یَا اَیُّھَاالنَّاس قَدْ اَظَلَّکُمْ شَھْرٌ عَظِیْمٌ لوگو! تم پر ایک عظیم الشان مہینہ سایہ فگن ہے۔ (حدیث شریف)

اللہ کا شکر ہے برکتوں بھرا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ ہر لمحہ رحمتوں کا نزول۔۔ برکتوں کا فیضان ۔۔ روزے کی سعادت۔۔ تراویح کا اہتمام۔۔ افطار کے ذریعہ فرحت ۔۔ سحری کے ذریعہ برکت سمیٹنے کا موقع اللہ پاک ہر وقت دے رہا ہے۔ایک طرف رحمتوں کی بارش ۔ دوسری طرف اپنی کوتاہی ۔۔ اور گنتی کے یہ چند دن۔ اس برکتوں بھرے مہینے سے بیش از بیش استفادہ کیسے ہو، ہم یہ مبارک مہینہ پا کر کیسے اپنے گناہوں کی مغفرت کرالیں، خوب خوب برکتیں سمیٹ سکیں، اس کیلئے ذہنی تیاری اور اپنے نظام الاوقات کو درست کرنا ضروری ہے، تاکہ اس ماہ مبارک کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہو سکے ۔
رسول اکرم ﷺ شعبان کے مہینے سے ہی رمضان کی تیاری شروع کر دیتے تھے، آپ ﷺ نے رمضان المبارک کی آمد سے قبل صحابہ کرام ؓ کو خطاب فرمایا ۔حضرت سلمان فارسی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیا اور فرمایا:
’’اے لوگو !تمہارے اوپر ایک بڑا عظیم مہینہ سایہ فگن ہوا ہے، یہ برکتوں والا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے، اللہ تعالیٰ نےاس کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں کے قیام کو نفل قرار دیا ہے، جس شخص نے اس مہینے میں کوئی نیکی کرکے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا ، اور جس نے اس مہینہ میں ایک فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے دنوں میں اس نے ستر فرض ادا کیے ۔ اور رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے، اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم دردی کرنے کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا یا جاتا ہے۔اگر کوئی شخص اس میں کسی روزے دار کا روزہ کھلوائے ، تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اوراس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے، اور اس کے لئے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزے دار کے روزہ رکھنے کا ہے، بغیر اس کے کہ اس روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی واقع ہو۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے عرض کیا یا رسو ل اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق میسر نہیں ہے کہ کسی روزے دار کا روزہ کھلوائے، آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ یہ اجر اس شخص کو بھی دے گا جو کسی روزے دار کو دودھ کی لسی سے روزہ کھلوادے، یا ایک کھجور کھلادے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے، اور جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلادے تو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے پانی پلائے گا۔ پھر اسے پیاس محسوس نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا، اور یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کے آغاز میں رحمت ہے، وسط میں مغفرت ہے، اور آخر میں دوزخ سے رہائی ہے ۔اور جس نے رمضان کے زمانے میں اپنے غلام سے ہلکی خدمت لی اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور اس کو دوزخ سے آزاد کر دے گا۔ (بیہقی)
٭ ماہ رمضان نیکیوں کی برسات کا مہینہ :
ہمیں اس ماہ مبارک میں اپنے دامن کو نیکیوں سے بھرنے ، اجر سمیٹنے کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت فارغ کرنا چاہیے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’رمضان کی پہلی رات پکارنے والا پکارتا ہے ، اے بھلائی کے طالب آگے بڑھ، اے برائی کے طالب رک جا، وَ لِلّٰہِ عُتَقَائُ مِنَ النَّارِ وَ ذالِکَ کُلّ لَیْلَۃٍo اور اللہ کی طرف سے بہت سے لوگ ہیں جو آگ سے بچنے والے ہیں، اور یہ منادی ہر رات کو ہوتی ہے ۔ ‘‘
(رواہ الترمذی، ابن ماجہ)
قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جو اس ندا پر لبیک کہتے ہیں، اور رمضان المبارک کی پہلی رات سے ہی اپنے دامن کو نیکیوں سے بھرنے اور جہنم سے خلاصی کا پروانہ حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔
٭ کثرت سے تلاوت ِ قرآن پاک کا اہتمام کریں :
رمضان المبارک کا قرآن سے خاص تعلق ہے ، اس ماہ مبارک میں قرآن پاک نازل ہوا شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرآن o (البقرۃ ۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، یہ مہینہ قرآن کی سالگرہ ہے، لہٰذا ہم کثرت سے اس ماہ میں قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں۔ عام دنوں میں قرآن کی تلاوت کے ہر لفظ پر دس نیکی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’الٓم ‘‘ الف الگ ہے ، لام الگ ہے اور میم الگ ہے، ہر ایک پر دس نیکی ہے ، یہ تو اجر ہے عام دنوں کا ۔ رمضان میں جب اللہ پاک نیکیوں کا اجر ستر گنا اور سات سو گنا تک بڑھا دیتے ہیں تو تلاوت کلام پاک کا اجر خوب خوب ہے ، اس لئے ہم اس ماہ مبارک میں تلاوت کلام پاک کا خاص اہتمام کریں، اس قدر اہتمام کریں کہ ہمارا شمار ان خوش بختوں میں ہو جائے جنکی قرآن اور رمضان شفاعت کرتے ہیں ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’الصیام والقرآنِ یشفعانِ للعبد۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (رواہ البیہقی)
’’روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں، روزہ کہتا ہے اے رب میں نے اس کو دن بھر کھانے اور شہوات سے روکے رکھا، تو میری شفاعت اس کےحق میں قبول فرما۔ اور قرآن کہتا ہے اے رب میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا ، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ پس دونوں کی شفاعت قبول فرمائی جائیگی۔‘‘
٭ اس ماہ کی خاص عبادت نماز تراویح ہے :
اس کا لازمی اہتمام کرنا چاہیے ، پوری توجہ کے ساتھ نماز تراویح میں قرآن سننے کا التزام کریں، رسول اکر م ﷺ نے فرمایا :
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیمَاناً وَّ اِحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (متفق علیہ)
جس نے ماہ مبارک میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کیا ، اللہ پاک اس کے سارے گناہ معاف کردیتے ہیں۔
ایک عجیب رسم چل پڑی ہے ، کہ لوگ چار پانچ دنوں میں نماز تراویح میں قرآن مکمل کرکے یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہماری تراویح مکمل ہو گئی اور بقیہ دنوں سیر وتفریح کرتے ہیں۔ تراویح اس ماہ مبارک کی خاص عبادت ہے، اسے محض چند دنوں کی عبادت کے طور پر خاص کرنا غلط ہے۔
٭ روزہ ؛اس کا اجر اللہ دیگا :
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’ اس ماہ میں اللہ پاک نیکیوں کا اجر بڑھا دیتے ہیں، کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ اَلْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِہَا اِلیٰ سَبْعِ مِائَۃِ ضِعْفٍ قَال اللّٰہُ تَعَالیٰ اِلَّاالصَّوْمَ فَاِ نَّہُ لِی وَاَ نَا اَجْزِ بِہِ (مسلم کتاب الصوم )
’’ اس ماہ مبارک میں انسان کے ہر عمل کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا تک ملتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ اس سے مستثنیٰ ہے ، یہ عبادت صرف میرے لئے ہے ، اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا۔ ‘‘
ایک دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
وقَال اللّٰہُ تَعَالیٰ اِلَّاالصَّوْمَ فَاِ نَّہُ لِی وَاَ نَا اَجْزِی بِہِ یَدْعُ شَہْوَتَہُ وَ طَعَامَہُ مِنْ اَجْلِی
(متفق علیہ )
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے ، کیونکہ وہ صرف میرے لئے ہے ، اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، روزہ دار اپنی شہوات ِ نفس اور کھانے پینے کو صرف میرے لئے چھوڑ تا ہے ۔‘‘
یعنی روزے کا اجر اللہ پاک دیں گے، اور کتنا دیں گے اس کو اللہ پاک نے بیان نہیں کیا ہے، لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے روزے کی حفاظت کریں ، گالم گلوج ، جھوٹ، غیبت، چغلی سے کلی اجتناب کریں، اگر کوئی آپ سے روزے کی حالت میں جھگڑے تو آپ جوا بًاکہیں کہ میں روزے سے ہوں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
من لم یدع قول الزورِ والعمل بہ فلیس لِلّٰہِ حاجۃ فی ان یدع طعامہ و شرابہ
’’جس شخص نے روزے کی حالت میں جھوٹ بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا ہو تو اللہ پاک کو اس کی قطعاً ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے‘‘
یعنی محض بھوکھا رہنا روزہ نہیں ہے بلکہ روزہ کی اصل غایت تقویٰ ہے ۔ ہم اپنے دلوں کو تقویٰ کی دولت سے مالا مال رکھیں ،دل میں اللہ کا ڈر گھر کر جائے ، ہم صرف اللہ سے ڈرنے والے بنیں کہ اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے، وہ علیم ہے ، وہ بصیر ہے،خبیر ہے،ہم محفل میں ہو ں یا تنہائی میں دن کی روشنی میں ہوں یا رات کی تاریکی میں ، ہم اللہ سے چھپ نہیں سکتے ، اللہ کی نگاہ سے کوئی عمل پوشیدہ نہیں ہے، اس لئے ہم صرف اللہ سے ڈرنے والے بنیں ، جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ، مہلت عمل دی ہے اور جس کی طرف پلٹ کر جانا ہے، جو ہمارے اعمال کی جزا و سزا دے گا، تقویٰ کی اسی کیفیت کی آبیاری کیلئے یہ ماہِ مبارک ہمیں ملا ہے،اللہ پاک نے فرمایا”:
’’ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے کی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘
ہمہ وقت، ہر آن صرف اور صرف اللہ سے ڈرنے والے بنیں۔
٭ ماہ مبارک دعا کی قبولیت کا مہینہ :
روزہ صرف اللہ کیلئے ہے روزہ کی حالت میں ہم اللہ سے خوب خوب دعا کریں ، روزے کی حالت میں تضرع کے ساتھ کی گئی دعا اللہ پاک قبول کرتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اُدْعُوْ اللّٰہَ وَ اَنْتُمْ مُوقِنُوْنَ بِاالْاِجَابَۃ وَ اعْلَمُوا اَنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَجِیْب ُمِنْ قَلْب ٍغَافِلٍ لَاہ ٍ
(رواہ البخار ی)
’’اللہ سے مانگو تو دعا کی قبولیت پر یقین رکھو، کیونکہ اللہ غافل، لاپرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتا ۔‘‘
افطار کے وقت کی دعا جب کہ حلق سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہو ، دستر خوان پر انواع و اقسام کی نعمتیں موجود ہوں اس وقت ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کریںکہ افطار کے وقت کی دعا (اللہ پاک )رد نہیں کرتا ۔
رات کے پچھلے پہر کی دعا جب اللہ پاک سماء ِ دنیا پر ہوتے ہیں ، منادی کرنے والا فرشتہ منادی کر رہا ہو تا ہے ، یہ وہی وقت ہے جب ہم سحری کیلئے اٹھتے ہیں، کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس وقت کچھ دیر کیلئے ہم بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوں ، کچھ وقت دعاو مناجات میں گذاریں کہ اس وقت کی دعا اللہ قبول کرتا ہے ۔
شب قدر کی دعا بے شک اللہ ضرور قبول کرتا ہے، ہم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کو تلاش کریں ، اللہ سے خوب خوب دعا کریں، شب قدر میں اللہ کے حضور قیام کریں، آپ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ قَامَ لَیلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وّاِحْتِسَاباَ غُفِرَلَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (متفق علیہ)
جس شخص نے لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کیا تو اس کے گناہ معاف کر دئیے جائں گے جو اس نے پہلے کئے ہوں گے۔
شب قدرمیں ہم اللہ سے کیا مانگیں ، ہم سب کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے رسول پاک سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول میںشب قدر میں اللہ سے کیا مانگوں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دعا ضرور مانگو۔
اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَا فَاعْفُ عَنِّی(رواہ احمد، ابن ماجہ، ترمذی)
اے اللہ بیشک تو معاف فرمانے والا ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، اے اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما۔
ہم ماہ مبارک کی بابرکت ساعتوں میں دعاؤں کا خوب خوب اہتمام کریں، رو رو کر دعائیں کریں، سحری اور افطار کے مواقع پر اور وقت خاص کی دعاؤں میں ہم اسیروں کو نہ بھولیں، دنیا بھر کے قید خانوں میں قید اسیر ، مجبور، بے قصوروں کی رہائی کے لئے دعا کریں۔
٭ رمضان کا آخری عشرہ جہنم سے نجات پانے کا عشرہ ہے :
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یوں تو پورے رمضان میںعبادت ، ریاضت، جود و سخا کا دریا رواں دواں رہتا تھا ، لیکن آخری عشرہ کا آپ کچھ اور ہی زیادہ اہتمام فرماتے تھے ، رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے اہتمام کا اندازہ ان احادیث سے لگائیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یَجْتَھِدُ فی العشرالاواخر مایَجْتَھِدُ فی غیرہٖ
(رواہٗ مسلم)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اللہ کی عبادت کرنے میں جس قدر محنت کرتے تھے، اتنی محنت کسی اور زمانہ میں نہیں کرتے تھے ۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عشرہ کے اہتمام کی تصویر دیکھیں :
اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئزَرَہُ وَ اَحْییٰ لَیْلَہُ وَاَیْقَظَ اَھْلَہُ (متفق علیہ)
’’ رمضان المبارک کی آخری دس تاریخیں آتی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمر بستہ ہو جاتے تھے۔ رات بھر جاگتے تھے، اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے ‘‘
٭ اعتکاف آخری عشرہ کی خاص عبادت ہے :
دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے کٹ کر مسجد کے گوشے میں پردہ لٹکاکر اعتکاف کیا جاتا ہے، یہ اعتکاف تقویٰ اور تربیت کیلئے بڑی اہم عبادت ہے ، دل ہر وقت اللہ سے لگا رہے، ذکر و مناجات، تلاوت کلام پاک ، اور شب قدر کی تلاش وجستجو میں پورا عشرہ گذر جائے، یہ ہے اعتکاف ۔
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنھا اَنَّ النَّبِی ﷺ کَانَتْ یَعْتَکِفُ اَلْعَشْر اَلْاَوَاخِرْ مِنْ رَمَضَانْ حَتّیٰ توَفَّاہُ اللّٰہُ ثُمَّ اَعْتَکَفَ اَزْوَاجُہٗ مِنْ بَعْدِہِ
حضرت عائشہ فرماتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات بخشی، پھر آپ کے بعدآپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (متفق علیہ )
ہمیں چاہیے کہ ہم دولت اعتکاف کو سمیٹنے کیلئے اعتکاف کا اہتمام کریں، تمام مسلم مرد و خواتین کے دل میں اعتکاف کی آرزو ہونی چاہیے ، اعتکاف کا اجر کتنا عظیم :
عَنْ اِبْنِ عَبَّا سٍ اَنَّ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ قَال فِیْ الْمُعْتَکِفِ ہُوَ یَعْتَکِفُ الذُّنُوْبَ وَیَجْرَا لَہُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلَّھاَ (ابن ماجہ)
حضرت عبد اللہ ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا : اعتکاف کرنے والا چونکہ اعتکاف کے زمانے میں گناہوں سے رکا رہتا ہے اس لئے اس کے حق میں وہ تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اس شخص کے حق میں لکھی جاتی ہیں جو تمام نیکیوں پر عمل پیرا ہوتا ہے۔
یعنی معتکف دولت اعتکاف کو تو سمیٹ ہی رہا ہوتا ہے، لیکن اعتکاف کی وجہ سے وہ باہر کی بھاگ دوڑ نہیں کر سکتا ، اللہ کی نوازش دیکھئے، باہر کی بھاگ دو ڑ کی تمام نیکیاں بھی اس کے حق میں لکھی جاتی ہیں ۔
٭ جود و سخا کا مہینہ:
اس آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جود و سخا میں اتنی تیزی آجاتی تھی جتنی ہواؤں میںر ہتی ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ بیان فرماتے ہیں :
آپ ﷺ تمام انسانوں سے زیادہ سخی اور فیاض تھے، لیکن آخری عشرے میں جب حضرت جبرئیل ؑ آپ ؐ سے ملتے تھے تو حضور ؐ کان اجود باالخیر من الریح المرسلہ (متفق علیہ)خیر اور بھلائی کے معاملے میں چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ فیاض ہوتے تھے، ۔ یعنی وہ ہوا جو چلنے کے بعد کہیں رکتی نہیں اور ہر چیز سے گذرتی ہے اور ہرجگہ پہنچتی ہے۔
٭ اس آخری عشرہ میں لیلۃ القدر ہے جسکی ایک رات کی فضیلت ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے:
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا :
ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ۔ اس رات میں فرشتے اور روح القدس اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں اور وہ شب سراپا سلام ہے اور وہ شب اسی صفت و برکت کے ساتھ طلوع فجر تک رہتی ہے۔ (القرآن)
یہ رات آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے ، آپ ؐ نے فرمایا:
تَحَرَوا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الوِتْرِ مِنَ العَشرِ الاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانْ(رواہ البخاری)
لیلۃ القدر کو رمضان المبارک کی آخری دس راتوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو، انہیں طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات (لیلۃ القدر) ہے ۔
شب قدر کی تلاش میں طاق راتوں میں رات رات بھر عبادت میں گذار دیں ، رب کے حضور رو رو کر اپنےگناہوں کی بخشش کرالیں، کہ یہی کامیابی ہے …… شب قدر کی تلاش سے غفلت اور اس سے محرومی بہت بڑی محرومی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرِ مَنْ حُرِمَ فَقَدْ حُرِمْ (رواہ احمد و نسائی)
اور اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے زیادہ بہتر ہے ، اور جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا ، وہ بس محروم ہی رہ گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا :
فِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرِ مَنْ حُرِمَہَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَیْرَ کُلَّہُ وَلَا یُحْرَمُ خَیْرَھَا اِلّا کُلُّ مَحْرُومٍ (رواہ ابن ماجہ)
’’… اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ تمام بھلائی سے محروم رہ گیا، اور اس کی بھلائی سے وہی محروم رہتا ہے جو ہے ہی بے نصیب‘‘
ہمیں چاہیے کہ ہم آخری عشرہ کا خاص اہتمام کریں ، کثرت تلاوت شب بیداری، ذکر و اذکار کے لئے وقت فارغ کریں، اعتکاف کا اہتمام کریں،اور اہل خانہ کے مابین شب بیداری کا خاص ماحول بنائیں۔
٭ اس ماہ کی آخری رات اجرت پانے کی رات ہے :
جو غفلتوں کی نذر ہو جاتی ہے، جو گذر جاتی ہے خوشگپیوں میں، شاپنگ کرنے، اور دیگر مصروفیات میں حالانکہ یہ مزدور کی مزدوری پانے کی رات ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یُغْفَرُ لِاُمَّتِہِ فِیْ آخِرِ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَان قیل یا رسول اللہ اَہِیَ لیلۃ القدر قال لا، وَلکِنَّ الْعَامِلَ اِنَّمَا یُوَفَّیٰ اَجْرَہُ اِذَا قَضیٰ اَمَلَہُ (رواہٗ احمد)
فرمایا رمضان کی آخری رات کو میری امت کی مغفرت ہو جاتی ہے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! کیا یہی لیلۃ القدر ہے، حضور ؐ نے ارشاد فرمایا : نہیں!بلکہ مزدور کو اس کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہے جب وہ اپنا کام مکمل کر لیتا ہے ۔
امت کی مغفرت کا یہ مطلب نہیں کہ ان لوگوں کی بھی مغفرت ہو جاتی ہے جو نہ تو روزہ رکھیں اور نہ ہی دوسرے احکام کی پیروی کریں، بلکہ امت کے ان لوگوں کی ہوتی ہے جو روزے کا اہتمام کرتے ہیںاور احکام خدا وندی بجا لاتے ہیں، …… ہمیں چاہیے کہ اس آخری رات کے لئے کچھ وقت ضرور فارغ کریں، اللہ کے حضو ذکر و مناجات اور اجر پانے کیلئے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہم تمام کو اس با برکت مہینے سے خوب خوب استفادہ کی توفیق دے تاکہ ہم اپنے گناہوں کی بخشش کرا سکیں۔ آمین

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *