قتل مومن اسلامی تعلیمات و ملی اتحاد کےتناظرمیں

انسان خیروشرسےمرکب ہے،تاریخ بتاتی ہےکہ زیادہ ترانسان پرشرکاغلبہ رہاہے، خير کوپانےکےلیےشعور،قربانی،جفاکشی اورعمل پیہم درکارہوتاہے۔اورہربلندی یہی چاہتی ہے۔ جبکہ شرکےلیےمن مانی،خواہشات کی غلامی،سستی وکاہلی اوربےمقصدیت کی ضرورت ہوتی ہے۔یہی زوال اورڈھلان ہےاوراسی کانام فسادوضلال ہے۔اگرانسان کوروکنےکےاسباب و محرکات معاشرہ میں ناپیدہوں توانسان شرپسندی کی کسی بھی کھائي میں گرسکتاہے۔یہ معاشرتی روایات اورقوانین ہی ہیں جوانسان کوبہت ساری قبیح برائيوں سےروکتے ہیں۔ گرچہ انسان کے اخلاقی سیاق مضبوط ہوں مگرپھربھی شرکی شرمناک صورتیں رونماہوتی رہتی ہیں۔اسی لئےبرائیوں کےناسورکوختم کرنالازمی ہوتاہے،تاکہ وہ دوسرےلوگوں تک درازنہ ہواورانسانی معاشرہ امن و عافیت کےساتھ باقی رہےاورجوشخص براہے،وہ اچھےافرادکونقصان نہ پہنچاسکے اوراچھےلوگ اپنی صحیح حالت پرقائم رہیں ،ایسانہ ہوکہ وہ بھی شرپسندبن جائيں۔
کارزارحیات میں معاشرتی مسائل کی کثرت ہوتی ہے،زندگي کی ہرسطح پرحق وباطل کی پنجہ آزمائی جاری رہتی ہے،اوریہی معاملہ خودانسان کی ذات کےاندربرپارہتاہے،فجوراورتقوی کی رسہ کشی ہرلمحہ حرکت میں رہتی ہے،اورالہام فجور(شمس8)کاایک ظاہرہ ظلم ہے،ظلم کس طرح پنپتاہے؟اس کےمدراج کیاہوتےہیں؟ظلم انسانی شخصیت اورانسانی معاشرہ میں کس طرح چھا جاتاہے؟اللہ نےان سب کی کاٹ کےلیےسخت ترین قوانین نازل کیے،تاکہ ظلم کو ناپید کیا جائے، اس کومعاشرہ سےہرسطح پرختم کیاجائے،اورمعاشرہ میں امن وامان کوپورےطورپربحال کیاجائے اورعدل وانصاف کےذریعہ خداکی رحمت کےسائےمیں زندگی کےلمحات گذارےجائيں ، اوراس کی حفاظت کےلیےتمام ممکنہ کوششیں کی جائيں،اللہ تعالی نےفرمایا:
وَ كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۙ وَ الْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (45مائدہ)
ترجمہ:توراۃ میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت ، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔
یہی وہ چیزہےجس کوقصاص کہاجاتاہے،قصاص کیاہے؟قصاص یہ ہےکہ صاحب حق کواس کاحق دلایاجائے۔ظالم نےجس قدرظلم کیاہےاس کابدلہ لیاجائے۔اگرایک شخص نےکسی کاہاتھ توڑاہےتواس کےہاتھ توڑدیےجائیں تاکہ وہ آئندہ پھرکسی اورپرنہ اٹھ سکیں اورمظلوم کوانصاف مل جائے۔یہ قصاص ہی ہےجومعاشرہ کوحقیقی مساوات دیتاہے۔ہرشخص برابر ہے، ہر شخص اللہ کےقانون کےنیچےہے،نہ کوئي شخص بڑاہےنہ چھوٹاہے،بلکہ برابرہے۔انصاف بادشاہ اور رعایاکےلیےیکساں ہے۔اللہ نےفرمایا:
يۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰى۔ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى۔ فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ۔ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌ۔ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۔ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوة ۤ یٰاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْن 178-179البقرہ
ترجمہ:اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے ، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے ، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو ، تو معروف طریقے کے مطابق خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خون بہا ادا کرے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے ، اس کے لیے درد ناک سزا ہے۔178عقل و خرد رکھنے والو ۔ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے ۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔179
بدترین ظلم یہ ہےکہ کسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کردیاجائے،یہ معاملہ اتنا شدید تر ہے کہ اس کےبارےمیں اللہ تعالی نےفرمایا:
وَ مَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيْمًا (النسائ93)
رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔ اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اُس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ نساء-93
یہ صریح ترین آیت بتارہی ہےکہ کسی بھی مومن کوقتل کرناکیامعنی رکھتاہے،یہاں کسی گروہ کاسوال نہیں ہےکہ وہ اپنی خودساختہ بنیادوں پرکفروایمان کےفتوی لگائے،بلکہ جوشخص بھی ایمان باللہ ،ایمان بالرسول اورایمان بالآخرۃ کایقین رکھتاہے،اس کوقتل کرناناجائزہے،اس میں کوئي استثناء نہیں ہے،اوراس معاملہ کی سب سے واضح حدیث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نےبیان کی،ان کوجب بلوائيوں نےقتل کرنےکےلیےگھیرلیا،تواس وقت انہوں نےکہاکہ :
(قال رسول اللہ ﷺ لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا بإحدى ثلاث النفس بالنفس والثيب الزاني والمفارق لدينه التارك للجماعة)
(بخاری ومسلم)
ترجمہ :حضرت اقدس محمدصلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ کوئی بھی مسلم جواللہ کےایک ہونےاورمیرےرسول ہونےکی گواہی دیتاہو،اس کاقتل کرناحرام ہے،سوائےتین حالتوںکے۔ ایک تو یہ کہ اس نے کسی کو ناحق قتل کردیا ہو؛،دوسرےشادی شدہ ہوکر زنا کیا ہو اور تیسرےدین اسلام کوچھوڑدینےوالا(مرتد)ہو۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بلوائيوں کےعقیدےاوران کےافکاروخیالات سےسب سےزیادہ باخبرتھے۔وہ جانتےتھےکہ یہ لوگ صرف شرپسندہیں،ان کامقصدفتنہ وفساد برپاکرناہے،مگراس کےباوجودانہوں نےان بلوائيوں کےقتل کاحکم نہیں دیاجبکہ مسلم مجاہدین صرف امیرالمومنین کی اطاعت خالصہ کی بنا پرخاموش تھےاورحکم ملنےکا انتظار کر رہے تھے۔ مگر حضرت عثمان نےنہ توقتل کاحکم دیااورنہ ہی گرفتاری کا،اوربلوائيوں کےاعتراض کاجواب آپ نےدرج بالاحدیث پیش کرکےدیا۔ اس کےبعدبلوائیوں نےیک طرفہ ظلم کرکےحضرت عثمان کا ناحق خون بہایااوران کوشہیدکردیا۔اس معاملہ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کاطرزعمل بتاتاہےکہ وہ اللہ کےدین سےکتنےزیادہ باخبرتھے۔ان کی شہادت خیرالقرون کاسب سے دردناک حادثہ ہے۔پوری امت اسلامیہ کےاندرموجزن ایمان ویقین اورزبردست طاقت و قوت کےباوجودخلیفہ کوشہیدکردیاگيا۔اس معاملہ میں کیاگيا غور وفکر بتاتاہےکہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نےاپنی دینی معرفت کاعملی نمونہ پیش کردیا اور مسلمانوں نےخلیفہ کی بھرپور اطاعت کرکےیہ ثابت کردیاکہ خلیفہ کےحکم کی کیاحیثیت ہوتی ہےاورحکومت کےاندرکسی شخص کےفکری ورجحانی اختلافات کےکیاحدود ہوتے ہیں۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ یہ سمجھتے تھےکہ دنیااللہ کی ہے،حقیقی تدبیرکامالک اللہ ہی ہے،فتنہ وفسادکی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں ، وہ ربانی رحمت کودورکرنےکاسبب بنتی ہیں۔انسانی تدبیرکےحدوددینی دائرہ کے اندر ہوتے ہیں، اللہ کےقوانین کوچھوڑکریااس میں کتروبیونت کرکےکوئی تدبیرنہیں کی جاسکتی ۔وہ جانتے تھےکہ جوشخص ایمان کادعویدارہے،بھلےہی اس کےعقیدہ میں فسادہو،لیکن اس کوکسی حال میں قتل نہیں کیاجاسکتاسوائےدرج بالاتین حالتوں کے۔پھروہ امت میں قتل وغارت کےابتداء کی ذمہ داری اپنےسرلینانہیں چاہتےتھے، اور انہیں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت پورے طور پر یاد تھی کہ:
لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض (بخاری)
ترجمہ:میرےبعدکافرنہ ہوجاناکہ ایک دوسرےکی گردنیں مارنےلگو۔
لیکن تاریخ کاعجیب مظاہرہ ہےکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ عدیم المثال قربانی بعض حضرات کےناقص فہم میں درست جگہ نہ پاسکی۔اللہ تعالی نےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بدترین فتنہ میں پورےطورسےحق پرثابت قدم رکھا،اورامت مسلمہ کےاتحادکےلیےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نےاپنی جان کانذرانہ پیش کردیا۔اورتاریخ یہ بات جانتی ہےکہ جن لوگوں نےاپنوں کےخلاف تلوارنکالی ،اوراپنوں کی گردنیں ماریں،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس فتنےسےپورےطورپرسلامت نکل گئے،اورامت مسلمہ کےاندرفتنہ وفسادکےسارےگناہ ان کےدشمن لےگئے،لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نےدین محمدی پرآنچ نہیں آنےدی۔انہوں نےان کےخلاف کوئي فتوی نہیں دیا،اورنہ ہی اپنی طرف سےانہوں نےان لوگوں کوجہنم کی خوشخبری دی،۔لیکن بعد کی تاریخ کی بدترین بدنصیبیوں میں سےایک یہ ہےکہ حزبیت کےناسور نےان حقائق کواپنےعقائدمیں جگہ نہیں دی،اورامت مسلمہ کوٹکڑےدرٹکڑےکرنےمیں کوئی کسرنہیں چھوڑی ،اورایک دوسرےکی گردنیں مارنی شروع کردیں،حتی کہ فکری واجتہادی اختلاف قتل ناحق تک درازہوگيا۔تاریخ اس معاملہ کی بہت ساری مثالیں اپنےاندررکھتی ہے، مثال کےطورپرمحمدبن جریرطبری کوفقہ حنبلی کےحامل افرادنےان کےبعض خیالات کی بنیاد پر ان کومارنےکےلیےگھیرلیاتھا،مگروہ کسی طرح بچ گئے۔ابن تیمیہ کوبعض خیالات کی پاداش میں زندگی کےبیشترلمحات جیل میں کاٹنےپڑےاوروہیں سےان کاجنازہ نکلا۔
اسباب وانتظام کی اس دنیامیں ہروہ شخص مومن کہلائےگا،جوظاہری طورپرکلمہ طیبہ کا اقرارکرتاہو،گرچہ اس کےافکاروخیالات میں فسادوضلال ہو،لیکن اس کےکفراورجہنمی ہونےکا فیصلہ کرناصرف اللہ کااختیارہےاوراس مسئلہ کےحل کےلیےمرنےکےبعداس نےیوم الدین کا انتظام کیاہے۔اوراگرکوئي شخص اللہ کی اتھارٹی کواپنےہاتھ میں لیتاہےتووہ گویا حدود کو پار کرتا ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہےکہ اس دنیامیں بہت سارےنام لیوانام نہادمسلم کافرہیں،لیکن اس کا حتمی فیصلہ کرناصرف اللہ کاکام ہے،تاہم دنیوی انتظام وانصرام کےلحاظ سےاس کومسلم میں شامل کیاجائےگا،اوران کاقتل کرنابالکل حرام ہوگا۔
عن أبي هريرة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فاذاقالوها منعوا مني دماءهم و أموالهم إلا بحقها و حسابهم على الله عز و جل (مسلم)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئےسناکہ مجھےحکم دیاگياہےکہ میں لوگوں سےجنگ کروں یہاں تک وہ لاالہ الااللہ کااقرارکریں،جب یہ کلمہ پڑھ لیں توانہوں نےمجھ سےاپنےخون اوراپنےمال محفوظ کرلیےاوران کاحساب وکتاب اللہ عزوجل کےذمہ ہے۔
عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله واستقبلوا قبلتنا وأكلوا ذبيحتنا وصلوا صلاتنا فقد حرمت علينا دماؤهم وأموالهم إلا بحقها لهم ما للمسلمين وعليهم ماعليهم ۔ (مسندعبداللہ بن مبارک)
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےارشادفرمایاکہ مجھےحکم دیاگياہےکہ میں لوگوں سےجنگ کروں یہاں تک وہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کریں، اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کریں،اورہمارےذبیخےکوکھائیں، اورہماری نمازپڑھیں،توان کےخون اوران کےمال ہم پرحرام ہیں،مگرحق کےساتھ،اوران کےساتھ ہرمعاملےمیں مسلم جیسابرتاؤکیاجائےگا۔
کسی بھی شخص کوناحق قتل کرنابدترین جرم ہے،اوریہ معاملہ اللہ کےنزدیک بہت ہی ہولناک سزاکاباعث ہے۔
عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه و سلم قال ( أكبر الكبائر الإشراك بالله وقتل النفس وعقوق الوالدين وقول الزور أو قال وشهادة الزور)۔
(بخاری)
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےروایت کرتےہیں کہ آپ نےفرمایاکہ اللہ کےساتھ شرک کرنااورکسی کوناحق قتل کرنااوروالدین کی نافرمانی کرنااورجعلی بات یاجعلی گواہی دینا اکبرالکبائرہے۔
عن ابن عباس : أن النبي صلى الله عليه و سلم قال ( أبغض الناس إلى الله ثلاثة ملحد في الحرم ومبتغ في الإسلام سنة الجاهلية ومطلب دم امرئ بغير حق ليهريق دمه ) (بخاری)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماروایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےارشادفرمایاکہ اللہ کےنزدیک تین قسم کےلوگ سخت ترین مبغوض ہیں،ایک حرم کےاندرظلم کرنےوالا،دوسرااسلام کےاندرجاہلی طریقےتلاش کرنےوالااورتیسراکسی شخص کاناحق خون طلب کرنےوالا،تاکہ اس کاخون بہائے۔
عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه قال : إني من النقباء الذين بايعوا رسول الله صلى الله عليه و سلم بايعناه على أن لا نشرك بالله شيئا ولا نسرق ولا نزني ولا نقتل النفس التي حرم الله ولا ننتهب ولا نعصي بالجنة إن فعلنا ذلك فإن غشينا من ذلك شيئا كان قضاء ذلك إلى الله (بخاری)
ترجمہ:حضرت عبادہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سےروایت ہے،وہ کہتےہیں کہ میں ان نقباء میں سےہوں جنہوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےبیعت کی تھی ،ہم لوگوں نےاس بات پربیعت کی تھی کہ کسی چيزکواللہ کےساتھ شریک نہ بنائيں گے،چوری نہیں کریں گے، زنا نہیں کریں گے،جس جان کواللہ نےحرام کیاہےاس کوقتل نہیں کریں گے،لوٹ مارنہیں کریں گے اورنہ ہی نافرمانی کریں گے۔اگرہم نےان باتوپرعمل کرلیاتوہمارےلیے جنت ہے اور اگر ان میں سےکسی کےمرتکب ہوئےتواس کافیصلہ اللہ کےہاتھ میں ہے۔
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم، لا يزال المؤمن في فسحة من دينه ما لم يصب دما حراما (بخاری)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماروایت کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ مومن ہمیشہ کشادگي میں رہتاہےجب تک کہ ناحق خون نہ کرے۔
عن عبد الله بن عمر قال: إن من ورطات الأمور التي لا مخرج لمن أوقع نفسه فيها سفك الدم الحرام بغير حله (بخاری)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماروایت کرتےہیں کہ کسی کوناحق قتل کرنا،ان مہلک امورمیں سےہے جن میں پڑنےوالےکےلیے نکلنےکاکوئي راستہ نہیں ہے۔
عن ابن مسعود عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : ” يجيء الرجل آخذا بيد الرجل فيقول : يا رب هذا قتلني
قال : لم قتلته ؟ فيقول لتكون العزة لك ، فيقول : فإنها لي ،ويجيء الرجل آخذا بيد الرجل فيقول : يا رب قتلني هذا
فيقول الله : لم قتلت هذا ؟ فيقول : قتلته لتكون العزة لفلان ، فيقول: إنها ليست له بؤ بإثمه ”
(البيهقي، وأخرجه ابن أبي شيبة عن عمرو بن شرحبيل،ابن مردویہ)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایاکہ ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کاہاتھ پکڑکرلے آئےگااوروہ کہےگا،اےمیرےرب اس نےمجھےقتل کردیاتھا،تواللہ تعائي فرمائےگاکہ تم نےاسےکیوں قتل کیا؟وہ کہےگا،تاکہ عزت آپ کی ہو ،تواللہ تعالی فرمائےگاکہ عزت تومیرےلیےہی ہےاورپھر ایک آدمی کسی آدمی کاہاتھ پکڑکرلے آئےگااوروہ کہےگا،اےمیرےرب اس نےمجھےقتل کردیاتھا،تواللہ تعائي فرمائے گا کہ تم نےاسےکیوں قتل کیا؟وہ کہےگا،تاکہ فلاں کی عزت ہو،تواللہ تعالی فرمائےگا، اس کےلئے کوئی عزت نہیں الٹا اس نےاس کاگناہ اپنے سرلےلیا۔
قتل مومن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےکفرقراردیاہے،اوراس حوالےسےسخت ترین تاکیدفرمائی ہے۔
عن عبد الله بن مسعود : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : قتال المؤمن كفر و سبابه فسوق (مسلم)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےروایت کرتےہیں کہ آپ نےفرمایا،مومن کوقتل کرناکفرہے اوراس کوگالی دینافسق ہے۔
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال من حمل علينا السلاح فليس منا (بخاری)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماروایت کرتےہیں کہ رسولﷺ نےارشادفرمایاکہ جس نےہم پرہتھیاراٹھایاوہ ہم میں سےنہیں ہے۔
عن أبی هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يشير أحدكم إلى أخيه بالسلاح فإنه لا يدري أحدكم لعل الشيطان أن ينزع في يده فيقع في حفرة من النار
(بخاری،مسلم)۔
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ تم میں سےکوئي ہتھیارسےکسی مسلم بھائي کی طرف اشارہ نہ کرے،کیونکہ کسی کونہیں معلوم کہ شایدشیطان اس کےہاتھ ہلادےاوروہ جہنم کےگڑھےمیں جاگرے۔
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الملائكة تلعن أحدكم إذا أشار إلى أخيه بحديدة و إن كان أخاه لأبيه و أمه (مسلم)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ فرشتےاس آدمی پرلعنت بھیجتےہیں جواپنےبھائي کی طرف لوہےکی کسی چيزسےاشارہ کرتاہے،گرچہ وہ اس کاسگابھائي ہی کیوں نہ ہو۔
عن أبي موسى : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : إذا مر أحدكم في مسجدنا أو سوقنا بنبل فليمسك عن أنصالها لا يصيب أحدا من المسلمين أذى (بیہقی)
ترجمہ:حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ جب تم میں سےکوئي ہماری مسجدیابازارسے گذرےتواس کوچاہیےکہ وہ اپنےہتھیارکی نوک یادھارکوبندکرلےتاکہ کسی مسلمان کوتکلیف نہ پہنچ جائے۔
عن الاحنف بن قيس قال : ذهبت لأنصر هذا الرجل فلقيني أبو بكرة فقال أين تريد ؟ قلت أنصر هذا الرجل قال ارجع فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : إذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار . قلت يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول ؟ قال: إنه كان حريصا على قتل صاحبه (بخاری)
ترجمہ:حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں ایک شخص کی مدد کو جانے لگا توحضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سےمیری ملاقات ہوئي توانہوں نےمجھ سےکہاکہ کہاں جارہےہیں ؟ میں نےکہاکہ اس شخص کی مددکرنےکےلیے،انہوں نےکہاکہ آپ واپس چلےجائيے،کیوں کہ میں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےسناہےکہ آپ نےفرمایاکہ جب دومسلمانوں کی تلواریں آپس میں ٹکرائيں توقاتل اورمقتول دونوں جہنمی ہیں،میں نےکہاکہ اےاللہ کےرسول قاتل کےجہنمی ہونے کی بات توسمجھ میں آرہی ہےلیکن مقتول کاکیا قصورہے؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ وہ بھی اپنےمدمقابل کوقتل کرناچاہ رہاتھا(گرچہ وہ کامیاب نہ ہوسکا)۔
ناحق خون بہانےکی ہولناکی
عن عبد الله قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم، أول ما يقضى بين الناس في الدماء (بخاری ومسلم)
ترجمہ:حضرت عبداللہ روایت کرتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ قیامت کےدن سب سےپہلےخون کافیصلہ ہوگا۔
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :
” والله للدينا وما فيها أهون على الله من قتل مسلم بغير حق ”
(البخاري ومسلم والترمذي والنسائي وابن ماجه و ابن ابی شيبة)
ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ اللہ کےنزدیک ساری دنیاکازوال ایک مسلم کےناحق قتل سےکم درجہ کاہے۔
عن ابن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ” والذي نفسي بيده لقتل مؤمن أعظم عند الله من زوال الدينا ”
( النسائي،البيهقي، ابن المنذر، ابن عدي،و سعيد بن منصوروالالفاظ مختلف)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ اس ذات کی قسم جس کےقبضۂ قدرت میں میری جان ہےکہ ایک مومن کاقتل اللہ کےنزدیک ساری دنیاکی تباہی وزوال سےبڑھ کرہے۔
عن أبي سعيد وأبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : ” لو أن أهل السماء وأهل الأرض اشتركوا في دم مؤمن لأكبهم الله جميعا في النار
“( ابن المنذر والبيهقي)
حضرت ابوسعید اورابوہریرہ رضی اللہ عنہمانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےروایت کرتےہیں کہ کسی ایک مومن کےقتل میں اگرتمام روئےزمین اورآسمان کےلوگ شریک ہوں تواللہ سب کواوندھےمنہ جہنم میں ڈال دےگا۔
عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ” لو أن الثقلين اجتمعوا على قتل مؤمن لأكبهم الله على مناخرهم في النار وإن الله حرم الجنة على القاتل والآمر “( الاصبهاني،درمنثور)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماروایت کرتےہیں کہ نبی کریمﷺ نےارشادفرمایاکہ اگرانسان وجنات کسی ایک مومن کےقتل کرنےمیں جمع ہوجائیں تواللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دےگا۔اوربلاشبہ اللہ نےقاتل اورقتل کاحکم دینےوالےپرجنت حرام کردی ہے۔
عن ابن عباس قال : ” قتل بالمدينة قتيل على عهد النبي صلى الله عليه و سلم لم يعلم من قتله فصعد النبي صلى الله عليه و سلم المنبر فقال : أيها الناس قتل قتيل وأنا فيكم ولا نعلم من قتله ولو اجتمع أهل السماء والأرض على قتل امرء لعذبهم الله إلا أن يفعل ما يشاء ” (البيهقي)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماروایت کرتےہیں کہ نبی کریمﷺ کے زمانےمیں مدینہ کےاندرایک شخص کاقتل ہوگياتھااوراس کاقاتل معلوم نہ ہوسکاتھا،توآپﷺ منبر پرتشریف لائے،اورفرمایاکہ اےلوگوں ایک شخص قتل کردیاگيااورمیں تمہارےدرمیان موجود ہوں اوراس کےقاتل کاپتہ نہیں چل سکا،اوراگرآسمان اورزمین والےکسی شخص کےقتل پرجمع ہوجائیں تواللہ ان سب کوعذاب دےمگریہ کہ وہ جوچاہےکرے۔
عن مرثد بن عبد الله : عن رجل من الصحابة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ” قسمت النار سبعين جزءا للآمر تسعة و ستين و للقاتل جزءا ”
( البيهقي في شعب الإيمان)۔
ترجمہ:حضرت مرثدبن عبداللہ ایک صحابی سےروایت کرتےہیں کہ آپ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ آگ ستراجزاء میں تقسیم کی گئی ہے، قتل کاحکم دینےوالےکےلیےآگ کے انہتر اجزاءہیں اورقتل کرنےوالےکےلیےایک جزء ۔
عن عبد الله بن عمرو : أن ابن آدم الذي قتل أخاه تقاسم أهل النار نصف عذاب جهنم قسمه صحاحا ( البيهقي)
ترجمہ:حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما سےروایت ہےکہ جوآدمی اپنےبھائي کوقتل کرتاہے،وہ اہل جہنم کےعذاب میں سے آدھے عذاب کو اپنے حصہ میں کر لیتا ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں کرتا۔
عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أعان على دم امرء مسلم بشطر كلمة كتب بين عينيه يوم القيامة آيس من رحمة الله (بیہقی)
ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس شخص نےکسی مسلمان کےقتل پرآدھےکلمہ سےبھی مددکی ،وہ قیامت کےدن اللہ کےسامنےاس حالت میں آئےگاکہ اس کی پیشانی پرلکھاہواہوگاکہ یہ شخص اللہ کی رحمت سےمحروم ہے۔
عن عبد الله بن عمرو : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال ( من قتل نفسا معاهدا لم يرح رائحة الجنة وإن ريحها ليوجد من مسيرة أربعين عاما ) (بخاری)
ترجمہ:حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےروایت کرتےہیںکہ آپ ؐنے فرمایاکہ جس نےکسی ایسےشخص کوقتل کیاجس سےمعاہدہ ہو،وہ جنت کی خوشبونہیں سونگھےگا،جبکہ اس کی خوشبوچالیس سال کی مسافت سےمحسوس ہوگي۔
عن أبي إدريس الخولاني قال : سمعت معاوية بن أبي سفيان و كان قليل الحديث عن رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : كل ذنب عسى الله أن يغفره إلا رجل يموت كافرا أو رجل يقتل مؤمنا متعمدا ۔ هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه ،تعليق الذهبي قي التلخيص ۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،مسنداحمد)
ترجمہ:حضرت ادریس خولانی روایت کرتےہیں کہ میں نےحضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہماکوکہتےسنا،اوروہ کم حدیث روایت کرنے والےتھے،وہ نبی کریم ﷺ سےروایت کرتےہیں کہ آپ نےفرمایا:ممکن ہےکہ اللہ تعالی تمام گناہ بخش دیں سوائےاس شخص کے جوکفرپرمرااوردوسراوہ شخص جس نےکسی مومن کاجان بوجھ کرقتل کیا۔
قتل ناحق اورمومن کوجان بوجھ کرقتل کرنےکےباب میں
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین اورتابعین رحمہم اللہ کےاقوال وفتاوے
عن الحسن قال : لما أحس جندب بقدوم علي رضي الله عنه خرج راجعا إلى المدينة و تبعه بنو عدي فجعلوا يقولون يا أبا عبد الله أوصنا رحمك الله فقال اتقوا الله و اقرؤوا القرآن فإنه نور الليل المظلم و هدي النهار على ما كان من جهد و فاقة فإذا عرض البلاء فاجعلوا أموالكم دون أنفسكم فإذا نزل البلاء فاجعلوا أنفسكم دون دينكم و اعلموا أن الخائب من خاب دينه و الهالك من هلك دينه ألا لا فقر بعد الجنة و لا غنى بعد النار لأن النار لا يفك أسيرها و لا يبرأ ضريرها و لا يطفأ حريقها و إنه ليحال بين الجنة دم المسلم لما ذهب يدخل من باب من أبواب وجدها يرد عنها و اعلموا أن الدمي إذا مات فدفن لا نتن أول من بطنه فلا تجعلوا مع النتن خبثا اتقوا الله في الأموال و الدماء و اجتنبوها ثم سلم و ركب ، (بیہقی)
ترجمہ:حسن بصری روایت کرتےہیں کہ جب حضرت جندب نےحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی آمدمحسوس کی تومدینہ کی طرف نکلےاوربنوعدی ان کےپیچھےہولیےاورانہوں نےیہ کہناشروع کیاکہ اےابوعبداللہ! اللہ آپ پررحم فرمائے،آپ ہمیں وصیت کیجئے،توانہوں نےکہاکہ اللہ سےڈرواورقرآن پڑھوکیونکہ وہ اندھیری رات کی روشنی اورجومشقت وفاقہ دن میںہوتاہےاس کی ہدایت ہے،توجس وقت مصیبت پیش آجائےاس وقت اپنےمالوں کے ذریعہ اپنےنفسوں کادفاع کرواورجس وقت مصیبت ختم ہوجائے،اس وقت اپنےنفسوں سےدین کادفاع کرواوریہ اچھی طرح جان لوکہ جس کےدین میں نقصان ہوگیاوہ شخص ناکام ہوگيااوروہ شخص ہلاک ہوگياجس کادین ہلاک وتباہ ہوگيا،خبرداریہ جان لوکہ جنت کےحصول کےبعد کوئي فقرومحتاجگي نہیں ہےاورجہنم میں داخل ہونےکےبعدکوئي امیری اورغنانہیں ہے،اس لیےکہ جہنم کاقیدی نہیں چھوٹےگا،اس کانقصان اٹھانےوالاتندرست نہیں ہوگااوراس میں جلنےوالی آگ نہیںبجھےگی،اوربےشک جنت اورمسلمان کےدرمیان جوچیزحائل ہوگی وہ مشت بھرخون ہوگا جواس نےمسلمان بھائی کابہایاہوگا،وہ جنت کےجس دروازےسےبھی داخل ہونے کے لیے جائےگااس کواپنےاوپربندپائےگا۔اوراچھی طرح جان لوکہ آدمی جب مرجاتاہےاوردفن ہو جاتاہےتوسب سےپہلےاس کاپیٹ خراب ہوکربدبوداربن جاتاہےلہذاتم لوگ بدبوکےساتھ خبث وناپاکی کااضافہ نہ کرو،اورمالوں اورخونوں کےبارےمیں اللہ سےڈرتےرہواوران سے اجتنا ب کرو،اس کےبعدالسلام علیکم کہااورسواری پرسوارہوگئے۔
عن محمد بن عجلان قال : كنت بالإسكندرية فحضرت رجلا الوفاة لم ير من خلق أحد كان أخشى الله منه فكنا نلقنه فيقبل كل ما لقناه من سبحان الله و الحمد لله جاءت لا إله إلا الله أبى فقلنا له ما رأينا من خلق الله أحدا كان أخشى لله منك فنلقنك فتلقن حتى إذا جاءت لا إله إلا الله ابیت قال : إنه حيل بيني و بينهما و ذلك أني قتلت نفسا في شبيبتي (بیہقی)
ترجمہ:ثقہ راوی محمدبن عجلان روایت کرتےہیں کہ میں اسکندریہ میں تھا،توایک ایسے شخص کی وفات کاوقت قریب آگیاکہ مخلوق میں اس سےزیادہ کوئي اللہ سےڈرنےوالانہیں دیکھاگياتھا،ہم لوگوں نےاس کوجوچیزیں تلقین کیں وہ قبول کرتاگيا،سبحان اللہ ،الحمدللہ،لیکن جب لاالہ الااللہ آیاتواس نےانکارکردیا،ہم نےاس سےپوچھاکہ ہم نےتجھ سےزیادہ اللہ سےڈرنےوالانہیں دیکھا،ہم نےتجھےتلقین کی توتم نےقبول کیا،مگرتم نےلاالہ الااللہ کاانکارکیوں کردیا،تو اس نےکہاکہ میں نےجوانی میں ایک شخص کوقتل کیاتھاوہی شخص میرے اور کلمےکے درمیان حائل ہوجاتاہےاورکلمہ نہیں پڑھنےدیتا۔
وَ مَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيْمًا۰۰۹۳
رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔ اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اُس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ نساء93
اس آیت کےبارےمیں صحابہ کرام کی ایک تعداد اس بات کی قائل ہےکہ جس نےکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کیا،اس کی توبہ قبول نہیں ہوگي اورایک تعدادیہ کہتی ہےکہ اس کی توبہ ہے۔
ابن کثیرنےلکھاہےکہ ابن عباس کاقول ہےکہ جس نےکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کیا،اس کی توبہ قبول ہی نہیں ہوگی۔
حدثنا أبو بكر قال حدثنا بن فضيل عن أبي نصر ويحيى الجابر عن سالم بن أبي الجعد عن بن عباس قال أتاه رجل فقال يا أبا عباس أرأيت رجلا قتل مؤمنا متعمدا ما جزاؤه قال فجزاؤه جهنم خالدا فيها وغضب الله عليه الآية قال أرأيت ان تاب وآمن وعمل صالحا ثم اهتدى فقال وأنى له التوبة ثكلتك أمك انه يجيء يوم القيامة آخذا برأسه تشخب أوداجه حتى يقف به عند العرش فيقول يا رب سل هذا فيما قتلني ۔ (طبری،مصنف ابن ابی شیبہ)
سالم بن ابوالجعدفرماتےہیں کہ حضرت ابن عباس جب نابیناہوگئےتھے،توایک مرتبہ ہم ان کےپاس بیٹھےہوئےتھے،ایک شخص آيااوراس نےسوال کیاکہ اس شخص کےبارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نےکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کرڈالا۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اسکی سزاجہنم ہےجس میں وہ ہمیشہ رہےگا،اس پراللہ کاغضب ہے،اس پراللہ کی لعنت ہے اور اس کےلیےعذاب عظیم تیارہے(اور آیت پڑھی) اس نےپھرپوچھاکہ اگروہ توبہ کرے،نیک عمل کرے اورہدایت پرجم جائےتواسکا کیاہے؟حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نےفرمایا،تیری ماں تجھے روئے، اس کی توبہ اورہدایت کہاں؟اس کی قسم جس کےقبضہ میں میری جان ہے،وہ قیامت کےدن اسے دائيں یابائيں ہاتھ سےتھامےہوئےرحمان کےعرش کےسامنےآئےگا،اس کی رگوں میں خون اچھل رہاہوگااوراللہ سےکہےگاکہ اےاللہ اس سے پوچھ کہ اس نےمجھےکیوں قتل کیا؟۔
وأخرج البيهقي أن أعرابيا أتى أبا ذر فقال : إنه قتل حاج بيت الله ظالما فهل له من مخرج ؟ فقال له أبو ذر : ويحك ! أحي والداك ؟ قال : لا ، قال : فأحدهما ؟ قال : لا ، قال : لو كانا حيين أو أحدهما لرجوت لك وما أجد لك مخرجا إلا في إحدى ثلاث قال : وما هن ؟ قال : هل تستطيع أن تحييه كما قتلته ؟ قال : لا والله ! قال : فهل تستطيع أن لا تموت ؟ قال : لا والله ما من الموت بد فما الثالثة ؟ قال : هل تستطيع أن تبتغي نفقا في الأرض أو سلما في السماء ؟ فقام الرجل وله صراخ فلقيه أبو هريرة فسأله فقال : ويحك ، ! حيان والداك ؟ قال : لا قال : لو كانا حيين أو أحدهما لرجوت لك ولكن اغز في سبيل الله وتعرض للشهادة فعسى (البيهقي)
ترجمہ:بیہقی نےاس روایت کی تخریج کی ہےکہ ایک اعرابی حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کےپاس آیااورکہاکہ اس نےظالمانہ طورپرایک حاجی کوقتل کیاہے،تواس کےلیےبچ نکلنےکی کوئي راہ ہے،توحضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نےکہاکہ تمہارابراہو،کیاتمہارےماں باپ زندہ ہیں؟اس نےکہا،نہیں۔آپ نےفرمایا،کیاان میں سےکوئي ایک؟اس نےکہا،نہیں۔ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نےکہاکہ اگروہ دونوں زندہ ہوتےیاان میں سےکوئي ایک تو میں تمہاری بخشش کی امیدکرتا۔اب میں تمہارےلیےبچ نکلنےکی صرف تین راہیں پاتاہوں۔ اس نےکہاکہ وہ کیاہیں؟آپ نےکہاکہ کیاتم نےجس طرح اس کوقتل کیاہےپھراس کوزندہ کرسکتےہو؟اس نے کہا کہ اللہ کی قسم ،نہیں،پھرآپ نےکہاکہ کیاتم موت سےبچ سکتےہو؟اس نےکہا،اللہ کی قسم ،نہیں، موت سےکسی کوچھٹکارانہیں۔تیسراکیاہے؟آپ نےکہاکہ کیاتم میں یہ زورہےکہ تم زمین میں سرنگ ڈھونڈویاآسمان میں سیڑھی لگاؤ؟تووہ شخص چیختا ہوا بھاگا،تواس کی ملاقات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےہوئی توآپ نےاس سےسوال کیاپھرجاننے کےبعدآپ نےکہاکہ تمہارا برا ہو، کیاتمہارےماں باپ زندہ ہیں؟اس نےکہاکہ نہیں،توآپ نےکہاکہ اگروہ دونوںیاان میں سےکوئي ایک زندہ ہوتےتومیں تمہارےلیےامیدکرتا،لیکن اب تم اللہ کی راہ میں لڑواوراپنےآپ کوشہادت کےلیےپیش کرو،شایدتمہاری بخشش ہوجائے۔
أخرجه عبد بن حميد عن الحسن قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : نازلت ربى في قاتل المؤمن أن يجعل له توبة فأبى على ۔ (روح المعانی)
ترجمہ:حضرت حسن روایت کرتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ میں نےاپنےرب سےدرخواست کی کہ مومن کےقاتل کےلیےتوبہ کادروازہ کھول دیں ،لیکن اللہ تعالی نےانکارکردیا۔
و أخرجه عن سعيد بن عيینہ أنه قال : كنت جالسا بجنب أبى هريرة رضى الله تعالى عنه إذ أتاه رجل فسأله عن قاتل المؤمن هل له من توبة فقال : لا والذى لا إله إلا هو لايدخل الجنۃ حتى يلج الجمل سم الخياط ۔ ( روح المعانی)
ترجمہ:حضرت سعدبن عیینہ روایت کرتےہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھاتھاکہ ان کےپاس ایک آدمی آیااوران سےمومن کےقاتل کےبارےمیں سوال کیاکہ کیا اس کےلیےکوئی توبہ ہے؟توحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےفرمایاکہ نہیں وہ اللہ جس کےسواکوئی معبودنہیں ،وہ جنت میں داخل نہیں ہوگایہاں تک کہ اونٹ سوئي کےناکےمیں گھس جائے۔
و في تفسير الحدادي ولا كفارة في القتل العمد لقوله عليه السلام : “خمس من الكبائر لا كفارة فيها لإشراك بالله وعقوق الوالدين والفرار من الزحف وقتل النفس عمداً واليمين الغموس”.۔
(روح البيان في تفسير القرآن، المؤلف : إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي۔)
ترجمہ:اورتفسیرحدادی میں ہےکہ قتل عمدکاکوئی کفارہ نہیں ہے،جیساکہ نبی کریمﷺ نےفرمایاکہ پانچ کبائرہیں جس کاکوئی کفارہ نہیں ہے،اللہ کےساتھ کسی کوشریک کرنا،والدین کی نافرمانی کرنا،جنگ سےفرارہونا،کسی آدمی کوجان بوجھ کرقتل کرنااوریمین غموس۔
عن سعيد بن جبير قال: سألت ابن عباس عن قوله:”ومن يقتل مؤمنًا متعمدًا فجزاؤه جهنم” قال: إن الرجل إذا عرف الإسلام وشرائع الإسلام، ثم قتل مؤمنًا متعمدًا، فجزاؤه جهنم، ولا توبة ۔وقال آخرون: فكل قاتل مؤمن عمدًا، فله ما أوعده الله من العذاب والخلود في النار، ولا توبة له. وقالوا: نزلت هذه الآية بعد التي في”سورة الفرقان”. (طبری)
ترجمہ:سعیدبن جبیرروایت کرتےہیں کہ میں نےحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سےاس آيت ” وَ مَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيْمًا” کےبارےمیں سوال کیاتوانہوں نےکہاکہ جوشخص اسلام اورشرا‏ئع اسلام سےواقف ہو،پھرکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کرے،اس کابدلہ جہنم ہے،اورکوئي توبہ نہیں ہے۔
اوردیگرحضرات کہتےہیں کہ ہروہ شخص جوکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کرے،تواس کابدلہ وہی ہےجواللہ نےعذاب اورجہنم میں ہمیشہ رہنےکاوعدہ کیاہے،اوراس کی کوئي توبہ نہیں ہے،اوران لوگوں نےکہاکہ یہ آیت سورہ فرقان کی مندرجہ ذیل آیت کے بعد نازل ہوئی :
وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا يَزْنُوْنَ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًاۙ (۶۸الفرقان)
ترجمہ: جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا ۔
عن الضحاك بن مزاحم ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فيها قال ما نسخها شيء منذ نزلت،وليس له توبة.۔ (طبری،مصنف ابن ابی شیبہ)
ترجمہ:حضرت ضحاک بن مزاحم نےکہاکہ جس نےکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کیا،تواس کابدلہ جہنم ہے،وہ اس میں ہمیشہ رہےگا،اورانہوں نےکہاکہ اس آیت کوکسی دوسری آیت نےمنسوخ نہیں کیا،اورمومن کوجان بوجھ کرقتل کرنےوالے کی کوئي توبہ قبول نہیں ہوگي ۔
عن الضحاك بن مزاحم قال لأن أتوب من الشرك أحب إلي من أن أتوب من قتل مؤمن۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
ترجمہ:حضرت ضحاک بن مزاحم نےکہاکہ مومن کےقتل سےتوبہ کرنےکےمقابلے میں شرک سےتوبہ کرنامیرےنزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔
عن ابن مسعود في قوله:”ومن يقتل مؤمنًا متعمدًا فجزاؤه جهنم”، قال: إنها لمحكمة، وما تزداد إلا شدة.۔ (طبری)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نےاس آیت:”ومن يقتل مؤمنًا متعمدًا فجزاؤه جهنم”، کےبارےمیں کہاکہ یہ محکم آیت ہےاوراس کی سختی شدید سےشدیدترہے۔
عن مجاهد قال كان يقال توبة القاتل إذا ندم ۔ (طبری،مصنف ابن ابی شیبہ)
ترجمہ:حضرت مجاہدکہتےہیں کہ جب قاتل نادم ہوتواس کی توبہ ہے
عن سعيد بن جبير قال لا أعلم لقاتل المؤمن توبة إلا الاستغفار
(مصنف ابن ابی شیبہ)
ترجمہ:حضرت سعیدبن جبیرکہتےہیں کہ میںمومن کے قاتل کی توبہ سوائےاستغفار کےاور کچھ نہیں جانتا۔
عن عكرمة قال للقاتل توبة (مصنف ابن ابی شیبہ)
ترجمہ:حضرت عکرمہ کہتےہیں کہ قاتل کی توبہ ہے۔
¯l¯

اُمّتِ محمّدیہﷺکےفضائل
امامِ حرم ڈاکٹرعبد المحسن القاسم حفظہ اللہ
مؤرخہ: ۲۷ربیع الاوّل۱۴۳۴ھ بمطابق: ۸ فروری ۲۰۱۳م
مترجم: شعیب مدنی (فاضل اسلامک یونیورسٹی مدینہ منوّرہ)
امامِ حرم ڈاکٹر الشیخ عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے جمعہ کا خطبہ اس موضوع پر دیا:
’’ اُمّتِ مسلمہ کے فضائل و مناقب‘‘
جس میں انہوں نے اس مبارک امت، اُمّتِ محمدﷺکے فضائل بیان کئے، جو قران کریم اور احادیثِ نبویہﷺ سے ثابت ہیں۔
پہلا خطبہ
حمد و ثناء کے بعد: اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے؛ اور اللہ کے پاس متقی لوگوں کے لئے مزید نعمتیں ہیں، اور قیامت کے دن ان کی نجات کی گارنٹی ہے۔
اے مسلمانو!اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایااور ان کے درمیان فضیلتوں کو تقسیم کردیا؛ آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور انکے احترام کے لئے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ پھر انہیں اور انکی بیوی کو زمین میں اتاردیا، اور انکی اولاد شہروں میں پھیل گئی اور طویل عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔اللہ نے انہیں زمین میں ایک دوسرے پر فضیلتیں عطا کیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا : ترجمہ: اور وہی (اللہ) ہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا۔ (الانعام: 165)
اُمّتِ محمدیہ ﷺ کی فضیلت
اور دیگر امتوں کی بہ نسبت اس امت کو اللہ تعالی نے خاص فضیلت و عزت سے نوازا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ترجمہ: اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے۔ (الحج:78)
جامع ترمذی کی حدیث ہے:أنتم تُتِمُّون سبعين أمَّةً أنتم خيرُها وأكرمُها على الله»؛ رواه الترمذي. ترجمہ: آپ پر ستّر امتیں مکمل ہوچکی ہیں اورآپ لوگ اللہ کے نزدیک سب سے بہترین اور عزت دار ہیں۔
اور قرآن میں بھی اس (امت) کی مدح و تعریف آئی ہے۔اللہ جل جلالہ نے فرمایا:
ترجمہ: ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم نہیں سمجھتے؟ (الانبیاء:10)
ابن عباس رضی اللہ عنھما نے (اس آیت کی تفسیر میں) فرمایا:
تذکرہ کا مطلب ہے تمہارا شرف ( یعنی تمہارا شرف بیان فرمایا ہے)۔
اور اس امت کو بھلائی میں اس لئے دوسری امتوں پرفوقیت حاصل ہے کیونکہ یہ امت دین کی بنیادوں پر قائم ہے۔
بہترین امت کا اعزاز
(كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍأُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ) آل عمران :110
ترجمہ: (مومنو!) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اوراللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
یہ اعزاز اس امت کے پاس اس وقت تک برقرار رہے گاجب تک وہ اسے (دین کو) قائم رکھیں گے اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے والی صفت ان میں باقی رہے گی۔اور اگر انہوں نے منکر کو بدلنے کی بجائے خود اپنا لیا تو یہ اعزاز ان سے خود بخود چھن جائے گا اور بہترین امت کی جگہ بُری امت کا لقب دیا جائے گا اور یہی ان کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔
اسی امت کے مکمل دین اور افضلیت کی وجہ سے اللہ تعالی نے تمام ادیان کومنسوخ کردیا ہے، فرمان الٰہی ہے:
(إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ) آل عمران: 19.
ترجمہ: بیشک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔
اور اللہ اس (دین اسلام) کی جگہ کوئی دوسرا قبول نہیں کرے گا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ) آل عمران: 85
ترجمہ: جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا ۔
دوسری امتیں بھی دینِ اسلام کی پابند ہیںاور تمام لوگوں کو اس (دین) پر چلنے کا حکم دیا ہے،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
والذي نفسُ محمدٍ بيده؛ لا يسمعُ بي أحدٌ من هذه الأمةِ يهوديٌّ ولا نصرانيٌّ ثم يموتُ ولم يُؤمنْ بالذي أُرسِلتُ به إلا كان من أصحابِ النار رواه مسلم.
ترجمہ: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں(میری) محمد ﷺ کی جان ہے؛ اس امت کا کوئی بھی یہودی یا نصرانی میری نبوت کا سن کرمیرے دین پر ایمان لائے بغیر مر جائےگا تو وہ (جہنم کی ) آگ والوں میں سے ہوگا۔ (بروایت مسلم)
اور اللہ نے نبیوں سے یہ وعدہ لیا تھا کہ اگر وہ (محمدﷺ) ان کی زندگی میں آگئے تو وہ سب انکی ہی پیروی کریں گے۔پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
لو أن موسَى كان حيًّا ما وسِعَه إلا أن يتَّبِعَني رواه أحمد.
ترجمہ:اگر موسی علیہ السلام زندہ ہوتے تووہ میری ہی پیروی کرتے۔
اسلام پھیلنے کی خوشخبریاں
اور نبی علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ اسلام کونے کونے میں پھیل جائے گا۔اور فرمایا:
ترجمہ: بیشک اللہ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے مشرق و مغرب کو دیکھا، اور میری امت کی بادشاہت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی(یعنی جہاں تک میں نے زمین کو دیکھا ہے)۔ رواه مسلم
اور اللہ نے روئے زمین پر دین کے پھیلانے کا وعدہ کیا ہے۔
مسند احمد کی حدیث ہے:
ترجمہ: یہ دین ضرور پھیلے گا جہاں تک رات و دن پہنچتے ہیں، اور اللہ تعالی ہر گاؤں اور ہر شہر کے ہر گھر میں اس دین کو داخل فرمائے گا، عزت دار آدمی عزت سے حاصل کرے گا اور رسوا شخص رسوائی سے(یعنی دین کا چاہنے والا عزت اور خوشی سے دین کو اپنائے گا اور دین سے نفرت کرنے والا دین کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائے گا)۔
اور اللہ نے اس امت کے دین کی حفاظت فرمائی اور اس کے غالب کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
امت محمدﷺکے دین کی حفاظت
اور یقینا اللہ نے اس دین کو تبدیلی، تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ کیا ہوا ہے۔
ترجمہ: ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔(الحجر:9)
اور سنت بھی قرآن کی طرح ایک وحی ہے جس کی سند اور روایت کی حفاظت قرآن کی حفاظت میں سے ہے۔
ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے فرمایا:
“لم يكن في أمةٍ من الأُمم منذ خلقَ الله آدمَ أمَّةً يحفَظون آثارَ نبيِّهم وأنسابَ سلَفهم مثلُ هذه الأمة”.
ترجمہ: جب سے اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا ہے اس وقت سے اب تک کوئی امت ایسی نہیں ہے جس نے اس امت کی طرح اپنے نبی ﷺ کے اقوال کو یاد کیا اور اپنے سلف (پچھلے لوگ) کے نسب محفوظ کئے۔
روزِ قیامت امت محمدیہ کے فضائل
ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
ترجمہ: اور اس امت کی برتری اور فضیلت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ یہ امت اپنے نبی محمد ﷺ کی متبع ہے؛ کیونکہ وہ اللہ کی سب سے بہترین مخلوق ہیں، اللہ کے سب سے محبوب رسول ہیں،اور اللہ نے انہیں ایسی مکمل اور عظیم شریعت کے ساتھ بھیجا ہے جو کسی نبی اور رسول کو نہیں دی گئی، اور ان کے طریقے اور راستے پر (کیا ہوا ) تھوڑا عمل بھی دیگر امتوں کے بہت سے اعمال سے افضل ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے:
لا تَزالُ طائفةٌ من أمتي ظاهِرين على الحقِّ، لا يضرُّهم من خذَلَهم حتى يأتي أمرُ الله وهم كذلكِ رواه مسلم.
ترجمہ: میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گی، اور اگر وہ اسی حالت پر قائم ہوں تو ان کی مخالفت کرنے والا بھی انہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے ۔
نبیوں کے بعد علماء کی ذمہ داری
اور اس امت کے علماء انبیاء کے وارث ہیں جو گمراہی پر کبھی اتفاق نہیں کرسکتے، اور ہر ایک صدی میں اللہ ایسے شخص کو بھیجے گا جو دین کو دوبارہ سے زندہ کرے گا۔
نبی علیہ السلام کی حدیث ہے:
إن اللهَ يبعثُ لهذه الأمةِ على رأسِ كلِّ مائةِ سنةٍ من يُجدِّدُ لها دينَها
رواه أبو داود.
ترجمہ: بیشک اللہ اس امت کے لئے ہر صدی کےشروع میں ایک ایسے شخص کو پیدا فرمائے گا جو اس دین کو دوبارہ صاف ستھرا کرے گا۔
امت ِمحمدﷺکی خصوصیات
۱ـ۔ گواہی:
اور یہ امت دوسری امتوں پر گواہ ہے کہ ان کے رسولوں نے انہیں ڈرایا،
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ) البقرہ:143ترجمہ: تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ۔
۲ـ ۔اعتدال:
اور یہ امت سب سے بہترین اور معتدل امت ہے۔
(وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا) البقرة: 143
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک توسط (و اعتدال) والی امت بنایا۔
۳ـ۔ مکمل ترین اصول:
اور اس کے قوانین بھی کامل و مکمل اور عین فطرت کے مطابق ہیں، اور اس کے احکام بھی آسانی فراہم کرنے کی بنیاد پر ہیں،
امت محمد ﷺ کو آسانیاں فراہم کرکے عزت بخشی:
(يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ) البقرة: 185.
ترجمہ: اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے۔
اور پچھلی امتوں کے احکامات میں کافی سختی تھی جبکہ اس امت کے احکامات کو اللہ نےوسیع و آسان کردیا ہے؛
کہیں بھی نماز ادا کرلیں:
فأيُّما رجلٍ أدركَتْه الصلاةُ فعنده مسجدُه وطَهورُه۔
ترجمہ: جہاں کہیں بھی نماز کا ٹائم ہوجائے وہی جگہ اس کے لئے مسجد ہے اور وہیں اس کی طہارت (مٹی سے تیمم کرنا ) ہے۔
اوراس امت کی آسانی کے لئے ہی تیمم اور موزوں پر مسح کی سہولت دی گئی ہے، اور اس کی عبادات بھی پچھلی امتوں کی عبادات سے افضل ہیں، اور نمازوں کی تعداد تو پانچ ہے لیکن اجر پچاس نمازوں کا ملتا ہے، اور انکی صفوں کو فرشتوں کی صفوں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ (فرشتے) اپنے رب کے سامنے پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور بہت پختگی سے صفوں کو درست رکھتے ہیں۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے:
فُضِّلنا على الناسِ بثلاثٍ: جُعِلَت صُفُوفُنا كصُفُوف الملائِكة، وجُعِلَت لنا الأرضُ كلُّها مسجِدًا، وجُعِلَت تُربتُها لنا طهورًا إذا لم نجِد الماء رواه مسلم.
ترجمہ: ہمیں لوگوں پر تین چیزوں کی وجہ سے فضیلت ملی: فرشتوں کی صفوں کی طرح ہمیں صفیں بنانے کا حکم ملا،اور پوری زمین ہمارے لئے مسجد بنادی گئی۔اور اس کی مٹی کو ہمارے لئے پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنادیا اگر پانی نہ ملے تو(مٹی سے تیمم کر لیتے ہیں)۔
کھانے پینے کی چیزیں:
کھانے پینے کی چیزوں میں اللہ نے اس امت کے لئے بہت سی پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں تاکہ اللہ کی اطاعت کرنے میں مدد مل سکے، اور پچھلے لوگوں نے ظلم کیا تھا جس وجہ سے اللہ نے سزا کے طور پر انکی جائز چیزوں کو بھی حرام کردیا تھا،
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ
النساء: 160
ترجمہ: سو یہود کے گناہوں کی وجہ سے ہم نے حرام کیں ان پر بہت سی پاک چیزیں جو ان پر حلال تھیں۔
بوجھ ختم کردیا:
اور اس امت سے اس بوجھ اور طوق کو بھی ہٹادیا جو سابقہ امتوں پر تھا:
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ الأعراف: 157
ترجمہ: اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔
توبہ آسان کردی:
اور سابقہ امت کی توبہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو قتل کیااور اس امت کی توبہ تو صرف اتنی ہے کہ گناہوں پر شرمندہ ہوکر چھوڑ دینا اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔
ظلم کا بدلہ لینے میں اختیار:
اوریہودیوں کے دین میں قتل اور زخم کا بدلہ لینا تورات میں حتمی طور پر تھا اور دیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اور نصاری کے دین میں دیت تھی قصاص نہ تھا۔لیکن اس امت کو اللہ تعالی نے قصاص (بدلہ)، معافی اور دیت میں (کسی ایک کا) اختیار دیا ہے۔ اور فرمایا:
ذٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ البقرة: 178
ترجمہ: یہ پروردگار کی طرف سے (تمہارے لئے) آسانی اور مہربانی ہے۔
مال غنیمت جائز کردیا:
اور مال غنیمت بھی اسی امت کے لئے جائز قرار دیا گیا جو کہ پچھلی امتوں کے لئے حرام تھا۔
فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا الأنفال: 69
ترجمہ: پس جو کچھ حلال اور پاکیزہ غنیمت تم نے حاصل کی ہے، خوب کھاؤ پیو اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ غفور و رحیم ہے۔
اور اس امت کے لئے خطا، بھول اور وہ گناہ جو انتہائی مجبوری میں ہوگیا ہو،سب معاف ہیں اور دلوں کے وسوسہ پر اس وقت تک کوئی گناہ نہیں جب تک کہ وہ اس وسوسہ کے مطابق کوئی گناہ نہ کرے یا اس کی بات نہ کرے۔
بیماری بھی فضیلت کا ذریعہ:
اور اللہ نے پچھلی امتوں پر عذاب اور آزمائش کے لئے بیماریاں دیں جبکہ اس امت کا کوئی فردِ مومن اگر بیماری کی وجہ سے فوت ہوجائے تو وہ شہید ہے۔بخاری و مسلم کی حدیث ہے:
الطاعونُ شهادةٌ لكل مُسلمٍ متفق عليه.
ترجمہ: طاعون ہر مسلمان کی شہادت ہے۔
دوسری امتوں پر رعب:
اگر امت مسلمہ دین کو مضبوطی سے تھام لے تودوسری امتوں پر اس کا ایک رعب بٹھا دیا گیا ہے، جیساکہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
نُصِرتُ بالرُّعبِ مسيرة شهرٍ
ترجمہ: مجھے ایک مہینہ کی مسافت کا رعب عطا کیا گیا۔
امت محمدﷺکو خصوصی ہدایات
اور اس امت کی عزت اور مکمل دین کی وجہ سے عقیدے میں کافروں کی مشابہت سے ممانعت آئی ہے؛ اور قبروں پر عمارت بنانے یا سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے:
ألا وإن من كان قبلَكم كانوا يتَّخِذون قبورَ أنبيائهم وصالحِيهم مساجد، ألا فلا تتَّخِذوا القبورَ مساجد، إني أنهاكُم عن ذلك رواه مسلم.
ترجمہ: خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک شخصیات کی قبروں کو مسجد بنادیا کرتے تھے، خبردار! تم قبروں کو مسجد نہ بنانا، بیشک میں تمہیں اس سے منع کررہا ہوں۔
اور تصویریں بھی منع ہوگئیں۔ جب ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے ایک کنیسہ (نصاری کی عبادت کی جگہ)دیکھا جس میں تصویریں تھیں تو نبی علیہ السلام نے فرمایا:
أولئكِ إذا ماتَ فيهم العبدُ الصالحُ – أو الرجلُ الصالحُ – بنَوا على قبره مسجدًا وصوَّروا فيه تلك الصُّوَر، أولئكِ شِرار الخلقِ عند الله رواه البخاري.
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کا کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں (نیک لوگوں کی) تصویریں بناتے، یہ اللہ کے نزدیک بدترین لوگ تھے۔
اور ظاہری حالت میں بھی دوسری (غیر مسلم) امتوں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے؛ اسی لئے داڑھی کو بڑھانے (لمبا کرنے)کا حکم ہےاور مونچھوں کو مونڈھنے کا، اور انکی عبادت میں بھی مشابہت سے بچنا ہے؛ جیسا کہ اہل کتاب کی مخالفت میں سحری کھانی ہے(اہل کتاب سحری نہیں کرتے تھے)، یہاں تک کہ دیہات اور جانوروں کے معاملے میں بھی انکی مشابہت کرنا منع ہے۔اور اس امت کو صرف دو عیدیں دی گئی ہیں تیسری کوئی عید نہیں۔
امت محمدﷺکے اعزازات
عمر کم اور ثواب زیادہ:
اور امت محمدﷺ کا اس دنیا میں وقت بہت کم ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:
إنما بقاؤُكم فيما سَلَفَ قبلَكم من الأُمم كما بين صلاة العصر إلى غروب الشمس رواه البخاري.
ترجمہ: پچھلی امتوں کے مقابلے میں تمہاری دنیاوی زندگی عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کی طرح (بہت کم ) ہے۔
اور اس امت کے افراد کی زندگی ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہے لیکن بہت بابرکت ہے جس کی مثال نبی علیہ السلام نے بارش سے دی ہے اور فرمایا:
مثَلُ أمتي مثَلُ المطَر رواه الترمذي.
ترجمہ: میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے۔(یعنی: بارش کاپانی ہر جگہ پہنچ جاتا ہے اور اس سے فصلیں مکمل طور پرترو تازہ ہوجاتی ہیں اور یہ بابرکت پانی ہے)۔
ثواب میں اضافہ کی مثالیں
۱ـ۔ وہ فضائل جن کا تعلق اوقات سے ہے:
اور صبح سویرے کے کاموں میں برکت رکھی گئی ہے، اور اللہ نے اس امت کے رات اور دن میں بھی برکت رکھی ہے، اور ایک دن یا رات کے نیک اعمال کا ثواب مہینوں اور سالوں کی عبادت سے افضل کردیا ہے؛ جیسا کہ لیلۃ القدر (صرف ایک رات) کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ عرفہ کا روزہ پچھلے اور اگلے ایک سال کے گناہ معاف کرنے کا سبب بنتا ہے۔اور عاشوراء (دس محرم) کے روزے سے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اور ہر مہینے کے تین روزے (۱۳۔۱۴۔۱۵) پورے سال کے روزوں کے برابر ہیں۔
۲ وہ فضائل جن کا تعلق جگہ سے ہے:
اور اللہ نے اس امت کو بہت مبارک اور فضیلت والے مقامات عطا کر کے بھی عزت بخشی ہے؛ جیسا کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہےاور مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب دوسری مساجد کے مقابلے میں ایک ہزار نمازوں کا برابر ہے۔اور مسجد اقصی میں ایک نماز پانچ سو نمازوں کے برابر ہے۔
۳ نماز باجماعت اور تلاوت قرآن کی فضیلت:
اور چھوٹے چھوٹے اعمال کا ثواب بھی اللہ کے نزدیک بہت زیادہ ہے؛ جیساکہ اگر کوئی شخص عشاء کی نماز باجماعت پڑھتا ہے تو اس کا ثواب آدھی رات کے قیام کے برابر ہےاور اگر اس کے ساتھ فجر بھی باجماعت ادا کرتا ہے تا اس کی فضیلت پوری رات کے قیام کی طرح ہے۔اور جو قرآن کا ایک حرف پڑھتا ہے اسے ہر حرف ہر نیکی ملتی ہے۔
۴ زبانی عبادت کے فضائل:
ومن قال: سبحان الله وبحمده مائةَ مرَّة؛ حُطَّت عنه خطاياه وإن كانت مثلَ زبَد البحر ومن قال: سبحان الله العظيم وبحمده غُرِسَت له نخلةٌ في الجنة
اور جو شخص ’سبحان الله وبحمده‘ سو مرتبہ کہے تواس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔اور جو شخص یہ کہتا ہے :سبحان الله العظيم و بحمده تو اس کے لئے جنت میں کھجور کا درخت لگادیا جاتا ہے۔
اور جو شخص سو مرتبہ سبحان اللہ کہے: اس کے لئے ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں یا ایک ہزار گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔اور جو شخص ایک دن اور رات میں بارہ رکعت (سنت) پڑھتا ہے اس کے لئےجنت میں ایک گھر بنادیا جاتا ہے۔
مزید انعامات
۱ـ جمعہ کا دن:
اس امت کو بھلائی کے بہت زیادہ مواقع فراہم کئے گئے ہیں؛ سب سے افضل ترین دن اسی امت کو عطا کیا گیا، نبی ﷺ نے فرمایا:
ھدينا إلى الجُمعة وأضلَّ الله عنها من كان قبلَنا رواه مسلم.
ترجمہ: ہمیں جمعہ کا دن عطا کیا گیا اور اللہ نے پچھلی امتوں کو اس دن کے حاصل کرنے کا شرف نہیں بخشا۔
۲،۳ـ سلام اور اٰمین:
اور سلام کا لفظ بھی اجرِ عظیم کے ساتھ اسی امت کو عطا کیا گیاجبکہ دوسری امتیں اس سے محروم رہیں۔اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:
ما حسَدَتكم اليهودُ على شيءٍ ما حسَدَتكم على السلام والتأمين
ترجمہ: یہودیوں کو تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں ہوتا جتنا سلام اور آمین پر ہوتا ہے۔
۴ـ دُگنا اجر:
اور اس امت کے اجر کو بھی ڈبل (دُہرا) کردیا گیا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ الحديد: 28
ترجمہ: اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا۔
نبی علیہ السلام نے فرمایا:
لكمُ الأجرُ مرتين. فغضِبَت اليهودُ والنصارى، فقالوا: نحن أكثرُ عملاً وأقلُّ عطاءً! قال الله: هل ظلمتُكم من حقِّكم شيئًا؟. قالوا: لا، قال: فإنه فضلِي، أُعطِيه من شِئتُ رواه البخاري.
ترجمہ: تمہارے لئے دُگنا اجر ہے تو یہود و نصاری غصہ ہوگئے، اور کہنے لگے: ہمارا عمل زیادہ ہے اور ثواب کم! اللہ نے فرمایا: کیا تمہارے حق میں کوئی کمی کی گئی ہے؟ کہنے لگے: نہیں ، اللہ نے فرمایا: یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں عطا کروں۔
۵ ـ پچاس صحابہ کا اجر:
اور آخری زمانے میں اس دین پر چلنے والے کا ثواب پچاس صحابہ کے اجر کے برابر ہے، اور صحابہ کا اجر تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔اور فتنہ کے دور میں عبادت کا ثواب نبی ﷺ کی ہجرت کے برابر ہے۔
۶ـ دوسری امتوں پر برتری:
اور ہماری امت کے فضائل دوسری امتوں کے درمیان اس طرح بھی واضح ہوتے ہیں کہ امت محمدیہﷺ دوسری امتوں کو اپنے بہترین دین کی دعوت دیتی ہے۔
اور جس طرح اللہ نے اس امت کو دین کے ذریعہ عزت دی ہے اسی طرح دنیا میں رزق کے بھی ایسے مواقع فراہم کئے جو دوسری امتوں کو عطا نہ کئے گئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وأُعطِيتُ الكَنزَيْن: الأحمر والأبيض – أي: الذهب والفِضة رواه مسلم.
ترجمہ: مجھے دو خزانے دیئے گئے: ایک لال اور دوسرا سفید۔ یعنی سونا اور چاندی۔
اور صحیح بخاری کی حدیث ہے:
فبينما أنا نائمٌ أُوتِيتُ بمفاتيح خزائن الأرض فوُضِعَت في يدي رواه البخاري.
ترجمہ: میں سورہا تھا مجھے زمین کے خزانے عطا کئے گئے اور میرے ہاتھوں میں رکھے گئے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“وقد ذهبَ رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم – وأنتم تمتثِلُونَها”؛ أي: تستخرِجون ما فيها من الخيرات والكُنوز.
ترجمہ: اللہ کے رسولﷺ تو دنیا سے رخصت ہوگئے اور تم ان خزانوں کونکال کو استعمال کررہے ہو۔
۷ـ بیک وقت پوری امت پر عذاب نہیں آئے گا:
اور اللہ نے اپنے فضل سے ہی اس اکٹھی امت کو(ایک ساتھ) بہت سی ہلاکتوں سے بچایا ہے جن کی وجہ سے دوسری امتیں ہلاک ہوگئیں؛ بھوک کی وجہ سے، غرق ہونے کی وجہ سے، تیز ہوا کی آندھی کی وجہ سے، زمین میں دھنس جانے کی وجہ سے اور چیخ (وغیرہ) کی وجہ سے۔ (مطلب یہ ہے کہ اس امت پر ایک وقت میں ایسا عذاب نہیں آتا جو پوری امت کو تباہ کردے۔
دو خوشخبریاں اور ایک غم
فرمان نبوی ہے:
سألتُ ربي ثلاثًا فأعطاني ثِنتَيْن ومنَعَني واحدةً؛ سألتُ ربي ألا يُهلِكَ أمتي بالسَّنَة – أي: بالجُوع – قأعطانِيها، وسألتُه ألا يُهلِكَ أمتي بالغرَق فأعطانِيها، وسألتُه ألا يجعلَ بأسَهم بينهم فمنَعنيها رواه مسلم.
ترجمہ: میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگٰیں تو اس نے مجھے دو تو دیدیں لیکن تیسری سے انکار کردیا؛ ایک دعا میں نے یہ مانگی کہ میری امت کو بھوک سے ہلاک نہ کرنا تو یہ قبول ہوگئی۔ اور دوسری دعا یہ مانگی کہ میری امت کو غرق کرکے ہلاک نہ کرے تو یہ بھی قبول ہوگئی۔ اور تیسری دعا جو قبول نہ ہوئی وہ یہ تھی کہ امت کے افراد کے درمیان لڑائی جھگڑے نہ ہوں۔
مزید سہولتیں
اور اللہ نے اپنے نبیﷺ کو یہ سہولت دی کہ ان پران کے علاوہ دشمنوں کو مسلط نہیں کرے گا اگرچہ وہ پوری دنیا سے اکٹھے ہوکر آجائیں۔اور اللہ نے امت محمدﷺ کو عذاب سے بچنے کے دو اَمان(حفاظت کا ذریعہ) دیں؛ ایک اَمان نبیﷺ کی حیات طیبہ ہے لیکن یہ امان نبی ﷺ کی وفات کی وجہ سے ختم ہوگئی۔ اور دوسری امان اللہ تعالی سے استغفار(بخشش کی دعا) ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ الأنفال 33.
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں ۔
فوت ہونے کے بعد بھی فضیلت
اور اس امت کو زندگی میں عزت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ فوت ہونے کے بعد بھی عزت ملی؛ اسی لئے ہمارے لئے لحد ہے اور دوسروں کے لئے گڑھا۔
قیامت کے دن امت محمدﷺ پر انتہائی قیمتی انعامات
۱ـ اور قیامت میں سب سے پہلے ہمارے نبی ﷺ ہی قبر سے نکلیں گے۔
۲ ـ اور وہی پہلی شفاعت والے ہیں اور سب سے پہلے انہی کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
۳ـ اور قیامت کے میدان میں تمام امتوں کے درمیان ہی اس امت کو پہچان لیا جائے گاکیونکہ اس کے وضوء کے اعضاء چمک رہے ہوں گے۔
نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:
إن أمتي يُدعَون يوم القيامة غُرًّا مُحجَّلين من آثار الوضوء رواه البخاري
ترجمہ: بیشک میری امت کو قیامت کے دن اس حال میں بلایا جائے گا کہ ان کے پانچ اعضاء (چہرہ، دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں) وضوء کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے۔
ـ اور ہر نبی کو ایک دعا کا موقع دیا گیا کہ جو مانگیں گے قبول ہوگا، ہمارے نبی ﷺ نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کے لئے بچاکر رکھا ہے۔
صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے:
لكل نبيٍّ دعوةٌ مُستجابةٌ، فتعجَّل كلُّ نبيٍّ دعوتَه، وإني اختبأتُ دعوتي شفاعةً لأُمَّتي يوم القيامة، فهي نائلةٌ – إن شاء الله – من مات لا يُشرِكُ بالله شيئًا متفق عليه.
ترجمہ: ہر نبی کو ایک قبول ہونے والی دعا کااختیار دیا گیا، اور ہر نبی نے وہ دعا دنیا میں ہی مانگ لی، لیکن میں نے اپنی دعا کوقیامت والے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے بچاکر رکھا ہے، اور یہ إن شاء اللہ ہر اس شخص کو حاصل ہوگی جو اس حالت میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو۔
۵ـ اور سب سے پہلے امت محمدﷺ ہی پل صراط سے گزرے گی۔
اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:
ويُضربُ الصِّراطُ بين ظهرَي جهنَّم، فأكونُ أنا وأمتي أولَ من يُجيزُ رواه مسلم.
ترجمہ: اور پُل صراط کو جہنم کے اوپر درمیان میں رکھا جائے گا، اور میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو پار کریں گے۔
۶ ہم آخری امت ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے ہوں گے۔
۷ ـ اور ہمارے نبی ﷺ ہی سب سے پہلے جنت کادروازہ کھلوائیں گے۔
صحیح مسلم میں ہے:
آتِي بابَ الجنة يوم القيامة فأستفتِحُ – أي: أطلبُ فتحَه -، فيقول الخازِنُ: من أنت؟ فأقول: محمد. فيقول: بك أُمِرتُ، لا أفتحُ لأحدٍ قبلَكَ رواه مسلم.
ترجمہ: قیامت کے دن میں جنت کے دروازے پر آکر کھلواؤں گا ـ یعنی اس کو کھولنے کو کہوں گا ـ توخازن (جنت کے دروازے کا پہرہ دار) کہےگا ۔کہ آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا: محمدﷺ۔ تو وہ کہے گا کہ آپ کےلئے ہی مجھے (سب سے پہلےدروازہ کھولنےکا) حکم دیا گیا ہے، اور آپ سے پہلے سب کے لئےمنع ہے۔
۸ ـ اور سب سے پہلے امت محمدﷺ ہی جنت میں جائے گی۔
۹ ـ اور وہی سب سے زیادہ جنتی ہوں گے، ان کی اسّی (۸۰) صفیں ہوں گی، اور دیگر تمام امتوں کی کل چالیس صفیں ہوں گی۔
حدیث میں آتا ہے:
أهلُ الجنة عشرُون ومائةُ صفٍّ، وهذه الأمةُ من ذلك ثمانُون صفًّا۔رواه أحمد. وفيهم سَبعون ألفًا يدخُلون الجنةَ بغير حسابٍ ولا عذابٍ متفق عليه. قال – عليه الصلاة والسلام : فاستزَدتُّ ربي – عز وجل – فزادَني مع كلِّ واحدٍ سبعين ألفًا؛ رواہ احمد.
ترجمہ: اہل جنت کی ایک سو بیس120 صفیں ہوں گی، جن میں سے اَسّی 80صفیں اس امت کی ہوں گی(مسنداحمد)۔
۱۰ـ اور ان میں ستر ہزار افراد ایسے ہوں گے جو بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے(بخاری و مسلم)۔
نبی علیہ السلام نے فرمایا:
میں نے اپنے رب سے اور زیادہ کی دعا کی تو اس نے میرے لئے ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار افراد کا اضافہ فرمادیا(مسند احمد)۔
اے مسلمانو! اس امت کے مومن کی بڑی فضیلت، عزت اور شرف ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔اسی کے لئے لائق ہے کہ وہ اپنے دین پر فخر کرے، اور اسے مضبوطی سے تھامے، اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے، اور اہل باطل کی مشابہت سے بچے، اور اس امت کا فرد ہونے پر اللہ کا شکر کرے، اور مزید نیکیاں کرتا رہے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم:
(قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ) الأنعام: 161.
ترجمہ: آپ کہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتایا ہے کہ وہ دین مستحکم ہے جو طریقہ ابراہیم (علیہ السلام) کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔
اللہ مجھے اور آپ کو قرآن عظیم میں برکت عطا فرمائے، اور اس کی آیات اور حکمت والی نصیحتوں سے ہم سب کو فائدہ پہنچائے۔ میں اپنی بات یہاں ختم کرتا ہوں اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر گناہ کی مغفرت مانگتا ہوں، آپ سب بھی مغفرت کی دعا کریں۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *