ذی شولوم (سلام کا یہودی تلفظ)

ہمارے یہاں ایک دقیانوسی روایت ہے۔ حالانکہ دقیانوس کے زمانے میں ٹی وی نہیں تھا۔ مگر اسی نام کی روایت سے ہمارے یہاں ماہ رمضان المبارک میں ٹی وی بالکل بند رہتا ہے۔ یہاں تک کہ حرم مکی و مدنی کی تراویح تک کے لیے ٹی وی نہیں کھلتا۔ یہ بات ہمارے ڈی ٹی ایچ سرو س فراہم کرنے والےپر خاصی شاق گزری۔ مسلسل SMSسے ریمائنڈ کراتے رہنے کے بعد بالآخر فون آگیا کہ جناب آپ نے اپنا ٹی وی کیوں بند کر رکھا ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو ہم اس کو حل کراسکتے ہیں۔ ہم نے ہونقوں کی طرح جواب دیا۔ ’’جناب ہم رمضان میں ٹی وی نہیں دیکھتے‘‘۔ سنتے ہی انہوں نے ناصحانہ وعظ جھاڑ دیا۔ آپ ذی سلام دیکھ سکتے ہیں؛ آپ فلاں کا سہارالے سکتے ہیں؛ آپ قوالی سن سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ چوں کہ ہم رمضان میں بغیر کسی دلیل شرعی کے ٹی وی بند رکھتے ہیں(مثلاً قرآن و حدیث میں کہیں نہیں لکھا کہ رمضان میں ٹی وی مت دیکھو )اس لیے اس عاقلانہ مشورے پر بھڑک اٹھے اور یہ کہہ کر ناراضگی کا اظہار کیا کہ ہمیں تم سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے دقیانوسیت اسی کا نام ہے کہ بغیر کسی دلیل عقلی کے کوئی کام کیا جائے۔ حالانکہ غیر رمضان میں جو ٹی وی بینی ہوتی ہے وہ بھی بغیر کسی دلیل شرعی کے ہوتی ہے مگر وہ دقیانوسیت نہیں کہلائے گی کیونکہ اس میں اسکرین روشن ہوتی ہے۔ ویسے آپ جو سوچ رہے ہیں وہ بات بھی صحیح ہے کہ دلیل شرعی کے ساتھ کیا جانے والا کام ہی اصلاً دقیانوسیت کہلاتا ہے۔ ویسے شیطان ہی بہتر بتا سکتا ہے۔
خیر تو اس ڈی ٹی ایچ سروس کے فون نے ہمارے ذہن کے کئی طبق روشن کردیے۔ جیسے ہی انہوں نے ذی ٹی وی کا نام لیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے انہوں نے ذی سلام کے بجائےذی شولوم کہا ہو۔ ذی ٹی وی کے بارے میں ویسے ہی شبہ ہے کہ یہ یہودیوں کا نیٹ ورک ہے۔ اور پھر ذی پریوار کو دیکھنے پر اس شبہ میں مزید تقویت پیدا ہوتی چلی گئی۔ ذی نیوز، ذی سنیما، ذی کیفے، ذی اسٹوڈیو اور پتہ نہیں کیا کیا۔ ویسے تو ذی (Z) انگریزی حروف تہجی کا آخری حرف ہے۔ مگر اس پریوار کا کمال دیکھئے آخری حرف سے ہی انہوں نے ایسی جھڑی لگا دی کہ روز نئے نئے ذی چہرہ نظر آنے لگے۔ انہیں میں سے ایک ذی سلام بھی ہے۔ چونکہ سلام کا عبرانی تلفظ شولوم ہے اس لیے ہم نے ذی شولوم ہی سنا۔
ذی سلام کا تعارف بھی اتفاق سے عجیب انداز میں ہوا۔ بچہ کو اسکول سے لینے گئے تھے کہ پتہ چلا کہ ذی سلام کے اسٹوڈیو لے جا رہے ہیں۔ ایک اصلاحی صاحب ان کے رہبر قرار پائے تھے۔ میں نے لپک کر پوچھا جناب یہ تو یہودیوں کا نیٹ ور ک ہے اس پر آپ بچوں کو نعت پڑھا کر اس کی تصویب (Authentic)کیوں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس پر ایک لمبا چوڑا لیکچر جھاڑا اور ہماری دقیانوسیت کو اجاگر کیا۔ چند سالوں کے بعداچانک اس رمضان میں جمعہ میں ان سے ملاقات ہوئی۔ بڑے نالاں نظر آئے، کہنے لگے یہودی ادارہ ہے، اس لیے چھوڑدیا۔ میں نے پچھلی ملاقات کا تذکرہ کیا۔ کہنے لگے۔ اچھا ہوا ہم شروع میں وہاں پہونچ گئے ورنہ وہ ذی سلام پر ننگا ڈانس پیش کرتے۔ اور ہم سر جوڑ کر اس پر غور کرتے ہی رہ گئے۔
اصل میں آج کل کا زمانہ میگا مارٹ کلچر کا ہے۔ ایک ہی جگہ پر سب کچھ بکتا ہے۔ پھل، سبزیاں، گوشت، مچھلی، انڈے، دودھ، اسٹیشنری، چادر، رومال غرض ساری ضروریات زندگی ایک ہی جگہ مہیا کرانے کی کوشش ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اسے یوں بھی کہتے ہیں کہ ساری کمائی ایک ہی ادارہ کرنا چاہتا ہے۔ اور اس میں شریا خیر کی کوئی تمیز نہیں۔ بکرے کے ساتھ سور کا گوشت بھی دستیاب، دودھ کے ساتھ شراب کی بوتل بھی فراہم، چادر کے ساتھ بے حیائی کا لباس بھی موجود۔ آپ تو بس جایئے اور اپنی پسند کا سامان اٹھا کر لے آیئے۔ ہاں اس آتے جاتے میں آپ کے بچے کو لباس کے نام پر بے لباسی پسند آجائے، شراب نہ پی کر کم از کم شراب سے بے زاری ختم ہوجائے، خنزیر کا نام آنے پر تھوک کر گلا صاف کرنے والے بچے دھیرے دھیرے اس کی خوش نمائی سے ہم آہنگ ہوجائیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ گرچہ حرام خریدنے والا (اہل خنزیر) تو شروع سے ہی بکرے کا گوشت بھی استعمال کرتا ہے، شراب پینے والا دودھ بھی تو پیتا ہے۔۔۔ تو پھر صرف حلال پر اکتفا کرنے والا بھی دھیرے دھیرے (خواہ دو نسل بعد ہی سہی) حرام میں منہ مار ہی لے گا۔ اس میں حرج کیا ہے۔
اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
مگر خدیجہ کا باپ کہتا ہے ؎
افسوس کہ فرعون کو سپر اسٹور کی نہ سوجھی
ورنہ پہلے حرام دکھا دکھا کر اس کی قباحت دلوں سے نکالنی تھا اور ایک بار کراہت ختم ہوجائے تو رغبت پیدا ہوتے کتنی دیر لگے گی۔ اور قوموں کی زندگی میںدس بیس سال کیا معنیٰ رکھتے ہیں۔
جملہ معترضہ کچھ لمبا ہوگیا مگر کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ وہ ذی میڈیا جو یہودی کوکھ سے پیدا ہوا ہے اور مذکورہ اور غیر مذکورہ ناموں سے وہ دنیا میں فحاشی، اسلام دشمنی، اسلام بیزاری، اسلام کی بیخ کنی اور خیرو شر کی جنگ میں اشرار کا ساتھی ہے اس نے اسلام کی خدمت کی کیوں ٹھان لی؟!! اور وہ تو اپنے پیشروؤں کی طرح اہل اسلام کی خدمت کو تیار بھی ہوسکتا ہے تاکہ وہ اسلام کا نام لیں تو اہل اسلام بھی جواباً کفر کو برا بھلا نہ کہیں۔ مگر اہل اسلام اس کے دھوکے میں کیوں کر آگئے!!!
دہلی ہی میں ایک ملت کا آئیڈیل ماڈل اسکول ہے۔ ریکگنائزڈ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی آمدنی کے لیے شام کے وقت شادی خانہ آبادی کے مقاصد میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک دن دیکھا کہ وہاں ایک شاندار شامیانہ تھا اور ہر طرف بڑے بڑے بینرس لگے ہیں جس پر لکھا ہے دینی اجتماع۔ قریب جاکر دیکھا تو معلوم ہوا ذی سلام کی جانب سے منعقد ہے۔ منتظمین میں سرفہرست کسی شرما کا نام ہے۔ اور اسٹیج پربھانت بھانت کی شکلیں بیٹھی ہیں جو خالص اسلام کے نام پر خواہ ایک اسٹیج پر نہ بیٹھ سکیں مگر کفر نے انہیں اکٹھا کردیا؎
ناطقہ سر گریباں ہے اسے کیا کہیے
اسٹیج تو کسی قدر ہرا بھرا تھا کیونکہ حسب امید دعوت نامے بند لفافے میں گئے ہوں گے۔ مگر یہ دیکھ کر سکون ہوا کہ سامعین ندارد تھے۔ ایک بار مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے آزادی سے قبل ایک مضمون میں لکھا تھا کہ جو قوم صدیوں تک اس بات پر لڑتی رہی کہ حضور نبی پاک ﷺ کا نام نامی آنے پر کھڑا ہوا جائے یا نہ ہوا جائے وہ قوم جن گن من یا وندے ماترم پر کیسے کھڑی ہوپائے گی۔ حالانکہ ابتداء میں تو جو لوگ ٹی وی بینی کے بھی قائل نہ تھے وہ اب ذی سلام کے اسٹوڈیو میں درس قرآن، نعت شریف وغیرہ شوق سے پڑھتے ہیں۔ خواہ اس کے بعد قوالی یا کوئی اور گوئی کیوں نہ ہو۔ شراب خانہ یا قحبہ خانہ کے ایک کونے میں صوفی صاحب بھی بیٹھا دیے گئے۔ (کچھ مٹی بھی گرم کردی گئی) تاکہ آنے جانے والوں کو متنبہ کرتے رہیں۔ جیسے سگریٹ کے پیکٹ پر لکھ دیا جاتا ہے سگریٹ پینا صحت کے لیے مضر ہے۔
ہمارا مقصد کسی کی ہمت شکنی نہیں ہے۔ البتہ ہم ذرا پرانے خیال کے واقع ہوئے ہیں، کہتے تھے کہ مانگے کی گھوڑی سے اپنا ٹٹو اچھا خواہ لنگڑا کیوں نہ ہو۔ مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ محاورہ اب غلط ہوجائے گا۔ کیونکہ لنگڑا ٹٹو تو اچھل اچھل کر چل پڑے گا مگر مانگے کی موٹر کے بجائے اپنا پرانا اسکوٹر ہی اچھا کہنے والے کا اسکوٹر اگر پنکچر ہوگیا تو کیا ہوگا۔ وہ تو اچک کر چلنے سے رہا۔ اس مشینی دور نے اقدار بھی ختم کردیں اور محاوروں کی بھی جان نکال دی۔ کاش ہم بھی یہ بات ذی شولوم سے نشر کرپاتے

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *