نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے

بغداد پر قبضے کے بعد ہلاکو خان نے معتصم باللہ کے سامنے برتنوں میں سونا ،چاندی اور ہیرے جواہرات رکھ دیئے جواس کی فوج نے معتصم باللہ کے محلات ہی سے اتارے تھے اور کہا ،جو کچھ جمع کر رکھا تھا اب اسے تناول فرمایئے ۔معتصم باللہ نے تعجب سے ہلاکو خاں کی طرف دیکھا اور کہا بھلا میں یہ کیسے کھا سکتا ہوں ؟اس پر ہلاکو نے شرارت آمیز لہجے میں کہاتو پھر اسے اتنی حفاظت کے ساتھ کیوں رکھا تھا؟ہلاکو نے محل کے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی اور پھر سونا چاندی اور ہیرے جواہرات سے لبریز دیو ہیکل صندوقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معتصم سے کہا ان صندوقوں کے فولاد سے اپنی فوج کے لیے تیر اور تلوار کیوں نہ بنوائی اور یہ تمام ہیرے جواہرات اپنے عوام اور وفادار سپاہیوں میں کیوں نہ تقسیم کئے ؟اگر تم انہیں اپنی سپاہ اور عوام پر خرچ کر دیتے تو آج میرے سپاہی اتنی آسانی سے تمہارے محل کی چوبیں نہ اکھاڑتے۔یہ سن کر معتصم سے کوئی جواب نہ بن پا رہا تھا۔بے بسی کے عالم میں جواب دیا :’’شاید مشیت ایزدی یہی تھی‘‘۔تاتاریوں کے خاقان نے کہا :’’اچھا تو اب ہم آپ سے جو سلوک کریں اسے بھی مشیت الٰہی ہی سمجھنا‘‘۔یہ طنز سن کر معتصم کی آنکھیں ندامت اور شرمندگی سے جھک گئیں ۔اسی ہلاکوخان کے دادا چنگیز خاں نے پون صدی پہلے سمرقند و بخارا کو تاخت و تاراج کیا تھا۔مسلمانوں کے قدیم اور عظیم تعلیمی ،تہذیبی اور ثقافتی شہروں کو اتنے برے طریقے سے نیست و نابود اور تباہ و برباد کیا تھا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔چنگیز خان کے لشکر نے مسلمان خواتین کے آنچل تار تار کیے ،نوجوانوں کو قتل کر دیا گیا ،مساجد و مدارس کو اصطبلوں میں تبدیل کر دیا گیا ،علماء کو زندانوں کی نذر کرد یا گیا ،سیاسی رہنماؤں کوپھندوں پر لٹکا دیا گیا ،بوڑھوںکو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔جس وقت چنگیز خان نے سمر قند وبخارا پر یلغار کی اس وقت بھی مسلمان حکمراں عیاشیوں میں مگن تھے۔چنگیز خان کی لشکر کشی نے کسی کو بھی نہ چھوڑا۔سمر قند وبخاراکے سقوط پر مسلمان آج تک آنسو بہا رہے ہیں ۔اندلس کے زوال کے اسباب بھی یہی تھے۔مسلمان حکمراں اپنی عیاشیوں میں مصروف تھے علماء چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر الجھے ہوئے تھے ،قوم میں اتحاد و اتفاق کا فقدان تھا۔ عیسائی بادشاہ فرڈی نینڈ اور ملکہ ازابیلا نے اندلس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔مسلمان حکمرانوں نے جب آخری بار اپنےعظیم الشان اور پر تعیش محل کی طرف دیکھا تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔اس حالت پر کسی مسلمان عورت نے اس پر فقرہ کسا۔ جس ملک و قوم کی تو مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکا اب عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ ؟سلطنت مغلیہ کا حال بھی دیکھ لیں ۔ آٹھ سوسال تک مسلمانوں نے حکومت کی ،مگر جب حکمراں عیاش اور مفاد پرست ہو گئے تو حالات بدل گئے۔روہیلہ بڑا ظالم شخص تھا ،جب وہ مسند نشین ہوا تو ہزاروں کو تہ تیغ کیا ۔مغل بادشاہ تیمور کو قتل کر کے اس کی آنکھیں نکال دیں،پھر اس کے حرم کو رقص کا حکم دیا ،جن شہزادیوں کا چہرہ بھی چشم فلک نے نہ دیکھا تھا وہ ننگے سر ناچتی اور آنسو بہاتی رہیں ۔پھر وہ ظالم اٹھا ،اس نے کمر سے خنجر نکالا اور مسند پر آرام سے لیٹ گیا ،پھر اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ،تمہیں اپنی قسمت پہ آنسو نہیں بہانے چاہیے میں سویا نہیں تھا بلکہ نیند کا دکھاوا کر رہا تھا ۔میرا مقصد تمہارے اندر موجود غیرت و حمیت کی جانچ کرنا تھا۔تم میں جرات زندہ ہوتی تو تم مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالتیں لیکن تمہارا رقص میں مگن رہنا یہ بتاتا ہے کہ جرات ختم ہو چکی ہے لہذا تمہارے پاس صرف بے بسی کے آنسو ہیں اور وہ قومیں جن کے پاس آہوں کے دھوئیں کے سوا کچھ نہیں ہوتا ،تاریخ انہیں دھول بنا کر اڑا دیتی ہے ۔حکمرانوں کے عیش و عشرت ،علماء کو فروعی اختلافات میں الجھا ہوا ،سسکتے بلکتے عوام کی حالت زارمجموعی طور پر پوری قوم کی بے حسی و بے بسی دیکھتے ہیں تو مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ ذہن کے نہاں خانوں پر گردش کرنے لگتی ہے ۔کانوں میں ہلاکو خاںاور معتصم کی یہ گفتگو گونجنے لگتی ہے ،چنگیز خاں ،ہلاکو خاں اور فرڈی نینڈ کی سفاکیاں ،مسلم حکمرانوںکی عیاشیاں اور مسلم قوم کی بے بسیاں اور بے حسیاں یا د آنے لگتی ہیں۔ملکوں اور قوموں کی حالت نزع میں جو حالت ہوتی ہے ،ہم اسی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں ،بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے اس وقت رہنماؤں کی بعینہ وہی حالت ہے جو سقوط بغداد کے وقت تھی ۔آج پھر حالات کے تیور یہی بتا رہےہیں کہ قوم کی حفاظت اور ملکی سلامتی کے لیے اگر ہم بھی متفق و متحد نہ ہوئے ،علماء میں سے کسی نے امام احمد بن حنبل ،ابن تیمیہ ،مجدد الف ثانی جیسا کردار ادا نہ کیا تو پھر خاکم بدہن استعماری اور سامراجی قوتیں حکمرانوں کو چھوڑیگی اور نہ ہی اہل علم بخشے جائیں گے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *