عصمت مسلم احادیث رسول ﷺکی روشنی میں

رسول اللہ ﷺ کو جس وقت منجانب اللہ نبوت و رسالت سے سرفراز کیا گیا، عالم انسانیت مختلف گروہوں،جماعتوں ،قبیلوں اور خاندانوں میں بٹی ہوئی تھی۔خصوصاً عرب دنیا کی حالت سب سے زیادہ افتراق وانتشار کا شکار تھی۔ایک عربی کی محبت،انسیت،تعلق ِوفاداری،آپسی اکرام، الغرض اس کے تمام معاملات محض قبیلہ اور خاندان کی عصبیت میں مستغرق تھے۔اس قدر منتشر انسانیت کو ایک جگہ اور ایک عَلم کے نیچے جمع کرناکسی انسان کے بس کی بات نہ تھی۔انسانیت کے اس انتشار نے اسے اشرف المخلوقات کے درجہ سے گرا دیا تھا۔چنانچہ اس صورت حال کی تبدیلی کے لیے اللہ نے اپنے آخری نبی محمد مصطفیٰﷺکو مبعوث فرمایا ۔چنانچہ رسول پاک ﷺ کی نبوت کا یہ خاصہ ہے کہ اس قدر منتشر انسانیت کو آپ ﷺ نے ایک کلمہ اور ایک نصب العین کے تحت جمع کردیا کہ وہ آپس میں شِیر وشکر ہوگئے۔
وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ اِخْوَانًا
(آل عمران:۱۰۳)
’’اور تم خود پر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کے احسان سے بھائی بھائی بن گئے ۔‘‘
پھر یہ جمائو اور اتحاد و اتفاق تاریخ انسانی کا لا زوال باب بن گیا۔تاریخ انسانی کی اس عظیم شخصیتﷺ نے نہ صرف اپنی امت کی اجتماعیت کی جانب خصوصی توجہ دی بلکہ اسی اتحاد و اتفاق کی بقا کے لیے عملی و علمی کامیاب کوشش بھی کیں۔چنانچہ علم حدیث کا طالب علم دیکھتا ہے کہ ذخیرئہ احادیث میں مومنین کے صرف صفات و کمالات کا ہی ذکر نہیں ہے بلکہ اتحاد بین المسلمین کوآپ ﷺ نے ایمان،دخول جنت ،آگ سے بچائو اور آخری زمانے میں امت کے بکھرائو کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ قرار دیا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں اس باب میں محمد رسول اللہ ﷺ نے ہماری کیا رہنمائی فرمائی ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ سے مسلمانوں کے حقوق کو اس طرح واضح کیا:
قَالَ فَأِنَّ دِمَاءَکُمْ وَ اَمْوَالکُمْ وَ اَعْرَاضکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِی بَلَدِکُمْ فِی شَھْرِ کُمْ ھٰذَا وَ مُتَلَّقُوْنَ رَبَّکُمْ فَیَسْئَلُکُمْ عَنْ اَعْمَالِکُمْ اَلاَ فَلاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِی ضَلاَلاً یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَاب بَعْضٍ
(حجۃ الوداع،معارف الحدیث،ج۴)
’’تمہارے خون،مال اور عزت و آبرو اسی طرح ایک دوسرے کے لیے محترم ہیں جیسے آج کا دن،یہ ارض مقدس اور یہ ماہ محرم۔تم عنقریب اپنے رب کے حضور پیش ہونے والے ہو۔وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں جواب طلبی کرے گا۔یاد رکھو میرے بعد قتل و غارت گری کا ارتکاب کرکے گمراہ نہ ہوجانا۔‘‘
تعلقات بین المسلمین کی حقیقت کو واضح فرماتے ہوئے کہا:
عَنْ اَبِی مُوْسیٰ عَنِ النَّبِیِّﷺ قَالَ الْمُوْمِنُ لِلْمُوْمِنِ کَا لْبُنْیَانِ یَشُدُّبَعْضُہُ بَعْضًا ثُمَّ شَبَّکَ بَیْنَ اَصَابِعِہ (متفق علیہ)
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط دیوار کاسا ہے اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے پھر آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر فرمایا،اس طرح ایک دوسرے سے پیوستہ ہو جائیں۔‘‘
اسلام میں اعمال کے باب میں جو نیکیاں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں بلکہ جن کی بنیاد پر کامیابی کی ضمانتوں کا بیان ملتا ہے،آپﷺ نے ان کواعمال میں سب سے زیادہ بلند درجہ اور اس کے نہ ہونے کے نتائج کو یوں بیان فرمایا:
عَنْ اَبِی الدَّرْدَاء ؓقَالَ قَالَ ﷺاَلاَ اُخْبِرُکُمْ بِأَفْضَلِ مِنْ دَرَجَۃِ الصِّیَامِ وَالصَّلٰوۃِ وَالصَّدَقَۃِ؟قَالُوْا بَلٰی،قَالَ صَلاَحُ ذَاتَ الْبَیْنِ ،فَأِنَّ فَسَادَ ذَاتَ الْبَیْنِ ھِیَ الْحَالِقَۃُ
(رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث صحیح ،باب فی فضل صلاح ذات البین ،رقم:۲۵۰۹)
حضرت ابو درداء ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کیا تم کو روزہ ،نماز اور صدقہ خیرات سے افضل درجہ والی چیز نہ بتائوں؟‘‘صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:ضرور ارشاد فرمائیے،آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’باہمی اتفاق سب سے افضل ہے،کیوں کہ آپس کی نااتفاقی(دین کو)مونڈنے والی ہے ‘‘۔یعنی جیسے استرےسے سر کے بال ایک دم صاف ہوجاتے ہیں ایسے ہی آپس کی لڑائی سے دین ختم ہوجاتا ہے۔
دنیوی زندگی میں مسلمانوں کے آپسی تعلقات کی خرابی ،اگر دو مسلمان اسی حالت میں رہتے ہوئے زندگی بسر کریں یہاں تک کہ کسی ایک کا انتقال ہوجائے،ان کی یہ حالت اخروی اعتبار سے کیا نقصان پہچائے گی؟ بلکہ خود دنیا میں مومنین سے قطع تعلقی اگر ایک سال سے زیادہ ہوجائے تو اس کے نتیجے کیا ہوتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے تعلقات کو حق سے جوڑا ہے نیز اگرمومنین میں قطع تعلقی ہوجائے اور دونوں میں سے جو شخص سب سے پہلے تعلقات کی بحالی کی کوشش کرے گا ،اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا؟آئیے اس باب کی احادیث پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
عَنْ اَبِی اَیُّوبَ اَ لْاَنْصَارِیِّ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قال:لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یَھْجُرَہُ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَیَالٍ ،یَلْتَقِیاَنِ فَیُعْرِضُ ھٰذَا وَ یُعْرِضُ ھٰذَا،وَ خَیْرُ ھُمَا الَّذِی یَبْدَأُبِالسَّلاَمِ (رواہ مسلم،باب تحریم الھجر فوق ثلاثۃ ایام)
’’حضرت ابو ایوب انصاری ؓسےروایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین راتوں سے زیادہ (قطع تعلقی کرکے)اسے چھوڑے رکھے کہ جب دونوں ملیں تو یہ ادھر کو منہ پھیر لے اور وہ اُدھر کو منہ پھیر لے اور دونوں میں افضل وہ ہے جو (میل جول کرنے کے لیے)سلام میں پہل کرے۔‘‘
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ’’لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یَّھْجُرَ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَثٍ،فَمَنْ ھَجَرَ فَوْقَ ثَلاَثٍ فَمَاتَ دَخَلَ النَّارَ
(رواہ ابو داؤد،باب ھجرۃ الرجل اخاہ،رقم:۴۹۱۴)
’’حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے ۔جس شخص نے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھا اور مر گیا تو جہنم میں جائے گا۔‘‘
٭عَنْ ھِشَام بْنِ عَامِرٍ ؓقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ:’’لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یُّصَارِمَ مُسْلِماً فَوْقَ ثَلاَثٍ ،وَاِ نَّھُمَا نَاکِبَانِ عَنِ الْحَقِّ مَا کَانَا عَلٰی صِرَامِہِمَا، وَاِنَّ اَوَّلَھُمَا فِیْئًا یَکُونُ سَبَقَہُ بِاَ لْفَیئ َکفَّارَۃٌ لَّہُ
(رواہ ابن حبان ،و اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین)
’’حضرت ہشام بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ ﷺکو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دنوں سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔اور جب تک وہ اس قطع تعلقی پر قائم رہیں گے حق سے ہٹے رہیں گے۔اور ان دونوں میں سے جو (صلح کرنے میں)پہل کرے گا اس کا پہل کرنا اس کے قطع تعلقی کے گناہ کا کفارہ ہو جائے گا۔‘‘
عَنْ اَبِی خِرَاشٍ السَّلَمِی ؓ اَنَّہُ سَمِعَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ ھَجَرَ اَخَاہُ سَنَۃً،فَھُوَ کَسَفَکِ دَمِہِ (رواہ ابو داؤد،باب فی ھجرۃ الرجل اخاہ ،رقم:۴۹۱۵)
حضرت ابو خراش سلمی ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
’’جس شخص نے(ناراضگی کی وجہ سے)اپنے مسلمان بھائی سے ایک سال تک ملنا جلنا چھوڑے رکھا اس نے گویا کہ اس کا خون کیا یعنی سال بھر قطع تعلقی کا گناہ اور ناحق قتل کرنے کا گناہ قریب قریب ہے۔‘‘
کچھ ایسے خاص ایام و اوقات ہیں جس میں اللہ رب العزت کے حضور انسانی اعمال پیش کیے جاتے ہیں،اسی مناسبت سے رسول اللہ ﷺ پیر اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔اعمال کی کمی و بیشی نیز ان بد اعمالیوں کا ذکر فرمایا جن کی بنیاد پر ایک مسلمان کی بخشش کا فیصلہ ردکردیا جاتا ہے ،ان ایام میں مومنین کے متعلق کیا فیصلہ ہوتے ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا:
٭عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃ ؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ:’’تُعْرَضُ الْاَعْمَالُ فِی کُلِّ یَوْمِ خَمِیْسٍ وَ اِثْنَیْنِ،فَیَغْفِرُ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ لِکُلِّ امْرِءٍ لاَ یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا اِلاَّ امْرَءًا کَانَتْ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ اَخِیْہِ شَحْنَاءَ،فَیُقَالَ :اِرْکُوا ھٰذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا ،اِرْکُوا ھٰذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا (رواہ مسلم ،باب النھی عن الشحنائ:رقم:۶۵۴۶)
’’حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ہر پیر اور جمعرات کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ اس دن ہر اس شخص کی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو مغفرت فرماتے ہیں،البتہ وہ شخص اس بخشش سے محروم رہتا ہے جس کی اپنے کسی (مسلمان)بھائی سے دشمنی ہو (اللہ کی طرف سے فرشتوں کو )کہا جائے گا:ان دونوں کو رہنے دو جب تک آپس میں صلح صفائی نہ کرلیں ،ان دونوں کو رہنے دو جب تک آپس میں صلح صفائی نہ کرلیں ۔‘‘
عَنْ عَطاَءِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہَ اَلْخُرَاسَانِی رَحِمَہُ اللّٰہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ :’’تَصَافَحُوا یَذْھَبُ الْغِلُّ تَھَادَوْا تَحَابُّوا وَ تَذْھَبُ الشَّحْنَاءُ۔
(رواہ الامام مالک فی موطا ،ما جاء فی مھاجرۃ ،ص۷۰۶)
حضرت عطاء بن عبد اللہ الخراسانی ؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’آپس میں مصافحہ کرو اس سے دلوں کا کینہ جاتا ہے ،آپس میں ہدایا دیا کرو اس سے آپسی محبت بڑھتی ہے اور دلوں کی عداوت جاتی ہے۔‘‘
ایک مسلمان کی عزت،اس کا وقار،اس کی توقیر اللہ و رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں کیا ہے اس باب میں محمد عربی ﷺ(فداہ امی و ابی )نے یوں فرمایا:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ؓ قَالَ :نَظَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ اِلٰی الْکَعْبَۃِ فَقَالَ:’’لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مَا اَطْیَبَکَ وَ اَطْیَبَ رِیْحُکَ ،وَ اَعْظَمَ حُرْمَتُکَ ،وَالْمُوْمِنُ اَعْظَمُ حُرْمَۃٌ مِنْکَ،اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ جَعَلَکَ حَرَامًا،وَ حَرَمَ مِنَ الْمُومِنِ مَالہ وَ دَمہ وَ عِرْضہ ،وَ اَنْ نَظُنَّ بِہِ ظَناًسیّئاً
(رواہ الطبرانی )
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کعبہ کو دیکھ کر ارشاد فرمایا:
’’لا الہ الا اللہ(اے کعبہ!)تو کس قدر پاکیزہ ہے،تیری خوشبو کس قدر عمدہ ہے اور کتنا زیادہ قابل احترام ہے ،(لیکن)مومن کی عزت و احترام تجھ سے زیادہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے تجھ کو قابل احترام بنایا ہے اور (اسی طرح)مومن کے مال،خون اور عزت کو بھی قابل احترام بنایا ہے اور (اسی احترام کی وجہ سے)اس بات کو حرام قرار دیا ہے کہ ہم مومن کے بارے میں ذرا بھی بد گمانی کریں۔‘‘
اہل ایمان سے معاملات میں نرمی اورتعلقات میں شفقت کی وجہ سے اللہ کے رسول ﷺ نے عذاب جہنم کے حرام ہونے کی خوش خبری سنائی ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺاَلاَ اُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلٰی النَّارِ ،وَبِمَنْ تَحَرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ ؟عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ ھَیِّنٍ سَھْلٍ (ترمذی)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’کیا میں تمہیں نہ بتائوں کہ وہ شخص کون ہے جو آگ پر حرام ہوگااور جس پر آگ حرام ہوگی؟(سنو میں بتاتا ہوں) دوزخ کی آگ حرام ہے ہر ایسے شخص پر جو لوگوں کے قریب ہونے والا ،نہایت نرم مزاج او ر نرم طبیعت ہو۔‘‘
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو اپنے سے حقیر جانے،اس کی تذلیل کی کوشش کرے،اس کو اپنے سے چھوٹا سمجھے یا اپنے کبر و غرور کے اظہار کے لیے اپنی آمد پر تعظیماًلوگوں کے کھڑے ہونے کو پسند کرے ،اس کے انجام کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَنْ مُعَاوِیَۃَ ؓ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُولُ:مَنْ سَرَّہُ اَنْ یَتَمَثَّل لَہُ الرِّجَالُ قِیَامًا فَلْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ (ترمذی)
حضرت امیر معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہو کہ لوگ اس (کی تعظیم )کے لیے کھڑے رہیں وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔‘‘
ہم دیکھتے ہیں کہ ہادی و رہنماجناب محمدﷺ نے اس باب میں نہ صرف مسلمانوںکے آپسی تعلقات و معاملات کی درستگی کو بیان کیا ہے بلکہ آپﷺ نے ان اعمال و افعال کو بھی بیان کیا ہے جن کی بنیاد پر مسلمانوںکے درمیان آپسی میل ملاپ اور محبت پیدا ہوسکتی ہے۔
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃ ؓ قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ:’’لاَ تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُوْمِنُوْا ،وَلاَ تُوْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوا ،اَوَلاَ اَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْئٍ اِذَا فَعَلْتُمُوہُ تَحَابَبْتُمْ؟اَفْشُوا السَّلاَمَ بَیْنَکُمْ (رواہ مسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
’’تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک کہ تم مومن نہ بن جائو۔اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ۔کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتائو ں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت پیدا ہوجائے ؟(وہ یہ ہے کہ)سلام کو آپس میں خوب پھیلائو۔‘‘
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ؓعَنِ النَّبِیِّ ﷺ اَنَّہُ قَالَ:مَا مِنْ مُومِنٍ یُعَزِّی اَخَاہُ بِمُصِیْبَۃٍاِلاَّ کَسَاہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ مِنْ حُلَلِ الْکِرَامَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(ابن ماجہ)
حضرت محمد بن عمرو بن حزام ؓ بیان کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو مومن اپنے کسی مومن بھائی کی مصیبت میں اسے صبر و سکون کی تلقین کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عزت کے لباس پہنائے گا۔‘‘
حضرت عبادہ بن صامت ؓ رسول اللہ ﷺ سے حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:
’’میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں؛میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے خیر خواہی کرتے ہیں؛میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیںاورمیری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔وہ نور کے منبروں پر ہوں گے ان کے خاص مرتبہ کی وجہ سے انبیاء اور صدیقین ان پر رشک کریں گے۔‘‘ (ابن حبان)
حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی روایت میں ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ (مسند احمد)
حضرت معاذ بن جبل ؓ کی روایت میں ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ (موطا امام مالکؒ)
حضرت عمرو بن عسبہؓ کی روایت میں ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے دوستی رکھتے ہیں۔ (طبرانی)
فی زمانہ مسلمانوںکے آپسی معاملات خصوصاً مسلکی و فروعی اختلافات جس انتہا کو پہنچ رہے ہیں اور اس بنیاد پر آپسی تجسس ،ایک دوسرے کے ایمان کی پیمائش،ایمان پر فتویٰ گری نیز اہل قبلہ پر مشرک کی اصطلاحوں کا بے جھجک استعمال ہو رہا ہے اس باب میں رسول اللہ ﷺکے اس ارشاد ِ مبارک کو پڑھیے:
حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺؓ کو یہ فرماتے سنا :
’’اگر تم لوگوں کے عیوب تلاش کرو گے تو تم ان کو بگاڑ دوگے۔‘‘
آپسی معاملات کی درستگی اور شریعت کی نگاہ میں اس کی اہمیت کو بیان کرنے والی مزید احادیث حسب ذیل ہیں:
عن ابی امامۃ ؓ قال قال رسول اللہﷺ اَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِی رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَی وَاِنْ کَانَ مُحِقًّا وَ بِبَیْتٍ فِی وَسْطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَ اِنْ کَانَ مَازِحًا وَ بِبَیْتٍ فِی اَعْلٰی الْجَنَّۃِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَہُ (ابو دائود،۳)
حضرت ابو امامہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جنت کے اطراف میں میںایک گھر کا ضامن ہوں اس شخص کے لیےجو حق پرہونے کے باوجود جھگڑاچھوڑ دے ۔اور اس شخص کے لیے جو مزاق و مزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑدے جنت کے وسط میں ایک گھر کا ضامن ہوں۔اور اس شخص کے لیے جو اعلی اخلاق کا مالک ہو،اعلی جنت میں ایک مکان کا ضامن ہوں ۔
عَنْ عَبْدُاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍ وؓ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ زَوَالُ الدُّنْیَا اَھْوَنُ عَلٰی اللَّہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ (ترمذی،مشکوۃ،کتاب القصاص)
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ساری دنیا کی تباہی اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل کے بالمقابل ہلکی ہے۔‘‘
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺاَبْغَضُ النَّاسِ اِلٰی اللّٰہِ ثَلٰثَۃٌ مُلْحِدٌ فِی الْحَرَمِ مُبْتَغٍ فِی الْاِسْلاَمِ سُنَّۃَالْجَاھِلِیَّۃِ وَ مُطَّلِبُ دَمٍ امْرِأٍمُسْلِمٍ بِغَیْرِ حَقٍّ لِیُھْرِیْقَ دَمَہ
(بخاری،مشکوۃ۔باب الاعتصام)
’’حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے یہاں لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ تین قسم کے افراد ہیں:
(۱)حرم میں الحاد پھیلانے والا؛(۲)اسلام میں جاہلی طور طریقے تلاش کرنے والا؛ (۳)ناحق طور پر کسی مسلمان کا پیچھا کرنے والا تاکہ اس کا خون بہائے۔‘‘
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ :’’اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لاَ یَظْلِمُہُ وَلاَ یَخْذُلُہُ وَلاَ یَحْقِرُہُ،اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا وَیُشِیْرُ اِلٰی صَدْرِہِ ثَلٰثَ مِرَارٍ بِحَسْبِ مرأٍ مِنَ الشَّرِّ اَنْ یَّحْقِرَ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلٰی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَ مَالُہُ وَ عِرْضُہُ
(مسلم ،مشکوۃ ۔باب الشفقہ)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا:
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑے ،تقوی یہاں ہے(تین بار)اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:انسان کو شر کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ،ہر مسلمان کے لیے اس کا خون،مال اور آبرو تمام مسلمانوں پر حرام ہے۔‘‘

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *