سبرامنیم سوامی کے ایجنڈے پر ملت تو پہلے ہی عمل پیرا ہے

مصر،بنگلہ دیش،تیونیشیا اور شام کے حالات میں مشترک پہلو یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے مختلف مصنوعی گروہ آپس میں ان اسلام دشمنوں کے ذریعہ لڑائے جا رہے ہیں جو صدیوں سے اسلام دشمنی کی راہ پرگامزن ہیں۔امریکی تھنک ٹینک رینڈ کی 2006ءکی گایئڈلائن کیمطابق’’ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں سماج میں مغربی فکر اور تہذیب کے غلام مسلمانوں کی تنظیم کی جائے اور دنیا بھر میں ان کو مغربی ممالک اور ان کی این جی او اور ثقافتی نظام کے ذریعہ مضبوطی دی جائے‘‘۔یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ بنگلہ دیش میں این جی اوزکی تعداد ہزاروں میں ہے جوغریبی کانعرہ لگا کر ایمان پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں۔مرسی کے خلاف ایمان دشمنوں اور مغرب کے غلاموں کی بغاوت سے ہفتہ بھر پہلے،وہاں کے ایک عدالتی فیصلہ کے ذریعہ۵۱ ا/ین جی او کے ۵۴ افراد کو سزا سنائی گئی تھی اور ان کے مصر چھوڑنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ایک این جی او کے ذمہ داروں میں ایک امریکی وزیر کا قریبی بھی شامل ہے۔رینڈ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا بھر میں اسلام پسندوں کا عالمی نیٹورک ہے۔ ہمیں اپنے ہمخیال لوگوں کی عالمی نیٹ ورکنگ کرنی چاہئے اور اسی پالسی پر عمل درآمد کانتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں جمہوریت،انسانی حقو?ق،آزادی،حقوقِ نسواں کے نام پر عالمِ اسلام کے مڈل کلاس خصوصا ًنوعمر خواتین کو حیلوں بہانوں سے منظم کیا جا رہا ہے؛این جی?او کے ذریعہ سے ان کی معاشی مدد اور عوامی نفوذ کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ اپنی طرف سے اصطلاحیں وضع کرکے حسب منشا سیکولر،لبرل،روشن خیال،آزادی پسندیا پھر رجعت پسند، اسلام پسند، انتہا پسند افراد پرچسپاں کی جا رہی ہیں۔اسلام کی بنیادوں توحید،رسالت و آخرت پر حملہ کرنے والوں ،شریعت کا مذاق اڑانے والوں یاکم ازکم شریعت کو سماجی زندگی سے بیدخل کرنے والوں یا ڈائیلاگ اور مکالمہ کے نام پر عقیدہ پر مفاہمت کرنے کی تبلیغ کرنے والوں کو امن پسند،صوفی اسلام کے پیروکاربتاکر کر منظم کیا جا رہا ہے۔ اس کے اثرات ہم بنگلہ دیش کے شاہ باغ تقسیم اسکوائر اور تحریر اسکوائر۱ور عام طور پرعالمِ اسلام میں دیکھ رہےہیں۔مسلکی تقسیم کا اچوک دوائے اکسیر کے طور پر استعمال نئے سرے بڑھا دیا گیا ہے۔جسکی تازہ ترین شہادت امتِ مسلمہ کے بڑے عالمی دشمنوں میں سے ایک سبرامنیم سوامی کے۔۔۔ اخباروں میں شائع بیان’’ ھندوئوں کو جوڑو اور مسلمانوں کو تقسیم کرو ‘‘سے ہو رہی ہے۔دنیا بھر کی ایجنسیاں مسلمانوں میں ہر ممکن فکری تہذیبی اختلافات کو دشمنی اورقتل و غارتگری میں بدلنے کے ایجینڈے پر کام کر رہی ہیں۔نہایت افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ بادشاہ ،حکومتیں ،مدارس،نیوز میڈیا ہائوس، صوفی مشائخ سب اس گناہ میں ملوث ہیں اور اس طرح ملوث ہیں کہ اپنے طور پر دین کی یا مسلک کی یاوطن کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں۔وطن عزیز ھندوستان میں ملکی اور بین الاقوامی سازشوں کے نتیجہ میں بارود اکٹھا کر کے سازشی ایجنٹوں نے چنگاری بھڑکانی شروع کر دی ہے۔اس کارِ خیر میں بڑے پیمانے پر مدارس، علماء دین اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا جا رہا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں موجود مسلکی اختلافات کو بڑے پیمانے پر بھڑکانے کا کام اور اسلام کی اصل دعوت کو مسخ کرنے کاکام بڑی چابکدستی اور انتہائی منظم طریقہ سے جاری ہے۔سعودی عرب سے مسلکی اختلاف کوہوا دینے والی اشتعال انگیز زبان والی آڈیو اور ویڈیو کو توحید کی دعوت اور بدعت کے خاتمہ کے نام پر جدہ کے مرکز سے خوب پھیلایا جا رہا ہے۔خصوصاً مغربی یوپی پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔جس کے نتیجہ میں کچھ مسلک تبدیلی کی خبریں آئیں اور کافی تشویش دیوبندی حلقہ نے محسوس کی اور انجام یہ ہوا ایک اہم مشاورتی اجلاس13/02/2013 کو دیوبند میں تحفظ سنت اجلاس کے تحت ہوا۔ جسکی کارروائی اور فیصلہ کی تفاصیل دیکھ کر محسوس یہ ہوتا ہے کہ علماء دیوبند بڑےہی اخلاص کے ساتھ مسلک کی حفاظت میں صیہونی-امریکی سازش کا شکار ہو گئےجس طرح سعودی علما?ءکا ایک طبقہ توحید کی حفاظت کے نام پرسازش کا شکار ہوا۔عجیب بات یہ ہے کہ ان کی توحید کی تعریف میں شرک فی الحاکمیہ پر کوئی گفتگو نہیں ہوتی؛بادشاہت بمقابلہ شریعت پر بات نہیںہوتی؛اسلام دشمنوں کی معاشیات کو اربوں ڈالر کی مدد سے اسلام کوہونے والے نقصان پر بات نہیں ہوتی۔ شخصی حکمرانی بچانے کے لئے کچھ بھی کر رہےہیں۔یہاں تک کہ اسلام دشمنوں کی مدد بھی کر رہے ہیں۔مصر میں اسلام بیزار لوگوں،قبطیوں،کمیونسٹوں کی مدد کے لئے ۴ ارب ڈالر کی فوری مدد دی تاکہ اسلام دشمنوں یا کم سے کم دین بیزار لوگوں کو مصر میں حکمراں مسلط کر دیا جائے۔مگرہندو پاک میں خالص توحیدکی دعوت کے نام پر صحیح تعلیمات کو غلط مقاصداور غلط طریقہ سے پیش کر کے مسلکی منافرت پیدا کرکے ملت کو کمزور کرنے کے شیطانی ایجنڈہ پر عمل کر رہے ہیں۔ایسے میں پہلے سے موجود مسلکی تعصب اور جائز علمی اختلافات کو دیوبندی اور بریلوی مسالک نے چیلنج سمجھ کر جوابی اقدامات شروع کر دیئے۔ یہ اصول سب جانتے ہیں کہ ردِعمل ہمیشہ عمل سے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے خاص کر جب اس میں تعصب کابھی دخل ہو ورنہ برابر تو ہوتا ہی ہے۔اور یہی ہوا۔ دیوبند میں ہزاروں علماء اور اکابرین کی موجودگی میں13/02/2013کو تحفظ سنت اجلاس ہوا۔ اس میں پاس کئے گئے کچھ اقدامات اس طرح ہیں:
۱۔ بڑے مدارس کے طلبہ اس موضوع پر دارلعلوم کے طرز پر محاضرات کا نظام قائم کریں۔
۲۔ منتخب اساتذہ کرام کو اس موضوع پر تربیت دی جائے۔
۳۔ اس موضوع پر اساتذۂ مدارس، ائمہ مساجد اور مقامی علماءکی تدریب کے لئے علاقائی سطح پر تربیتی کیمپ منعقد کئے جائیں۔
۴۔ جومسائل غیر مقلدین اٹھاتے ہیں ان کے بارے میں مختصر کتابچے تیار کرکے عام کئے جائیں۔
۵۔ مختلف شہروں میں مجلس تحفظ شریعت کے نام سے کمیٹیاں قائم کی جائیں جو غیر مقلدین اور دیگر فرقۂ باطلہ کے تعاقب کا کام کریں۔
۶۔ سادہ لوح عوام یا جدیدتعلیم یافتہ لوگ غیر مقلدین سے متاثر ہوتے ہیں ان کو انفرادی محنت اور عمومی جلسوں کے ذریعہ صحیح فکر سے روشناس کرایا جائے۔
۷۔ ائمہ مساجدحسبِ ضرورت اس موضوع پرگفتگو کریں اور ذمہ دارن مساجد اس میں ان کا تعاون کریں۔
۸۔ طلبہ کو احادیث یاد کرانے کا سلسلہ جاری کیا جائے ،ان میں بھرپور مسلکی شعور پیدا کیا جائے۔
۹۔ سعودی حکومت اور علماء و مشائخ کو صحیح صورتِ حال سے واقف کرانے کے لئے دارلعلوم دیوبند کی قیادت میں موقر علماء کا وفد وہاں کا دورہ کرے اور حکومت ِسعودیہ کو واقف کرائے۔
الفرقان لکھنؤ09/04/2013 میں اجلاس کی تفصیل کے مطابق پہلا تربیتی کیمپ دیوبند میں ڈھائی سو علماء کرام کی مسلکی تربیت کر بھی چکا ہے۔یہ ڈھائی سو ائمہ اور علماء اپنے اپنے مقامات پر جا کر کام کرنے لگے تو ظاہر ہے کہ لازمی نتیجہ کے طور پر ملت میں بے امنی اور انتشار اور بڑھے گا ہی۔ملت کا ذہن فتنۂ ارتداد،فتنۂ و حدت ادیان،مغربی مادی افکار کے غلبہ اور فحاشی وعریانی کے ماحول کے خلاف ہونے کے بجائےاس محاذ پر سرگرم ہو جائیگا۔
بریلوی حضرات کی طرف سے آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ نے گزشتہ آٹھ سال سے سعودی ، وہابی،سلفی مسلک کے خلاف جہاد چھیڑا ہی ہوا ہے۔اپنے آٹھویں سالانہ اجلاس میںرودولی?فیض آباد میں بورڈ کے جنرل سکریٹری سید ایم اشرف کچھوچھوی نے اپنے بیان میںہند میں مسلم اداروں وقف بورڈ،حج کمیٹی وغیرہ میں وہابی عناصر کی ماموری پر حکومت سے احتجاج کیا ہے۔سعودی عرب سے تیل لینے کے نام پر وہابیوں سے رعایت کرنے کا الزام اور ملک کی سکورٹی پرسمجھوتہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔قراردادوں میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام مسجدیں جو کہ کسی مزار یا مقبرہ سے متصل ہیں ان کی صوفی حیثیت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ان مسجدوں کی ترقی، آرائش اور ان میں چراغاں کا کام فورا ًشروع کیا جائے۔جلسئہ میلاد منعقد کیا جائے،سماع کی مجلسیں سجائی جائیں اور صلو?ۃو سلام کا نذرانہ پیش کیا جائے۔اجلاس ِ میں ایک ایسے وصیت نامہ کا ذکر آیا جسےآئندہ اپنی جائداد وقف کرنے والے صوفی سنّی مسلمان استعمال کر سکیںاور ان کی صوفی شناخت چھینی نہ جا سکے۔خانقاہوں،درگاہوں،اور آستانوں سے وہابی متولیوں اور اور ایڈمنسٹریشن کو ہٹایا جائے۔وغیرہ۔(علماء ہی بھڑکا رہے ہیں مسلکی منافرت کی آگ۔ صحافت دہلی 01/07/’13 )
مذکورہ بورڈ کے ذمہ داروں کی طرف سے وقتاً فوقتاً سنبھل،مرا?دآباد،دہلی اور اجمیر کے اجلاسوں سے بھی اسی طرح کے بیانات جاری ہو رہے ہیں۔اہلِ تشیع حضرات کا ایک گروہ بھی اس عمل میں پیچھے نہیں ہے۔ اپنے الگ پرسنل لا بورڈ کے قیام کے بعد سے انکے ذریعہ بھی حکومت میں اپنی مسلکی نمائندگی کے لئے مستقل آوازاٹھائی جا رہی ہے۔بین الاقوامی طورپر شام کے خونیں معرکہ میں ایران،عراق اور حزب اللہ کے جانب دارانہ رویّہ نے مقامی آ?بادی کے ذہن پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔اور پہلے سے موجود مگر کنٹرولڈ فرقہ وارانہ اختلاف کو اندر ہی اندر سلگانے کا کام کیاہے۔
روشن خیال ،لبرل اور بنیاد پرست کی تقسیم کو بھی سبرامنیم سوامی کے ایجنڈہ کے مطابق آگے بڑھایا جا رہا ہے۔اور اس سمت بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے۔مغرب زدہ مسلم طبقہ میں ایسے لوگوں کو آگے لایا جا رہا ہے جو بنیادی اسلامی فکر سے ہی مطمئن نہیں ہیں۔اس طبقہ کو مادّی خوشحالی، آزادی،برابری،تفریح،جنسی بے راہ روی کے ایجنڈہ کے ذریعہ اپنا غلام بنا لیا ہے۔جس طرح کہ احادیث میں دجّال کے بارے میں پیشینگوئی ہے کہ ساتھ جنت اور جہنم لیکرچلیگا،مطلب یہ کہ ما ننے والوں کو جزااور نہ ماننے والوں کو سزا دیگا ۔آ?ج شاہ باغ ڈھاکہ سے لیکر تقسیم اور تحریر اسکوائر ہر جگہ پر یہی طبقہ مغرب کے ایجینڈہ کا محافظ بنا ہوا ہے۔یہ طبقہ ملکی وسائل کو لوٹنے اور کرپشن اور ہرطرح کی لوٹ مار میں خود بھی لگا ہوا ہے اور اپنے آقائوں کے لئے بھی کام کر رہا ہے۔
امت مسلمہ کو مختلف گروہوں میں بانٹ کر اپنے من پسند گروہ کی مدد کرکے اسے حکومت میں اور قیادت میں لانے کے کامیاب تجربہ کی پہلی کڑی مصر بنا ہے۔سعودی وزارت داخلہ کے اہم عہدہ دارجنرل عبداللہ القحطاوی نے انکشاف کیا ہے کی مصر کی فوجی بغاوت میں امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور امارات کا برابر کا تعاون رہا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ وزارتِ داخلہ سے اس لئے استعفے دے رہاں ہوں کیوںکہ وزارت داخلہ کے آخری اصول اللہ اور اسکے رسول کی شریعت کی خلاف ورزی ہو رہی ہے (ہمارا سماج دہلی)25/07/2013 کے امر اجالا میں امریکی یہودی کالم نگار تھامس فریڈمین نے مرسی کے خلاف بغاوت کوخوش آئندبتاتے ہوئے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ حکومت پر جلد الیکشن کے لئے دبائو نہ ڈالے بلکہ انہیں اہم معاشی فیصلے کرنے کا موقع دے۔الیکشن تو بعد میںبھی ہو سکتے ہیں۔
ایک طرف تو جمہوریت اور بیلٹ کی بات ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف بلٹBullet) )کے سہارے خود ہی بیلٹ کو بے اثر بنا دیا جاتا ہےکیونکہ بیلٹ والے مرضی کے لوگ نہیں تھے۔اب دنیا بھر میں اسلام دشمن ظالموں کی حکمتِ عملی براہ راست سامنے آکر مسلم سماج میں اتھل پتھل کرنیکے بجائے میڈیا اور این جی اوز کے ذریعہ اپنی خدا بیزار ،مادہ پرست ،انسانیت دشمن تہذیب کے فروغ کی اسکیم بنائی گئی ہے۔کوشش یہ ہے کہ دنیا بھر میں حکومت،قیادت،سیاست میں اسٹیٹس کو کی حالت رکھی جائے یعنی حالت جیسی ہے ویسی ہی رہے اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں رہے۔تاکہ لوٹ مار ،اجارہ داری اور سرمایہ داری کا ھیل چلتا رہے۔لوٹ مار کے کھیل کو چیلنج کرنے والوں کو انتہا پسند ،باغی،تشددپسند،تنگ نظروغیرہ کچھ بھی بنا کر سماج میں بدنام کر دیا جائے۔ہمارے ملک میں مسلم معاشرے کا ذہن بنا نے کی مہم بالواسطہ اور بلاواسطہ چل رہی ہے۔اردو میڈیا کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔انقلاب کو جاگرن نے خرید لیا؛ کلکتہ کے آزاد ھند کو بھی مارواڑی غیرمسلم نےخرید لیا۔ممبئی کے مڈڈے کی بھی بات چیت خبروں میں ہے۔ کیا غیر مسلم نئے اخبار صرف مالی فائدے کے لئے نکال رہے ہیں؟راشٹریا سہارا کے سبرتو رائے اور عزیز برنی کی چپقلش نے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا دیاہے۔پھر مسلم تعلیمی اداروں کو ماہرین ِ تعلیم یا سائنسدانوں کی قیادت کے بجائے بیوروکریٹ اور فوج کے عہدداروں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔(مثلاً جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے VC )
مولانا محمود مدنی صاحب انگلینڈ کے لمبے دوروں سے واپس آئے اوراآتے ہی انہوں نے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار فیتھ لیڈرشپ کے قیام اور اس کے زیراہتمام سیمینار بھی منعقد کروایا جس میں پروفیسر اخترالواسع ،پروفیسر ایس ایم ساجد،پروفیسر شاہد اشرف، ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین اور پروفیسر زیڈ ایم خان وغیرہ نے شرکت کی۔اس ادارے کا بلیوپرنٹ اور تربیتی نصاب انگلینڈ سےآ?ئے ماہرِتعلیم ایچ ایم مقدم نے ترتیب دیا ہے۔اس ادارے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ یہ علماء دین کے نئے فارغین کو جدید چیلینجیز سے روشناس کرائے گا اور ان سے نبٹنے کے طریقے بھی بتائے گا۔یاد رہے انہیں دنوںانگلینڈ میں بریٹش سپاہی کا گلاایک صومالی مسلمان کے ذریعہ کاٹنےپراُبالآ ?یا تھا۔حالانکہ اسی انگلینڈ میں لاکھوں بیگناہوں کو، اگر وہ مسلمان ہوں تو، خاک و خون میں غرق کر دینے پر طوفان نہیں آتا۔نہ اس کی وجوہات ہارورڈ،آکسفرڈ،آئی ایم ایف،اور ورلڈ بینک میں ڈھونڈی جاتی ہیں۔مگر اپنے ایک آدمی کی ہلاکت پر کیمرون صاحب کو کیچڑ اور دلدل مسلم اداروں ،مدرسوں اور اسلامک سینٹروں میں نظر آیا جس کی صفائی کی انہوں نے مہم شروع کی ہے اسکے فوری بعد ہی دہلی میں نیشنل انسٹٹیوٹ فار فیتھ لیڈرشپ کا قیام نازل ہوا ہے۔
پورے منظر نامہ پر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہرگروہ پورے خلوص کے ساتھ عملًا امت مسلمہ کو کھوکھلا، پارہ پارہ، منتشر کرنےکے دشمنوں کے ایجینڈہ پر عمل کر رہا ہے۔اور اپنے طور پر سب ہی دین کی حفاظت اور خدمت کا کام کر رہے ہیں۔مصر میں مرسی کے خلاف جس طرح سیاسی اسلام کی ناکامی کا ڈھنڈورا اسد،نتنیاہو ،سعودی شاہ، اردنی شاہ اور خلیجی ریاستوں کے شیوخ نے لگایا ہے وہ خود اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ اسلام اور انسانیت کے دشمن کسی ایسے نظریہ کو کامیاب نہیں ہونے دینگے جو کہ عبادتگاہوں کے باہرکے معاملات کو بھی الٰہی رہنمائی میں حل کرنا چاہتے ہوں کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کے لئے موت کا پیغام ہوگا۔اس لئے سارے میڈیا میں بشمول اردو میڈیا کے بڑے حصہ میں ایک سال میں ہی ناکامی کا تمغہ دینے والے مغربی آقائوں کے نظام کے تحت 7-8سالوں سے ممالک چلانے والے سیکیولر،روشن خیال،لبرل گروہ کی کار کردگی کی رپورٹ پیش نہیں کرتے۔اس وقت اصل کشمکش یہی ہے جس سے دھیان ہٹانے کے لئے مسلم امت میں سازشا ًہرطرح کی تفریق و تقسیم کو ہوا دی جا رہی ہے اور ہر فرقہ اپنے آپ میں مست ہے۔ مگر ہم تاتاری فتنہ اور ظلم اورغارتگری کے اسباب سے صرفِ نظر اپنی ایک اور بڑی بربادی کی قیمت پر ہی کر سکتے ہیں۔جب امت ہی نہ رہیگی توکون سا مسلک باقی رہیگا۔دشمن کام نکالنے کے بعد کسی کو زندہ نہیں چھوڑتا ہے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *