فرقہ وارانہ فسادات مخالف بل پر ڈھیل کیوں ؟

2014؁ء کے الیکشن قریب آنے کے ساتھ ساتھ ملک میں ایک بار پھر نرم اور گرم ہندتوا کی لہر پھیلا نے کے آثار صاف نظر آرہے ہیں ۔آسام میں مسلم کش فسادات اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی خانہ سوزی و خانہ بر بادی کے بعد نفرت بھرے پیغامات کی تشہیر کر کے پورے ملک میں جس طرح ہیجان انگیز فرقہ وارانہ ماحول بنایا گیا وہ ذہنوں میں تازہ کر کے حال کے دنوں میں یوپی خصوصاً فیض آباد کے مسلم مخالف پروگرام پر نظر ڈالیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے ارادےکیا ہیں ؟فیض آباد میں مورتیاں چرائے جانے کی آڑ میں فسادی عناصر کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ نفرت پھیلائیں اور مورتیاں برآمد ہونے کے باوجود (وہ بھی ہندوچوروں کے ذریعے) دنگا کرا کر پورے کا پورا مسلم بازار جلا دیا گیا۔اس کے بعد اترا کھنڈ کے ہلدوانی میں مسجد کی زمین کے جھگڑے میں 3مسلمانوں کو کھلے عام گولیاں برسا کر شہید کر دیا گیا اور مزہ کی بات یہ ہے کہ 25/11کے امر اُجالا کے مطابق جس وقت جس دن ملزمین نے یہ واردات ہلدوانی میں کی ہے اسی وقت اسی دن ان ملزمین کو پنجاب کی ایک جیل میں گرفتار دکھا یا گیا ہے ۔آنتک واد کا ہر وقت تذکرہ رہتا ہے، ماؤواد کا بھی تذکرہ رہتا ہے مگر مسلم کش فسادات کا تذکرہ بھول کر بھی نہیں ہوتا ۔ایک فرقہ وارانہ فساد مخالف بل لایا جانے والا تھا مگر کا نگریس اور بی جے پی کی نوراکشتی کے بعد اس بل کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے ۔FDIپر ،نیوکیلئر پر حکومت جتنی مستعدی دکھاتی ہے اتنی مستعدی اتنے اہم معاملہ پر کیوں نہیں دکھائی جا رہی ہے ؟جسکا نتیجہ ہمارے سامنے روزانہ ہونے والے مسلم کش فسادات کی شکل میں دیکھ رہے ہیں ۔بابری مسجد کی شہادت کو 20سال پورے ہونے کو آئے ۔یہ شہادت ایک عام واقعہ نہیں تھا ۔اس کے پیچھے سالوں کی محنت اور سازش تھی ۔بابری مسجد اس وقت راست مرکز اور سپرم کورٹ اور فوج کی نگرانی میں تھی ۔بابری مسجد شہید ہو گئی۔ 20سال ہو گئے ۔ایک بھی ملزم جیل نہیں گیا الٹا وزیر داخلہ ،نائب وزیر اعظم، اپوزیشن کے لیڈر بنےz+تحفظ میں گھوم رہے ہیں۔ ملیانہ میں 32مسلم نوجوان شہید PACکے ذریعے کئے گئے آج دہائیاں گذرنے کے بعد بھی انصاف نہیں ملا۔کیونکہ سیکورٹی فورس کے ایک افسر گواہی ہی نہیں دے رہے ہیں ۔ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہورہی ہے ۔رتھ یاترا اور مسجد کی شہادت کے بعد بھارت کے 44شہروں میں کرفیو لگا اور ہزاروں لوگ ،بچے،بوڑھے،جوان مارے گئے اربوں کا نقصان ہوا ملک کے ماتھے پر ہمیشہ کے لیے کلنک لگا دیا ۔شری کرشنا کمیشن کی رپورٹ میں صاف طور پر شیو سینا ، پولیس اور غنڈوں کوثبوتوں کے ساتھ ملزم قرار دیا گیامگر کیا کاروائی ہوئی ۔کارروائی کے نام پر انصاف کا مذاق اڑایا گیا ۔ بال ٹھاکرے کو ان کے گھر پر گرفتار کر کے گھر پر ہی عدالت نے ضمانت دے دی اور اس کے بعد پھر کچھ نہیں ہوا ۔اس پر مستزاد یہ کہ دہشت گردی حقیقی /فرضی واقعات کی آڑ میں پوری مشینری کو جوپہلے ہی متعصب اور بے انصافی سے متاثر تھی اور زیادہ متعصب بنا دیا ہے ۔اس بات کوپہلے تو کچھ بدنام ، نام نہاد سیکولرسٹ کہا کرتے تھے مگر اب تو پولیس افسر وبھوتی نرائن رائے اور IPSافسرایس ایم مرشد کی کرکرے قاتل کون؟کے تحریری مواد نے اس پر تصدیق کی مہر لگا دی ہے ۔ ان انتہائی مخدوش اور اشتعال انگیز حالات میں مرکزی سرکارکی طرف سے فرقہ وارانہ حالات کوقابو میں رکھنے کے لیے ملک میں فرقہ وارانہ معاملات میں انصاف کی رفتار اور معیار کو ضرورت کے مطابق بنائے رکھنے کے لیے فرقہ وارانہ فساد مخالف بل لایا جانا بہت ضروری ہے ۔اس کا ٹالا جا نا یہ ثابت کرتا ہے کہ ملک کے حکمراں ملک میں فرقہ وارانہ انصاف کی بنا پر امن اور بھائی چارہ بنا نا نہیںچاہتے ہیں۔کیا فرقہ وارانہ نفرت کے ماحول میں FDIکے آنے کے باوجود بھی ترقی ممکن ہوپائے گی ؟ورنہ کیا وجہ ہے کہ بل پر صلاح و مشورہ کو رفتار نہیں دی گئی؟
مسلم کش فسادات میں ہونے والی زیادتیوں کے ازالہ کے لیے بھی کچھ نہیں کرتے ۔اس سے مسلمانوں میں جو مایوسی اور لاتعلقی کا احساس پیدا ہوتا ہے کیا وہ ملک اور معاشرہ کے لیے صحت مند ہے ۔کیا اسی احساس محرومی کو دشمن طاقتیں استعمال نہیں کر سکتیں ؟کیا انہیں مظالم اور محرومیوں کو ہمارے دشمن اور دنیا کے غیر جانب دار لوگ ہماری پہچان بنا نے کی کوشش نہیں کریں گے؟اور اگر ایسا ہو رہا ہے تو ہم صرف دشمنوں کو کب تک الزام دیں گے کہ وہ جھوٹا پروپگنڈہ کر رہے ہیں اور ہمارے حالات ان کی پروپگنڈہ …کو آسام ،لال گڑھ،فیض آباد ،پر تاب گڑھ ،ہلدووائی کے مسلم فسادات کے ذریعے مواد مہیا کرارہے ہیں ۔2014؁ء کے الیکشن سامنے ہونے کے باوجود جس طرح مسلمانوں کے تحفظ کے مسئلہ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک بار پھر بڑی سیاسی پارٹیاں میں ایک قسم کی مخاصمت بن گئی ہے کہ الیکشن تک ملک کے ماحول کو زیادہ سے زیادہ فرقہ وارانہ تناؤ سے بھر دیا جائے جس سے ووٹروں کا polarisationہوجائے ۔اور ملک کے اصل مسائل پر بحث ہی نہ ہو اور ملک خطرہ میں ہے کے نعرہ کے زور پر الیکشن کا بیڑا پار لگانے کی کوشش کی جائے ۔مسلمانوں کوہمارے دستور میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں مل سکتا مگر جنہیں ریزرویشن مل رہا ہے وہ تو مذہب کی بنیاد پر ہی مل رہا ہے ۔مگر فرقہ وارانہ فساد مخالف بل میں تو ایسا کوئی دستور ی پیچ بھی نہیں ہے پھر بھی یہ بل آگے کیوں نہیں بڑھ رہا ہے ۔جبکہ پولس اور انتظامیہ کی فرقہ وارانہ سوچ کا عالم یہ ہے کہ یوپی کے وارانسی دھماکوں میں گرفتار دو لوگوں طارق قاسمی اور خالد مجاہد کی گرفتاری پر B.S.Pکے زمانہ میں بٹھائے گئے نمیش کمیشن نے اپنی رپورٹ میں نہ صرف ان دونوں کی گرفتاری کو غیر قانونی ہی بتایا بلکہA.T.Sکے ذمہ داراہلکاروں کے خلاف کارروائی کی مانگ بھی کی ہے ۔مسلمانوں کے خلاف کھلی زیادتیوں کی تازہ ترین شکار ممبئی کی شاہین اور اسکے چچا کی مثال ہے ۔کہ کس طرح خیالی FIRپر لڑکیوں کو تھانے بلاکر پوچھ تاچھ کی گئی بلکہ انہیں گرفتار بھی کر لیا۔کیا اتنی صریح زیادتی کی خبر دنیا بھر میں عام نہیں ہوئی ہوگی؟کیا اس شرمناک واقعہ کے بعد بھی ایسے متعصب افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے لئے قانون نہیں بنایا جا ئیگا؟۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *