پاک اسرائیل رابطے؟

خبر، قاری،سامع اور ناظرکی امانت ہوا کرتی ہے، لکھنے والے کا فرض ہے کہ وہ یہ امانت جتنی جلدی ممکن ہو حقدار تک پہنچائے،سویہ خبربھی میرے پاس امانت کے طور پر سنبھال کر رکھی ہوئی تھی، واقعہ پرانا ہو گیا۔
رمضان المبارک، پھرعیدالفطر، یوم آزادی ،آئے روز دہشت گردی، اردگرد تیزی سے پیش آتے واقعات، غرض، خبروں کی ایسی بھرمار کے امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پیش آنے والا یہ واقعہ آپ تک پہنچانے میں کوتاہی یاتا خیرہوتی رہی، ایک خیال یہ بھی تھا کہ واشنگٹن میں پاک اسرائیل تعلقات کے حوالے سے ایسی ٹریک ٹو پیش رفت ہو اورامریکہ بھر میں پھیلے ہوئے چند صحافیوں کو خبرہی نہ ہوئی ، یہ کیسے ممکن ہے ؟ پاکستان کے تمام ٹی وی چینلوں اور قومی اخبارات کے کل وقتی اور پارٹ ٹائم نمائندے بھی برسوں سے ان شہروں میں مقیم ہیں، جو ہمیشہ کپیٹل ہل، پنٹاگون اور ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ کی فائلوں سے ایک دوسرے سے بڑھ کر خبریں کھوج لاتے ہیں۔ کئی نامور صحافی تو ایسے ہیں جو حال مقیم تو امریکہ ہیں، لیکن پاکستان کے اندر کی خبریں دیارغیر میں بیٹھ کر نکالتے اور قاری تک پہنچاتے ہیں۔سو میرا خیال تھا کہ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا، پاک اسرائیل رابطوں اور قربتوں کی یہ خبر اہل پاکستان تک پہنچ ہی جائے گی، شاید ایسا ہوا بھی ہو، لیکن اخبارات کی فائلیں کھنگا لنے کے باوجود ایک آدھ سنگل کالم خبر سے زیادہ کوئی چیز میری نظر سے نہیں گزری، سو یہ خبراپنی تمام تفصیلات کے ساتھ آپ سب کی خدمت میں پیش ہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں، واشنگٹن میں ایک با اثر پاکستانی جوڑے کی جانب سے انٹرفیتھ افطار ڈنر کی اطلاع ملی، امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کے فیشن ایبل اوراین جی او زدہ احباب میں آج کل ایسی بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے منعقدہ تقاریب کا چلن عام ہے، ایسی تقریبات میں ثواب کے ساتھ تعلقات اور فنڈز وغیرہ بھی بونس کے طور پر مل جایا کرتے ہیں، لیکن اس تقریب میں ایک بہت ہی خاص بات تھی کہ اس افطارعشائیہ کے مہمان خصوصی امریکہ میں اسرائیل کے سفیر مائیکل اورین تھے ، اطلاع پر یقین نہ آیا، بہرحال معلومات اکٹھی کرنے میں کچھ دن ضرور لگے، بعض صحافی دوستوں سے رابطوں اور سماجی رابطوں کی ایک سائٹ کو کھنگالنے کے بعد جو تصویر بنی وہ کچھ یوں ہے۔پاکستان کے واشنگٹن میں مقیم سفیرعمومی رفعت محموداوران کی اہلیہ شائشہ محمود کی جانب سے ان کی محل نمارہائش گاہ پر افطارڈنر کا ہتمام کیا گیا، پاکستانی نژاد یہ امریکن جوڑا با اثر ترین پاکستانی امریکن میں سے ایک ہے، ڈالروں میں ارب پتی اور سرکار دربار ہر جگہ رسائی ہے۔ ماضی کے حکمران جناب آصف علی زرداری اور حاکم وقت میاں نواز شریف اوران کی جماعت کے لیڈروں سے گہرے مراسم ہیں، رفعت محمود کو پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں مشکوک کردارکے حامل پاکستانی سفیرحسین حقانی کی سفارش پر سفیرعمومی کے اعزازی عہدے پر فائزکیا گیا۔ لہذا اسرائیلی سفیرکی اس تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کو سرکاری یا (کم از کم) نیم سرکاری گردانا جا سکتا ہے، اس تقریب کی جوچند تفصیلات منظرعام پرآئی ہیں،اس کے مطابق ا س تقریب کی حیثیت اس لیے سرکاری سے بڑھ کرہے کہ اس میں نہ صرف سفارتخانہ پاکستان کے اعلی ترین عہدیدارموجودتھے،بلکہ سفارتخانہ میں تعینات پاک فوج کے نمائندے، ڈیفنس اتاشی کے عہدے پر فائز بریگیڈئر رینک کے حاضر سروس افسر بھی موجود تھے۔
چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ میزبان رفعت محمود تقریب میں موجود کیمرہ مینوں اور فوٹو گرافروں کو بار بار تاکید کرتے رہے کہ اسرائیلی سفیر مائیکل اورین اور بریگیڈئر صاحب کی ایک ساتھ تصویر ہر گز نہ بنائی جائے۔ کیپٹل پوسٹ ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق اس موقع پر مہمان خصوصی جناب مائیکل اورین نےنہ صرف حاضرین سے خطاب کیا، بلکہ کیپٹل پوسٹ کے نمائندے کے ساتھ خصوصی گفتگو بھی فرمائی۔ مہمان خصوصی کا خطاب اگرچہ سفارتی نوعیت کا تھا، تاہم پاک اسرائیل تعلقات کے حوالے سے اس کا ایک ایک لفظ معنی خیزہے، کیپٹل پوسٹ کیساتھ کی گئی گفتگو سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں، مطلب اخذ کرنا آپ کیلئے زیادہ مشکل نہ ہو گا۔
مائیکل اورین نے کہا کہ’پاکستان جنوبی ایشیاء کا با اثر ملک ہے، مغرب، عالم اسلام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے حوالے سے کلیدی حیثیت کا حامل ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ میں کامل اعتماد کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسرائیل کی جانب سے مسلم دنیا کے ساتھ اعتماد سازی کے لیے جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، پاکستان ان کی کامیابی میں اہم ترین کردارادا کر سکتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فلسطینی نمائندوں کیساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے جامع مذاکراتی پالیسی کا فریم ورک بہت جلد سامنے آنیوالا ہے، جس کے بعدمشرق وسطی میں قیام امن کیلئے بڑی پیش رفت ہو گی۔ مائیکل اورین کے مختصر خطاب میں پاک اسرائیل تعلقات کے حوالے سے چند جملے بہت معنی خیز ہیں۔ اسرائیلی سفیر نے کہا کہ ان کا ملک، ہمیشہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں ایک اعلی حیثیت دیتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ جلد از جلد سفاررتی تعلقات قائم ہوں۔ امید ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سرکاری سطح پر باقاعدہ تعلقات جلد قائم ہو جائیں گے۔
رفعت محمود کی تعیناتی پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کی گئی لیکن وہ ابھی تک اپنے اس اعزازی منصب پر قائم ہیں، اسرائیل کے سفیر نے پہلی مرتبہ، کسی سماجی تقریب کی آڑ میں ہی سہی، پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کیا ہے، جو یقینی طور پر ایک بڑی پیش رفت ہے۔ پاک اسرائیل تعلقات کا مستقبل کیا ہے؟ کیا پاکستان مسئلہ فلسطین کے کسی نتیجہ خیز حل کے بغیر ہی اپنی سفارتی تاریخ کا ایک اور’’یو ٹرن‘‘ لینے والا ہے۔ ان سوالوں کا جواب یقینی طور پر حکومت وقت اور اس کے سفارتی حکمت کاروں کو معلوم ہو گا، لیکن واشنگٹن میں ہونے والی ایسی پس پردہ سرگرمیاںبتاتی ہیں کہ بہت کچھ بدل چکا ہے اور بہت کچھ بدلنے والا ہے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *