یہودی مذہبی رسومات اور انسانی خون

اللہ تعالی کی ہمیشہ سے یہ سنت رہی ہے کہ دنیا کے اندر ایک ایسی قوم کا انتخاب کرتا ہے جس کی ذمہ داری اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچانا ہوتا ہے لیکن جب وہ قوم اس مشن سے رو گردانی کرتی ہے، اللہ تعالی کے احکامات کوفراموش کر دیتی ہے اور شریعت الٰہی میں من مانی تاویلات کرتی ہے تو پھر ذلت و مسکنت اس قوم کا مقدر بن جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے۔ اللہ تعالی نے اس قو م کا انتخاب کیا لیکن انہوں نے اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہوئے، شریعت الٰہی کی من مانی تاویلات شروع کی۔ ان کے ربیوں، حاخاموں(عالموں)، صوفیوں اور مولویوں نے توریت سے اپنے جرائم، بدکاریوں اور گناہ گاریوں کی سند حاصل کرنے کی کوشش کی۔
ہر دور میں توریت کی تفسیر اور تشریح مختلف انداز سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کی گئی۔ ’’مثنا‘‘ اور ’’جامارہ‘‘ جو توریت کی شروح در شروح ہیں، تلمود کا ڈھانچہ بناتی ہیں۔ چھٹی اور ساتویں صدی کی تلمود میں جگہ جگہ حضرت عیسیٰؑ اور حضرت مریمؑ پر لعن طعن کی گئی لیکن جب انیسویں صدی میں ان کو محسوس ہوا کہ عیسائی دنیا کو اپنے مفادات کے لیے قریب کرنا ہے تو پھر انہوں نے لعن طعن کے الفاظ حذف کر دیے۔
جب کسی قوم کا زوال آتا ہے تو مختلف خرابیوں کے ساتھ ان کے اندر ایک بڑی خرابی یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب پرثانوی کتابوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ یہودیوں نے توریت کے ساتھ کیا اورتلمود ان کے نزدیک توریت سے زیادہ مقدس قرار پائی۔ چنانچہ توریت کا ایک شارح کہتا ہے’’ جو شخص ’مثنا‘ اور جارماہ‘ کے بغیر توریت کو پڑھے وہ ملحد ہے‘‘(یہودی خباثتیں۔از عبداللہ المتمل)
خود تلمود کے الفاظ یہ ہیں:’’حاخاموں(عالموں)کی تعلیمات میں رد وبدل اور ان کی خلاف ورزی ناممکن ہے۔ خواہ اللہ کا حکم ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ اور یہودی عالموں کے درمیان ایک مسئلہ میں سخت اختلاف ہوا۔ پھر ایک حاخام(عالم) سے رجوع کیا گیا جس نے اللہ کی غلطی کا(معاذ اللہ) فیصلہ کیا۔‘‘
تلمود جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہودیوں کے یہاں ایک مقدس فقہ کی کتاب ہے جس کو توریت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے، انسانی جان ومال(غیر یہودیوں کے) سے متعلق اس کی تعلیمات اتنی خوف ناک ہیں کہ ایک عام آدمی ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔مثلاً
’’اگر ایک یہودی کسی غیر یہودی(Gentile)کو قتل کرتا ہے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔‘‘
”When a Jew murders a gentile, there will be no death penalty”
(Sanhedrin 57a)
انسانوں کے قتل عام کا اعلان تلمود ان الفاظ میں کرتی ہے۔
’’تمام غیر یہودیوں کو قتل کردینا چاہیے۔‘‘(Soferim 15, Rule 10)
’’اگر ایک غیر یہودی ایک یہودی کو مارتا ہے تو اس کو قتل کردینا چاہیے۔‘‘
”If a neathen(gentile) hits a jews, the gentile must be killed.”
(sanhedrin 58b.)
انبیاء کی قاتل اس قوم سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ عام انسانوں کو عزت و شرف سے نوازیں گے۔ اور ان کا خون ان کے نزدیک حرام ہوگا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انبیا کی قاتل یہ قوم صدیوں سے نسل انسانی کی بھی قاتل رہی ہے۔ تلمود کی مندرجہ بالا تعلیمات پر عمل کرتے ہوے انہوں نے انسانوں کو بے دریع قتل کیا ہے۔ قدیم زمانے سے یہودی اپنے سفلی عملیات اور جادوگری کے لیے انسانی خون استعمال کرتے رہے ہیں جس کا ذکر توریت میں ان الفاظ میں کیاگیا۔
’’اے جادوگرنی کی اولاد، فاسق اور زانی عورت کی ذریت ادھر آؤ، تم کس کا مذاق اڑاتے ہو، کس کے سامنے منھ کھولتے ہو اور زبان نکالتے ہو، تم گناہ زادے ہو، جھوٹ و فریب کی نسل ہو، ہر سرسبز درخت کے نیچے تم بتوں کی طرف لپکتے ہو، وادیوں میں اور قلعوں کے دروازوں پر بچوں کو قتل کرتے ہو۔‘‘(لیعیاہ،باب۵۷:۵)
یہودی قدیم زمانے سے ہی اپنی جادوگری کے لیے مشہور و معروف رہے ہیں۔ عام انسانوں نے ان کی جادوگری کو ہر دور میں تسلیم کیا ہے۔ خود تلمود میں بھوت پریت بھگانے کے علمیات اور جادوگری اور سحر زدہ کرنے کے عملیات کا ذکر ہے۔ اوریہ بات بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ جادوگری میں انسانی خون ایک اہم کردار ادا کرتا ہے چنانچہ اسی بنیاد پرBerward Lazareجو ایک یہودی مؤرخ ہے، نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ ممکن ہے یہودی جادوگروں نے غیر یہودی بچوں کو ذبح کیا ہو۔
”Now it is quite probable, certain, infact, that jewish magicians may have sacrificed children and thence the genesis of ritual murder,”
(Antisemitism: its History & causes)
Bernard Lazareاس اعتراف کے بعد آگے لکھتا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ کچھ جادوگروں نے انسانی خون کااستعمال کیا ہو لیکن اس کو تمام یہود دنیا پر چسپاں نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ایک اور یہودی مصنف(جس نے بہت ہی خفیہ طریقہ سےمکہ اور مدینہ کی زیارت کی۔)Sir Richard Burtonنے اپنی کتاب ’’The Jews, The gypsy and El Islam‘‘میں تلمود کے حوالے سے ہے لکھا ہے:
”The Talmud deelares that there are two kind of blood pleasing to the Lord viz.(i) that of the paschal holocaust(ii) that of circunicision.”
’’تلمود کہتی ہے کہ ہمارے یہاں، خدا کو راضی کرنے کے دو مواقع خون بہانے کے ہیں ایک موقع انسانی خون کی گندھی ہوئی روٹیوں کی عید کا موقع، دوسرا ہمارے بچوں کے ختنہ کاموقع‘‘
(The Jews, the gypsy and Ei-Islam, p.81)
یہودیوں کے یہاں دو تہوار بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔
(i)پوریم Purim
(ii)فصح Passover
پوریم تہوار ایک ’’استیر‘‘ نامی عورت سے منسوب ہے ۔ یہ یہودیوں کی ہامان سے آزادی کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ ہامان نے یہودیوں کو قتل کرنے کے لیے پور یعنی قرعہ ڈالا تھا۔ اس لیےاس کو پوریم کہا جاتا ہے۔ چونکہ’’استیر‘‘ نامی اس عورت نے بادشاہ اخسوپریں( Xerxes)کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ ہامان اور اس کے دس بیٹوں کو قتل کرنے کی اجازت یہودیوں کو دے اور بادشاہ نے اجازت بھی دی تھی اس لیے اس تہوار پر اس عورت کو یاد کیا جاتا ہے۔
(Old testament, Esther-ix)
یہودیوں کے یہاں یہ تہوار بڑی خوشی کے ساتھ آدار مہینے کی ۱۴ویں اور سوسن میں ۱۵ویں تاریخ کو بھی منایا جاتا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ پوریم اس دن سے بھی عظیم ہے جس دن Sinaiمیں توریت دی گئی۔(Jewish Encyclopedia) اس تہوار کے موقع پر ہامان کو لعنت کی جاتی ہے۔ لندن میں یہودی بیکری والے ہامان کے کان کی طرح کے کیک بناتے ہیں جس کو یہودی اس پوریم تہوار پر کھاتے ہیں۔
”This feast is ofthe celebrated by an exhibition of gluttony, intoxication, and curses on the memory of Haman, and even to this day in London, the Jewish bakers make cakes in the shape of human ears which are eaten by the Jews on this day, are called “Haman’s Ears”, revealing once again the inherent hate and basbasism of the Jew in our midst.”
(Jewish Ritual Murder by Aruold Leese)
Arnold Leeseاپنی اسی کتاب میں اس تہوار کے متعلق لکھتا ہے کہ ’’اس تہوار کے موقع پر یہودی کسی عیسائی کو قتل کرتے ہیں اور اس کے خون کو سکھا کر پاؤڈر تیار کرتے ہیں جسے تکونے کیک میں ملاتے ہیں اور اسے کھاتے ہیں۔‘‘
”When a ritual murder occured at purim, it was usually that of an adult christian who was murdered for his blood, it is said that the blood was dried and the powder mixed into triangular cakes for eating.”
(page no. 10)
یہودیوں کا دوسرا مقدس تہوار فصح ہے۔ توریت کے مطابق خداوند نے موسیٰؑ اور ہارونؑ سے مال کے پہلے ہفتہ میں فرمایا کہ تم جا کر تمام ا سرائیلیوں سے کہنا کہ وہ ایک بکرا لیں اور اس کو ذبح کرکے اس کا تھوڑا سا خون لے کر اپنے گھروں کی چوکھٹ پر لگا دیں تا کہ خداوند جب تمام غیر اسرئیلیوں اور مصر کے تمام دیوتاؤں کو مارتا ہوا مصر سے گزرے تو اس چوکھٹ کے خون سے تمہاری پہچان ہو سکے اور تم کو بچا لیا جائے تم اسے ہمیشہ کی رسم بنا کر اس دن کو نسل در نسل عید کا دن ماننا۔ چونکہ خداوند نے اسرائیلیوں کے گھروں کو خون کی وجہ سے نظر انداز کر دیا تھا۔ اس لیے اس کو Passoverکہا جاتا ہے۔
(Old testament, Exodus-xii)
مثنا میں اس کو (Egyption passover scrifice)کا نام دیا گیا۔
(Jewish Encyclopedia)
Arnold Leeseنے اس تہوار کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عام طور پر جب ذبح کیا جاتا ہے یا قربانی کی جاتی ہے تو وہ تقریبا سات سال کا بچہ ہوتا ہے۔
”When a ritual murder was done at passover, it was usually that of a child under seven years old…. The blood taken from the child was mixed either inthe powdered state or other wise into the passover bread.” (Jewish Ritual Murder, page no. 7)
Richard Burton کےحوالےسےArnold Leeseنےمزیدلکھاہےکہ Passoverکے تہوار پر روم(Rome)اور اٹلی کے دوسرے مقامات پر بچوں کا غائب ہو جانا عام بات تھی۔
”Sir Richard Burton shows that he disappearance of children at passvoer was talked of in Rome and in the other town of Italy througout the early pard of the 19th century…”(Jewish Ritual Murder)
ان دو تہواروں کے موقع پر انسانی خون کا استعمال کرنے کا الزام یہودیوں پر صدیوں سے لگتا آیا ہے۔یہودی انسائیکلوپیڈیا میں بھی تاریخی تسلسل کے ساتھ ۱۲۲ مقدمات درج ہیں جن میں یہودیوں کو Ritual Murderکا ملزم مانا گیا ہے جن میں سے صرف ۳۹ الزامات ۱۹ویں صدی میں لگے ہیں۔
(Jewish Encyclopedia, 1903, vol.III, pp.266,67)
ایک یہودی Cesare Alzranhatiنے تو ۱۹۱۳ء میں ان الزامات کی فہرست تیار کی جو ۱۰۱ مقدمات پر مشتمل ہے۔ بعد میں یہ فہرست Cahiers Romainsمیں شائع ہوئی۔ Julius Streicherکے Der sturmerکا ایک خصوصی شمارہ بھی ۱۹۳۴ء میں اسی عنوان کے تحت شائع ہو چکا ہے۔ جس میں انہوں نے اس بات کو واضح کیاہے کہ صرف ۱۹ویں صدی میں ۳۲ مقدمات Ritual Murderکے سامنے آئے ہیں۔
یہودیوں کے ذریعہ اپنے ان تہوار وںکو منانے کے لیے انسانی خون کا استعمال کرنے سے متعلق تحقیقات مختلف وقت میں منظر عام پر آچکی ہیں۔Arnold Leeseکی مذکورہ بالا کتاب Jewish Ritual Murderبھی اس سلسلہ میں کافی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس میں تاریخی تسلسل کے ساتھ ان تمام مقدمات کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں یہودی انسانی خون کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس میں ان ملزم یہودیوں کے اقبال جرم کی داستان بھی ہے۔
دوسری اہم دستاویز Dr. Hellmut Schramnکی ہےجو Jewish Ritual Murder: A Historical Investigationکے نام سے ۱۹۴۱ء میں شائع ہوئی۔
یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اب تک ان پر عیسائی بچوں کے خون کے مقدمات پر سماعت ہیں،کیونکہ ان سے متعلق تحقیقات منظر عام پر آچکی ہیں اور عیسائی بچوں سے متعلق ان کے کارنامے کا پردہ فاش ہو چکا ہے۔ اس لیے اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ مسلم خون کو بھی اس طرح سے استعمال کرتے ہوں کیونکہ اسلام اور مسلمانوں سے ان کی کینہ پروری کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیںہے۔ اسی پوریم تہوار پر مسلمانوں کے قتل عام سے متعلق خبریں اکثر و بیشتر آتی رہتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ۲۵جنوری ۱۹۹۴ء کو پوریم کے دن پیش آیا جب ایک اسرائیلی آفیسر Barach Gold Steinنے مسجد میں نماز پڑھ رہے ۴۰ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں بچے بھی شامل تھے۔
”On Purim Feb 25, 1994, Israeli army officer Baruch Goldstein, an orthodox Jew from Brookiyn, massacred 40 Palastinian civilians, including chlidren, while they knetl in prayer in Mosque.”
(CBS New 60 minute ”Kahane”)
یہودیوں کی اسی خباثت کی بنیاد پر دنیا بھر سے ا ن کو بے دخل کیا گیا۔ تمام ہی قوموں کے باشعور افراد نے ان کو اپنے ملک میں رہنے کو اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ ایک مشہور امریکن نیشنلسٹ بنیامین فرانکلین نے ۱۷۸۹ء میں دستور کے اعلان کے موقع پر یہودیوں کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔
”Iwarmyo, gentleman, the jews are danger to this land and if they are allowed to enter they will imperil our institutions, they showed be excluded by the constitution.”
’’یہودی اس ملک کے لیے خطرہ ہیں اگر انہیں اس ملک میں آنے اور رہنے کی اجازت دی گئی تو یہ ہمارے دستور اور ہماری ترقیات کو تباہ کر دیں گے۔ دستوری طور پر ہمیں ان پر پابندی لگا دینا چاہیے۔‘‘
(Nameless ward by Ramsay, 1952)

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *