فتنہء قادیانیت اور دو بڑے

عظیم اللہ صدیقی کا مضمون “”قادیانیوں کا میڈیا مشن (وحدت جدید مارچ 2013ء) ایک چشم کشا اور پرمغز مضمون ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں قادیانی عفریت بہت تیزی سے اپنا پھن پھیلائے بڑھا چلا جارہا ہے اور برہمنی میڈیا اسلام مخالف ذہنیت کے ساتھ ایک مخصوص پروپیگنڈے کی آڑ میں اسےعام کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔ تاکہ عام مسلمانوں کی رواداری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ایک مارِ آستین کو امت مسلمہ ہند کےاندر پالنے کو آمادہ کر لیاجائے۔
صدیقی صاحب کا مضمون اس سمت میں ایک اچھی کوشش ہے۔ البتہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کو تاریخی واقعات کی روشنی میں میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’قادیانیوں کی سرگرمیاں ملک و وطن کے لئے بھی نقصاندہ ہیں، خود ملک کے معمار اولین جواہر لال نہرو نے ایک بار قادیانیوں کو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ معمارقوم نے آئے گئے میں یہ بات کہہ دی ہو ۔ بلکہ اس کے پس منظر میں شواہد کے علاوہ قادیانی کا ماضی میں انگریزوں کے ساتھ بدنما کردار بھی تھا۔۔۔۔‘‘
ہوسکتا ہے کہ نہرو جی جیسے زیرک اور موقع شناس سیاست داں نے ایک بار قادیانیوں کو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا ہو۔ مگر بعد میں کئی بار نہ صرف ان کی طرف اپنے میلان کو ظاہر کیا بلکہ علامہ اقبالؒ نے بدلائل قادیانیت کو اسلام کے خلاف ایک سازش ثابت کرنے کے لئے مضامین لکھے ،تو پنڈ ت جی نےا س کا باقاعدہ رد لکھا۔ چنانچہ مئی 1936 میں لاہور آمد پر پنڈت نہرو کا قادیانیوں نے زبردست استقبال کیا تو خود قادیانیوں کی دوسری جماعت نے اس پر یوں طنزکیا۔
’’موجودہ زمانہ کو انقلاب کا دور کہا جاتا ہے۔ سورج ہر روز ایک نئے انقلاب کی خبر لے کر طلوع ہوتا ہے۔لیکن اس کے باوجود بعض انقلابات ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کو محو حیرت کردیتے ہیں ۔ گذشتہ ماہ لاہور میں پنڈت جواہر لال نہرو کا قادیانی استقبال اسی قسم کا ایک حیرت انگیز انقلاب ہے۔۔۔۔‘‘(لاہوری جماعت کا اخبار”پیغام صلح لاہور جلد 24نمبر 4 مورخہ 23جون 1939)
اپنے اوپر وارد اس انقلاب زمانہ کے الزام کا جواب دیتے ہوئے قادیانیوں کے اس وقت کے خلیفہ میاں محمود احمد صاحب نے خطبہ جمعہ میں یہ ارشاد فرمایا:
’’اگر پنڈت جواہر لال صاحب نہرو اعلان کردیتے کہ احمدیت کو مٹانے کے لئے وہ اپنی تمام طاقت خرچ کردیں گے جیسا کہ احرار نے کیا ہوا ہے تو اس قسم کا استقبال بے غیرتی ہوتا۔ لیکن اس کے برخلاف یہ مثال موجود ہو کہ قریب کے زمانہ ہی میں پنڈت صاحب نے ڈاکٹر اقبال کے ان مضامین کا رد لکھا ہےجو انہوں نے احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ قرار دئیے جانے کےلئے لکھے تھے اور نہایت عمدگی سے ثابت کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے احمدیت پر اعتراض اور احمدیوں کو علیحدہ کرنے کا سوال بالکل نامعقول اور خود ان کے گذشتہ رویہ کے خلاف ہے۔ تو ایسے شخص کا جبکہ وہ صوبہ میں مہمان کی حیثیت سے آرہاہو ایک سیاسی انجمن کی طرف سے استقبال بہت اچھی بات ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ مندرجہ الفضل قادیان ،جلد 23نمبر 287ص4مورخہ 11جون 1936ء)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ پنڈت جی اپنی پچھلی رائے سے تائب ہوگئے تھے بلکہ پوری سرگرمی سے اسلامیان ہند کے گل سرسبدمفکر اسلام سر علامہ اقبالؒ کے خلاف تحریر ی طور پر ایک محاذ کھول دیا تھا تاکہ قادیانیوں کو اسلام ہی کا ایک حصہ قرار دیا جاسکے۔ حالانکہ پنڈت جی کا اسلام یا اس کے مبادیات یا اسکی تفصیلات سے کیا واسطہ تھا؟!قادیانیت کو اسلام سے علیحدہ قرار دیا جانے پر ان کا کیا نقصان ہوسکتا تھا؟ خود علامہ اقبالؒ نے پنڈت جی کے اس رویہ کی توجیہہ کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا :
’’بہر حال میں پنڈت جی یا قارئین سے یہ بات پوشیدہ رکھنا نہیں چاہتا کہ پنڈت جی کے مضامین پڑھ کر میرے دل میں کچھ دیر کے لئے بہت الجھن رہی ۔یہ جانتے ہوئے کہ پنڈت جی ایک وسیع القلب انسان ہیں اور مختلف تہذیبو ں سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔ لامحالہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے جو سوالات اٹھائے ہیں انہیں وہ بالکل خلوص سے سمجھنا چاہتے ہیں۔ تاہم جس طریقہ سے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے کچھ اس قسم کی ذہنیت کا مظاہرہ ہوتا ہے جسے پنڈت جی کی طرف منسوب کرنا میرے لئے دشوار ہے۔ میں خیال کرتاہوں کی قادیانیت کے متعلق میں نے جو بیان دیا تھا ، جس میں جدید اصول کے مطابق صرف ایک مذہبی عقیدہ کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس سے پنڈت جی اور قادیانی دونوں پریشان ہیں ۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر دونوں اپنے دل میں مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی وحدت کے امکانات کو بالخصوص ہندوستان میں پسند نہیں کرتے۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ہندوستان کے قوم پرست جن کے سیاسی تصورات نے ان کے احساس حقائق کو مردہ کردیا ہے اس بات کو گوارہ نہیں کرتے کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کے دل میں خود اعتمادی اور خودمختاری کا خیال پیدا ہو۔ان کا خیال ہے اور میری رائے میں غلط خیال ہے کہ ہندوستانی قومیت تک پہنچنے کا صرف یہی راستہ ہے کہ ملک کی مختلف تہذیبوں کو بالکل مٹادیا جائے جن کے باہمی تعامل سے ہندوستان میں ایک اعلی اور پائیدار تہذیب برپا ہوسکتی ہے۔ جس قومیت کی ان طریقوں سے تعمیر کی جائے اس کا نتیجہ باہمی تلخی بلکہ تشدد کے سوا اور کیا ہوگا۔اس طرح یہ بات بھی بدیہی ہے کہ قادیانی بھی مسلمانان ہند کی سیاسی بیداری سے گھبرائے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانان ہند کا سیاسی وقار بڑھ جانے سے اس کا یہ مقصد فوت ہوجائے گاکہ رسول عربیﷺ کی امت میں سے قطع وبرید کرکے ہندوستانی نبی کے لئے ایک جدید امت تیار کریں۔ حیرت کی بات ہے کہ میری اس کوشش سے مسلمانان ہند کو یہ جتادوں کہ ہندوستان کی تاریخ میں اس وقت جب کہ وہ نازک دور سے گزررہے ہیں ، اس میں ان کی اندرونی یک جہتی کس قدر ضروری ہے اور نیز ان افتراق پرور اور انتشار انگیز قویٰ سے محترز رہنا لازمی ہے جو اصلاحی تحریکوں کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں، پنڈت جی کو یہ موقع ملا کہ وہ اس قسم کی تحریکوں سے ہمدردی فرمائیں‘‘۔
(ترجمہ۔ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ کے مضمون اسلام اور احمدیت مندرجہ رسالہ اسلام لاہور ، جلد1نمبر16مورخہ 22جنوری 1936ء کا اقتباس)
قادیانیت کی حمایت کی اس سے بڑھ کر توجیہہ ڈاکٹر شنکر داس صاحب کے مضمون سے ہوتی ہے جس میں قومی نقطہ نظر سے قادیانی تحریک پر بحث کی گئی ہےجو اپریل 1932ء میں بندے ماترم اخبار میں شائع ہوا۔ چنانچہ ڈاکٹڑ شنکر داس صاحب لکھتے ہیں:
’’سب سے اہم سوال جو اس وقت ملک کے سامنے درپیش ہے ، وہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر کس طرح قومیت کاجذبہ پیدا کیا جائے۔ کبھی ان کے ساتھ سودے معاہدے اور پکٹ کئے جاتے ہیں۔ کبھی لالچ دے کر ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی ان کے مذہبی معاملات کو سیاسیات کا جزو بنا کر پولٹیکل اتحاد کی کوشش کی جاتی ہے مگر کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو ایک الگ قوم تصور کئے بیٹھے ہیں اور وہ دن رات عرب کے ہی گیت گاتے ہیں۔ اگر ان کا بس چلے تو وہ ہندوستان کو بھی عرب کا نام دیدیں۔
اس تاریکی میں ، اس مایوسی کے عالم میں ہندوستانی قوم پرستوں اور محبان وطن کو ایک ہی امید کی شعاع دکھائی دیتی ہے اور وہ آشا کی جھلک احمدیوں کی تحریک ہے۔ جس قدر مسلمان احمدیت کی طرف راغب ہوں گے ، وہ قادیان کو اپنا مکہ تصور کرنے لگیں گے اور آخر میں محب ہند اور قوم پرست بن جائیں گے۔ مسلمانوں میں احمدیہ تحریک کی ترقی ہی عربی تہذیب اور پان اسلام ازم کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ آئو ہم احمدیہ تحریک کا قومی نگاہ سے مطالعہ کریں۔
میرے قوم پرست بھائی سوال کریں گے کہ ان عقیدوں سے ہندوستانی قوم پرستی کا کیا تعلق ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایک ہندو کے مسلمان ہوجانے پر اس کی شردھا اور عقیدت رام ، کرشن ، وید، گیتا اور رامائن سے اٹھ کر قرآن اور عرب کی بھومی میں منتقل ہوجاتی ہے، اسی طرح جب کوئی مسلمان احمدی بن جاتا ہے تو اس کا زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے۔حضرت محمد (ﷺ) میں اس کی عقیدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ علاوہ بریں جہاں اس کی خلافت پہلے عرب اور ترکستان میں تھی ، اب وہ قادیان میں آجاتی ہے اور مکہ مدینہ اس کے لئے روایتی مقامات مقدسہ رہ جاتے ہیں۔
اور کوئی بھی احمدی چاہے عرب ، ترکستان ، ایران یا دنیا کے کسی بھی گوشہ میں بیٹھا ہو ، وہ روحانی شکتی کے لئے قادیان کی طرف منھ کرتا ہے۔ قادیان کی سرزمین اس کے لئے نبیہ بھومی (سرزمین نجات) ہے اور اسی میں ہندوستانی فضیلت کا راز پنہاں ہے۔ ہر احمدی کے دل میں ہندوستان کے لئے پریم ہوگا۔ کیونکہ قادیان ہندوستان میں ہے۔ مرزا صاحب بھی ہندوستانی تھے اور اب جتنے خلیفے اس فرقہ کی رہبری کررہے ہیں ، وہ سب ہندوستانی ہیں۔
اعتراض ہوسکتا ہے کہ جب مرزا قرآن کو الہامی کتاب مانتے ہیں تو وہ اسلام سے الگ کیسے ہوسکتے ہیں؟
اس کا جواب ہے سکھوں کی موجودہ ہندوئوں سے علیحدگی ۔ گورو گرنتھ صاحب میں رام ، ندر، وشنو سب ہندو دیوی دیوتائوں کا ورنن آتا ہے۔ مگر کیا سکھوں نے رام کرشن کی مورتیوں کا کھنڈن نہیں کیا ہے۔ گوردواروں سے رامائن اور گیتا کا پاٹھ نہیں اٹھایا۔ کیا سکھ آپ کو ہندوکہلانے سے انکار نہیں کرتے۔ اسی طرح وہ زمانہ دور نہیں جبکہ احمدی برملا یہ کہیں کہ صاحب ہم محمدی مسلمان نہیں۔ ہم تو احمدی مسلمان ہیں۔ کوئی ان سے سوال کریگا کیا تم حضرت محمد(وﷺ) کی نبوت کو مانتے ہو تو وہ جواب دیں گے کہ ہم حضرت محمد ، عیسیٰ، رام، کرشن سب کو اپنے اپنے وقت کا نبی تصور کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہندو ، عیسائی یا محمدی ہوگئے۔
یہی ایک وجہ ہے کہ مسلمان احمدیہ تحریک کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ احمدیت ہی عربی تہذیب اور اسلام کی دشمن ہے ۔ خلافت تحریک میں بھی احمدیوں نے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا۔کیونکہ وہ خلافت کو بجائے ترکی یا عرب میں قائم کرنے کے قادیان میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔یہ بات عام مسلمانوں کو لئے جو ہروقت پان اسلام ازم و پان عربی سنگٹھن کے خواب دیکھتے ہیں، کتنی ہی مایوس کن ہو مگر ایک قوم پرست کے لئے باعث مسرت ہے۔ ‘‘(مضمون ڈاکٹر شنکرداس صاحب مہرو، بی ۔ایس سی ، ایم۔بی۔بی۔ایس، لاہور مندرجہ اخبار بندے مورخہ 22اپریل 1932ء منقول از اخبار ایمان مورخہ 20اپریل 1935ء)
ّ(جملہ حوالہ جات بحوالہ : قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ صفحہ 92 تا 98، از پروفیسر محمد الیاس برنیؒ، ناشر مکتبہ الحق، جوگیشوری ،ممبئی، سن اشاعت اکتوبر 2003ء)
یہ روداد اس بات کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ زاویہ نظر perspactiveکے بدلنے سے نقطہ نظر میں کس قدر تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ مذہبی زاویہ نظر سے علامہ اقبالؒ جس چیز کو سمِ قاتل سمجھ رہے ہیں وہی چیز پنڈت جی کو من بھاون لگ رہی ہے۔ جس بات کو علامہ اقبالؒ اسلامی نقطہ نظر سے غیر اسلامی ثابت کرتے ہوئےاسلام سے الگ کرنے کی کوشش کررہےہیں وہی چیز پنڈت جی ہر قیمت پر جوڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔
نامعلوم کب ہمیں یہ توفیق نصیب ہوگی کہ چیزوں کو اپنے زاویہ نظر سے دیکھیں ۔ اور اپنے اور پرائے میں فرق کرسکیں۔ صرف ہم سائیگی یا ہم وطنی سے فکری ہم آہنگی ممکن ہوتی تو ابولہب پر قیامت تک لعنت نہ برستی اور نہ ہی ابو جہل نو خیز بہادروں کے ہاتھ مارا جاتا۔ عام طور پر ہمارے دانشور جب گفتگو کرتے ہیں تو یہ باور کرانے کی کوشش کرتےہیں کہ اغیار اس معاملہ میں بھی ان کے ہم فکر ہیں یا پھر وہ اس سلسلہ میں بالکل لاعلم ہیں۔ حالانکہ ہماری بہت ساری آراء تو صرف احکام الٰہی کے لئے سر تسلیم خم کرکے پیدا ہوتی ہیں۔جبکہ وہ اپنے عقائد تک کے لئے مکر و فریب کا جال بننے اور ہر دن ایک نئی عقلی فریب کی تہہ جھوٹ کے روغن سے چڑھاتے ہیں تاکہ عوام اصلیت سے واقف نہ ہوسکے۔وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون۔(اور ان میں کا ایک گروپ جانتے بوجھتے بھی حق کو چھپاتا ہے)
کوئی اور واقف ہو یا نہ ہو لیکن کیا وجاہت حبیب اللہ(اہم مسلمان سرکاری نوکر)بھی قادیانیت سے ناواقف ہیں ۔ لیکن امام احمد بخاری کی قیادت میں ہزاروں مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود مظاہرین کی موجود گی میں قادیانیوں کی نمائش کے سرکاری افتتاح کا کام انہیں سے لیا جاتا ہے۔ اور سرکار دربار میں بنے رہنے کی خواہش انہیں اپنے ایمان کا گلا گھونٹنے پر آمادہ کرلیتی ہے۔اور نہ جانے کتنے نوخیز وجاہت حبیب اللہ زیر تربیت ہونگے جن کے ہاتھوں دشمنان اسلام ( قادیانیت ) کو بڑھاوا دیا جائے گا اور ہم یہی باور کرانے میں لگے رہیں گے کہ فلاں پنڈت جی نے بھی ایک بار اس کو برا کہا تھا۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *