خوف نفاق

ابراہیم تیمیؒ نے کہا: ’جب بھی میں نے اپنے عمل سے مقابلہ کیا تو مجھے خوف لاحق ہوا کہ کہیں میں (اپنے عمل سے اپنے دعویٔ ایمان کی) تکذیب تو نہیں کررہا ہوں (یا یہ کہ میرا عمل کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اسے دیکھ کر لوگ میرے دعویٔ ایمان کی تکذیب کردیں)‘ اور ابن ابی ملیکہؒ نے کہا ’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تیس اصحاب سے میری ملاقات ہوئی، ان سب کو (ہردم) اپنے بارے میں نفاق کا خوف رہتا تھا‘۔ اور بیان کیا جاتا ہے کہ حسنِ بصریؒ فرمایا کرتے تھے ’نفاق کا خوف مومن ہی کو ہوتا ہے اور نفاق سے بے خوف منافق ہی ہوتا ہے۔‘
’نفاق کا خوف صرف مومن کو ہوتا ہے اور نفاق سے بے خوف صرف منافق ہی ہوتا ہے۔‘ کیونکہ ایمان کی قدر مومن ہی کو ہوتی ہے، وہ اسے دنیا کی ہر شے حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز سمجھتا ہے، وہ اسے تو گوارا کرسکتا ہے کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے، لیکن اسے گوارا نہیں کرسکتا کہ اس حق کو چھوڑ دے جو اللہ کے دین کی شکل میں اسے ملا ہے۔ پھر وہ جانتا ہے کہ پورے دین کی بنیاد ایمان پر ہے، اگر ایمان موجود ہے اور قوی، زندہ و بیدار ہے تو زندگی اللہ کے دین کے سانچہ میں ڈھل سکتی ہے اور انسان کا تعلق اللہ سے اور اس کے دین سے قائم و استوار رہ سکتا ہے، ورنہ اس بے بہا متاع کا اس کے پاس رہ جانا ممکن نہیں۔ اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے اور کامل یقین کہ نجاتِ اُخروی اور فلاحِ دارین کا انحصار سراسر ایمان پر ہے۔ایمان نہ ہو تو ظاہری نیک اعمال کا اللہ کے یہاں کچھ بھی وزن نہیں۔ اور اگر ایمان ناقص ہو تو اس کے نقص کے بقدر بندگیٔ رب میں کوتاہی ہوگی یا اعمالِ صالح میں خشیت و انابت اور روحِ بندگی کی کمی ہوگی۔ اس لیے وہ سب سے زیادہ اپنے ایمان کے لیے فکر مند رہتا ہے اور اسے پروان چڑھانے کی مسلسل جدوجہد کرتا ہے۔ پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ نفاق ہے، کیونکہ وہ دبے پائوں آتا ہے اور چپکے چپکے انسان کے نہاں خانۂ دل پر قبضہ جما لیتا ہے… نفاق اس کے سوا اور کیا ہے کہ انسان زبان سے تو اللہ کی بندگی، رسولؐ کی اطاعت اور آخرت کی مقصودیت کا دعویٰ کرتا ہو لیکن اس کا دل جذبۂ بندگی سے خالی ہو اور اس کی عملی زندگی اس بات کی گواہی نہ دیتی ہو کہ وہ واقعتاً بندۂ رب ہے… پھر وہ اس خطرے کو بھی اچھی طرح محسوس کرتا ہے کہ اگر کوئی انسان اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور کرتا رہتا ہے تو اس سے نہ صرف یہ کہ اس کی ظاہری زندگی کا نقشہ بندگیٔ رب کے خلاف بنتا چلا جاتا ہے بلکہ اس کا قلب بھی متاثر ہوتا رہتا ہے، اس کے ایمان میں کمزوری آجاتی ہے اور اس کا جذبۂ بندگی ضعیف سے ضعیف تر ہوتا جاتا ہے، اور اس کے بعد نفاق کی سرحدیں بہت قریب آجاتی ہیں اور یہ اندیشہ بڑھ جاتا ہے کہ کہیں شیطان اسے نفاق کے گڑھے میں دھکیل نہ دے… یہ سب کچھ جانتے ہوئے جب مومن اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہے اور اسے اپنے اندر کوتاہیاں اور اللہ کی نافرمانیاں نظر آتی ہیں تو وہ نفاق کے خوف سے کانپ اٹھتا ہے۔ یہی حقیقت ہے جسے حضرت حسن بصریؒ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’نفاق کا خوف مومن ہی کو ہوتا ہے، اور نفاق سے بے خوف تو منافق ہی رہتا ہے۔‘ یعنی نفاق سے بے خوفی ایک حد تک خود نفاق کی علامت ہے۔ اَعَاذَ نَا اللّٰہُ مِنہُ۔

میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہا
عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز
تو بھی ہے شیوہ ارباب ریا میں کامل
دل میں لندن کی ہوس، لب پہ ترے ذکر حجاز
جھوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے
ترا انداز تملق بھی سراپا اعجاز
ختم تقریر تری مدحت سرکار پہ ہے
فکر روشن ہے تراموجد آئین نیاز
در حکام بھی ہے تجھ کو مقام محمود
پالسی بھی تر ی پیچید ہ تر از زلف ایاز
اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا ہے
پردہ خدمت دیں میں ہوس جاہ کا راز
نظر آجاتا ہے مسجد میں بھی تو عید کے دن
اثر وعظ سے ہوتی طبیعت بھی گداز
دست پرور تیرے ملک کے اخبار بھی ہیں
چھیڑنا فرض ہے جن پر تری تشہیر کا ساز
اس پہ طرہ ہے کہ تو شعر بھی کہہ سکتا ہے
تیری مینائے سخن میں ہے شراب شیراز
جتنے اوصاف ہیں لیڈر کے، وہ ہیں تجھ میں سبھی
تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شریک تگ و تاز
غم صیاد نہیں، اور پرو بال بھی ہیں
پھر سبب کیا ہے، نہیں تجھ کو دماغ پرواز
ـ’عاقبت منزل ما وادی خاموشان است
حالیا غلغلہ در گنبد افلاک اندازـ‘

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *