ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ان کی ایمانی قوت کے سبب پوری دنیا کے لیے ناقابل تسخیر قوت دی ہے، قومیں اور جماعتیں فنا ہو سکتی ہیں لیکن مسلمانوں کے وجود کو قیامت تک فنا نہیں کیا جا سکتا۔ اس اٹل حقیقت کے بعد اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تانے بانے بنے جا رہے ہیں، عالمی سطح پر ان کو کمزور سمجھا جا رہا ہے، ان کا رعب و دبدبہ جو وراثت میں ملا تھی مفقود ہو گیا اور ان کی شان و شوکت کے واقعات قصۂ پارینہ بن گئے۔ اس میں جہاں یہودی اور صہیونی سازشوں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور دشمنان اسلام کی کوششوں نے اس کے لیے راستے ہموار کیے ہیں، وہیں مسلمانوں کے مسلکی، گروہی اختلاف ونزاع اور باہمی نفاق کا بڑا دخل ہے۔ اس نے مسلمانوں کی قوت کو منتشر کر دیا اور ان کی ناقابل تسخیر طاقت کو کمزور کرکے رکھ دیا۔اسلام کے بدخواہ افراد اور حکومتوں کو مسلمانوں کی اس کمزوری کا اچھی طرح احساس ہے جس سے حوصلہ پا کر اب وہ مسلمانوں کے وجود کو ہی دنیا سے مٹانے پر تلے ہوئے ہیں، ان کے خلاف ہرزہ سرائی اور شب و روز سازشیں ہو رہی ہیں اور مختلف نوعیتوں سے ان کے وقار کو عالمی سطح پر مجروح کیا جا رہا ہے۔
آج تقریبا ًساری دنیا میں مسلکی اختلاف و انتشار پایا جا رہا ہے اور ہر آئے دن اس میں اضافہ ہونے کے ساتھ شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ شاید ہی کوئی ملک یا کوئی خطہ ایسا موجود ہو جہاں مسلکی اور فروعی اختلاف نے مسلمانوں کو منتشر اور آپس میں رنجش وعداوت کا ماحول پیدا نہ کیا ہو۔ اب ان مسالک کے درمیان اس طرح اتحاد کہ سارے جزوی اور فروعی اختلاف کو بھلا کر سب ایک ہی طریقے پر چلنے لگیں، اس کی کوشش اور امید فضول ہے اور یہ شریعت میں مقصود بھی نہیں ہے۔ ہاں تمام جماعتوں کو نہایت ہی فراخ دلی سے یہ اجازت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے مسلک اور طریقے پر عمل کرتے رہیں جس کو وہ حق سمجھتے ہیں اور جس کی صداقت پر ان کو یقین ہے، البتہ ان جزوی اور فروعی اختلاف کے باوجود آپس میں متحد رہیں اور سارے مسلمان باطل طاقتوں کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔ باہمی غیظ و غضب، نفرت و عداوت اور اختلاف ورنجش کی راہ کو فراموش کرکے محبت و ہمدردی اور اخوت و بھائی چارگی کا ماحول سازگار کیا جائے،یہ ممکن ہے او ریہی شریعت میں مقصود و مطلوب بھی ہے، اسی کے لیے آج تمام قائدین کو کوشش کرنی چاہیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہزاروں جزوی اور فروعی مسائل میں اختلاف کے باوجود اصولی اعتبار سے تمام جماعتیں متحد ہیں۔ سب کا معبود اور رسول ایک ہے؛ سب ایک ہی قبلے کے طرف نماز پڑھتے ہیں؛ قرآن سب کے لیے محترم اور ذریعہ نجات ہے اور اس طرح نہ جانے ڈھونڈنے سے کتنے نقاط اتحاد آپ کو مل جائیں گے، ان ہی نقاط اتحاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے سارے مسلمانوں کو ایک دھاگے میں پروئے جانے کی ضرورت ہے۔ اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان بہت سے اصولی اختلاف ہونے کے باوجود ایک نقطہ پر جمع ہونے کی ان کو دعوت دی گئی، ارشاد باری ہے:
یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ (آل عمران:۶۴)
’اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنالے۔‘
سارے مسلمان جزوی اور فروعی اختلاف کے باوجود ایک ہی امت کے افراد ہیں، اس کی مثال ایسی ہے جس طرح ایک گھر کے افراد مزاج، طبیعت، پیشہ اور عادتوں کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں اس کے باوجود وہ ایک گھر کے افراد ہوتے ہیں، ان میں اتحاد و یکجہتی ہوتی ہے، کسی بھی مصیبت کو وہ سب مل کر دور کرتے ہیں، ایک کی خوشی سب کی خوشی اور ایک کا غم سبھوں کا غم سمجھا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اس امت مسلمہ کے افراد کا حال ہے۔غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور اجتہاد کا رخ مختلف واقع ہو سکتا ہے، اس لیے جن لوگوں کا جس اجتہاد پر بھی عمل جاری ہے، وہ حق پر ہیں، یہ سب ایک ہی گھر کے افراد ہیں اور سب کا مالک اور خالق اللہ کی ذات ہے، سارے اختلاف کا حاصل اسی ایک خدا کی مرضی کی رسائی ہے اور وہ حاصل ہے۔ لہٰذا کسی طرح بھی یہ جائز نہیں کہ ان باتوں کو مسلمانوں کے درمیان تفریق و انتشار کا سبب بنایا جائے۔ اللہ تعالی نے اعلان کیا ہے: ان ہذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون (الابنیاء:۹۲)’یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری عبادت کرو۔‘ مفسرین کی وضاحت کے مطابق یہاں تمام انبیائے کرام کا دین مراد ہے’ کہ اگرچہ ادیان سابقہ میں آپس میں جزوی اور فروعی اختلاف رہا ہے لیکن اصول میں سب متحد تھے جو ایک کی تعلیم ہے وہی دوسروں کی ہے اور اصول کا ہی دراصل اعتبار ہے فروع کا اختلاف مذموم نہیں۔ اس لیے سب ادیان ایک ہی جیسے ہیں، سب کو مل کر ایک اللہ کی عبادت کرنی چاہیے اور اس کی رسی مضبوطی سے تھام لینی چاہیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جزوی اور فروعی اختلاف کے بارے میں قیامت کے دن بھی کوئی حساب و کتاب نہیں ہوگا کہ کون صحیح اور کون غلط ہے۔ وہاں توحید، رسالت، آخرت اور دوسرے اصول دین کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور اسی پر نجات و ہلاکت کا مدار ہوگا۔ مگر اجتہاد کے نتیجے میں پیدا شدہ اختلافات سے متعلق کوئی سوال ہوگا اور نہ ان پر نجات کی بنیاد ہوگی۔ معروف مفسر قرآن حضرت مولانا ومفتی محمد شفیع صاحب کا بیان ہے کہ علامہ شاہ کشمیری کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں ہر سال قادیان میں قادیانیت کے خلاف مسلمانوں کا ایک جلسہ ہونے لگا تھا۔ ایک مرتبہ ہم حضرت کے ساتھ اس جلسے میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے، ایک روز میں نے نماز فجر کے بعد حضرت کو دیکھا کہ مغموم بیٹھے ہیں۔ احقر نے مزاج دریافت کیا تو فرمایا کہ طبیعت تو ٹھیک ہے لیکن آج کل ہر وقت دل و دماغ پر یہ فکر مسلط ہے کہ ہم لوگ اپنے دروس اور تقریر وتحریر میں حنفیت کی ترجیح پر زور دینے میں لگے رہے اور قادیانیت، الحادو بے دینی کے یہ فتنے کہاں سے کہاں پہنچ گئے، حالانکہ حنفیت اور شافعیت کا یہ اختلاف تو زیادہ سے زیادہ راجح اور مرجوح کا اختلاف ہے جس کا فیصلہ حشر میں بھی نہیں ہوگا اور ان فتنوں سے دین و ایمان پر ضرب لگ رہی ہے اس بنا پر مغموم بیٹھا ہوں۔
(چند عظیم شخصیات:۳۶)
یہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کی نیک مزاجی اور خشیت الٰہی کی واضح دلیل ہے کہ انہوں نے حق بات کا اظہار کیا اور جو صحیح بات تھی اس کا اعلان فرما کر تمام لوگوں کو پیغام دیا کہ علم اور جانکاری کی حد تک اختلاف اور دلائل کا ذکر تو درست ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان فروعیات وجزئیات کو اس طرح بیان کرنا کہ دوسرے کی حقارت وتوہین ہونے لگے اور اس کے لیے ایسا اسلوب اختیار کرنا جس سے عدات ونفرت کی بو آنے لگے ہرگز جائز نہیں۔ تمام مکاتب فکر اصول دین میں متحد ہونے کے ساتھ اپنے اپنے نظریات پر عمل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس حق سے محروم رکھنا یا اس کی بنیاد پر نزاع کا ماحول پیدا کرنا شریعت کی نظر میں جرم عظیم ہے۔ ہمارے کام اور محنت کا اصل میدان دعوت و تبلیغ اور اخلاق وانسانیت کو فروغ دینا ہے، اسلام کی تعلیمات امت کے ایک ایک فرد تک پہنچا کر الحاد و دہریت سے دنیا کو پاک کرنا اور اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنا، منظم طور پر کچھ ایسی کوششیں کی جائیں کہ بے حیائی، برائی اور شیطانی روش سے مسلمان محفوظ رہیں اور ایمان صحیح سالم رہے تاکہ وہ آخرت کی طرف جائیں تو ایمان کی عظیم ترین دولت کے ساتھ جائیں اور اخروی نجات حاصل ہو۔ یہی نبوی تڑپ اور نبوی مشن ہے اور اسی کا اس امت کو حکم دیا گیا ہے۔
موجود ہ دور میں الحاد ودہریت اور باطل قوتوں کی سازش مختلف نوعیتوں سے جس تیزی سے جاری ہے شاید تاریخ میں کبھی اس طرح کا اسلام کو سامنا ہوا ہو۔اس لیے آج تعلیمات اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے پر محنت کی سخت ضرورت ہے لیکن اس پر محنت کے بجائے مسلکی اور فروعی اختلافات کی کشمکش میں لوگ گرفتار ہیں۔ ہر جماعت اور مسلک کے افراد اپنے ہی مسلک کو حق اور قابل نجات سمجھتے ہیں اور اس کی لوگوں میں تبلیغ کرنے میں مصروف ہیں، ان کے جارحانہ انداز واسلوب سے محسوس ہوتا ہے کہ یہی جزئیات اور فروعی اختلاف مدار نجات ہے، اس اختلاف میں شدت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایک دوسرے کا وجود ہی ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کو گمراہ، جہنمی اور اسلام سے خارج تک کر دیا جاتا ہے اور پیشانی پر کوئی بل نہیں آتا حالانکہ شریعت نے کسی کو اسلام سے خارج قراردینے میں اس قدر احتیاط کا حکم دیا ہے کہ اگر کسی کی زبان سے کلمۂ کفر بھی صادر ہو جائے تو بھی اس اس کو کافر نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اس سے واضح طور پر اس کی مراد نہ پوچھ لی جائے اور تاویل کی کوئی راہ باقی نہ رہے۔ امام شافعیؒ اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے اخیر میں لکھتے ہیں:
اگر کسی کی عبارت یا الفاظ سے کفر کا اظہار ہو رہا ہو تو بھی اس کو اس وقت تک کافر نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اس سے اس بات کی تصدیق نہ کر لی جائے کہ کیا اس کی اس عبارت اور الفاظ کا منشا ومراد وہی ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں۔ (ایثار الحق علی الخلق، ص۳۹۲)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف ارشادات کے ذریعہ اہل ایمان کی تکفیر سے نہایت سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اور بات بات پر تکفیر کرنے والوں کی شدید مذمت فرمائی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ مرفوعاً روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اگر کسی شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو ’اے کافر‘ کہا تو ان دونوں میں سے کوئی ایک کافر ہوا، جس کو کافر کہا اگر وہ کافر نہیں ہے تو کافر کہنے والے نے کفر کا ارتکاب کیا۔ (صحیح بخاری ومسلم)
ایک موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے کسی مسلمان کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا اور وہ ایسا نہیں ہے تو اس کا کہنے والا خود کافر اور اللہ کا دشمن ہو جائے گا۔ (صحیح بخاری)
ذخیرۂ احادیث پر نظر ڈالئے ایک ہی عمل کے بارے میں مختلف روایتیں آپ کو ملیں گی۔صحابہ کرام میں اسی کے سبب اختلاف پیدا ہوا اور یہ اختلاف بعد تک منتقل ہوا لیکن وہ اپنے اختلاف میں مخلص تھے۔ نہ تو صحابہ کرام نے ایک دوسرے کو غلط کہا اور اس کے سبب کسی کو سب و شتم کیا اور نہ محدثین اور حضرات فقہا نے کسی کو برا بھلا کہا، تمام اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے اور اپنے دلوں میں محبت اور اخوت کا صحیح جذبہ رکھتے تھے۔ ارباب نظر و فکر نے لکھا ہے کہ ان فروعی اختلاف کے پس پردہ اللہ تعالی دراصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تمام افعال و اعمال کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے جو آپؐ سے کسی بھی وقت صادر ہوئے ہیں۔ جو یقینا آپ کا غیر معمولی اعزاز ہے اور اس میں اس امت پر توسع بھی ہے لیکن ان صحابہ کرام اور سلف سے محبت کا دعوی کرنے والے مسلمان آج باہم منقسم ہو گئے، یہاں تک کہ ان کی مسجدیں، مدارس، ادارے، کتابیں، بستیاں اور محلے بھی الگ الگ ہو گئے۔ رفع یدین، آمین بالجہر، درود وسلام اور اقامت کے وقت بیٹھنے اور کھڑے ہونے کے فروعی تنازع اور اختلاف کی وجہ سے باہمی تمسخر، طعنہ، برے القاب اور ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت وآبرو کا جس طرح کھلواڑ کیا جاتاہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور پھر بھی وہ سمجھتے ہیں کہ دین کے ہم سچے داعی اور سچے رہبر ورہنما ہیں۔ انہیں ایک سکنڈ کے لیے بھی اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کی اس باہمی عداوت اور مسلکی رنجش وتنفر نے انکی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے اور اب وہ اس قابل نہیں رہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔ اہل ایمان کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑ کر اپنی قوت ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے، ان کے سامنے وسیع مقاصد اور وسیع ظرف ہونا چاہیے اور وہ اپنے وجود کو باقی رکھیں تو دنیا کی ہدایت اور عالم انسانیت کے خیر وفلاح کے لیے اپنے قلب میں ساری انسانیت کی تڑپ رکھیں اور ہر کلمہ گو مسلمان کو اپنا بھائی تصور کریں خواہ کسی بھی مسلک اور فکر و نظر سے وابستہ ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک اور جامع ارشاد پیش نظر رہے:
من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فہو مسلم لہ ذمۃ اللہ ورسولہ (مشکوۃ)
’جو ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کا رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے وہ مسلم ہے، اللہ و رسول نے اس کا ذمہ لے لیا ہے۔‘
آپ حدیث کے الفاظ پر غور کریں کس طرح سارے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونے کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش فرمائی ہے اور لوگوں کو جزوی اور فروعی نظریات سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک ساتھ متحد رہنے کی ہدایت دی ہے۔مسلمان بننے کے لیے جن اصولوں پر عمل ضروری ہے جب وہ پایا جائے تو اللہ کے نزدیک وہ قابل احترام بن جاتا ہے، اس کی عزوت وآبرو واجب الاحترام ہے، کسی کے لیے اب جائز نہیں کہ ذیلی اور فروعی باتوں کو لے کر جنگ وجدال اور قتل وقتال کی محفل سجائی جائے یا کسی کی عزت و آبرو کو داغدار کیاجائے۔
زمین پر عدل و انصاف کے قیام اور نفاذ شریعت کی کوشش ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب سارے مسلمان آپس میں متحد رہیں اس لیے قرآن واحادیث میں اتحادی قوت بنائے رکھنے پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ کہیں ان کو ایک جسم کے مختلف اعضا سے تعبیر کیا گیا ہے اور کہیں ایک دیوار کی مختلف اینٹ کی قوت سے کہ جس طرح ایک دیوار کی اینٹ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو دیوار گر پڑتی ہے اسی طرح اہل ایمان میں باہمی اتحاد اور قوت ہونی چاہیے ورنہ ان کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ گروہی ومسلکی، خاندانی و قبائلی اختلاف کی بات کرنا جاہلیت کا طریقہ ہے جسے اسلام نے سخت ناپسند فرمایا ہے اور اس سے باز رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کیونکہ اس سے آپسی قوت کمزور پڑ جاتی ہے اور دشمنان اسلام کے لیے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ کوئی ایسا کام ہرگز نہ کیاجائے جس سے باطل قوتوں کا حوصلہ بڑھے اور غیر شعوری طور پر اس کا تعاون ہو۔ عہد نبوت میں ایک مسلمان کے شراب پینے پر کسی نے اسے رسوا اور ذلیل ہونے کی بددعا دی، آپؐ نے ارشاد فرمایا:
لا تقولوا ہکذا لاتعینوا علیہ الشیطان ولکن قولوا:
اللہم اغفر لہ اللہم ارحمہ
یعنی اس طرح کے جملے کہہ کر شیطان کی مدد نہ کرو بلکہ اس کے لیے مغفرت اور خیر کی دعا مانگو۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں اس طرح کا نفاق اور مسلکی نفرت و عداوت جس سے یورپ اور اسلام کے بدخواہ لوگوں کی مشن کی تکمیل ہو کس قدر شرمناک بات ہے، یہ دشمن تو چاہتے ہی ہیں کہ مسلمانوں کی طاقت یکجا نہ ہو سکے اور وہ ہمیشہ ٹکڑیوں میں بنٹے رہیں تاکہ شعائر اسلام کا تحفظ نہ ہوسکے اور زمین پر اسلام کی بالادستی نہ ہو۔ ملت کا اتحاد آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اس کے لیے جیسا بھی ہو آپسی اختلاف بھلا کر شیر وشکر بن جائیں اور اپنے جذبات اور ذاتی مفاد کو قربان کرکے خوشیوں اور محبتوں کو بانٹنے کا کام کریں، یہی وہ ایک راستہ ہے جس سے سارے مسلمانوں کی عزت وآبرو محفوظ رہے گی اور ایمان بھی سلامت رہے گا۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *