تصحیح اغلاط مع معذرت

قارئینِ کرام! السلام علیکم۔ بہت معذرت کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ ستمبر کے شمارےمیں صفحہ 17 اور صفحہ 18 اگست کے شمارے کا سہواً شائع ہوگیا۔ جس کے باعث میراثِ ابراہیمؑ والے مضمون کے دو صفحات شائع ہونے سے رہ گئے اور اگست کے شمارے کا ادھورا مضمون شائع ہوگیا۔ ہم مضمون نگار اور قارئین سے دل سے معذرت خواہ ہیں کہ لاعلمی میں اتنی بڑی خطا ہوگئی۔ اب ہم ستمبر کے شمارے کے باقی دونوں صفحات شائع کررہے ہیں اس امید پر کہ قارئین مضمون کے باقی حصہ کو اس سے ملاکر پورا کرلیں گے اور مضمون کا ماحصل سامنے آسکے گا۔ (ادارہ)
اگر کوئی شخص محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے تو وہ ناحق ایک جاندار کا خون بہاتا ہے ‘‘۔ (مولانا مودودی ؒ سہ روزہ دعوت ۱۹؍اکتوبر ۲۰۱۲ء؁)
خوب جان لیں کہ اللہ کو ہماری قربانیوں کا گوشت، خون ، چمڑا نہیں چاہیے ، اس کو تو بس دلوں کا تقویٰ مطلوب ہے ۔ دل کی وہ کیفیت جو قربانی کے جانور کی حلقوم پر چھری پھیرتے وقت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ ’’ نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں ، نہ خون مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘ (سورۃ حج ۳۷)
ذرا ہم جانور کی قربانی کے وقت کا پورا منظر تازہ کر لیں کہ ایک بے عیب جانور ہم ڈھونڈھ کر لائے، کھلایا ، پلایا، اپنے سے مانوس کیا ، نماز ِ عید الاضحیٰ سے فارغ ہو کر جانور کو قبلہ رو پچھاڑا اور جانور کے شانہ پر پیر رکھ کر اس دعا کے ساتھ اِنیِّ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضَ حَنیِفاًوَّماَاَنا منَ الْمُشْرِکِینْ۔اِنَّ صَلاَ تیِ وَنُسُکیِ وَمَحیاَیَ وَمَمَاتیِ لِلَّہِ رَبِّ الْعاَلَمِیِنْ۔لاَشَریِکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَأَنا اول الْمُسْلِمیْنَ اَللّٰھُمَّ لَکَ وَ مِنْکَ…. میری ساری توجہ کا مرکز ، میری ساری قبولیت کا قبلہ اے قبلہ ٔ حاجات صرف آپ ہیں، زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے مجھے اور کسی سے غرض کیا، میں اپنا رشتہ سب سے تو ڑے ہوئے ہوں اور صرف آپ سے جوڑے ہوئے ہوں، بے شک میری نماز، میری قربانی،میرا جینا، میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کیلئے ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم فرمانبردار ہوں ، خدایا یہ تیرے ہی حضور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ
ذرا ٹھہر کر ہم قربانی کی دعا پر غور کریں ، قربانی تو ہم جانور کی کرتے ہیں اور دعا اپنی قربانی کی کرتے ہیں ۔ اصلاً ہم اللہ کے حضور جانور کا خون بہا کر یہ عہد کرتے ہیں کہ اے اللہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا ، میرا مرنا سب کچھ تیرے لئے ہے، ابھی تو جانور قربان کیا ہے ، لیکن وقت آنے پر ان شاء اللہ ہم اپنی گردنیں کٹانے اور اپنا خونِ جگر تیری راہ میں بہانے سے گریز نہیں کریں گے ۔ اللہ کی راہ میں خون دینے کے جذبے کو مہمیز کرنے کیلئے ہی عید قرباں ہے ۔
ہمیں چاہیے کہ عمل قربانی کے ذریعے اپنے اندر ، اپنے بیوی بچوں کے اندر جذبۂ قربانی کو بڑھائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز قربانی دیکھئے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں موٹا تازہ دنبہ لایاگیا تاکہ آپ اس کی قربانی کریں آپ ﷺ نے حضرت عائشہ سے کہا چھری لاؤ ۔۔ اس چھری کو پتھر پر رگڑ کر تیز کرو ۔۔ پھر آپ نے چھری پکڑی اور دنبہ کو ذبح کیا ۔(صحیح مسلم ۵۰۹۰) قربانی کا یہ انداز کتنا پیارہ ہے، اپنی بیوی سے چھری مانگی ، بیوی سے ہی کہا کہ رگڑ کر تیز کرو اس کے بعد جانور کو پچھاڑا اور اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ۔۔ ہم بھی قربانی کے اس پورے عمل میں اپنی بیوی بچوں کو شامل کریں تاکہ ان کے اندر جذبہ قربانی پیدا ہو ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری تو قربانی کے جانور اپنی بیٹیوں سے ذبح کراتے تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں سے فرمایا کہ اپنی قربانی خود اپنے ہاتھ سے ذبح کریں ۔
( بخاری شریف باب ۳۳۶)
آج ہر طرف نار نمرود دہکائی جارہی ہے ، پوری دنیا میں امت مسلمہ کے عشق کا امتحان ہے ، جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کے لئے نار نمرود کی شکل میں، ہجرت کی شکل میں اور حضرت اسمٰعیل کو راہ خدا میں قربان کرنے کیلئے پچھاڑ دینا امتحانِ عشق تھا ، آج سنت براہیمی ؑ کا اتباع کرنے والوں کو جلد باز، جذباتی، آتنک وادی کہا جا رہا ہے، شریعت اور شعائر اسلام پر حملے ہو رہے ہیں ، مصر میں اسلام پسندوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ، بنگلہ دیش میں اسلام کے نام لیواؤں کو مستحق دارٹھہرایا جا رہا ہے ، ہمارے ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو پامال کی جا رہی ہے ، گوپال گڑھ، راجستھان۔ پرتاپ گڑھ ، ایستھان۔ کوسی کلاں، متھرا، کوکرا جھار ، آسام، فیض آباد کے مضافات یا مظفر نگر کے دیہات روتے ،بلکتے ، سسکتے، اپنے ہی ملک میں تقریباً ایک لاکھ کی تعداد میں ریلیف کیمپ کے پناہ گزیں۔۔۔
آج ضرورت ہے
٭ براہیمی ایمان کی
٭ براہیمی نظر کی
٭ براہیمی جذبہ ٔ قربانی کی
٭ براہیمی جرأت کی کہ ۔۔ اللہ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔
آئیے عہد کریں کہ ہمیں توحید کا علمبردار بن کر ، دعوت حق کا فریضہ انجام دینا ہے اور راہِ خدا میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار رہنا ہے، اور اسی جذبہ کو تازہ کرتے ہوئے ہمیں جانور قربان کرنا ہے ۔ ہم قربانی اسی جذبہ کی آبیاری کیلئے کریں کہ جب مسئلہ اسلام کی آن کا آئیگا ، کعبۃاللہ کی حرمت کا آئے گا، انبیاء ؑ کی عصمت کا آئیگا، شعائر اللہ و رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس کا آئیگا تو ہم اپنی جانوں کی قربانی دیں گے ۔ ہم اللہ کی راہ میں اپنا وقت، سرمایہ، حتیٰ کی جان دے دیں گے ۔ ہم ظلم و جبر کے خلاف ثابت قدم رہیں گے کیوں کہ اللہ کی مدد پیٹھ پھیر کر بھاگنے والوں کے ساتھ نہیں آتی۔ ہم اپنی قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کریں گے ۔ ہم اپنی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کو عمل قربانی میں شامل کریں گے تاکہ راہِ خدا میں خون دینے کا داعیہ ان کے اندر بھی پیدا ہو۔ ہم قربانی کیلئے استعمال ہونے والی چھریوں کو سنبھال کر سلیقے سے رکھیں گے تاکہ قربانی کا جذبہ باقی اور موجزن رہے۔ ہم تمام نمرودی سازشوں کا مقابلہ براہیمی جرأت کے ساتھ کریں گے ۔ انشاء اللہ
صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *