اِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً وَ ھَذا عِیْدُناَ (حدیث) ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اوریہ ہماری عید ہے ۔

خوش ہونا۔۔خوشیاں بانٹنا۔۔اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے ۔دنیا کے مختلف مذاہب میں تہواروں کی روایت اسی انسانی فطرت کا مظہر ہے ، دنیا جب سے قائم ہے انسانوں نے اپنے اپنے لحاظ سے ایام کو مخصوص کر رکھا ہے جس دن وہ اپنے انداز میں خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں ؛ خوش ہوتے ہیں ؛ جشن ونشاط کی محفلیں سجاتے ہیں؛ الگ الگ انداز میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔کوئی اس دن کیچڑ پھینک کر، غلاظت پوت کر، کپڑے، جسم و بدن خراب کرکے خوش ہوتا ہے ۔ ۔ سڑک سے گذرنے والے مسافروں ، بسوں اور ٹرینوں تک کو وہ اسی گندگی و غلاظت میں رنگنا چاہتا ہے ، اسلئے کہ آج اس کا خوشی کا دن ہے ۔ ہم اپنے گردو پیش اسی طرح کے مناظر کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ، اور اخبارات میں اس طرح کی سرخیاں بھی پڑھتے ہیں ’’دیپاولی کی رات چودہ کروڑ کی شراب پی گئے لکھنؤ والے‘‘،’’۔۔ ہولی کے دن زہریلی شراب پینے کی وجہ سےبارہ بنکی میں ۸ افراد کی موت ‘‘ ۔۔ ’’ ہولیکا جلانے کے موقع پر دس غریبوں کے جھونپڑے نذر آتش‘‘ ۔۔ ’’دسہرہ مورتیاں بہائے جانے کے موقع پر دکانوں میں لو ٹ پاٹ، سڑک جام، پولس کا لاٹھی چارج‘‘۔۔۔۔۔۔۔
تیز آواز میں گانے بج رہے ہیں، سڑکوں پر دھینگا مشتی ہو رہی ہے ، کیچڑ ، گوبر، غلاظت ، رنگوں کے ذریعہ ہولی کھیلی جا رہی ہے۔۔الگ الگ مذاہب ، الگ الگ تہذیبوں کے ماننے والوں کی اپنی عید اور خوشی منانے کے الگ الگ اطوارہیں، جس میں کثرت سے شراب نوشی، منشیات اور حواس کو مختل کردینے والی اشیاء کا استعمال اس میں غرق ہو کر خوش ہونے، خوشیاں منانے کا رواج ہے ۔
و ھٰذا عیدُنا
مگر مسلمانوں کا جشن ماتم ، خوشی ، غم ، جینا اور مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہوتا ہے ۔ قُلْ اِنَّ صَلوٰتِی وَ نُسُکِی وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ العٰالَمِیْن لَا شَرِیکَ لَہُ وَ بِذٰالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمینْo کہہ دو !میری نماز میری تمام عبادات ، میرا جینا میرا مرنا جو کچھ ہے اللہ کیلئے ہے ، جو تمام جہانوں کا رب ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں مجھ کو ایسا ہی حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں ۔
اوروں کے جشن کا انداز تو یہی ہے کہ وہ دنیا وی لذات میں اس قدر محوو مگن کہ اپنے مالک حقیقی کی نافرمانیوں کے ذریعہ ہی خوش ہوتے ہیں ۔۔ ایک مسلمان کا یوم ِ جشن پر کیف ، سادہ، رونق بخش ، ایمان افروز اور روحانی ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگوں کے سال میں دو روز کھیل کود کے مقرر تھے ، آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ یہ دوروز کس قسم کے ہیں؟ تو لوگوں نے جواب دیا کنا نلعب فیہما فی الجاہلیۃ ایام جاہلیت میں ہم ان دو دنوں میں کھیل کود کرتے تھے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان دونوں کےعوض دو دن عطا فرما ئے ہیں جو ان دو دنوں سے بہتر ہیں؛ ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی کا دن ہے ۔ (سنن ابو داؤد جلد اول حدیث ۱۱۲۱)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کے کھیلنے کے دو دن مقرر تھے قد ابدلکم اللہ بھما خیراً منھما یوم الفطر و یوم الاضحی اللہ تعالیٰ نے انہیں ان سے بہتر دنوں میں تبدیل کر دیا ہے یوم الفطر و یوم الاضحی (نسائی جلد اول : باب کتاب صلوٰۃ العیدین)
بندگان خدا عید کی رات ہی بارگاہ الٰہی میں اپنی گناہوں کی مغفرت کیلئے اپنی اجرت پانے کیلئے سر بسجود ہیں ، گذرے ہوئے ایام کی کوتاہیوں پر نادم ، شرمندہ و نالاں ہیں۔ ماہ مبارک گذر گیا ۔۔ وہ مہمان اللہ کے حضور پہنچ گیا ۔۔ کیا یہ الصِّیام اللہ سے ہمارے گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے خلاصی کی سفارش کرے گا ۔ اس ماہ میں ہم سے غلطیاں ہوئیں۔۔ کوتاہیاں رہیں۔۔ تلاوت قرآن پاک میں و ہ انہماک جو مطلوب تھا ،نہ رہا ۔۔ تراویح، نماز اور نوافل میں کمیاں رہیں ۔۔ کیا ہم نے اس قدر اہتمام کیا کہ اللہ کے حضور بخش دیے جائیں گے۔۔ ؟کیا ہم لیلۃُ القدر کی تلاش میں پوری رات قیام و قعود، دعا اور مناجات میں گذارنے کے بجائے غافل رہے ؟ اس رات بھی ہم کو ہمارے بستر نے نہیں چھوڑا ۔۔ ؟ہم سے کوتاہیاں ہوئیں۔۔ اب آخری رات بارگاہ ِ الٰہی میں اپنی مغفرت اور بخشش کا موقع، جانے انجانے کی غلطیوں کا احساس اس خوشی کے موقع پر جذبہ انابت کو اور بڑھا دیتا ہے ۔
مژدۂ عید
افق پر ہلال عید چمکا ۔۔ مژدہ ٔ عید سنا گیا ۔۔ ماہ مبارک کے رخصت ہونے کا اعلان کر گیا ۔۔ ایک ماہ کے روحانی و جسمانی تربیتی کورس کے اختتام کا اعلان کر گیا ۔۔ مسرت و شادمانی کا پیغام دے گیا۔۔ لیکن مژدہ ٔ عید سے صبح عید تک ایک پوری رات باقی ہے ۔۔ اس رات عید کی مبارکباد دیں۔۔ بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوں ۔۔ اللہ سے دعا کریں کہ اس ماہِ مبارک میں جو لغزشیں، کوتاہیاں سرزد ہو گئیں ہیں اللہ در گذر فرمادے اور ہمیں اپنے فضل و کرم سے پوری پوری اجرت عطا فرما دے ۔۔ اسی ذکر و سر مستی میں رات گزرے۔
ہم نے روزہ رکھ کر جسم کی زکوٰۃ تو عطا کر دی لیکن عید گاہ جانے سے قبل روزے کی زکوٰۃ نکالنا باقی ہے ، تاکہ روزے میں ہوئی کمیاں، خامیاں اور نقائص سے ہمارا روزہ پاک ہو جائے ۔
’’ اَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ خَطَبَ بِا لْبَصَرَۃَ فَقَالَ اَدُّو زَکَوٰۃَ صَومِکُمْ …… حضرت ابن عباس نے بصرہ میں اپنے خطبہ ٔ عید میں کہا کہ اپنے روزوں کی زکوٰۃ ادا کیا کرو۔ یہ سن کر لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ آپ نے کہا یہاں اہل مدینہ میں سے کون کون لوگ ہیں؟ اٹھو اپنے بھائیوں کو بتاؤ ۔۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ ٔ فطر ہر چھوٹے بڑے، آزاد ، غلام اور مرد عورت پر فرض کیا ہے اس کی مقدار نصف صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور ہے ۔ ‘‘ (نسائی شریف جلد اول حدیث ۱۵۸۴)
صدقہ ٔ فطر روزے کی زکوٰۃ ہے ، اس کو عید گاہ جانے سے پہلے ادا کرنا ہے ۔ اَنَّ النبی ﷺ اَمَرَ بِزَکوٰۃِ الفِطْرِ قَبْلَ خُرُوجِ النَّاس اِلَی الصَّلٰوۃ (بخاری شریف جلد اول حدیث ۱۴۲۰) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ ٔ فطر نماز کیلئے جانے سے پہلے نکالنے کا حکم دیا ہے ۔
صحابہ ٔ کرام کا معمول تھا وہ صدقہ ٔ فطر نماز عید سے قبل ادا کر دیا کرتے تھے ، کیونکہ اس صدقہ کا مقصد روزے کو پاک کرنا ہے اور مسکینوں کے لئے تدبیرِ طعام ہے تاکہ عید کے دن کوئی بھوکا نہ رہے، عید کے دن اللہ پاک اپنے بندوں کی ضیافت فرماتے ہیں کہ آج کے دن کوئی بھوکا نہ رہے اور غریبوں کی بھی عید ہو جائے ۔ صدقہ ٔ فطر کے یہی دو مقاصد ہیں ۔ تطہیر صیام ۔۔ تد بیر طعام۔
فرض رسول اللہ ﷺ زَکوٰۃَ الْفِطْرِ طُہْرَۃً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَ الرَّفْثِ وَ طُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْنِ مَنْ اَدَّاھَا قَبْلَ الصَّلوٰۃ فَھِیَ زَکاٰۃٌ مَقْبُولَۃٌ وَمَنْ اَدَّاھَا بَعْدَ الصَّلٰوۃِ فَھِیَ صَدَقَۃً مِنَ الصَّدَقَاتِ(سنن ابو داؤد جلد اول حدیث ۱۵۹۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کوبے ہودہ اور لا یعنی گفتگو سے پاک کرنے اور مساکین کی پرورش کے لئے صدقہ فطر مقرر فرمایا ۔ پس جو شخص نماز عید سے قبل صدقہ فطر ادا کرے تو وہ ایک مقبول صدقہ ہوگا اور جو اس کو بعد نماز عید ادا کرے تو وہ بھی ایک صدقہ ہوگا (مگر)دیگر صدقات کے مانند۔
صدقہ ٔ فطر عید گاہ جانے سے پہلے ادا کرنا چاہیے تاکہ ’’طعمۃ للمساکین ‘‘کا نظم ہو جائے ۔ تاکہ مساکین بھی خوشی میں شریک ہو سکیں ۔
صبح عید
قلب کے تذکیہ ،بدن و لباس کی طہارت، پاکیزگی اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ تمام مسلمانوں کا اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہو کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ بندگی و نذرانہ ٔ تشکر بجا لانے کا نام عید ہے ۔عید اصلاً خوشی کا دن ہے ، جشن کا دن ہے ۔
…… عید جشن ہے روزوں کی تکمیل کا ۔
…… عید جشن ہے ماہ رمضان میں نزول قرآن کا
…… یہ جشن ہے ۱۷؍ رمضان المبارک کوکفر کے مقابلے اسلام کی فتح کا ۔
…… یہ جشن ہے ۲۱؍ رمضان المبارک کو اسلام کی مکمل فتح ، فتح مکہ کا ۔
…… یہ جشن کا دن ہے ، خوشی کا دن ہے ۔۔ آج کے دن روزہ حرام ہے ، اسلئے کہ آج اللہ پاک کی جانب سے ضیافت کا دن ہے ۔
نھی رسول اللہ ﷺ عن صیامہما یوم فطرکم من صیامکم و الیوم الآخر تاکلون فیہ من نُسُکِکُم ( بخاری جلد اول حدیث ۱۸۶۰)
یہ دو ایسے دن ہیں کہ ان کے روزے کی آنحضرتؐ نے ممانعت فرمائی ہے ۔ رمضان کے روزوں کے بعد عید الفطر کے دن ۔۔ دوسرا وہ دن جس دن تم اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ہو۔
اس دن خوش ہونے ، خوشیاں منانے کا انداز ہی نرالا ہے ۔ علی الصبح غسل کرنا، مسواک کرنا، صاف کپڑے پہننا، عطر و خوشبو لگانا، بچے ، بوڑھے ، جوان ، مرد و خواتین کو عید گاہ کیلئے نکالنا ۔ عید گاہ جانے سے قبل میٹھا کھاکر نکلنا۔۔ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل چند کھجوریں کھالیتے تھے ۔۔ کان رسول اللہ ﷺ لا یغدو یوم الفطر حتی یا کل تمراتٍ۔ حضرت انس بیان فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ کھجوریں طاق عدد میں کھاتے تھے ۔ (بخاری شریف جلد اول حدیث ۹۰۵)
عید گاہ جاتے ہوئے فرشتوں کی جانب سے گلی کوچے اورچپے چپے پر اہل ایمان کا استقبال ہوتا ہے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :عید سعید کے دن فرشتے دنیا کے چپے چپے میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ مسلمانوں نکلو اپنے رب کریم سے اپنا انعام لے لو، اسکی جود و سخا سے فیض یاب ہو جاؤ اور اس کی رحمتوں اورمغفرت سے سرفراز ہو جاؤ ۔اور یہ پکار انس و جن کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے ۔ (ابن حبان و البیہقی)
آپ ﷺ نے عید کے دن عید گاہ کیلئے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا ۔ خواتین نے دو عذر پیش کئے ۔۔ پہلا عذر ،اے اللہ کے رسول ﷺ ہم میں سے بعض اس دن حالت حیض میں ہوتی ہیں کیا تب بھی ہم نکلیں ۔۔ سوال اس لئے بھی پیدا ہوا کہ حائضہ نماز عید تو ادا نہیں کر سکتی تو پھر عیدگاہ کس لئے جائے ۔۔ عَنْ ام عطیہ ؓ قَالَتْ کُناَّ نُومَرُ اَنْ نُخْرَ جُ یَومَ العِیْدِ حَتَّی نُخْرجَ الْبِکْرَ مِن خِدْ رِھَا حَتَّی نُخْرجَ الْحُیَضَ فَیَکُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَیُکَبَّرْ نَ بِتَکْبِیرِھِمْ وَ یَدْعُوْنَ بِدُعَائِھِم یَرْجُونَ بَرْکَۃَ ذَالِکَ الْیَومِ وَ طُھْرَتَہُ۔ (بخاری شریف جلد اول ۹۲۰)
حضرت ام عطیہ بیان کرتی ہیں کہ ہمیں عید کے دن عیدگاہ جانے کا حکم تھا، کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں پردہ کرکے باہر آتیں اور مردوں کے پیچھے پردے میں رہتیں جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں، جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی دعا کرتیں ۔ اس دن کی برکت و طہارت سے ان کی بھی توقعات وابستہ تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے جوان لڑکیوں اور پردہ والیوں اور حائضہ عورتوں کو عیدگاہ جانے کی صراحت کرتے ہوئے فرمایا یَخْرُجُ الْعَواَتِقُ وَ ذَواَتُ الخُدُورِو الْحُیَّضُ وَلیَشْھَدْنَ الخَیْرَ وَ دَعوَۃ المومنین ۔ (بخاری جلد اول حدیث ۳۱۶) یہ تمام نکلیں ، مواقع خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں ، اور رہا معاملہ حائضہ عورتوں کا تو بہرحال حائضہ نماز سے علاحدہ رہ کر بھلائی اور مسلمانوں کی دعائوں میں حاضر ہوں ۔فَاَمّاَ الْحُیَّضُ فَیَعْتَزِلْن الصَّلٰوۃ ولیَشْھَدْنَ الخَیْرِوَ دَعْوَۃَ الْمُسلِمِیْن۔ (مسلم شریف جلد اول ۲۰۵۶)
حضرت حفصہ ؓ نے حضرت ام عطیہ ؓ سے حیرت و استعجاب کے عالم میں پوچھا یہ حیض والی عورتیں بھی عید گاہ جائیں؟ تو حضرت عطیہ ؓ نے کہا کہ آپ ؐ نے اس کا حکم دیا تھا اور پھر مزید کہا اَلَیْسَ الْحَائضُ تَشْھدُ عَرَفاَ تٍ وَ تَشْھَدُ کَذا وَ کَذا۔ (بخاری شریف جلد اول)
کیا حائضہ عورتیں عرفات نہیں جاتیں اور فلاں فلاں جگہوں پر شریک نہیں ہوتیں۔
خواتین نے دوسرا عذر پیش کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اگر ہم میں سے کسی کے پا س پردہ کرنے کے لئے چادر نہ ہو تو اس عذر کی بنا پر اگر عید گاہ نہ جائے تو کوئی حرج ہے ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا فَقَالَ لِتُلْبِسَھاَ صَاحِبَتُھَا مِنْ جِلبَابِھا فَلیَشھَدنَ الْخَیر وَ دَعْوَۃَ المُؤ مِنِین( بخاری شریف جلد اول ) اس کی سہیلی اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہو۔
بخاری شریف کے مترجم و محشی نے حاشیہ میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ عورتوں کی شرکت اس وجہ سے مناسب سمجھی گئی کہ مسلمانوں کی شان و شوکت کا مظاہرہ ہو ۔ (بخاری شریف جلد اول حدیث ۹۲۷ حاشیہ)
عید گاہ
عیدگا ہ ،خیر ،دعوۃ المسلمین ،نوازش الطاف الٰہی کے اعلان کی جگہ ہے ۔ عید گاہ میں صفیں بناکر سلیقے سے بیٹھنا ، اللہ کی تکبیر بیان کرنا ،آگے مردوں کی صفیں ہوں اور خواتین مردوں کے پیچھے با پردہ صف بنائے بیٹھی ہوں ، سب عید گاہ میں سر بسجود ،دست بہ دعا ہوں ۔۔ عید گاہ میں سب سے پہلے دو رکعت نماز با جماعت مع زائد تکبیروں کے اس کے بعد خطبہ یہی رسول پاک ﷺ کا معمول رہا ہے ۔
عید گاہ کا پیارا اور پاکیزہ ماحول ، اچھے اور صاف کپڑوں میں ملبوس عطر کی خوشبو تکبیر و تحلیل اور اللہ کی طرف سے اعلان ۔
’’جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ پاک اپنے بندوں پر اپنے ملائکہ کے درمیان فخر کرتا ہے اور انہیں مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! اس مزدور کی مزدوری کیا ہوگی جس نے اپنے ذمہ کا کام پورا کر دیا ہے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دی جائے ۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے”: اے میرے ملائکہ! میرے ان بندوں اور بندیوں نے اپنا وہ فرض ادا کر دیا جو میں نے ان پر عائد کیا تھا ، پھر اب یہ گھروں سے عید کی نماز ادا کرنے اور مجھ سے گڑگڑا کر مانگنے کیلئے نکلیں ہیں اورقسم ہے میری عزت اور میرے جلال کی اور میرے کرم اور میرے بلند مرتبے کی اور میری بلند مقامی کی ،میں ان کی دعائیں ضرور قبول کروں گا۔۔ پھر اللہ پاک اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں ۔ اِرجِعُوا قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ وَ بَدَّلتُ سَیِاٰتِکُم حَسَناَتٍ قاَ لَ فَیَرْجِعُونَ مَغْفُوراً لَہُمْ۔ جاؤ !میں نے تمہیں معاف کر دیا اور تمہاری برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دیا ۔ پھر وہ اس حالت میںپلٹتے ہیں کہ انہیں معاف کر دیا جاتا ہے ۔ (بیہقی)
اللہ نے ماہ مبارک بخشا؛ اس کے اہتمام کی توفیق بخشی اور آج اللہ کی جانب سے ضیافت کا دن ہے اسی لئے آج کا روزہ حرام ہے ۔ آپ ﷺ نے عید گاہ پہنچ کر سب سے پہلے ۲؍رکعت نماز پڑھائی اس کے بعد خطبہ کیلئے کھڑے ہوئے اورآپ ﷺ نے خطبہ دیا ۔
فَیَقُومُ مَقَابِلَ النَّاسِ وَ النَاسُ جُلُوسٌ عَلَی صُفُوفِھِمْ فَیَعِظُھُمْ وَ یُوصِھِمْ وَ یَامُرَھُم فَاِن کَانَ یُرِیدُ اَنّ یَقْطَعَ بَعْثاً قَطَعَہٗ اَوْیاَ مُرُ بِشَیئٍ اَمَرَ بِہِ ۔ (بخاری شریف جلد اول حدیث ۹۰۸)
نبی ﷺ خطبے کیلئے کھڑے ہوتےاور لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے۔آپؐ انہیں وعظ و نصیحت کرتے ، اچھی باتوں کا حکم دیتے۔ اگر جہاد کیلئے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو اس کا اعلان کرتے ، اس کیلئے تیار ہونے کا حکم دیتے ۔۔ کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تو وہ دیتے ۔
آپ ؐ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے وَ کَانَ یَقُولُ تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا وَ کَانَ اَکثَرَ مَنْ یَّتَصَدَّقُ النِّساَئُ (مسلم شریف ج اول حدیث ۲۰۵۳) اور فرماتے صدقہ کرو صدقہ کرو صدقہ کرو اور عورتیں زیادہ صدقہ کرتیں ۔
آپ ﷺ کا عید گاہ میں خواتین سے خطاب
آپ ﷺ نے مردوں کو عید کا خطبہ دیا ، آپ کو گمان ہو ا کہ پیچھے بیٹھی خواتین نے خطبہ نہیں سنا فَظَنَّ اَنَّہُ لَمْ یُسْمِعٍ النِّسَائَ فَوَعَظَھُنَّ ( بخاری جلد اول حدیث ۹۷) آپ ؐ خواتین کے پاس آئے انہیں نصیحت کی ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ؐ جب مردوں کے خطاب سے فارغ ہوئے تو عورتوں کی طرف آئے آپ نے انہیں نصیحت کی اس وقت آپ ﷺ حضرت بلال کے ہاتھوں کا سہارہ لئے ہوئے تھے اور بلال ؓ نے اپناکپڑا پھیلا رکھا تھا ۔ (بخاری جلد اول باب موعظۃ الامام النساء یوم العید)
آپ نے خواتین سے خطاب فرمایا اور یہ آیت تلاوت فرمائی یَااَیُھَا النَّبِیُ اِذَاجَائَ کَ المُومِناتُ یُباَ یِعْنَکَ اَلّاَیُشْرِکْنَ بِااللّٰہِ شَیئاَ ۔
اس آیت کی تلاوت سے آپ فارغ ہو ئے تو فرمایا کہ کیا تم سب اس کا اقرار کرتی ہو، ان میں سے ایک عورت کے سوا کسی نے جواب نہیں دیا ۔ اس خاتون نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ۔ (مسلم شریف جلد اول) (چونکہ خواتین میں سے وہی خاتون نمائندہ تھیں اس لئے صرف انہوں نے ہی جواب دیا ۔ )
آپ نے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تَصَدَّقْنَ فَاِنَّ اَکْثَرَکُنَّ حَطْبُ جَہَنَّم فَقَامَتِ امرَأۃٌ مِنْ سِطَۃِ النِّسائِ سَفْعَائُ الخَدَّیْنِ فَقاَلَت لِمَ یَا رَسُولُ اللّٰہ ﷺ قَالَ لِاَنَّکُنَّ تُکْثِرْنَ الشَّکوٰۃَ وَ تَکْفُرْنَ الْعَشِیْر۔ (مسلم شریف جلد اول حدیث ۲۰۴۸) صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایدھن بننے والی ہیں ، عورتوں کے درمیان سے ایک سرخی مائل سیاہ رخسار والی عورت نے کھڑے ہو کر عرض کیا ایسا کیوں اے اللہ کے رسول ﷺ ؟آپ ؐنے فرمایا کیونکہ تم شکوہ زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری ۔ آپ نے انہیں مزید نصیحت کرتے ہوئے فرمایا فَاَمَرَھُنَّ بِتَقْوَی اللّٰہِ و وَعَظَھُنَّ وَذَکَّرَ ھُنَّ وَ حَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنَی عَلَیہٖ ثُمَّ حَشَّھُنَّ عَلٰی طَاعَتِہِ ثُمَّ قَالَ تَصَدَّقْنَ ۔ (نسائی شریف جلد اول ۱۵۷۹)
آپ ﷺ نے عورتوں کو اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا انہیں وعظ و نصیحت کی پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور انہیں اطاعت کی ترغیب دی پھر فرمایا: اے عورتوں صدقہ دیا کرو۔ آپ ﷺ نے عورتوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیا عورتوں کی اثر پذیری کا عالم دیکھیں؛ عورتوں کے انفاق کا والہانہ پن دیکھیں فَاَمَرَھُنَّ بِالصَّدَقَۃِ فَجَعَلْنَ یُلْقِینَ تُلْقِی المَرأۃُ خُرُصَھاَ وَسِخَابَھاَ (بخاری جلد اول ۹۱۳) آپ ﷺ نے خواتین کو صدقہ کرنے کا حکم دیا چنانچہ وہ ڈالنے لگیں کانوں کی بالیاں اور گلے کےہار تک ڈال دئیے ۔
فَجَعَلَتِ الْمَرْأَتُ تُلْقِی الْقُرطَ وَ الْخَاتَمَ وَ بِلاَلٌ یَا خُذُ فِی طَرْفِ ثوَبِہِ (بخاری جلد اول ۹۷) وعظ سن کر کوئی عورت کان کی بالی تو کوئی عورت انگوٹھی ڈالنے لگی اور بلال اپنے کپڑے کے دامن میں یہ چیزیں لینے لگے ۔
فَجَعَلْنَ یَتَصَدَّقْنَ مِنْ حُلِیَتِھِنَّ یُلْقِیْنَ فِی ثَوْبِ بِلالٍ مِنْ اَقْرَطِھِنَّ وَ خَوَاتِیْمِھِنَّ
(مسلم جلد اول ۲۰۴۸)
پس عورتوں نے اپنے زیورات سے صدقہ کرنا شروع کر دیا ، حضرت بلال کے کپڑے میں اپنے کانوں کی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں ۔
پس عورتوں میں سے کسی نے انگوٹھی ، کسی نے چھلا اور کسی نے کوئی اور چیز ڈالنا شروع کر دیا ۔
(مسلم شریف جلد اول حدیث ۲۰۴۵)
پس خواتین اپنے کانوں اور گلوں سے ہار اتارنے لگیں اور حضرت بلال کے کپڑے میں ڈالنا شروع کر دیا۔ (ابو داؤد شریف جلد اول حدیث ۱۱۳۳)
پس کوئی عورت کانوں کی بالی ، کوئی انگوٹھی حضرت بلال ؓ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔
(ابو داؤد شریف جلد اول ۱۱۳۰)
پس کوئی عورت کان کی بالی ڈالنے لگی تو کوئی گلے کا ہار۔ (ابو داؤد شریف جلد اول ۱۱۴۶)
عورتوں نے اللہ کی راہ میں نچھاور کرنے کا بڑا ہی ایمان افروز منظر پیش کیا ۔آپ ﷺ کا وعظ اور نصیحت سن کر خواتین نے اپنے گلے سے ہار ، کانوں کی بالیاں اور انگوٹھیاں اتار اتار کر حضرت بلال کے کپڑے میں ڈالنا شروع کیا اور صدقہ کر دیا۔ (نسائی شریف جلد اول ۱۵۷۹)
یوم عید
عید کا دن خوشیاں منانے کا دن ہے ، عید کے دن آپ ﷺ حضرت عائشہ کے ہجرے میں تشریف لائے تو وہاں دو انصار کی بچیاں خوشی کے ترانے گا رہی تھیں ، حالانکہ وہ کوئی گانے والیاں نہ تھی ، عید کی خوشی میں گارہی تھیں۔ آپ ﷺ اپنا چہرہ دوسری طرف کرکے اسی ہجرے میں لیٹ گئے ، حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں عِنْدِیْ جَارِیَتَانِِ تُغَنَّانِ بِغَناَئِ بُعَاثْ ۔ (بخاری جلد اول۹۰۲)
میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں بعاث (انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج کے درمیان عرب کی مشہور لڑائی ہوئی ، کہتے ہیں ۱۲۰ ؍سالوں تک اس لڑائی کا سلسلہ قائم رہا ، اوس نے خزرج کے بہت سے ممتاز سرداروں کو اس لڑائی میں مارا تھا، اس جنگ کے متعلق جو نظمیں کہی گئیں اس کو یہ لڑکیاں گا رہی تھیں) اور دف بجا رہی تھیں ۔ جَارِیَتَانِِِ تَضْرِباَنِِ بِدُفَّیْنِ (نسائی شریف جلد اول باب ضرب الدف یوم العید)
عِنْدَھاَ جَارِیَتَانِ تَضْرِبَانِ بِا لدُّ فِّ و تَغَنِّیَانِ (نسائی جلد اول باب الرُّخصَۃُ فِی الاسْتِمَاعِ اِلَی الغِنَائِ وَ ضَرب الدُفِّ یوم العید)
حضرت عائشہ ؓ کے پاس دونوں بچیاں دف بجا بجا کر گا رہی تھیں، کہ اسی وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ حضرت عائشہ ؓ کے یہاں تشریف لائے ، یہ منظر دیکھ کر بچیوں کو ڈانٹا اَبِمَزا مِیرِ الشَّیْطانِ فی بَیْتِ رَسُلِ اللّٰہِ ﷺ وَذَلِکَ فِی یَوْمِ عِید، فَقَالَ رَسولُ اللّٰہ ﷺ یَا اَباَ بَکر اِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً وَ ھَذَا عِیْدُناَ (مسلم شریف جلد اول باب الرخصۃ فی اللعب الذی لا معصیۃ) بخاری جلد اول ۹۰۴) حضرت ابو بکر صدیق نے کہا رسول اللہ ﷺ کے گھر میں یہ شیطانی حرکت ، وہ بھی عید کے دن ! رسول اللہ ﷺ نے اپنے چہرے سے چادر ہٹائی کہا ابوبکر انہیں پڑھنے دو ، ہر قوم کی عید ہوتی ہے، اور یہ ہماری عید ہے ۔
حبشی لوگ عید کے دن خوش ہو کر اپنے حربی کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے ، نیزہ بازی کا کرتب دکھا رہے تھے، آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا کہ کیا تم یہ کھیل دیکھنا پسند کروگی، حضرت عائشہ نے جواباً کہا: ہاں ! اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے کندھے کے پیچھے حضرت عائشہ کو کھڑا کرکے انہیںاس وقت تک کھیل دکھایا جب تک کہ وہ تھک نہ گئیں،حضرت عائشہ ؓ خو فرماتی ہیں ـ کہ فَاَ قْدِ رُو قَدْرَ الجَارِیۃِ الحَدِیثَۃِ السِّنِّ حَرِیْصَۃً عَلَی اللَّھْوِ۔ ( مسلم شریف جلد اول ۲۰۶۴) اندازہ کرو ایک کمسن کھیل کود کی حریص لڑکی کتنی دیر تک کھڑی رہ سکتی ہے ۔
مولانا عزیز الرحمن فاضل اشرفیہ لاہور مترجم مسلم شریف اردو نے عیدین کے متعلق احادیث کے خلاصہ کے طور پر لکھا ہے کہ ’’اس کتاب کی احادیث سے معلوم ہوا کہ عید کے دن جائز خوشی مثلاً جنگ وغیرہ کے لئے مشق کرنا اور اس کا دیکھنا جائز ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز عید خطبہ سے پہلے ادا کی جاتی ہے، اور نبی ﷺؑ کا اپنی ازواج سے حسن خلق بھی معلوم ہوا۔ وہ اشعار جن میں اسلام کی عظمت و صحابہ ؓ کی عظمت ، نبی ؐکی شان ،مسلمانوں کی شجاعت ، بہادری وغیرہ کا تذکرہ ہو تو بغیر ساز کے سننا جائز ہے ، دف بجانا جائز ہے ۔ (حاشیہ صحیح مسلم جلد اول ، صفحہ ۶۹۲)
پیغام عید
جس روحانی وجسمانی تربیت کیلئے پورا ایک ماہی کورس ہم نے پورا کیا ہے ، اس کے اثرات پورے سال ہم پر باقی رہیں اسی تصور کے عزم کا نام عید الفطر ہے۔ جس طرح روزے میں ہم نے جھوٹ،غیبت، فحش گوئی سے خود کو محفوظ رکھا تو اس عملی تربیت کے اثرات پورے سال ہمارے اوپر باقی رہیں ۔
اس انتہائی خوشی کے موقع پر ہم اپنے معبود حقیقی کو نہیں بھولے، سجدہ شکر ادا کیا، اور غرباو مساکین کے حق کی ادائیگی سے بھی غافل نہیں رہے، صدقہ فطر ادا کیا ، اسی طرح پوری زندگی میں ہم اللہ کے حقوق کے ساتھ بندوں کے حقوق پابندی سے ادا کریں گے، اس عزم کے بغیر عید کی حقیقی روح سے آشنائی ممکن نہیں ہوگی ۔
٭ روزہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ بھوک کیا ہے ؟ پیٹ کی آگ کیا ہوتی ہے ؟ اور جن کے پاس سال بھر فقر و فاقہ ہوتا ہے ان کی صبح و شام کیسی ہوتی ہوگی ۔ روزہ یہ احساس دلاتا ہے کہ غریبوں ، بے بسوں، بے کسوں کی مجبوریاں کیا ہوتی ہیں، عید کا خاص پیغام یہ ہے ، ہم عید کی خوشیاں منائیں تو اس میں اپنے اعزہ و اقارب کے ساتھ ساتھ فقراء و مساکین کا خاص خیال رکھیں، زکوٰۃ و صدقات سے مستحقین کی مدد کریں اور حسب توفیق صدقات نافلہ کا اہتمام کرتے رہیں ۔
٭ عید گاہ کی دعا جس میں شریک ہونے کیلئے حائضہ عورتوں تک کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ دعا میں شریک ہوں ۔۔ عید گاہ میںرب کے حضور گڑگڑاکر مانگی گئی دعا کو اللہ قبول کرتا ہے، ہم بطور خاص عیدگاہ میں دعاؤں کا اہتمام کریں ، دنیا بھر کے مسلمان جن پر صرف اس لئے ظلم ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں ۔۔ روہنگیا کے مسلمان۔۔ مصر و فلسطین کے مسلمان۔۔ عراق و شام کے مسلمانوں پر جو عرصہ ٔ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔۔ دعا کریں کہ اللہ غیب سے سامانِ راحت فراہم کر دے ۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عید کے خطبہ میں بالتکرار ۔۔ صدقہ کرو۔۔۔ صدقہ کرو ۔۔ مرد و خواتین سے اس کا مطالبہ کیا اور اس صدقہ کو پریشاں حال مسلمانوں میں تقسیم کرادیا ۔۔ یہ صدقہ ۔۔ یہ انفاق اصلاً جہاد باالمال ہے ، جس کی امت کی سر بلندی اور بہتری کیلئے ہمہ وقت ضرورت ہو تی ہے ۔۔ لہٰذا ہم بھی صدقہ واجبہ کے ساتھ ساتھ صدقہ نافلہ کا اہتمام کریں ۔۔ تاکہ امت کی سر بلندی کی کوششیں بار آور اور مؤثر ہو سکیں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خواتین سے صدقہ کرنے کیلئے کہا تو خواتین نے گلے کا ہار، کان کی بالیاں، انگوٹھیاں، زیورات حضرت بلال ؓ کی چادر میں اس طرح ڈالنا شروع کر دیا کہ گویا کہ برسات ہو رہی ہے ۔ ۔ اس طرح ہمیں بھی چاہیے کہ نصف امت کے اندر اسلام کے تئیں جس طرح والہانہ پن اور جذبہ وارفتگی ہے اور مردوں سے بڑھ کر جذبہ ٔ انفاق ۔ اس نصف امت کے اندر موجود جذبے ، قوت و صلاحیت کو ہم اسلام کی سربلندی کے لئے لگائیں ، غافل نہ رہیں ۔
٭ خطبہ ٔ عیدامت کے اندر احساس بیداری پیدا کرنے، ترغیب وتشویق ، اہم مہمات کیلئے لشکر کی روانگی اور صدقہ و انفاق کے جذبہ کو بڑھانے کے لئے ہوتا ہے ، ہمیں چاہیے کہ ہم عید کے خطبہ کو مفید اور موثر بنائیں تاکہ اس کے ذریعہ امت میں بیداری لائی جا سکے ۔ عید گاہ کے امام وخطیب کو اس جانب بالخصوص توجہ دینی چاہیے کہ ہم عیدین کے خطبے کا مؤثر استعمال کریں ۔
٭ عید کے دن خوشیاں منانے کے جتنے جائز طریقے ہیں ہم ان سب کو اپنائیں ، عید کو بالکل خشک نہ ہونے دیں اور نہ لغویات کو خوشی کے موقع پر جائز کر لیں، رزمیہ نغمات کا گایا جانا، حبشیوں کا کھیل کو دیکھنا دکھانا جیسے خوشی کے اظہار سے خوش ہونے کے انداز اپنائیں ، ہم خواہ مخواہ عید کے موقع پر غمی کے ماحول کو نہ بڑھائیں۔ عید اللہ کی طرف سے انعام کا دن ہے ، عید کے موقع پر غم کی عید خوشی نہ منانے کی بات ۔۔۔ بلکہ خوش ہوں کہ ہذا عیدنا ۔۔۔ اور اپنی خوشی میں دوسروں کو شریک کریں ۔۔ عید کے موقع پر ہم ان تمام کو یاد رکھیں جن کے بیٹے جیلوں میں ہوں ، یا جن کو پولس تحویل میں شہید کر دیا گیا۔ عید کے دن کوشش کر کے ہم ان کے اہل خانہ سے ملاقات کریں تاکہ ان کا غم ہلکا ہو سکے۔ جہاں جہاں جیلوں میں عید کے دن ملاقا ت بآسانی ہوتی ہے وہاں وہاں کے مسلمان اپنے اسیر بھائیوں سے عید کی ملاقات کیلئے جائیں، انہیں عید کی خوشیوں میں شریک کریں تاکہ ان کے اندر سے احساسِ محرومی او ر احساسِ اسیری کچھ کم ہو ۔۔۔ عید کے دن جیلوں میں بند مسلمان کوشش کر کے جیلوں میں عید کی نماز کا اہتمام کریں ۔۔چھلکتی آنکھوں ۔۔ اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیں ۔۔ جیل میں نماز عید کے بعد رب کے حضور دعاؤں کا اہتمام کریں۔۔ جیلوں کے اندر قید ساتھی اس دن اپنے ملنے والوں کو دل مضبوط کرکے عید کی مبارکباد دیں۔۔ بیشک اللہ دلوں کے حال جانتا ہے ۔۔ وہ کسی پر اس کی سکت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا ۔
٭ پوری امت مسلمہ عید کے روز جس اخوت و بھائی چارے کا پر کیف منظر پیش کرتی ہے لوگ رنگ و نسل کی تفریق مٹاکر صف آراء ہوتے ہیں ، امیر ، غریب، حاکم و محکوم آقا و غلام سب یکجا ہو کر نماز عید ادا کرتے ہیں۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی کلمہ، ایک ہی تسبیح اور ایک ہی ذکر جاری رہتا ہے ۔ عید کے دن کا اخوت واتحاد کا بے مثال مظاہرہ یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم ایک اللہ کے بندے ہیں، ایک رسول کے امتی ہیں ، اور ایک ہی کلمہ کے اقراری ہیں، ہماری خوشی اور ہمارا غم سب اللہ کے لئے ہے۔ ۔ اسلامی اجتماعیت ہی ہماری شان و شوکت ہے ۔۔ اور انتشار ہمارے لئے مہلک ہے ۔۔ ہم عہد کریںکہ ایک اللہ کی بندگی کے سوا کسی اور کی بندگی گوارہ نہیں ہے ۔۔ ہم صرف اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا چاہتے ہیں۔۔ اور اسی کلمہ کو سر بلند کرنے کی کوشش میں موت کو زندگی سے بڑھ کر عزیز رکھتے ہیں۔
انہیں پیغامات کے ذریعہ ہم عید کو با مقصد اور موثر بنا سکتے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ جو تربیت ہم نے ماہ رمضان میں حاصل کی ہے ، اسے نہ صرف قائم رکھیں بلکہ اس کے اندر اور نکھار پیدا کریں ۔۔۔ کہ یہی عید کا پیغام ہے ۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *