تحفظ عقیدۂ ختم نبوت اور امت مسلمہ

کسی بھی مذہب کی شناخت کیلئے اس مذہب کے بانی کی راہنمائی، اس مذہب کی سب سے بڑی شناخت ہے۔ اس بنا پر ہر مذہب کے پیرو کار ان تعلیمات کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو اس مذہب کے بانی کی طرف سے براہ راست دی جاتی ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں انکے مذہب کی تعلیمات ملے گی۔
یہی وجہ ہے کہ یہودی اپنی تعلیمات کو حضرت موسٰی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اگر آج ان مذہب والوں سے کہے کہ آپ کی تعلیمات حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہیں تو فوری طور پریہ عذر پیش کردیتے ہیں کہ ہمارے مذہب کا ان سے کیا واسطہ ہمارے لیے تو حق اور صحیح بات وہ ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام یا حضرت عیسی علیہ السلام سے ملے اور ساری دنیا یہ عذر قبول کرتی ہے۔
اگرچہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام سے جو تعلیمات منسوب ہیں وہ ہزاروں واسطوں سے منسوب ہونے کی بناء پر حقانیت کے ترازو پر پورا نہیں اترتیں اور مختلف فرقوں میں بٹے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کیلئے قابل قبول نہیں ہیں۔
اس اصول اور ضابطے کے مطابق پوری دنیا کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا چائیے۔ کہ اس کی حقیقت اور سچائی کو پرکھنے کے لئے اسلام کے بانی وشارح نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا چاہیئے مگر بد قسمتی سے جس طرح دیگر تمام معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کے تعین اور تشخص کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو امریکہ اور مسلم ممالک نے اس کو امتیازی قانون قرار دیتے ہوئے اس کو واپس لینے کا مطالبہ کیا کہ جب قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں تو ان کو مسلمان کہنے کیوں نہیں دیا جاتا۔
جب کہ ان کے کفر یہ عقائد کی وجہ سے مسلم ممالک کے 140 مذہبی اسکالروں اور علمائے کرام نے دلائل کی روشنی میں ان کو کافر قرار دیا تھا کوئی ان سے پوچھے کہ مسلمان کی تعریف خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات سے ملیں گی یا مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کے چارٹر سے ؟ تو اس کا کوئی جواب نہیں ہے –
تعصب کی آنکھ سے مسلمان کے معاملات کو دیکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ اپنے مفادات کی روشنی میں کیا جاتا ہے کہ وہ اقوام متحد ہ کے قانون کے مطابق اپنے لوگوں کو حقوق دیں۔
بدھ مت کے پیروکاروں کو مجبور نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کو اقوام متحد کے منشور کے مطابق ڈھالیں۔
جاپان میں خود کشی کو مذہبی رسوم کے تحت ادا کرنے والوں کو مغرب کا کوئی قانون یا اقوام متحد کا چارٹر روکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ مگر مسلمان پر پابندی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تشریح اقوام متحد ہ کے مطابق کریں ورنہ افغانستان حکومت کی طرح ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔۔۔ امداد روک لی جائے گی یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی امداد کو قادینوں سے متعلق قوانین کو ختم کرنے سے اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قانون کو تبدیل کرنے سے مشروط کیا۔ مندرجہ ذیل بالااصول کی روشنی میں جب ہم قادینوںکے عقائد پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ قرآن کریم کی دوسوآیات، نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چار سو احادیث اور چودہ سو سالہ اجتماعات اور عقلی دلائل کے اعتبار سے دائرۂ اسلام سے خارج اور ایک الگ ملت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس سلسلے میں تفصیلات کیلئے محدث العصر علامہ انور شاہ کشمیری کی کتاب”خاتم النبین،، مفتی محمد شفیع کی کتاب”ختم نبوت کامل”اور شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب”عقیدہ ختم نبوت‘ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اس وقت دنیا جس دستورکے مطابق اپنا نظام چلا رہی ہے اور اقوام متحدہ کا جو منشور ہے اس کے مطابق کسی چیز کے تعین یا فیصلے کے تین طریقہ کار ہیں۔
1) عدالت 2) عوامی رائے 3) اسمبلی
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے سلسلے میں ہم سب سے پہلے عدلیہ کے فیصلوں کو ملاحظہ کرتے ہیں، اس سلسلے میں سب سے پہلا مقدمہ ماریشس کی عدالت میں اس وقت دائر کیا گیا جب قادیانیوں نے ”روز ہل” مسجد پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روک دیا۔ اس آبادی میں12 قادیانی جب کہ 500مسلمان آباد تھے۔مسلمانوں نے26 فروری 1919ء کو سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ کئی سال مقدمہ چلتا رہا۔21شہادتیں پیش کی گئیں۔ دوسرے ممالک سے فریقین نے مشہور وکلاء بلائے مقدمہ میں دعویٰ کیا گیا کہ: روز ہل کی مسجد جہاں مسلمان لوگ نماز پڑھتے تھے، یہ مسجد انہوں نے تعمیر کی تھی اور مسلسل قابض چلے آ رہے تھے، اس پر قادیانیوں نے قبضہ کر لیا، جن کا تعلق امت اسلامیہ سے نہیں ہے۔
قادیانی ہم مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے، ہمارے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی، ایسی صورت میں ان کو مسجد سے نکال دیا جائے۔ تفصیلی بحث کے بعد19 نومبر 1927ء کو چیف جج سرائے ہر چیز ووڈ نے یہ فیصلہ سنایا۔
عدالت عالیہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ مدعہ علیہ(قادیانی) کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ”روز ہل‘مسجد میں اپنی پسند کے امام کے پیچھے نماز ادا کریں، اس مسجد میں صرف مدعی (مسلمان) نماز ادا کر سکیں گے۔ اس عدالت کے ایک دوسرے جج ٹی اے روز نے بھی اس فیصلے سے اتفاق کیا۔
برصغیر میں قادیانی کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے سلسلے میں پہلا مقدمہ1925ء میں ڈسٹرکٹ جج بہاول نگر ریاست بہاولپور میں غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش کا تنسیخ نکاح کے سلسلے میں دائر ہوا، جو عبدالرازاق قادیانی کے ساتھ لاعلمی میں ہو گیا تھا۔
ابتدائی فیصلے کے بعد 1932ء میں یہ مقدمہ دوبارہ دائر کیا گیا، اس مقدمہ میں مولانا انور شاہ کشمیری شدید علالت اور ضعف کے باوجود آئے اور عدالت میں اپنا بیان دیا۔
7 فروری1935ء کو عدالت نے تاریخی فیصلہ دیا” چونکہ مدعا علیہ مرتد ہو چکا ہے، اس لئے ارتداد کی وجہ سے نکاح منسوخ ہو گیا‘۔
قیام پاکستان کے بعد مختلف عدالتوں کی جانب سے ابتداء ہی سے اس قسم کے مقدمات میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، بعد ازاں بلوچستان ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، سرحد ہائی کورٹ، سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کی طرف سے بھی قادیانیوں کو دلائل کی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
اسی طرح افریقہ کی کورٹ کی جانب سے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کی اپیل خارج کی گئی۔ یہ تو موجودہ دورکے مروجہ طریقے میں عدلیہ کے جائزے کا مختصر سا فیصلہ تھا۔
عوامی رائے کے مطابق دنیا بھر کے ایک عرب سے زائد مسلمانوں کی متفقہ آراء اور دنیا بھر کے تمام دینی اداروں کی جانب سے متفقہ فتاویٰ کے مطابق قادیانی غیر مسلم اقلیت میں داخل ہیں۔
مکہ مکرمہ میں ربیع الاول1974ء میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت ایک کانفرنس ہوئی جس میں مسلم و غیر مسلم ممالک کی 144 مسلم تنظیموں کے اسکالرز اور علماءِ کرام شریک ہوئے۔ جس میں قادیانی عقائد کو واضح کرکے مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے ساتھ غیر مسلموں والا معاملہ کرتے ہوئے، ان کی سرگرمیوں سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے اقدامات کریں۔ گویا دنیا بھر کی عوامی رائے کی روشنی میں قادیانیوں کے ساتھ غیر مسلموں والا معاملہ ہونا چاہئے۔
مروجہ طریقوں میں تیسرا طریقہ قومی اسمبلی کے ذریعہ فیصلہ کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔ بعد ازاں قومی اسمبلی نے 7 ستمبر1974ء کو متفقہ طور پر آئینی بل کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیکر پوری دنیا کے سامنے مسئلہ کو واضح کر دیا۔ اب ان تینوں مروجہ طریقوں سے قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کے بعد نہ قادیانیوں کیلئے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کریں اور نہ ہی غیر مسلم ممالک کے این جی اوز کے نمائندوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کریں۔(افسوس کہ ہمارے ملک ہندوستان میں پوری دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے قادیانی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور حکومتِ ہند بھی مذہب کے زمرے میں ان کو مسلمان ہی شمار کرتی ہے۔ اسی بنا پر کئی قادیانی دھوکہ دے کر حج بیت اللہ کو جاتے اور یہودی سازشوں کے آلۂ کار بن کر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہونچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علماء اور قائدین کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور ایک تحریک چلاکر ہندوستان میں بھی انہیں قانوناً غیر مسلم قرار دینے کا بل پاس کرانا چاہیے۔)
پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام کی ذات پر کیچڑ اچھالی ہے۔ اگر کوئی عیسائی یا یہودی اپنے مذہب پر صحیح معنوں میں عقیدہ کھتا ہو تو وہ کسی صورت میں قادیانیوں کی حمایت کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ یہ تو مسلمان ہی ہیں کہ اپنے پیغمبر کے تقدس کے ساتھ دیگر انبیائے کرام علیہ السلام کے تقدس اور اس عظمت کے تحفظ کے لئے سر گرم ہیں۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *