امیر وحدت اسلامی کا خط علماء کرام کے نام

محترم علماء و ائمہ کرام !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اللہ ربّ العلمین نے حضرت آدم ؑ کی نسل کو شیطان کے ہتھکنڈوں اور نفس کی خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر دور میں آسمانی ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ جسکی آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ کو دیا گیا نسخۂ ھدایت قرآن کریم آخری کتاب ہے اور خانۂ کعبہ تا قیامت مکمل انسانیت کے لئے امن و اتحاد کا ذریعہ ہے۔ اور امّت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری امت ہے۔ اس اُمت کی تعلیم ،تربیت اور تزکیہ کے لئے اللہ کے پیارے نبیؐ نے بے پناہ تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کیں ، وطن عزیز کو چھوڑا، طائف،شعب ابی طالب، بدر و اُحد کی تکلیفیں اٹھائیں اور اپنی ۲۳ سالہ نبوی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی مشقت اور راتوں کی لمبی نمازوں و دعاؤں میں کھپا دیا۔ اور دنیا چھوڑتے وقت آپ کے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی اور آپ کی حکومت تقریباً پچیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں آپ نے اپنی اس امت کو اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہونچانے کا کام دیا اور ناحق خون بہانے سے منع کیا۔ اللہ اور رسولؐ کے واضح احکامات ہمیں قرآن و حدیث میں ملتے ہیں کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، جھگڑا مت کرو ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی۔ فرمایا گیا سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ آپسی ملّی محبت اور غیرت کو اللہ نے اپنا خاص انعام بتایا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان کی جان کی حرمت خانۂ کعبہ سے بڑھ کر ہے۔
محترم ائمہ و علماء کرام! اسلام میں اجتماعیت کی اہمیت پر جتنا زور دیا گیا ہے وہ ہم سب کی نظر میں ہے۔ پنجوقتہ فرض نماز کا مسجد میں ایک امام کے پیچھے اہتمام ، ایک امیر کے ذریعہ حج کے خطبہ کی ادائیگی ، زکوٰۃ کا اجتماعی نظم ،معاملات امیر کے ذریعہ فیصل کرنے کا نظام ،یہ سب ہمیں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور انتہائی منظم ، مستعد، مستحکم، اجتماعیت میں تبدیل کرتے ہیں۔ اسی لئے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی نظم کی خلاف ورزی پر سخت تنبیہہ فرمائی ہے۔ آپؐ نے یہاں تک حکم دیا کہ اگر ملت ایک اجتماعیت پر اکٹھا ہو جائے تو اس سے بغاوت جرم ہے۔ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان پر مسلمان کے حقوق کی جو تاکید کی ہے وہ ہمیں معلوم ہے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنین کو ایک دوسرے سے بدگمانی کرنے ، غیبت کرنے ، کسی کو کمتر سمجھنے سے آپس میں ایک دوسرے کی عزت، آبرو، جان و مال کو بغیر حق کے نقصان پہونچانے سے منع کیا۔ اور اللہ پاک نے بہت سخت وعیدیں ان گناہوں کی پاداش میں سنائی ہیں۔
حضرات علماء کرام! آپ کے علم میں ہے کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سے مشقتوں اور تکلیفوں کے بعد امت کی تشکیل دی ہے دشمنان دین و ملت اسی وقت سے (عبداللہ ابن ابیٔ جیسے لوگ)اس امت کو مختلف بہانوں سے منتشر کرنے کی منظم سازشیں کرتے رہے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے نفرت کی مزید کھائیاں کھودی جا رہی ہیں۔ ان سازشوں کی فصلوں کو بوتے رہے ہیں اور ملت نقصان ، غلامی اور مایوسی کی فصلیں کاٹتی رہی ہے۔ فتنۂ تاتار، سقوط اسپین ، سقوط خلافت، مغلیہ حکومت کا زوال اور آج قضیۂ فلسطین ، قبلہ اوّل سے محرومی ،مصر ،شام، عراق، افغانستان، میانمار، افریقہ، چین، روس میں خون مسلم کی ارزانی یہ سب کس وجہ سے ہیں؟ خود مسلم ممالک میں لیبرل ، سیکولر، کٹر، ماڈرن کی تقسیم کے ساتھ ساتھ مسلکی فسادسے دنیا میں روزانہ سینکڑوں فرزندانِ توحید ظلم و جبر ، قتل و غارتگری کا شکار ہو رہے ہیں۔ دشمن تو دشمن ہی ہیں انہیں میر جعفر و میر صادق ،شریف مکہ وغیرہ کون فراہم کر رہا ہے؟ وطن عزیز ہندوستان بھی اس بیماری سے اچھوتا نہیں ہے۔ ہمارے مسلکی علمی اختلافات کو اپنی سیاسی اغراض کے لئے سیاسی پارٹیاں بڑھاوا دیتی رہی ہیں۔ اس کے لئے نفرت کی مزید کھائیاں کھودی جا رہی ہیں اور ملت کے افراد اللہ کے احسانات اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو چھوڑ کر دو تین سال کی لال نیلی بتی اور دو تین سیکورٹی گارڈ کے بدلے دانستہ یا نادانستہ امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔کیا ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خون پسینہ، محنت و مشقت، ہجرت و جہادکی لاج نہیں ہے اسے اہل بیت خلفاء راشدین ؓ، صحابہ کرام کی پریشانیاں، قربانیاں، شہادتیں یاد نہیں اسے اولیاء اللہ و سلف صالحین کی ریاضتیں، قربانیاں یاد نہیں آتیں۔ کیا ہمیں دنیا چھوڑ کر جانا نہیں ہے؟ کیا ساقی کوثر کو حوض کوثر پر ہم اپنا چہرہ دکھانے کے قابل ہوں گے جب ہم اس کی محبوب امت کو کسی بھی انتشار و اختلاف میں مبتلا کرنے کے مرتکب ہوں گے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ :۔ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
حضرات علماء کرام! آج کے مخصوص حالات میں ہم پر زبردست ذمہ داری امت کے اتحاد اور اتفاق کے حوالہ سے عائد ہوتی ہے۔ ہم اس حوالہ سے اللہ علّام الغیوب کے سامنے جوا ب دہ ہیں۔وہ ہمارے دلوں کے حالات سے واقف ہے اور اللہ کے لاڈلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چہرہ دکھانا ہے۔ اسی احساس کے ساتھ باہم مل کر سیسہ پلائی دیوار بنکر اللہ اور رسول ؐ کی خوشنودی اور دنیوی و اخروی بھلائی کے حقدار بننے کی راہ پر گامزن ہوں۔ اللہ ہم سب پر اپنی رحمتیں فرمائے ۔ (آمین)

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *