اختلافات اورفرقہ واریت

رسول اوراصحاب رسول کازمانہ پوری انسانی تاریخ میں سب سےاشرف ترین زمانہ تھا۔اہل ایمان صدق وصفاکےپیکرتھے۔ہرطرف برکت ورحمت کاسماں تھا،اطاعت واتباع کےنایاب گوہر ہر طرف بکھرےہوئےتھے۔ہرسطح پرغلبۂ دین کےحسین مناظرجلوہ افروزتھے۔فراست دینی اور حلاوت ایمانی سےسرشاروہ ایسےبےمثال خوش قسمت افرادتھےجورضی اللہ عنہ ورضواعنہ کے سرٹیفیکٹ سےنوازےگئے۔اوران کےایمان کودوسروں کےلیےنمونہ بنادیاگيا۔تاہم جلدہی ہمہ گیریت کے یہ نادرنمونےرخصت ہونےلگےاورجامعیت میں اضمحلال رونماہونےلگا،لوگوں نے دھیرے دھیرےنفسانی خواہشات کی پیروی کرنی شروع کردی۔اوربتدریج زوال وانحطاط کاعمل شروع ہوگیا۔اسی نوعیت کی ایک اہم ترین بات مذکورہ احادیث میں بیان کی گئی ہے۔
عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ مَا أَعْرِفُ شَيْئًا الْيَوْمَ مِمَّا كُنَّا عَلَيْهِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْنَا لَهُ فَأَيْنَ الصَّلَاةُ قَالَ أَوَلَمْ تَصْنَعُوا فِي الصَّلَاةِ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ(مسنداحمد،ترمذی)
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےدورباسعادت میں جوکچھ کرتےتھے،آج ان میں سےکچھ بھی نظر نہیں آتا،لوگوں نےکہاکہ نمازکہاں گئی؟(نمازتوہم پڑھتےہیں)توحضرت انس نےفرمایاکہ یہ تم بھی جانتےہوکہ تم نمازمیں کیاکرتےہو۔
عن الحارث بن سويد حدثنا عبد الله بن مسعود حديثين أحدهما عن النبي صلى الله عليه و سلم والآخر عن نفسه قال: إن المؤمن يرى ذنوبه كأنه قاعد تحت جبل يخاف أن يقع عليه وإن الفاجر يرى ذنوبه كذباب مر على أنفه فقال به هكذا .(بخاری)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ روایت کرتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ بلاشبہ مومن اپنےگناہ کواس طرح دیکھتاہےجیسےکہ وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈر رہا ہےکہ کہیں وہ پہاڑاس پرگرنہ جائےاورفاجرآدمی اپنےگناہ کومکھی کی طرح سمجھتاہےجواس کےناک پر سے گذری توہاتھ ہلادیا۔
عن الزبير بن عدي قال : أتينا أنس بن مالك فشكونا إليه ما يلقون من الحجاج فقال اصبروا فإنه لا يأتي عليكم زمان إلا الذي بعده شر منه حتى تلقوا ربكم سمعته من نبيكم صلى الله عليه و سلم (بخاری)
ترجمہ:حضرت زبیربن عدی کہتےہیں کہ ہم صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کےپاس آئےاورحجاج کےظلم وستم کی شکایت کی توانہوں نےفرمایاکہ صبرکروکیونکہ تم پرجوبھی زمانہ آئےگابعدوالازمانہ اس سےبراہی ہوگایہاں تک کہ تم لوگ اپنےرب سےجاملو،میں نے تمہارےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےایساہی سناہے۔
یہ پیشن گوئی مرورایام کےساتھ روبہ عروج ہونےلگي،اطاعت واتباع کی کمیاں اورخام اذہان کی کونپلوں نےفکری ونظریاتی اختلافات وانتشارکے بازارسجادیے،اوریہ معاملہ شدید سے شدید تر ہوتاگیا۔اخوت دینی اورباہمی ربط وضبط کےمسلمات لوگوں کوحقیرنظرآنے لگے،مشتبہات میں ان کے خودساختہ استنباط اوراجتہادات معیارحق کی سطح پرپہنچ گئے۔ہرممکنہ طریقےسےایک دوسرےکونیچا دکھانےکی کوششیں ہونےلگیں اوراتحاد اسلامی کامسلمہ ایک خواب پریشاں بن گیا۔ہرکسی نےالفاظ کےکچھ مجموعوں کوپکڑااوردعووں کاہمالیہ پہاڑکھڑاکردیا۔ہدایت کی وہ کنہ ہی پس پردہ چلی گئی جوخوف وامیدکےمابین رہاکرتی تھی ۔بعدکی تاریخ میں یہ معاملہ مزیدغلط فاحش میں اضافہ کرتاگیا۔یہاں تک کہ ہدایت مجردالفاظ وعقیدہ میں سمیٹ دی گئی اوراس کےمخالفین کےسلسلےمیں سارےحدودپس پشت ڈال دیےگئےاوردین سامان ہدایت کےبجائےسامان بحث وتمحیص بن گیا۔
عن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ۔۔۔۔۔وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي(ترمذی)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ۔۔۔۔۔بنی اسرائيل بہترگروہوں میںبٹےاورمیری امت تہترگروہوں میں بٹ جائےگی سب کےسب جہنم میں جائیں گےسوائےایک کے،صحابہ نےعرض کیاکہ وہ ایک گروہ کون ساہوگا؟آپ نےفرمایاکہ جومیرےاورمیرےصحابہ کےطریقہ پرہوگا۔(ترمذی،مسنداحمد)
اس حدیث کوبخاری ومسلم نےاپنی صحیح میں ذکرنہیں کیاہے۔لیکن دوسرےحضرات نےکئی طرق سےاس کوروایت کیاہے۔امام ترمذیؒ،امام احمدؒ،امام حاکمؒ اورامام ابن تیمیہؒ وغیرہ نےاس کی تحسین کی ہے۔جبکہ اما م ابن حزمؒ نےاس حدیث کوموضوع قراردیاہےاورابن الوزیرنےاس کی تضعیف کی ہے۔
علامہ ابن تیمیہ نےلکھاہےکہ:
جب مومن کہتاہےکہ : رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ اے ہمارے رب ! ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں(الحشر:10۔)تووہ ان سب کاارادہ کرتاہےجواس سےپہلےصاحب ایمان گذرےہیں اگرچہ کسی تاویل میں وہ خطا کار ہوں کہ ان کی تاویل خلاف سنت ہو،یاگنہ گارہوں،بہرصورت وہ اس کےبھائی اورایمان میں اس سے سابق ہیں،لہذااس آیت کےعموم میں سب داخل ہیں اگرچہ بہترفرقوں میں سےہوں اس لیےکہ ہرفرقہ میں بہت سےلوگ ایسےہیں جوکافرنہیں ہیں بلکہ مومن ہیں جن میں گمراہی وگناہ ضرورپایاجاتاہےجس کی وجہ سےوہ وعید کےمستحق ہیں جیسےکہ اہل ایمان عاصی کامعاملہ ہے۔ منہاج السنہ 5/240،241
علامہ ابن تیمیہؒ مزیدلکھتےہیں کہ اللہ تعالی کاارشاد:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا وَ سَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا
جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ نساء:10
وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْهِ نَارًا
جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اُس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے نساء:10
نیزاس قسم کی دیگرآیات براکام کرنےوالوں کےحق میں جہنم میں داخل ہونےکوصراحت کے ساتھ بتاتی ہیں،تویہ آیات صریح نص ہیںاورتہترفرقےوالی حدیث سےبڑھ کرہیں۔
اورہدایت والافرقہ دراصل ایک منہج ونظریہ ہےجیساکہ حدیث خودبتاتی ہےاوروہ منہج ونظریہ ہے”مااناعلیہ واصحابی”یعنی اس چیزکوپکڑنےاوراس پرچلنےکاجس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ تھے۔
مذکورہ فرقوں کےمتعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ ان کےافرادآپ کی امت سےہوں گے،اس لیےکہ آپؐ نےفرمایا”ستفترق هذه الامة”(یہ امت بٹےگی) “ستفترق امتي”(میری امت بٹےگی)،یہ فرقےکفارومشرک نہیں ہیں بلکہ مسلمان وصاحب ایمان ہیں،ان میں کچھ منافق ہوسکتےہیں لیکن زیادہ تراہل ایمان واہل اسلام ہوں گے،اگرچہ ان کےاندراہل حق سے ایک قسم کااختلاف اورکمی پائی جائے۔امام ابن تیمیہ اورشاطبی وغیرہ نےاسی قول کواختیارکیاہے۔
(ملاحظہ ہو) مجموع الفتاوی لابن تیمیہ 7/217،218،صفۃ الغرباء2/62
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ ذکرفرمایاکہ سب کےسب اسی امت کےہوں گے،اس میں اشارہ ہےکہ یہ 73گروہ کل کےکل مسلمان ہوں گے،کیونکہ ان فرقوں کواس امت سے شمار کیا گیا ہے، لہذاوہ سب مسلمان ہی ہوں گے،البتہ ان میں سےکچھ راہ حق وصواب سےدورہوں گے۔نیزیہ ارشاد کہ سب کےسب جہنم میں ہوں گےسوائےایک کے،اس کایہ مطلب نہیں کہ یہ ہمیشہ کےلیےجہنم میں جائیں گے،بلکہ مرادیہ ہےکہ حق تعالی کی طرف سےسزاکےبعدجہنم سےنکال لیےجائیں گے۔
(ملاحظہ ہو:مجموع الفتاوی :علامہ ابن تیمیہ 7/217،صفۃ الغرباء 2/62
علامہ ابن تیمیہؒ نےمتعددمواقع پر اس بات کی طرف اشارہ کیاہےکہ کفاراگربعض اہل بدعت جہمیہ وغیرہ میں سےکسی کےہاتھوں پراسلام لائيں توکفرپران کےباقی رہنے سے بہتر ہے۔ اور فاسق وفاجرلوگوں کی توبہ اگرکسی ضعیف حدیث کی بناپربھی ہوتوبھی ان کےفسق وفجورپرباقی رہنےسے بہترہے۔اورکسی بدعتی کےپیچھےنماز،ترک جماعت سےبہرحال بہترہے۔
(ملاحظہ ہو:مجموع الفتاوی 13/96،23/353-354)
اختلاف ناگزیرہےاوراسی کےساتھ انسانی تاریخ کی ایک مسلمہ حقیقت بھی۔مگراس کے آداب کیاہوتےہیں ؟اس کےحدود کیا ہیں؟اس کےلیےعلم وفہم اورشعوروآگہی کی کون سی سطح درکار ہے؟
حضرت عمررضی اللہ عنہ نےفرمایاکہ میراجی چاہتاہےکہ سب لوگ اس علم میں دخل نہ دیتے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نےعرض کیا: اےامیرالمومنین ایساکیوں فرماتےہیں؟فرمایاکہ مجھےاندیشہ ہے کہ لوگ احمقانہ باتیں کریں گے۔ (ابوداؤد فی المراسیل)
امام احمدبن حنبلؒ کےپاس ابوجعفرقطیعی نام کاایک جوان آیااوران کےپاس بیٹھ گیا اور کہا کہ کیاآپ گچ کےپانی سےوضوکرتےہیں؟امام احمدنےفرمایاکہ مجھ کویہ پسندنہیں ہے۔اس نےکہاکہ کیا آپ باقلاء کےپانی سےوضوکرتےہیں؟فرمایا:میں اس کوپسندنہیں کرتا۔اس نےکہاکہ کیاآپ گلاب کےپانی سےوضوسےکرتےہیں؟فرمایاکہ مجھ کویہ بھی پسندنہیں ہے۔اس کےبعدوہ نوجوان شخص جانے کےلیےاٹھنےلگاتوامام احمدنےاس کاکپڑاپکڑلیااورفرمایاکہ یہ بتاؤکہ تم جب مسجدکےاندرداخل ہوتے ہوتوکیاکہتےہو؟وہ خاموش رہا،فرمایاکہ مسجدسےنکلتےوقت کیاکہتےہو،وہ خاموش رہا،اس پرامام احمد نےکہاکہ جاکریہ سب سیکھو۔ طبقات الحنابلہ :ابن ابی یعلی 1/41
اسحاق بن بہلول نےایک کتاب لکھی اورامام احمدبن حنبل کےپاس لےکرآئےاورکہاکہ اس کتاب کانام میں نے”کتاب الاختلاف”رکھاہے،توامام احمدنےفرمایاکہ اس کانام کتاب الاختلاف مت رکھوبلکہ “کتاب الوسعۃ”رکھو۔ طبقات الحنابلہ 1/111
امیرالمومنین حضرت عمربن عبدالعزیزنےفرمایاکہ مجھےیہ پسندنہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےاصحاب میں اختلاف نہ ہوتا،کیونکہ اگرایک ہی قول ہوتاتولوگ تنگی میں رہتے۔اوراصحاب رسول امت کےائمہ ہیں جن کی اقتداء کی جاتی ہےتواگرکوئی آدمی ان میں سےکسی ایک کےقول کوبھی لےلےگااوراس پرعمل کرےگاتووہ وسعت میں رہےگا۔
جامع بیان العلم وفضلہ:ابن عبدالبر ،1689،مجموع الفتاوی:علامہ ابن تیمیہ ،30/80،الموافقات للشاطبی 4/125
امام یحیی بن سعیدنےفرمایاکہ اہل علم توسع والےلوگ ہوتےہیں۔ فتوی دینےوالوں سے فتوی ومسائل کاسوال ہمیشہ ہوتارہااوروہ جواب دیتےرہے ،ایک نےایک چیزکوحلال اور دوسرے نے اسی کوحرام کہا،لیکن حرام قراردینےوالےنےیہ نہیں سمجھاکہ حلال کہنےوالااس وجہ سےتباہ ہوگیااور نہ حلال کہنےوالےنےیہ گرداناکہ حرمت کافتوی دینےوالااس کی وجہ سےبربادہوگیا۔
جامع بیان العلم وفضلہ:ابن عبدالبر ،1691، تذکرۃ الحفاظ1/139
امام احمدؒفرمایاکرتےتھےکہ بغدادکاپل پارکرکےخراسان کی طرف سےاسحاق بن راہویہ جیساشخص نہیں آیا،گرچہ وہ بعض چیزوں میں ہم سے اختلاف رکھتےہیں،لیکن یہ کوئي خاص بات نہیں ہےکیونکہ لوگ آپس میں برابراختلاف کرتےرہےہیں۔
تاریخ دمشق:ابن عساکر،8/128، تاریخ بغداد:خطیب بغدادی:6/348
علامہ ابن تیمیہ فرماتےہیں کہ بہت سےلوگ اپنی باتوں کوشریعت کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ وہ شریعت کی بات نہیں ہوتی ،بلکہ وہ لوگ اس قسم کی بات یاتوجہالت کی بناپرکرتےہیں یا غلطی سے یاقصد اًوعمداًافتراء کےطورپرکرتےہیں۔ مجموع الفتاوی35/366
علامہ ابن قیمؒ فرماتےہیں کہ جس رائےتک کوئي شخص اپنےاجتہادکےذریعہ پہنچاہےاورجس کی بابت اس کواللہ یااس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےکوئي نص نہیں مل سکی ہے،اس کی بابت کسی شخص کواس طرح نہیں کہناچاہیےکہ اللہ نےاس چیزکوحرام کیاہےیافلاں چیزکوواجب یامباح کہاہے،اسی طرح یہ کہ اللہ کاحکم یہی ہے۔ اعلام الموقعین عن رب العالمین 1/44
جب ابوجعفرمنصورنےامام مالکؒ کےسامنےیہ بات رکھی کہ ان کی کتاب کوتمام عالم اسلام میں پھیلادیاجائےاورلوگوں کواسی کےاختیارکرنےاور اس کےمشتملات پرعمل کرنے کا پابند بنا دیا جائے،تاکہ اختلافات نہ پیداہوں توامام مالکؒ نےابوجعفرمنصورکواس سےمنع کیااورکہاکہ امیر المومنین! آپ ایسانہ کریں،اس لیےکہ لوگوں کےپاس پہلےسےبہت سےاقوال ہیں اورانہوں نےبہت سی احادیث سن رکھی ہیں،وہ بہت سی روایات نقل کرتےہیں اورہرقو م کےپاس جوعلم پہلےسےپہنچ چکاہے وہ اس کوپکڑےہوئےہیں،اوراسی پران کاعمل ہے،نیزاسی کووہ اپنادین سمجھتےہیں جس میں ان کا اور دوسروں کااختلاف بھی ہےاورلوگ جس چیزکےقائل ومعتقدہیں اس سےان کوپھیرنابڑاسخت ہوتا ہے، اس لیےعام لوگ جس چیزپرہیں ان کواس پرہی رہنےدیجیےاوراس پران کوچھوڑدیجیےجس کو ہر شہر و علاقےکےلوگوں نےاپنےلیےاختیارکررکھاہے۔
الطبقات الکبری 1/440، سیراعلام النبلاء8/78
امام احمدبن حنبلؒ نےبعض طلباء سےدریافت فرمایاکہ کہاں سےآرہےہو؟انہوں نے کہا کہ ابوکریب کی مجلس سے۔ابوکریب کایہ معاملہ یہ تھاکہ وہ امام احمدکوبرابھلاکہتےتھےاوربعض مسائل کی وجہ سےان پرتنقیدکرتےتھے۔بہرحال امام احمدنےفرمایاکہ ان سےاحادیث لکھاکرو،کیونکہ وہ شیخ صالح ہیں۔اس پران طلباء نےکہاکہ وہ آپ کےاوپراعتراض کرتےہیں؟فرمایا:میں کیا کرسکتا ہوں ، آدمی نیک ہیں مگرمیری وجہ سےآزمائش میں پڑگئے۔ تاریخ دمشق:ابن عساکر 55/58
یونس حلافی نےامام شافعی کےمتعلق کہاکہ میں نےامام شافعی سےزیادہ عقلمندآدمی نہیں دیکھا۔ ایک دن ایک مسئلہ میں میں نےان سےخوب بحث کی پھرہم لوگ ادھرادھرہوگئے،اس کےبعدامام شافعی مجھ سےملےاورمیراہاتھ پکڑکرفرمایاکہ اےابوموسی اگرچہ ہم ایک مسئلہ میں متفق نہ ہوسکےلیکن کیا ہم بھائی بھائی بن کرنہیں رہ سکتے۔ تاریخ دمشق:ابن عساکر51/302،سیراعلام النبلاء 10/16
امام شمس الدین ذہبی فرماتےہیں کہ ہم عصروں کاایک دوسرےکےحق میں کلام وتبصرہ لائق اعتناء نہیں بالخصوص جب یہ سمجھ میں آتاہوکہ اس کے پیچھےعداوت،مذہب یاحسدکادخل ہے،ان چیزوں سےتوبس وہی بچ پاتاہےجس کواللہ بچالےاورمیں نہیں جانتاکہ حضرات انبیاء وصدیقین علاوہ کوئی ایسا ہواہےجوکسی زمانہ میں ایسی چیزوں سےمحفوظ رہا،اورمیں چاہوں تواس حوالے سے دفتر کے دفتر تیار کر سکتا ہوں۔
لسان المیزان1/201
بعض تابعین سےمنقول ہے”انسان کاعلم جتنابڑھتاہےاتناہی دوسروں کےلیےوہ عذر رکھتا اور مانتاہے”۔
صحابی رسول حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سےمنقول ہے:”’میں نہیں جانتا”‘کہنانصف علم ہے۔
امام مالکؒ کےبارےمیں یہ منقول ہےکہ ان سےاڑتالیس مسئلوں کےبارےمیں دریافت کیاگیا،جن میں سےبتیس کےبارےمیں انہوں نےکہا “مجھےمعلوم نہیں”۔خالدبن قداش سے منقول ہےکہ جب وہ عراق سےچالیس مسئلوں پراستفسارکرنےکےلیےحاضرہوئےتوامام مالک نے صرف پانچ کےجوابات دیے۔معتبرراوی حدیث محمدبن عجلان کہاکرتےتھے:اگرکوئي عالم “’میں نہیں جانتا”‘کی اہمیت کونہیں سمجھتاتواس کافیصلہ غلط ہوگا۔
امام مالک خودیہ مقولہ دہراتےتھے”کہ ایک عالم کواپنےشاگردوں کومیں نہیں جانتاکہنےکی عادت پرزوردیناچاہیے،یہاں تک کہ یہ عادت ایک اصول کادرجہ اختیارکرلےجس کی طرف وہ رجوع کیاکریں بالکل اسی طرح جس طرح اگرکسی شخص سےسوال کیاجائےجس کےبارےمیں وہ نہیں جانتا ، تووہ کہےگامیں نہیں جانتا۔
اس معاملہ کی انتہاء یہ ہےکہ جب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سےکئی مسائل کے بارے میں سوال کیاجاتاتھاتوآپ خودخاموش رہتےتھےاوروحی ربّانی کاانتظارکرتےتھے۔یہ بات کوئي سادہ بات نہیں ہےبلکہ دین اللہ کےحاملین کےلیےاس میں بےشمارحقائق ہیں۔یہ صورت حال بتارہی ہے کہ ایک عام شخص کودین اللہ کےبارےمیں کسی بھی طرح کی گفتگوکرنےلیےکتنازیادہ حساس اورذمہ دارہوناچاہیے۔جولوگ اس احساس اورشعورسے لبریزہیں،وہ یقیناًاللہ کی طرف سےحکمت صالحہ سے سرفراز کیےگئےہیں اورجولوگ اس احساس وادراک سےناآشناہیں وہ علم ودین سےمحرومی کی زندہ تصویر ہیں۔بڑی عبرت ہےاس فرق میں اوراس سےبھی زیادہ اس کےانجام میں!!

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *