں رہوں گا ۔حضور ﷺ کو معلو م ہوا تو آپ ﷺ نے بلایا اور سمجھایا کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے، عبادت بھی کرو آرام بھی کرو اور گھر والوں کے حقوق بھی ادا کرو۔یہی چیز شاید اسلام کااور رسالت محمدی کا سب سے بڑا اعجاز بھی ہے اور حسن بھی ۔قرآنی تعلیمات اور رسول ﷺ کے اسوہ میں اگر ہم غور کریں تومعلوم ہوگا کہ ادائے حقوق العباد کے ذریعہ انسانوں کی روحانی جلاء اور ارتقاء کانظریہ قولاً و عملاً جس طرح دنیا کے سامنے رکھا گیااوراس پر مبنی ایک انسانی معاشرہ قائم کر کے دکھا یا گیا،وہ ادیان اور تہذیبوں کی تاریخ میں لا مثال ہے ۔سرسری طور پر ان تعلیمات کا اجمالاً ذکر کر کے میں دراصل حضور ﷺ کی زندگی کے مختلف مراحل میں قبل نبوت و بعد نبوت کے عملی نمونہ اور تاریخ کی گواہیاں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ دور حاضر کے خلفشار کا علاج ڈھونڈھ کر تمام بنی نوع انسانی کو دوبارہ فلاح ،امن ،سلامتی اور مکمل انسانی ارتقاء کی طرف لے جایا جا سکے۔
(1)حلف الفضول
نبوت سے قبل حضور ﷺ نے اپنے چچا زبیر بن عبدالمطلب کے مشورہ سے قریش کے بڑے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ایک معاہدہ تیار کر کے اس پر حلف لیا گیا ۔حلف کے نکات پر غور فرمائیں :
۱۔ملک سے بد امنی دور کریں گے؛
۲۔مسافروں کی حفاظت کریں گے؛
۳۔متاثرین کی مدد فرمائیں گے ؛
۴۔غریبوں کی طرف داری کریں گے؛
۵۔کسی ظالم کو مکہ میں نہ رہنے دیں گے ۔
حضور ﷺ اس ساری کارروائی میں موجود رہے اور نبوت ملنے کے بعد بھی آپ ؐ فرمایا کرتے تھے،اس حلف برداری کی تقریب کے بدلہ میں مجھے اگر سرخ اونٹ بھی دئے جاتے تو میں نہ لیتااور آج بھی مجھے اس طرح کے مشورہ کے لیے بلائے تومیں تیار ہوں۔
(2)ابتدا ء نزول وحی کے وقت حضر ت خدیجہ ؓ کی گواہی
جب حضور ﷺ وحی ’’اقرأ‘‘کے نزول کے بعد غار حرا سے نہایت عجیب حالت میں گھر آئے اور حضرت خدیجہ ؓ سے اپنی کیفیت اور تمام واقعہ بیان فرمایا تو آپ نے بیساختہ پہلارد عمل ان تاریخی جملوں میں ادا کیا: ’’نہیں، کبھی نہیں ، آپ کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔اللہ آپ کے حصہ میں بدنامی نہیں لکھے گا ۔آپ رشتہ داروں کا حق ادا کرتے ہیں ،لوگوں کے بوجھ خود اٹھاتے ہیں ،نیکو کاروں اور غریبوں کی مدد کرتے ہیں ، مسافروں اور مہمانوں کی عزت اور ضیافت کرتے ہیں ،انصاف کے حصول میں لوگوں کی مصیبتوں میں کام آتے ہیں‘‘۔
(3)بادشاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیارؓ کی گواہی
نبوت کے پانچ سال بعد جب مسلمانوں نے پہلی ہجرت کی اور وہ حبشہ پہونچے تو مخالفین نے بھی وہاں پہنچ کر بادشاہ اور امراء و پادریوں کو بہکایا ۔بادشاہ نے مسلمانوں سے پوچھا تم نے کون سا دین ایجاد کیا ہے؟ اس کا جواب حضرت علی ؓ کے بھائی جعفر طیار ؓ نے ان تاریخی جملوں میں دیا :’’اے بادشاہ! ہم لوگ جاہلیت میں غوطہ کھا رہے تھے ،ہم پتھر کی کھودی ہوئی مورتوں کے سامنے جھکتے تھے ، مردار کھاتے تھے ،ہم بے حیائیوں سے لت پت تھے،ہم رشتوں ناطوں کو کاٹتے تھے ،ہم اپنے پڑوسیوں کے لیے دکھ اور رنج تھے ،طاقت ور کمزوروں کو نگلتے جا رہے تھے کہ اچانک اللہ نے ہم میں ایک پیغمبر بھیجا ،جس کے نسب کو بھی ہم جانتے ہیں جس کی سچائی کا ، صدق کا ،امانت کا،پارسائی کاہمیں تجربہ ہے ۔اسی نبی نے ہمیں اللہ کی طرف پکارا اور حکم دیاکہ ساری گندگیوں اور ان پتھر کے خداؤوں سے الگ ہوجائیں ۔اے بادشاہ!اس نے ہم پر اصرار کیا کہ جس کی امانت ہو اسے واپس کر دیں ، رشتوں اور برادریوں کو جوڑیں ،پڑوسیوں سے حسن سلوک کریں ،اللہ نے جن باتوں سے روکا ہے ان سے رک جائیں ،بے شرمی کے کاموں ،بے حیائی کے دھندوں کو چھوڑ دیں ،اس نے ہمیں منع کیا ہے کہ بناوٹی باتیں نہ بنائیں ،یتیموں کا مال نہ کھائیں، پاک باز عورتوں پر تہمت نہ جڑیں۔یہ جواب سن کر اس وقت زمین کا سب سے بڑا بادشاہ چیخ اٹھا ،روتا جاتا تھا اور کہتاجاتا تھا،ایسوں کو کون دے سکتا ہے ؟،ان کو تمہارے حوالہ کیسے کیا جا سکتا ہے ؟
(4)بیعت عقبہ ثانیہ ۱۱؍ نبوی کے نکات
مدینہ منورہ سے آنے والے۷۲ حامیوں نے حضور ﷺ سے ملاقات کر کے اسلام قبول کیا اور یہ نکات بیعت کے لیے دوہرائے گئے:
(۱)ایک اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے؛(۲)چوری نہیں کریں گے؛(۳) زنا نہیں کریں گے؛ (۴)قتل اولاد نہیں کریں گے؛(۵)کسی پر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے اور نہ کسی کی غیبت کریں گے؛ (۶)حضرت محمد ﷺ جن اچھی باتوں کا حکم دیں گے ان کا انکار نہیں کریں گے ۔
(5)روم کے دربار میں ابو سفیان کی گواہی
حضرت محمد ﷺ نے ۷؍ھجری میں بیرونی ممالک کے حکمرانوں کودعوت اسلام دینے کے لیے خطوط لکھے ۔روم کے قیصر کے نام لکھے خط کو دیکھ کر قیصر روم نے کہا کہ ہمارے یہاں کوئی عرب ہو تو بلاؤاس وقت ابو سفیان اسلام نہیں لائے تھے ،وہ وہیں تجارتی ضرورت سے مقیم تھے ۔ دربار میں بلائے گئے ،قیصر نے ان سے حضور ﷺ کے بارے میں سوال و جواب کیے پھر پوچھا وہ کیا نصیحت کرتے ہیں؟ آپ نے باوجود غیرمسلم ہونے کے یہ جواب دیا “:وہ کہتے ہیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو ،کسی دوسرے کو کسی بھی طرح اس کاساجھی نہ بناؤ۔نماز پڑھو،اچھے اخلاق اپناؤ،سچ بولو،آپس میں رحم اور ہمدردی کامعاملہ اختیار کرو۔قیصر نے کہا :’’اگر وہ سب سچ ہے جو تم نے بتایا ہے تو مجھے یقین ہے کہ کسی نہ کسی دن اس کی حکمرانی میرے ملک تک بھی ہوگی ۔مجھے یہ معلوم تھا کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے ۔مگر یہ خیال نہ تھا کہ وہ عرب میں آئے گا ۔میں اگر وہاں جا سکتاتو خودان کے قدم دھوتا ‘‘۔
(6)فاتح مکہ حضرت محمد ﷺ کا مثالی و فاتحانہ خطبہ
سن ۸؍ھجری میںحضرت محمد ﷺ دس ہزار جانباز صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے جہاں سے آپ کو ہر طرح کے مظالم اور سب و شتم کے بعد ہجرت پر مجبور کردیا گیا تھا۔وہاں داخل ہو کر آپ نے انتہائی عاجزی سے اونٹ پر بیٹھ کر یہ خطبہ دیا۔
” ایک اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ،اس کا کوئی شریک نہیں ،اس نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اس نے اپنے بندہ کو مدد دی ۔اسی اکیلے نے تمام لشکروں کو شکست دی ۔ آج تمام کبر و غرور،خون کے دعوے، جاہلیت کے تمام مطالبے میرے قدموں کے نیچے ہیں ۔اے قریش ! اب خدا نے تمہاری جاہلیت کے غرور اور نسب و فخر کو مٹا دیا ہے ۔تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے‘‘۔
(7)خود رحمۃ للعالمینؐ کی گواہی
حضور ﷺ نے اپنے آخری ایام میں جو نصیحتیں فرامائیں ہیں ان میں یہ نصیحت دراصل کل اسلام کو احاطہ کیے ہوئے ہے :’’صلوٰۃ اور جو تمہارے دست نگر ہیں ان کاخیال رکھنا ‘‘۔بظاہر بہت مختصر فقرہ ہے مگر مکمل اسلامی پیغام ہے انسانیت کے نام کیونکہ یہ آخری نبی کی آخری وصیت اور نصیحت ہے اس لیے الصلوٰ ۃ کے حوالہ سے جملہ حقوق اللہ اور دست نگر کے حوالہ سے جملہ حقوق العباد کا خیال رکھنا مکمل دین کا احاطہ کرتا ہے ۔
اس طرح اگر ہم نبوت کے پہلے کے زریں معاہدہ حلف الفضول سے شروع کریں اور حضرت خدیجہ ؓ کی گواہی ،ابو سفیان کی گواہی ، حضور کے خادمان خاص حضرت انس ؓ ،حضرت …ابی ہالہ کی گواہی سے لے کر آخری وصیت تک کے الفاظ پر غور کریں تودو نکات بالکل واضح ہو کر سامنے آتے ہیں :
(۱)عقیدہ توحید اور (۲)حقوق العباد کی حفاظت اسی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عقیدہ توحید کی بنیاد پر تعمیر ہونے والی انسانیت اورافراد ہی دراصل دنیا اور آخرت کی بھلائی کی ضمانت ہیں ۔اس کے علاوہ کہیں بھی انسانیت کو امن ،فلاح ،سکون نصیب نہیں ہوگا۔یہ سمجھانا اور سمجھنا آج امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے ۔آخر میں حضرت خدیجہؓ کی گواہی کو پھر سامنے رکھنا چاہتا ہوں: ’’نہیں ،کبھی نہیں آپ کی جان کو کوئی خطر ہ نہیں ہے ، اللہ آپ کے حصہ میں بدنامی نہیں لکھے گا ۔آپ ناطہ داروں کا حق ادا کرتے ہیں لوگوں کے بوجھ خود اٹھاتے ہیں نیکو کاروں اور غریبوں کی مدد کرتے ہیں ،مسافروں اور مہمانوں کی عزت و ضیافت کرتے ہیں،انصاف کے حصول میں لوگوں کی مصیبتوں میں کام آتے ہیں ‘‘۔کیا آج کی خلفشار ، بدامنی ،ظلم کی شکار انسانیت کے لیے اس سے بہتر نسخہ ممکن ہے ؟

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *