ہم ان کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے

ہماری یہ جماعت جس غرض کے لیے اٹھی ہے وہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں …ایسی سوسائٹی منظم کی جائے ،جو اسلام کے اصلی اصولوں پر شعور واخلاص کے ساتھ خود عامل ہو ،دنیا کے سامنے اپنے قول و عمل سے اس کی صحیح نمائندگی کرے اور بالآخر جہاں جہاں بھی اس کی طاقت جڑ پکڑ جائے ،وہاں کے افکار ،اخلاق و تمدن،معاشرت ،سیاست اور معیشت کے نظام کو موجودہ دہریت اور مادہ پرستی کی بنیادوں سے اکھاڑ کر سچی خدا پرستی،یعنی توحید کی بنیاد پر قائم کردے۔اس جماعت کو یہ یقین ہے کہ موجودہ تہذیب اور اس کا پورا نظام زندگی جن اصولوں پر قائم ہے وہ قطعاًفاسد ہیں اور اگر دنیا کا انتظام انہی اصولوں پر چلتا رہے تو وہ بڑے ہولناک نتائج سے دوچار ہوگی ۔اس کے جو نتائج اب تک نکل چکے وہ بھی کچھ کم ہولناک نہیں ہے ،مگر انہیں کوئی نسبت انجام کی اس ہولناکی سے نہیں ہے جس کی طرف یہ تہذیب دنیاکو لے جا رہی ہے اور ظاہر ہے کہ ہم اس دنیا سے کہیں باہر نہیں جا رہے ہیں بلکہ اس کے اندر ہی سانس لے رہے ہیں ۔لہذا اگر ہم ان اصولوں کو فاسد اور بد انجام سمجھتے ہوئے بھی منفعلانہ طریقے سے اسی نظام کے تحت زندگی بسر کیے چلے جائیں اور تہذیب حاضر کے مغربی اماموں اور مشرقی مقلدوں کی پیشوائی و سربراہکاری کے آگے سپر ڈالے رہیں تو جس تباہی کے گڑھے میں یہ دنیا گرےگی اسی میں اس کے ساتھ ساتھ ہم بھی جا گریں گے اور اسی انجام کے ہم مستحق ہوں گے ۔
ہم پوری بصیرت کے ساتھ یہ جانتے ہیں اور اپنے اس علم پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغبروں کے ذریعہ سے جو ہدایت نازل کی ہے اسی کی پیروی میں ہماری اور سب انسانوں کی فلاح مضمر ہے اور انسانی زندگی کا پورا نظام اسی وقت صحیح چل سکتا ہے ،جب کہ اسے ان اصولوں پر قائم کیا جائے جو انسانوں کے خالق کی دی ہوئی ہدایت میں ہم کو ملتے ہیں ۔ہمارے اس علم و یقین سے یہ فرض خود بخود ہم پرعائد ہو جاتا ہے اور یہی فرض خدا نے بھی اپنے مطیع فرماں بردار بندوں پر عائد کیا ہےکہ ہم اس نظام زندگی کے خلاف جنگ کریں جو فاسد اصولوں پر چل رہا ہے اور وہ صالح نظام قائم کرنے کے لیے جد و جہد کریں جو خدائی ہدایت کے دیے اصولوں پر مبنی ہو۔
یہ کوشش ہمیں صرف اسی لیے نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کی خیر خواہی ہم سے اس کا مطالبہ کرتی ہے ۔نہیں ہم خود اپنے بھی سخت بد خواہ ہوں گے اگر اس سعی و جہد میں اپنی جان نہ لڑائیں ،کیوں کہ جب اجتماعی زندگی کا سارانظام فاسد اصولوں پر چل رہا ہو ،جب باطل نظریات و افکار ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہوں ،جب خیالات کو ڈھالنے اور اخلاق و سیرت کو بنانے کی عالم گیر طاقتوں پر فاسد نظام تعلیم، گمراہ کن ادبیات ،فتنہ انگیز صحافت اور شیطنت سے لبریز ریڈیو اور سنیما کا تسلط ہو ،جب رزق کے تمام وسائل پر ایک ایسے معاشی نظام کا قبضہ ہو جو حرام و حلال کی قیود سے نا آشنا ہے ،جب تمدن کی صورت گری کرنے اور اس کو ایک خاص راہ پر لے چلنے کی ساری طاقت ایسے قوانین اور ایسی قانون ساز مشینری کے ہاتھ میں ہو جو اخلاق و تمدن کے سراسر مادہ پرستانہ تصورات پر مبنی ہیں اور جب قوموں کی امامت اور انتظام دنیا کی پوری زمام کار ان لیڈروں اور حکمرانوں کےہاتھ میں ہوجو خدا کے خوف سے خالی اور اس کی رضا سے بے نیاز ہیں اور اپنے کسی معاملے میں بھی یہ دریافت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ ان کے خالق کی ہدایت اس معاملے میں کیا ہے ،تو ایسے نظام کی ہمہ گیر گرفت میں رہتے ہوئے ہم خو داپنے آپ کو ہی اس کے برے اثرات اور بد تر نتائج سے کب بچا سکتے ہیں ۔یہ نظام جس جہنم کی طرف جارہا ہے اسی کی طرف وہ دنیا کے ساتھ ہمیں بھی تو گھسیٹے لیے جارہا ہے ۔اگر ہم اس کی مزاحمت نہ کریں اور اس کوبدلنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگائیں ،تو یہ ہماری اور ہماری آیندہ نسلوں کی دنیا خراب اور عاقبت خراب تر کر کے چھوڑے گا ۔لہذا محض دنیا کی اصلاح ہی کے لیے نہیں ،بلکہ خود اپنے بچاؤ کے لیے بھی یہ فرض ہم پر عائد ہوتا ہے ،اور یہ سب فرضوں میں بڑا فرض ہے کہ ہم جس نظام زندگی کو پوری بصیرت کے ساتھ فاسد و مہلک جانتے ہیں اسے بدلنے کی سعی کریں اور جس نظام کے بر حق اور واحد ذریعۂ فلاح و نجات ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اسے عملاً قائم کرنے کی جد وجہد کریں۔
اس مختصر گزارش سے آپ یہ بات پاگئے ہوں گے کہ ہما رااصل مدعا موجودہ نظام کے چلانے والے ہاتھوں کا بدلنا نہیں ہے کہ بلکہ خود نظام کا بدلنا ہے۔ہماری کوششوں کا مقصود یہ نہیں ہے کہ نظام تو یہی رہے اور انہی اصولوں پر چلتا رہے مگر اس کو مغربی نہ چلائیں ،مشرقی چلائیں یا انگریز نہ چلائیں، ہندوستانی چلائیں یا ہندو نہ چلائیں مسلمان چلائیں ۔ہمارے نزدیک محض ہاتھوں کے بدل جانے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔سورتوبہر حال سور ہی ہے اور اپنی ذات میں ناپاک ہے خواہ اسے کافر باورچی بنائے یا مسلمان باورچی بنائے ،بلکہ مسلمان باورچی کا سور پکانا اور بھی زیادہ افسوس ناک ہے اور گمراہ کن بھی ۔بہت سے بندگان خدا ،حتی کہ اچھے خاصے پرہیز گار لوگ بھی اس ظالم کے ہاتھ کا پکا ہوا سور اس اطمینان کی بنا پر کھا جائیں گے کہ یہ مسلمان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ہے اور اگر پخت و پز کے دوران میں چمچے کی ہر گردش پر بآواز بلند بسم اللہ پڑھتا رہے اور اس کے چنے ہوئے دسترخوان پر مسلمانوں کو کافر کے دسترخوان کی بہ نسبت تناول ما حضر کی زیادہ آسانیاں اور آزادیاں میسر ہوں اور محفل طعام کے گرد و پیش کچھ ایسے لوازم بھی فراہم کر دئے جائیں جو عام طور پر اسلامی لوازم سمجھے جاتے ہیں تو یہ اور بھی زیادہ سخت دھوکا دینے والی چیز ہوگی ۔اس قسم کی نمایشی اسلامیت اگر موجود ہو تو وہ اس حرام خوراک کوقبول کرلینے کے لیے کوئی سفارش نہیں ہے ۔بلکہ یہ ظاہر فریبیاں اس معاملے کو اور بھی زیادہ پر خطر بنا دیتی ہیں۔ لہذا ہم کسی ایسی ظاہری تبدیلی پر نہ خو دمطمئن ہو سکتے ہیں اور نہ کسی کو مطمئن ہوتے دیکھ سکتے ہیں جس میں یہ فاسد نظام تو جوں کا توں قائم رہے اور صرف اس کے چلانے والے ہاتھ بدل جائیں ،ہماری نظر ہاتھوں پر نہیں بلکہ ان اصولوں پر ہے جن پر زندگی کا نظام چلایا جاتا ہے ۔وہ اصول اگر فاسد ہوں تو ہم ان کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے اور انہیں صالح اصولوں سے بدلنے کی کوشش کریں گے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *