مظفرنگر ہر شاخ پہ مودی بیٹھا ہے؟

ملائم سنگھ کو بی جے پی والے ملاّ ملائم سنگھ کے نام سے پکارتے رہے ہیں اور اس خطاب پر ملائم کا سر فخر سے اونچا ہو جاتا تھا لیکن مظفرنگر فساد کے بعد چودھری اجیت سنگھ نے ملائم سنگھ کو اتر پردیش کا مودی کہہ کر جو گالی دی ہے تو ملائم کا سر شرم سے جھک گیا ۔ ملائم سنگھ نے آگرہ میں اجیت سنگھ کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا مظفرنگر کا گجرات کے گودھرا سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔گجرات میں فساد زدگان کوانصاف نہیں ملا مگر اترپردیش میں ان کے ساتھ انصاف ہوگا اور مجرمین کو قرارواقعی سزا ملے گی ۔اس اعلان کے بعد ملائم سنگھ نے جو کچھ کہا اس پرموجودہ حالات میں یقین کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ وہ بولے میں نے کبھی بھی ذات پات یا مذہب کی سیاست نہیں کی۔ہم متاثرین کی زیادہ سے زیادہ امداد کریں گے اور مجرمین کے خلاف ایسا اقدام کریں گے کہ وہ اس کا اعادہ کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔
ملائم سنگھ کے سیاسی مستقبل کا سار انحصار اس یقین دہانی پر ہے اگر وہ اس عہد کی پابندی میں بھی اسی طرح ناکام ہوجاتے ہیں جیسا کہ فساد کو روکنے میں ناکام ہوگئے تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یوپی کے مسلم رائے دہندگان کے پاس فی الحال کئی متبادل موجود ہیں اس لئےایس پی کو ووٹ دینا ان کی مجبوری نہیں ہے ۔ اترپردیش کا موازنہ یقیناً مودی کے گجرات سے اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ گجرات میں مسلمانوں کی آبادی صرف پانچ فیصد ہے جبکہ یوپی میں وہ پانچ گنا سے زیادہ یعنی ۲۷ فیصد ہے۔ مظفر نگر جہاں اس بار خاک اور خون کی ہولی کھیلی گئی اس میں مسلمان ۴۷ فیصد ہیں ۔ان کےعلاوہ۴۹ فیصد ہندو مختلف ذات برادری مثلاً جاٹ، اہیر،گوجر،راجپوت اور دلت میں منقسم ہیں۔ چودھری چرن سنگھ نے اول تو اہیر ،جاٹ ،گوجر اور راجپوت کو جوڑ کر اجگر بنایا اور پھر اس میں مسلمانوں کو ملا کرمجگر نامی سیاسی اتحاد قائم کیا ۔ یہ اس قدر کامیاب تجربہ تھا کہ اس نے انہیں اتر پردیش کا پہلا غیر کانگریسی وزیراعلیٰ بنادیااور بعد میں وہ ملک کےوزیرداخلہ سے لے کر وزیر اعظم تک بنے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ اپنی موت سے قبل بیٹے کی تاجپوشی کیلئے چودھری چرن سنگھ نے جس مظفرنگر کا انتخاب کیا تھا آج وہی مظفر نگر جاٹ مسلم اتحاد کے جنازے پر خون کے آنسو بہا رہا ہے۔ مغربی اترپردیش میں جاٹ مسلم اتحاد ۱۸۵۷ ء ؁ کی پہلی جنگ آزادی کے زمانے سے قائم ہے۔ اس خطے کے شہری علاقوں مثلاً علی گڈھ،مرادآباد اور میرٹھ میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں لیکن دیہات اس لعنت سے محفوظ رہے ۔ مظفرنگر رام جنم بھومی کےدورِ پرفتن میں بھی امن و سلامتی کا گہوارہ بنا رہا لیکن اس بار اخوت و محبت کی یہ چادر بھی تار تار ہوگئی اور شیر و شکر کی مانند مل جل کر رہنے والے جاٹ اور مسلمان ایک دوسرے کے دشمن بنا دئیے گئے۔
یہ تبدیلی راتوں رات واقع نہیں ہوئی ۔چودھری چرن سنگھ کی روایت کو ان کا وارث اجیت سنگھ جاری نہ رکھ سکا اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ چودھری چرن سنگھ خود کاشتکار تھے۔ وہ اپنی محنت سے آگے آئے تھے اس لئے عام کسان ان سے جو قربت ویگانگت محسوس کرتا تھا، یوروپ کی تعلیم سے آراستہ اجیت سنگھ اس سے محروم تھا۔اجیت سنگھ کے سا منے پہلا بڑا چیلنج خود جاٹ برادری میں برپا ہونے والی ایک بہت بڑی تحریک بھارتیہ کسان یونین تھی جس کی قیادت مہندر سنگھ ٹکیت کررہے تھے۔ ایک زمانہ میں مہندر سنگھ ٹکیت کو جاٹ چودھری چرن سنگھ کا ہمسر قراردینے لگے تھے۔چونکہ ٹکیت انتخابی سیاست کو شعبدہ بازی قراردیتے اس لئے اجیت سنگھ ان کی تنقید کا نشانہ بن جاتے تھے۔ مہندر سنگھ ٹکیت نے بھی گنگا جمنی تہذیب کا پاس و لحا ظ کرتے ہوئے مسلمانوں کو قریب رکھا ۔ ان کے احتجاج میں ہندئووں کیلئےبھجن تو مسلمانوں کیلئےنماز کا باقائدہ اہتمام ہوتا تھا۔اغوا شدہ مسلم دوشیزہ نعیمہ کی رہائی کیلئے ٹکیت نے ۴۰ دنوں تک احتجاج کیا تھا ۔
اجیت سنگھ کیلئے دوسری مصیبت ملائم سنگھ یادو نےکھڑی کی۔ اس لئے کہ وہ اپنے یادو برادری یعنی اہیر رائے دہندگان کو لے کر الگ ہو گئے۔ جو اتحاد ذات پات کے تانوں بانوں سےبنتا ہے اس کا ذات پات کی بنیاد پر بکھر جانا فطری امر ہے۔مسلم رائے دہندگان ابتداء میں چرن سنگھ کے علاوہ کانگریس کی جانب مائل تھےلیکن آگے چل کر اس ووٹ بنک کے مزید دو دعویدار ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی کی شکل میں سامنے آگئے ۔جس کے سبب راشٹریہ لوک دل کا اثرو رسوخ سمٹتا چلا گیا ۔چودھری چرن سنگھ نے کانگریس اور جن سنگھ سے الگ اپنی شناخت قائم کی تھی اور جنتا پارٹی میں بھی وہ سنگھ پریوار کے نفوذکی مخالفت کرتے تھے اسی لئے دوہری رکنیت کے مسئلے پر انہوں نے سابق جن سنگھیوں سے لڑائی مول لے لی تھی۔ اجیت سنگھ یہ نہیں کرسکے ۔انہوں نے پہلے تو کانگریس کے ساتھ الحاق کیا اورپھر بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے سے بھی نہیں چوکے۔ اجیت سنگھ کی اس ابن الوقتی نے ان کی سیاسی ساکھ خراب کردی جوانتخابی نتائج کی صورت میں ظاہر ہوتی رہی۔
قومی ذرائع ابلاغ نے یہ راگ الاپا کہ مظفر نگر کا فساد دراصل بی جےپی و سماجوادی پارٹی کی اندرونی سانٹھ گانٹھ کا نتیجہ ہیں اور اس کا مقصد اجیت سنگھ کے ووٹ بنک پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔ مظفرنگر کی حدتک اگر گزشتہ دس سالوں کے انتخابی اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو اسکی تصدیق نہیں ہوتی۔ اس دوران دو پارلیمانی اور دو اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ بی جے پی کے اشوک کنسل کو۲۰۰۷ء کے صوبائی انتخاب میں ۳۲ فیصد ووٹ ملے اور وہ کامیاب ہوگیا دوسرےنمبرپرسماجوادی پارٹی کا امیدوارچترنجن سوروپ تھا جسے ۲۶ فیصد ووٹ ملے۔۲۰۱۲ءکے اندر یہ ترتیب بدل گئی سماجوادی پارٹی کے اسی سوروپ کو ۳۵ فیصد ووٹ مل گئے اور بی جے پی کا کنسل ۲۵ فیصد سے آگے نہ بڑھ سکا۔
۲۰۰۷ء اور۲۰۱۲ء کے اسمبلی انتخابات میں مظفر نگر سے بہوجن سماج پارٹی نے غیر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا۔ دونوں مرتبہ اسے ۱۹ فیصد کے قریب ووٹ ملے گویا یہ مایاوتی کا اپنا دلت اور گوجرووٹ تھا جس میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔اجیت سنگھ اور کانگریس کے الحاق کو ۱۴ اور۵ء۱۲ فیصد پر اکتفا کرنا پڑا۔ ان اعداوشمار سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مظفرنگر اسمبلی حلقہ میں اجیت سنگھ ویسے بھی بے وزن ہو چکے تھے اصل مقابلہ ایس پی اور بی جے پی کا تھا ایسے میں ایس پی اپنے مسلمان رائے دہندگان کو ناراض کرکے کسی بھی صورت میں اپنے راست حریف بی جے پی کو مضبوط کرنے کی غلطی نہیں کرسکتی ۔ اجیت سنگھ کو کمزور کرنے کا سوال اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ پہلے ہی چوتھے نمبر پر پہنچے ہوئے تھے۔
پارلیمانی انتخابات کے اعدادوشمار بھی دلچسپ ہیں۔۲۰۰۴ء میں سماجوادی کے منور حسن نے ۳۵فیصد ووٹ حاصل کرکےبی جے پی کے امرپال سنگھ کو شکست دی جسے ۵ء۲۷ فیصد ووٹ ملے تھے۔بہوجن سماج پارٹی ۲۱ فیصد ووٹ لے کر تیسرے اور کانگریس و اجیت سنگھ کا الحاق چوتھے نمبر پر تھا۔۲۰۰۹ء کے اندر اجیت سنگھ نے بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا جس کے نتیجے میں بی جے پی کے ووٹ کا تناسب بڑھ کر ۳۴ فیصد تک پہنچ گیااس کے باوجود امرپال سنگھ کامیاب نہ ہوسکا۔ اس لئے کہ اس بار مایاوتی نے صورت سنگھ ورما کے بجائے قدیر رانا کو ٹکٹ دے دیا جس کی وجہ سے بی ایس پی کے ووٹ کا تناسب ۲۱ فیصد سے بڑھ کر۳۷ فیصد تک پہنچ گیا۔یہ ۱۶ فیصد مسلمان ووٹ تھے جو سماجوادی پارٹی کے ووٹ بنک سے نکل کر آئے تھے جس کے تناسب میں ۲۱ فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی۔سماجوادی کے پانچ فیصد ہندوووٹ ممکن ہے کانگریس کی جھولی میں چلے گئے ہوں اس لئے اس نے سعیدالزماں کو ہٹا کر انورادھا چندرا کو ٹکٹ دیا تھا اور اجیت سنگھ کے دور ہوجانے کے باوجود اس کے ووٹ کی شرح صرف ۲ فیصد کم ہوئی تھی۔ مغربی یو پی میں۲۰۰۹ء کے اندر اجیت سنگھ کو بی جے پی کی مدد سے ۵ نشستیں ملی تھیں۔ بی جے پی اور سماجوادی دونوں کو ۳ اور کانگریس کو ایک پر اکتفا کرنا پڑا تھاجبکہ سب سے زیادہ ۶ نشستیں بہوجن سماج کو حاصل ہوئی تھیں ۔ بی ایس پی کو سماجوادی پارٹی اپنا بی جے پی سے بڑا حریف جانتی ہے اس لئے فساد کروا کر وہ مسلمانوں کوبی ایس پی کی جانب نہیں ڈھکیل سکتی۔ مظفرنگر کے پارلیمانی حلقے میں گزشتہ دونوں مرتبہ بی جے پی دوسرے نمبر پر رہی ایسے میں ایس پی اس کو طاقتور بنا کر پہلے نمبر پرلانے کی حماقت کیوں کرے گی یہ بھی سمجھنا محال ہے۔ اس لئے ان فسادات کے پسِ پشت سماجوادی پارٹی کےسیاسی مفاد کا مفروضہ کمزور معلوم ہوتا ہے۔
اس سیاسی صورتحال کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ مظفر نگر میں بھیانک فسادرونما ہوا جس میں ۵۰ سے زیادہ جانیں تلف ہوئیں جمعیت علمائے ہند نے دورے کے بعد مہلوکین کی جو فہرست شائع کی ہے اس میں پچاس نام ہیں اور ایک کے سوا سب مسلمان ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ غیر مسلم بھی مارے گئے مثلاً وہ گورو اور سچن جنہوں نےشاہنوازکو بھرے بازار میں مارڈالااور جنہیں مشتعل ہجوم نے ہلاک کر دیا۔ اس طرح گویا فساد کی ابتداء ہوگئی۔ ان کے علاوہ آئی بی این چینل کا ہلاک ہونے والاصحافی راجیش ورما ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سطحی قیاسات کے بجائے فساد کی وجوہات کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے ۔ ہر فساد کو گجرات سے جوڑ دینا اور مودی کو ذمہ دار ٹھہرا دیناسادہ لوحی ہے۔ امیت شاہ کے اتر پردیش بی جے پی کی انتخابی مہم کا سربراہ بنائے جانے پر ان لوگوں کو حیرت ضرور ہوگی جو اس بات کو بھول گئے ہیں کہ گزشتہ سال اسمبلی کے انتخاب میں مدھیہ پردیش کی اوما بھارتی کویہ ذمہ دار ی سونپی گئی تھی۔ یہ سب تواتر پردیش میں بی جےپی کی قحط الرجالی کے مظاہر ہیں۔
بی جے پی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو وہ اس علاقے میں اجیت سنگھ کو ساتھ لینے کے باوجودکوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکی ۔اس مرتبہ اجیت سنگھ کانگریس کی حکومت میںوزیر ہوا بازی ہیں۔بی جے پی نے اجیت سنگھ کے جاٹ رائے دہندگان کی کمی کو پورا کرنے کیلئے مہندر سنگھ ٹکیت کے بیٹےنریندر سنگھ ٹکیت سے پینگیں بڑھائیں ۔ یہ الزام بھی ہے کہ نریندر سنگھ نے بی کے یوکوخاصہ ہندوتوا وادی بنا دیا ہے جس کے سبب مسلم کسان اس سے دور ہوگئے ہیں۔ جون کے مہینے میں بجرنگ دل کا ایک اجلاس اس علاقے میں ہوا جس میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی گئی۔ اس پر جاٹ بزرگوں نے اعتراض بھی کیا لیکن کشیدگی کو بڑھانے کا عمل جاری رہا۔ لڑکی کی چھیڑ چھاڑ اور اس پر قتل در قتل کے بعد جاٹ مہا پنچایت ماں بہنوں کی حفاظت کے نام پر بلائی گئی تھی لیکن پھر وہ اپنے آپ ہندتوا کے تحفظ میں بدل گئی ۔ اس میں بی جےپی کے علاوہ کانگریسی رہنماؤں نے بھی خطاب کیا اور اسی سے فساد کی آگ پھیلی۔ بی جے پی کےرکن اسمبلی سنگیت سنگھ سوم نے فساد کی آگ میں تیل ڈالنےکیلئے ایک غیرمتعلق فلم کو یوٹیوب سے نکال کر پھیلا کر اشتعال انگیز تیلی لگا دی ۔اس فساد سے گویا بی جے پی کا براہِ راست فائدہ یہ ہوا کہ ان کا ساتھ چھوڑنے والے اجیت سنگھ کے ووٹ ٹکیت کے ذریعہ ان کے پاس واپس آگئے لیکن مسلمانوں کے ووٹوں کی بی ایس پی اور سماجوادی کے درمیان تقسیم کا جو فائدہ اسےہو سکتا تھا اس سے وہ محروم ہوگئی ۔ اس بار پھر مسلمان سماجوادی پارٹی کو اس کی نااہلی کی سزا دیں گے اور سارے ووٹ ہاتھی پر پڑیں گے۔ کانگریس کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ سپا،بسپا اور آریلڈی سارے کے سارے اس کے حلیف ہیں۔
فساد نے سب سے زیادہ نقصان اجیت سنگھ کا کیا۔ اس لئے کہ مظفرنگر کے اطراف و اکناف مغربی یوپی میں اب نہ جاٹ اس کے ساتھ ہیں ، نہ فسطائی ہندو اور نہ مسلمان ۔اس لئے اب اس کا پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا بھی مشکل ہو جائیگا۔یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ وزیر مملکت ہونے کے باوجود دو مرتبہ ریاستی انتظامیہ نے انہیں اپنے علاقے میں داخل نہیں ہونے دیا۔ اس پر شکایت کرتے ہوئے ان کے بیٹے اور رکن پارلیمان جینت چودھری نے کہا کہ ریاستی حکومت اس مہاپنچایت کو تو روک نہ سکی جس کے سبب فساد پھیلا اور ہمیں روکتی ہے جبکہ ہم دونوں فرقوں کے درمیان قربت پیدا کرسکتے ہیں۔ مظفر نگر کے مفتی ذوالفقار علی سحر کی بھی یہی رائے ہے کہ مغربی یوپی میں اجیت سنگھ کا صفایہ ہو گیا ہے۔وہ بی ایس پی کے قدیر رانا سے بھی ناراض ہیں جنہوں نے ۶ ستمبر کو مظفر نگر کے اندر مسلمانوں کے درمیان ایک اشتعال انگیز تقریر کی تھی اور اس کے سبب ان پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا مقدمہ درج ہوگیا۔
مظفر نگر کے فرقہ وارانہ فساد کی بنیادی وجہ صرف اور صرف سماجوادی پارٹی کی نااہلی اور وزیراعلیٰ کی ناتجربہ کاری ہے ۔ اگر اس موقع پر ریاستی حکومت اسی سختی کا مظاہرہ کرتی جس کا ایودھیا میں وی ایچ پی کی۸۴ کوسی یاترا کو روکنے میں کیا گیا اور جاٹ مہا پنچایت کے اہتمام کی اجازت نہ دیتی تو فساد کی آگ اس قدر تیزی کے ساتھ نہیں پھیلتی۔انٹلی جنس بیورو اور محکمہ پولس جانتا تھا کہ کشیدگی بڑھ رہی ہے ۔ انسپکٹر جنرل کرائم اشیش گپتا نے اعتراف کیا کہ تیاری کے باوجود مقامی انتظامیہ کی سستی کے سبب تشدد پھوٹ پڑا۔ لیکن افسوس کہ اس مجرمانہ کاہلی کیلئے کسی اعلیٰ افسر کو سزا نہیں دی گئی محض دو ایس ایچ او کی معطلی کافی نہیں ہے ۔ حکم امتناعی کے دوران مہاپنچایت کی اجازت ایس ایچ او نہیں دے سکتے۔اس لئے جن لوگوں نے یہ فیصلہ کیا تھا ان کی سرزنش ہونی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ درگا شکتی کے معاملے میں جو کڑا رخ حکومت نے اختیار کیا اس کی ضرورت مظفر نگر میں زیادہ تھی۔
جاٹ مہا پنچایت کے انعقادکی سنگینی کاا ندازہ لگانے میں ریاستی حکام بری طرح ناکام رہے۔ اس مہا پنچایت کے بلانے کا بنیادی سبب شاہنواز کی ہلاکت پر جن آٹھ لوگوں کے نام فرد جرم میں شامل کئے گئے ان کے اخراج کا مطالبہ تھا ۔ بی کے یو کے اس مطالبے کو ابتداء میں تسلیم نہیں کیا گیا لیکن فساد ہوجانے کے بعد وہ نام نکال دئیے گئے ۔بی کے یو کے سربراہ راکیش ٹکیت کے مطابق اگر یہی اقدام پہلے ہو جاتا تو نہ صرف یہ کہ مہاپنچایت ٹل جاتی بلکہ تشدد بھی نہ پھیلتا لیکن اکھلیش کا بچپنا اور ملائم سنگھ کا بڑھاپا مسلمانوں کو لے ڈوبا ۔وہ دونوں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں پوری

طرح ناکام رہےاور اس کی قیمت فی الحال مسلمانوں کو ادا کرنی پڑی لیکن آئندہ سال قومی انتخاب میں انہیں بھی آٹےدال کا بھاؤ معلوم ہو جائیگا۔
مسلمانوںکے نقطۂ نظرسےیہ فسادات اس بات کے غمازہیں کہ انتخابی سیاست سے بیجاتوقعات انہیں تحفظات فراہم نہیں کرسکتے۔ جوڑ توڑ کی انتخابی سیاست پر تعمیر ہونے والے ہوامحل کو ہوا کا معمولی سا جھونکا زمین دوز کردیتاہے ۔ جن کو دوست سمجھ کر ووٹ دیا جاتا ہے، وہ دشمنوں کے ہمنوا بن جاتے ہیں۔ گزشتہ دس سالوں سے مظفر نگر کے مسلمان کمال ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کو کامیاب ہونے سے روک رہےہیں۔ان لوگوں نے اسمبلی میں ایس پی کو جتایاجس نے حکومت بنائی۔ پارلیمان میں بی ایس پی کو کامیاب کیا جوحزب اقتدار کی حلیف ہے اس کے باوجود بدترین قسم کے فساد سے دوچار ہوئے اور پچاس لوگوں کی شہادت کے ساتھ ہزاروں کو بے خانماں ہونا پڑا۔ اس لئے یہ سمجھ لینا کہ انتخابی کامیابی کو ئی جادوئی چراغ ہے اور اس کے اندر سے نکل کر آنے والا جن ہمارا تحفظ کرے گا ایک خام خیالی سے زیادہ کچھ اورنہیں ہے۔ ملک کی فی الحال جو فرقہ وارانہ صورتحال ہے اس پر یہ مشہور شعر (ترمیم کے ساتھ)صادق آتا ہے کہ ؎
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ملائم کافی تھا
ہرشاخ پہ مودی بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *