موجودہ مسلم ریاستیں اور خلافت اسلامیہ

(اس مضمون میں ہم خلافت اور موجودہ مسلم ریاستوں کے بنیادی فرق پر روشنی ڈالیں گے، جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں خیر القرون کی خلافت تو کجا خلافتِ عثمانیہ اور دورِ مغلیہ کے ہم پلہ بھی نہیں۔)
دراصل ریاستوں کی یہ غیر اسلامی تشکیل ہی امت کے اتحاد میں سب سے بڑا روڑا ہے۔ ادارہ

اول:قومی بمقابلہ اسلامی ریاست
خلافت اور موجودہ ریاستوں کا پہلا فرق یہ ہے کہ ہم نے قومی ریاستیں قائم کر لی ہیں،جبکہ پہلے کبھی ایسا ہوا نہ تھا۔قوم کا مطلب ہے:ایک مخصوص جغرافیائی حدود کی بنا پر اپنا تشخص تلاش کر نا،جیسے پاکستانی، عراقی، ایرانی وغیرہ۔ یہ ویزے اور سفارتخانوںembassies کی بھر مار اس قوم پرستانہ تصورِ تشخص کا نتیجہ ہے۔ قوم پرستی کی چند بنیادی صفات ہیں:
1۔ ان کی بنیاد نفرت ہوتی ہے یعنی قوم پرستی اپنی قوم کے علاوہ دوسروں کو اپنا حریف سمجھنے کا تقاضا کرتی ہے۔
2۔ خیر و شر کو قومی پیمانوں پر طے کیا جاتا ہے یعنی خیر اس شئے کو سمجھا جاتاہے جو کہ ایک مخصوص جغرافیے میں رہنے والے افراد کے لیے بہتر ہو جیسا کہ موجودہ جہاد افغانستان کے وقت ہماری حکومت نے’سب سے پہلے پاکستان‘ کے نعرے میں کیا۔
3۔قوم ہمیشہ اپنے لئے جیتی ہے،اس کا مطمح نظر مادی ترقی اور حصول طاقت کے ذریعے صرف ایک مخصوص علاقے کے لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنا ہوتا ہے،اسی معنی میں قومی ریاست سرمایہ دارانہ ریاست ہوتی ہے جس کا مقصد افراد کی آزادی یعنی سرمائے میں لا متناہی اضافہ کرنا ہوتا ہے۔خیال رہے کہ قوم پر ستی سرمایہ داری کی مختلف تعبیرات میں سے ایک تعبیر ہی ہے۔
4۔قوم کے پاس مادی ترقی و خوش حالی کے علاوہ نوعِ انسانی کی فلاح و ہدایت کا کوئی دوسرا لائحہ عمل نہیں ہوتا۔سرمائے کی بڑھوتری ہی وہ واحد خیر ہے جسے قوم خود بھی اپناتی ہے اور دوسروں کو بھی اسکی دعوت دیتی ہے۔
5۔قومیت کبھی جغرافیائی حدود پار نہیں کر سکتی یعنی قوم پرستانہ نظریہ کے لئے کسی دوسرے علاقے کے رہنے والے لوگوں کو اپنی شناخت میں سمو لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
6۔اس لئے قومی ریاست ہمیشہ استعماری ریاست ہوتی ہے جس کا مقصد دوسروں کو مغلوب کرنا ہوتا ہے یعنی ایک قوم پرست کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی قوم باقی سب قوموں پر غالب آجائے اور انہیں محکوم بنا کر رکھے، لہذٰا ہر وہ کام ’خیر‘کہلاتا ہے جو قوم کے غلبے کا باعث بنے۔ قومیت کا یہ تشخص اور اس کا استحکام اُمت کے اس بنیادی تصور ہی کے خلاف ہے جہاں جغرافیائی حدود بے معنی ہیں اور جس کے مطابق اسے اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے جینا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(سورۃ الِ عمران: 110)
’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہو‘۔
یعنی امتِ مسلمہ کا مقصد بنی نوعِ آدم کی اصلاح ہے۔اس تصور ملت میں صرف دو ہی گروہ ہیں،ایک امت اجابت اور دوسری اُمت دعوت۔ گویا یہاں اُمت مسلمہ کا تعلق ملتِ کفر کے ساتھ نفرت کے اُصول پر نہیں بلکہ دعوت و اصلاح کے اُصول پر استوار ہے اور اگر کسی وجہ سے ملت کفر کے ساتھ لڑائی و دشمنی کا معاملہ ہے بھی تو اس لئے نہیں کہ دنیا کے مال و متاع پر قبضہ کرنے کے نتیجے میں وہ ہم سے آگے نکل گئے ہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ وہ حق کی اس دعوت کے پھیلاؤ میں مزاحمت اور دنیا میں فتنہ کا سبب بن رہے ہیں جو انسانوں کے خالق نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے۔ تصورِ قومیت اور اُمت کبھی ایک ساتھ پنپ نہیں سکتے، کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں،اوّل الذکر کی بنیاد نفرت جبکہ مؤخر الذکر کی محبت پر ہے۔اسلامی ریاست استعماری نہیں بلکہ جہادی ہوتی ہے جہاں ریاست کی توسیع کا مقصد دوسروں کو محکوم بنانا نہیں بلکہ دعوت و تبلیغ اسلام کے مواقع پیدا کرکے دوسروں کو اُمتِ مسلمہ میں شامل کرنا ہوتا ہے اور اس تسخیر قلوب کے مقصد کے لئے طاقت سے بڑھ کر کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلامی خلافتیں ہمیشہ جہادی رہی ہیں یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ و مغلیہ بھی جہادی ریاستیں ہی تھیں جن میں پھیلاؤ آتا رہا۔مثلاً خلافتِ عثمانیہ عثمان خاں کے دور ۱۲۸۸ء میں صرف ساڑھے سات ہزار مربع میل سے شروع ہو کر محمد فاتح کے دور ۱۴۸۱ء تک ایک لاکھ مربع میل سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ آخر دور میں ہم نے ریاست کی توسیع کو اسلام میں اصلاح فرد اور تعمیر معاشرت کے کام سے کاٹ دیا تھا اور یہی ہمارے زوال کی اصل وجہ تھی۔کیونکہ اس کی وجہ سے دائرۂ اسلام میں شامل ہونے والے غیر مسلمین کی تعداد کم سے کم تر ہوتی چلی گئی جس سے اسلامی شخصیت اور معاشرت غیر مانوس ہو گئے اور نتیجتاً ہماری ریاست افراد کو اجنبی اور جبر لگنے لگی جس کے زوال پر وہ خوشی محسوس کرتے۔
دوم:نمائندگئِ عوام اور نیابتِ رسولﷺ
موجودہ عوامی ریاستوں میں عوام کو رعایا کی بجائےcitizens یعنی اصل حاکم autonomousمانا جاتا ہے اور ریاست و حکومت محض عوام کی سوچ اور خواہشات کو پورا کرنے کے لئے عوام کی نمائندگی کا نام ہے یعنی حکومت چلانے والے افراد عوامی نمائندےrepresentatives ہوتے ہیں جن کا مقصد حصول لذ ت کی ذہنیت کا عموم اور عوام کی خواہشات کی تسکین کے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے ہوتے ہیں۔یہی عوامی نمائندگی جمہوریت کی حقیقت ہے جہاں مفادات ہی وہ پیمانہ ہیں جس پر ریاست و جمہور کے تعلق کو پرکھا جاتا ہے۔ حاکم و محکوم کے درمیان یہی رشتہ ہے،قیادت اور عوام کے مابین یہی میثاقِ وفا ہے۔جو اسے پورا کرے اس کی حمایت کی جاتی ہے اور جو عوام کی جھولی کو مراعات و سہولیات سے نہ بھر سکے،اس کا عمل قابل اتباع نہیں ہوتا۔ سارا جمہوری فلسفہ،اس چھتری کے تحت قائم ادارے اور این جی اوز وغیرہ اسی عقیدے کے فروغ کا وسیلہ ہیں۔ جمہوریت کا معنی ہی یہ ہے کہ فیصلے عوام کی مرضی اور خواہشات کی بنا پر ہونے چاہئیں، گویا اس کا مطلب خیر و شر کا منبع انسانی خواہشات کو مان لینا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی ریاست میں عوام رعایاsubject ہوتے ہیں اور خلیفہ عوام الناس کا نہیں بلکہ رسول اللہﷺکا سیاسی نائب ہوتا ہے جس کی ذمہ داری عوام الناس کی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کی ذہنیت عام کرنا ہوتا ہے،نہ یہ کہ خود عوام کی خواہشات کے پیچھے چلنا۔ اسی معنی جو ریاست جتنی زیادہ جمہوری ہوتی ہے،اتنی ہی غیر اسلامی ہوتی ہے گویا کہ جمہوریت میں پیری مریدی کا تعلق ہی الٹ جاتا ہے،یہاں عوام بجائے مرید کے پیر(فیصلہ کرنے اور ہدایت دینے والے)بن جاتے ہیں اور حاکم جس کا کام لوگوں کی رشد و ہدایت کا انتطام کرنا ہوتا ہے،اس معنی میں مرید بن جاتا ہے کہ ہر کام سے پہلے عوام الناس کی خواہشات کی طرف دیکھتا ہے۔ لوگوں نے ووٹ کو بیعت کا متبادل سمجھ لیا ہے حالانکہ ووٹ تو بیعت کی عین ضد ہے۔ بیعت کا مطلب حصول ہدایت کے لئے عوام کا اپنے نفس کو کسی بلند تر ہستی کے سپرد کر دینا ہے جبکہ ووٹ کا معنی عوام کی حکمرانی قبول کرکے حاکم کا خود کو ان کے نفس کے سپرد کر دینا ہے۔ علم اسلامی میں خیر و شر کی تعیین عوام کی خواہشات اور اس کی کثرت کی کوئی شرعی حیثیت ہے ہی نہیں بلکہ خلافت میں فیصلے اس بنیاد پر ہوتے ہیں کہ کسی معاملے میں شارع کی منشاء و رضا حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے اور ظاہر ہے،یہ طے کرنے والے علماء ہی ہوتے ہیں جو درحقیقت قرآن و سنت کا علم رکھتے ہیں۔چنانچہ نمائندگئِ عوام کا (یہ)تصور نہ تو کبھی کسی اسلامی ریاست بشمول خلافتِ راشدہ میں ہی ملتا ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات میں اس کا کوئی ذکر ہے۔ دوسرے لفظوں میں عوام النّاس کی حاکمیت اور نمائندگی کے تصورات بدعات سیئہ ہیں۔
سوم:سوشل سائنسز بمقابلہ علومِ شرعیہ کی بالا دستی
اسلامی ریاست کے قیام کا خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسلامی علوم(یعنی علم کتاب و سنت،فقہ اور زہد و تقوی) کا معاشرتی غلبہ قائم نہ ہوجائے،کیونکہ نظام علم ہی ریاستی حکمتِ عملی اور اسے نافذ کرنے والے افراد مہیا کرتا ہے۔ہر نظام علمیت معاشرے میں تین بنیادی مقاصد انجام دیتا ہے۔
1۔ غالب علمی و ثقافتی ورثے کو اس طرح اگلی نسل تک منتقل کرنا کہ اسے حاصل کئے بغیر معاشرے میں کامیاب زندگی کا تصور ناممکن ہو جائے۔
2۔افراد کو چند مخصوص مقاصد زندگی اور معاشرتی اقدار بطور مقصدِ حیات قبول کرنے پر تیار کرکے معاشرے میں فکری ہم آہنگی پیدا کرنا۔
3۔افراد کے تعلقات کے نیتجے میں قائم شدہ معاشرے اور ریاست کو پیش آمدہ مسائل حل کرنے کے لئے حکمت عملی اور عملی جامہ پہنانے کے لئے اس علمیت کے حامل باصلاحیت افراد فراہم کرنا۔چنانچہ کوئی معاشرہ و ریاست تبھی اسلامی بن سکتی ہے کہ جب اس کی غالب علمیت سائنس (بشمول نیچرل و سوشل سائنسز) نہیں بلکہ اسلامی علمیت ہو،کیونکہ جب تک اسلامی علمیت غالب نہیں ہو گی،معاشرتی فیصلوں اور ریاستی حکمتِ عملی کی اسلامی بنیاد فراہم نہیں کی جاسکتی۔
اسلامی علمیت درحقیقت کتاب و سنت،عقیدہ و فقہ اور زہد و تقوی کی صورت میں متشکل ہو کر سامنے آتی ہے۔
مثلاً فقہ اسلامی کا مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ نصوص سے وہ مسائل اخذ کرنا ہے جس کی روشنی میں یہ طے کیا جاسکے کہ ان گنت انسانی اعمال و افعال سے رضائے الہیٰ کے حصول کا بہترین طریقہ کیا ہے۔نیز یہ معلوم کیا جا سکے کہ افراد کے تعلقات کو کن ضروری بندشوں کا پابند بنا کر معاشرے کو احکامات الہیٰ کے تابع کیا جا سکتا ہے۔بالکل اسی طرح مغربی سوشل سائنسز کا دائرہ کار سرمایہ دارانہ معاشرے و ریاست کا جواز،اس کے امکانِ قیام کے لئے ضروری حالات کی نشاندہی و ریاستی لائحہ عمل کی ترتیب و تنظیم کرنا ہے۔
جدید سوشل سائنسز کا مقصد ایک طرف سرمایہ دارانہ شخصیت،معاشرے و ریاست کی علمی توجیہ پیش کرنا ہے اور دوسری طرف یہ افراد کے تعلقات میں آزادی کی ان لازمی حدود کا تعین کرنے کے اصول وضع کرتی ہیں جس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معاشرتی و ریاستی صف بندی وجود میں آسکے۔دوسرے لفظوں میں سوشل سائنسز کا دائرہ عمل ایک ایسے نئے دستور،نئے قانون اور نئے معاشرتی نظام و سیاسی ڈھانچے کا قیام ہے جسے الہامی اور آسمانی قانون سے کوئی واسطہ یارابطہ نہ ہو۔جہاں کوئی رعایا نہ ہو بلکہ سب شہریcitizens ہوں۔
اس پسِ منظر میں اسلامی تاریخ اور موجودہ ریاستوں پر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ہماری پوری تاریخ میں جو علمیت غالب رہی،وہ اسلامی علمیت تھی جس کا ایک مظہر موجودہ درسِ نظامی ہے۔جو درحقیقت سلطنتِ مغلیہ میں ایک طرح کا ’سول سرونٹ کورس‘تھا۔ چنانچہ ہماری تاریخ میں اسلامی علمیت کی بنیاد پر ریاستی حکمتِ عملی وضع کی جاتی تھی،گویا کہ اس حکمتِ عملی میں حکمران اپنے بعض ذاتی مفادات کو بھی شامل کردیتے تھے۔
اس کی مثال بالکل اس طرح ہے جیسے دور حاضر میں ریاستی حکمتِ عملی سوشل سائنسز بالخصوص علمِ معاشیات کے اصولوں سے طے کی جاتی ہے اور حکمران طبقہ اس حکمتِ عملی کے اندر رہتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنے مفادات کا بھی تحفظ کرتا ہے۔سب دیکھ سکتے ہیں کہ جوں جوں سائنسی علمیت(مادہ پرستانہ اِفادیت) کو عروج حاصل ہوتا ہے،اسی رفتار سے اسلامی علمیت معاشروں میں بے معنی ہوتی چلی جاتی ہے۔
سائنسی علم کا معنی لامحدود انسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے کائنات پر ارادہ انسانی کا تسلط قائم کرنا ہے۔سائنسی علم کے مطابق’علم‘رضائے الہیٰ کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں،بلکہ تسخیر کائنات یا بہ الفاظ دیگر انسانی ارادے کے کائناتی قوتوں پر تسلط قائم کرنے کا طریقہ جان لینے کا نام ہے اور سائنسی علمیت اس جاہلانہ ذہنیت و جنون کو پروان چڑھاتی ہے کہ انسانی عقل کو استعمال کرکے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اُٹھانا نیز انسانی ارادے کو خود اس کے اپنے سوا ہر بالاتر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے۔دوسرے لفظوں میں سائنسی علمیت کا مقصد انسان کو خود اپنا خدا بننے کا مکلف بنانا ہے۔یہ تصور علم ایک ایسی شخصیت کا علمی جواز فراہم کرتا ہے جو انبیائے کرام کی تعلیمات سے کوسوں دور اور اخلاقِ رذیلہ سے متصف ہونے کے باوجود بھی معاشرے میں ایک باعزت علمی مقام پر فائز ہو سکتی ہے۔یہ علمیت ایسا ریاستی لائحہ عمل فراہم کرتی ہے جس میں فیصلوں کی بنیاد شارع کی رضا کی بجائے لوگوں کی خواہشات ہوتی ہے۔ چونکہ موجودہ مسلم ریاستوں میں غالب علمیت یہی جاہلی علمیت ہے،لہذا یہ کسی بھی معنی میں اسلامی خلافت کے ہم پلہ نہیں ہیں بلکہ جیسے جیسے ہمارے ممالک اس علمیت کے شکنجے میں پھنستے چلے جا رہے ہیں،اتنا ہی زیادہ یہ استعمار کے وفادار اور طاغوتی نظام کے حامی و ناصر بنتے جارہے ہیں۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *