سنی شیعہ تعلقات: علاقائی اور عالمی استحکام کی کلید

عمان( اردن ) آج یہ امر ناقابل تردید ہے کہ مشرق وسطی سنیوں اور شیعوں کے درمیان بالخصوص مصر، شام، عراق اور لبنان میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے ایک دور کی پیشین گوئی کر رہا ہے۔ 20اگست کو اردو کے شاہ عبداللہ دوم نے ’’رائل آل بیت انسٹی ٹیوٹ فار اسلامک تھاٹ‘‘(Royal Aal-e-Bayt Institute for Islamic Thought)کی کانفرنس میں شیعہ اور سنی قائدین سے خطاب کیا اور ’’سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال اور نفرت پر مبنی نسلی او ربین المذاہب فرقہ وارانہ تقسیم کے بیج بوئے جانے کے خطرے‘‘ کے بارے میں بات کی۔ تاریخی طور پر اس خطے نے اس واضح اور کھلی مذہبی اور فرقہ وارانہ عدم برداشت کے ہاتھوں زک نہیں اٹھائی جو یورپ میں بالخصوص سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے درمیان دیکھنے میں آئی۔ یورپ میں اس سے نکلنے کا راستہ امن معاہدوں کے اس سلسلے میں ڈھونڈا گیا جس میں 1648کا ’’پیس آف ویسٹفیلیا‘‘(Peace of Westaphalia) نامی معاہدہ بھی شامل ہے جس کا حوالہ بعض ہم عصر ’’تھک ہار کے قائم ہونے والا امن‘‘(Peace of Exhaustion)کے عنوان سے دیتے ہیں۔ شاید مشرق وسطی کو یہ سمجھنے کے لیے جنگ میں تھک ہارنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اچھے سنی شیعہ تعلقات علاقائی اور عالمی استحکام کی کلید ہیں۔ ایسٹفیلیا کے اسباق کو آج مشرق وسطی میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔ یورپ نے یہ بات سمجھنے کے لیے دہائیوں پر پھیلی ہوئی طویل جنگ لڑی کہ پیش رفت کی راہ ایسی مذہبی اور سیاسی رواداری ہے جو مختلف قوموں اور مذاہب کے بغیر کسی مداخلت کے اپنا وجود قائم رکھنے کے مشترکہ حق کے احترام کی بنیاد پر قائم ہو۔ شاید یہ بہت محبت سے نہ ہوا ہو لیکن یورپ نے بالآخر یہ سیکھ لیا ہے کہ مذہبی عقائد اور سیاسی نظریات دونوں کے تنوع میں اتحاد کا احترام کیسے ہوتا ہے اور اس فہم کا آغاز ویسٹفیلیا سے ہوا۔ مشرق وسطی کے پاس تو در حقیقت شیعوں اور سنیوں کے مابین باہمی احترام کے ساتھ ساتھ دیگر مکتبہ ہائے فکر کے احترام کے حوالے سے تاریخی نظیریں بھی موجود ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اس دور میں سنی علوم کے سب سے بڑے مرکز، قاہرہ میں قائم جامعہ الازہر کی بنیاد 970عیسوی میں شیعہ فاطمی سلطنت کے حکمران نے رکھی تھی، اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اہل تشیع اور اہل سنت کا مل جل کر رہنا تاریخی معمول اور مسلمان زندگی کا عام طریقہ رہا ہے۔ لہٰذا یہ بات حیرانی کا باعث نہیں ہونی چاہیے کہ الازہر کے مقتدر اور معروف عالم مرحوم شیخ محمود شلتوت نے 1958میں ایک فتوی جاری کیااور شیعہ جعفری فرقہ کو اسلام کے مطابق جائز قرار دیا۔ اسی فتوی کی وجہ سے اس وقت اسلامی دینی مکاتب میں مفاہمت کی کونسل (Council for the Raprochement of Islamic Theological Schools) کے قیام میں مدد ملی۔ مزید برآں 1960کی دہائی میں الازہر کے شیخ شلتوت اور ایران کے آیت اللہ محمد تقی قمی کے درمیان اچھا ذاتی اور علمی تعلق آج بھی اسلام کے دو مکاتب فکر کے نکتہ ملاپ کی مثال ہے۔
سنیوں اور شیعوں کو اکٹھا کرنے کے لیے قاہرہ میں اپنے اقدامات کے افتتاح کے موقع پر شیخ شلتوت نے کہا: ’’یہاں ہم مصری، ایرانی، لبنانی، عراقی، پاکستانی اور مسلمان دنیا کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ یہاں ہم حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مکتبہ فکر کے سنی، امامیہ اور زیدیہ مکتبہ فکر کے اہل تشیع کے ساتھ اکٹھے ایک میز پر بیٹھے ہیں جہاں آپ بھائی چارے کی فضا میں عمومی، روحانی اور قانونی دانش کے مضبوط علم کی بازگشت سن سکتے ہیں۔‘‘ آیت اللہ قمی نے یہ کہتے ہوئے شیخ کی بات دہرائی کہ :’’سنی اور شیعہ علما ایک میز پر بیٹھے ہیں۔۔۔ اور اسلام کی راہنمائی اور اصولوں کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تقسیم کی بیماری سے شفا کی تلاش میں بیٹھے ہیں اور اس طرح اپنے علم سے انہوں نے اس مجلس کو اسلام کی بہت سی درخشاں مجلسوں میں اسے ایک بنا دیا ہے۔‘‘ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک معروف حدیث کے مطابق ’’ہر صدی کے اختتام پر اللہ مسلمان کمیونٹی کے لے ایک مجدد بھیجے گا جو ان کے اصلی ایما ن کا احیا کرے گا۔‘‘جب ہم یہ پڑھتے ہیںتو یہ سوچے بنا نہیں رہ سکتے کہ یہ وقت مسلمان دنیا بالخصوص مشرق وسطی کے لیے یہ محسوس کرنے کا ہے کہ اسے بہت توجہ سے اپنی مذہبی، اخلاقی اور سیاسی سوچ پر باردگر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں شیخ شلتوت اور آیت اللہ قمی کی طرح سنیوں او رشیعوں کے درمیان بہتر ابلاغ کے لیے کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی سعی کی ضرورت ہے جو سیاسی اقتدار کے لیے کوشش کرنے کے گندے کھیل سے ماورا ہو کیونکہ یہ گندہ کھیل فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دیتا ہے۔ در حقیقت ہمیں 1988میں تہران میں ’’اسلامی مکاتب میں مفاہمت کے لیے ورلڈ اسمبلی (World Assembly forthe Rapprochment of Islamic School) کے قیام کے ذریعہ اس روح کو جلا بخشنے کی کوشش کی تحسین کرنی چاہیے۔ امید کی جاتی ہے کہ دوسرے بھی اس راہ کی پیروی کریں گے۔ اسمبلی کے موجودہ سیکریٹری جنرل آیت اللہ محمد علی تسخیری فخریہ کہتے ہیں کہ یہ ورلڈ اسمبلی آیت اللہ الخامنئی کی مہربانیوں سے قاہرہ میں کی جانے والی شلتوت اور قمی کی کوششوں کے تسلسل کے طور پر قائم ہوئی۔ یہ ایک ناقابل معافی تاریخی غلطی ہو گی اگر مشرق وسطی کے موجودہ واقعات خطے کو طوائف الملوکی کی جانب لے جائیں جیسا کہ اموی خلافت میں اندلس میں ہوا جس کے تمام مسلمان کمیونٹی کے لیے غمناک اور صدماتی نتائج برآمد ہوئے۔ اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ شیخ شلتوت اور آیت اللہ قمی کے سنی شیعہ تعلقات کی روح مصر، شام، عراق، لبنان اور تمام مسلمان دنیا میں نئے سرے سے زندہ ہوگی۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ ہمیں جلد ہی ایک مسلمان امن دیکھنے کو ملے گا جو آنے والی صدیوں تک قائم رہے گا۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *