قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھنے پروعید

۱۔عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا:’’لیس منا من لم یتغن بالقرآن ‘‘رواہ البخاری ومسلم وابن عساکر والخطیب وابو نصر فی الابانۃ والطبرانی والحاکم
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وہ ہم میں سے نہیں جس نے قرآن خوش الحانی کے ساتھ نہ پڑھا۔‘‘ بخاری، مسلم، طبرانی، حاکم
خلاصہ :یعنی جس شخص نے خشوع و خضوع، خوش آوازی اور ترتیل کے ساتھ قرآن کی تلاوت نہ کی اس نے اپنے آپ کو ہم سے الگ کر لیا۔ اس نے اس نعمت خاص سے اپنے کو محروم رکھا جس سے ہمارے پیرو نوازے گئے ہیں۔ اوریہ نعمت کسی قوم کوحاصل نہیں ہے۔ قرآن میں جو نغمگی اور صوتی آہنگ اور دلوں کو مسحور کرلینے والی قوت پائی جاتی ہے اس سے اپنے ذوق کو تسکین کا سامان نہ فراہم کرنا ذوق جمال کو مجروح کرنا ہے۔ قرآن کا بدل دنیا کا کوئی نغمہ نہیں ہو سکتا۔ قرآن کو چھوڑ کر دنیا کی کسی موسیقی کے ذریعہ سے ہمارے نفس کا وہ تزکیہ ممکن نہیں جو دین میں مطلوب و مقصود ہے۔ قرآ ن میں جو غنائیت پائی جاتی ہے وہ انسان کو دنیا کی ان بہت سی چیزوں سے مستغنی اور بے نیازکر دیتی ہے جن کے پیچھے لوگ اپنی جانیں دیتے پھرتے ہیں۔ قرات کی شیرینی اور حسن و لطافت کی ایک خاص وجہ خشیت الٰہی کی کیفیت ہے۔ خشیت سے آواز میں ایک خاص قسم کی رقت اور لرزش پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے آواز نہایت دل آویز اور شیریں ہو جاتی ہے۔ روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون شخص زیادہ خوش آواز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’من سمعتہ یقرأ اریت انہ یخش اللہ‘‘(دارمی)’’وہ شخص جس کو جب تو پڑھتا ہو اسنے تو تجھے محسوس ہو کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے۔‘‘
۲۔وعن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :’’لیس منا من لم یتغن بالقرآن‘‘ رواہ البخاري ومسلم والحاکم وابن حبان وعبد الرزاق واحمد بن حنبل وعبد بن حمید والعبد بن حمید الداری وابو عوانۃ والطبرانی
حضرت ابو سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے خوش الحانی کے ساتھ قرآن نہ پڑھا ۔‘‘بخاری، مسلم، طبرانی
۳۔وعن انس وابي لبابۃ وابن عباس وعبد اللہ بن الزبیر وعائشۃ رضی اللہ عنہم عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال :’’لیس منا من لم یتغن بالقرآن‘‘ رواہ البغوي والطبرانی وابو نصر والحاکم والبخاری والمسلم وابن قانع ورواہ الخطیب فی المتفق والمفترق
حضرت انس، حضرت ابولبابہ، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے۔‘‘ بخاری، مسلم ، طبرانی
۴۔وعن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :یقول ہذا القرآن نزل بحزن فاذا قرأتموہ فابکوا فان لم تبکوا فتباکوا وتغنوا بہ فمن لم یتغن بالقرآن فلیس منا‘‘ رواہ ابن ماجہ
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’یہ قرآن حزن و غم کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ پس جب اسے پڑھو تو روؤ۔ اگرر ونا نہ آئے تو بہ تکلف روؤ اور اسے خوش الحانی کے ساتھ پڑھو۔ جس کسی نے قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ابن ماجہ
یہ حدیث بتاتی ہے کہ قرآن کا نزول ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ قرآن اس لیے نہیں نازل ہوا ہے کہ ہمیں بے پروا بنا دے بلکہ وہ تو ہمیں ایک خاص درد و غم بخشتا ہے جو بہترین متاع حیات ہے۔ جس کی موجودگی کا پتا زاری اور ہمارے آنسوؤں سے چلتا ہے۔ گریہ کے بغیر دل سے غفلت بھی دور نہیں ہوتی۔ پھر اعلیٰ حقیقتیں وہی ہیں جو دلوں میں درد پیدا کرتی ہیں اور آدمی کو گہرا شعور بخشتی ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ گہری خوشی اورمسرت کا پتا بھی ہمارے آنسو ہی دیتے ہیں۔ حزن و غم دل کیلیے حیات بخش شے ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے:’’زیادہ نہ ہنسو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔‘‘(احمد، ترمذی)
قرآن انسان کو اس کی نازک پوزیشن سے آگاہ کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ انسان کے لیے دو میں سے ایک انجام مقدر ہو چکا ہے۔ یا تو آنے والی زندگی اس کے لیے خوب و خوش تر اور راحت بخش ہوگی یا پھر وہ ہولناک انجام سے دوچار ہوگا۔ یہ نازک صورت حال اس بات کے لیے کافی ہے کہ انسان سراپا اضطراب و حزن ہو کر رہے۔
۵۔ وعن ابن ابی ملیکۃ قال عبید اللہ بن ابی یزید مر بنا ابو لبابۃ فاتبعناہ حتی دخل بیتہ فدخلنا علیہ فاذا رجل رث الہیئۃ یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لیس منا من لم یتغن بالقرآن قال فقلت لابن ابی ملیکۃ یا ابا محمد ارأیت ان لم یکن حسن الصوت قال یحسنہ ما استطاع‘‘رواہ ابو داؤد
حضرت ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ عبید اللہ بن یزید کہتے ہیں کہ ابو لبابہ کا ہماری طرف سے گزر ہوا تو ہم ا نکے ساتھ ہو لیے یہاں تک کہ وہ اپنے مکان میں داخل ہو گئے۔ پھر ہم ان کے یہاں داخل ہو گئے۔ وہاں دیکھا کہ ایک خستہ حال شخص کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ نہ پڑھے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے عرض کیا کہ اے ابو محمد آپ کا کیاخیال ہے اگر وہ خوش آواز نہ ہو؟ انہوں نے کہا کہ جہاں تک اس سے ہو سکے اپنی آواز کو اچھی بنا کر پڑھے۔ ‘‘ابو داؤد
یعنی اگر اسے اچھی آواز نہیں ملی ہے پھر بھی جہاں تک ممکن ہو اچھی آواز سے تلاوت کرنے کی کوشش کرے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *