انتخابی کھیل کوئی پاس کوئی فیل

ایک عام ہندوستانی مزاجا ًتفریح پسندہوتا ہے۔یہ حسنِ اتفاق ہے کہ کرکٹ کا ٹی ۲۰ ٹورنامنٹ ختم ہوا اور قومی انتخابات شروع ہوگئے ۔ ٹی۲۰ کا فائنل ڈھاکہ میں کھیلا گیا اور رائے دہندگی کا آغاز بنگلہ دیش کے پڑوس میں واقع ریاستِ آسام اور تریپورہ سے ہوا لیکن فائنل مقابلے کے نتائج میں ہندی سیاستدانوں کیلئے عبرت کا سامان ہے۔ عالمی مقابلے میں ہندوستانی ٹیم کی شکست کوئی نئی بات نہیں ہے اور ہر شکست کے پیچھے کسی نہ کسی کھلاڑی کی ناکامی ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ شائقین کسی کھلاڑی کے گھر پر جاکر نہ صرف گالم گلوچ بلکہ پتھراؤ بھی کریں جیسا کہ یووراج سنگھ کے ساتھ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اس بارایسا کیوں ہوا ؟ اس سوال کا نہایت سہل اور آسان جواب ہے عوام کی بیجا توقعات نےٹیم کی شکست کو جھنجلاہٹ اور مایوسی میں تبدیل کردیا اوریہ بیجا توقعات صرف اور صرف ذرائع ابلاغ کی مرہونِ منت تھیں۔
ذرائع ابلاغ نے گوناگوں وجوہات کی بناء پر جو معاملہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے ساتھ کیا وہی کچھ بی جے پی کے ساتھ بھی کررہاہے۔ اتفاق سے ہندوستانی ٹیم ٹورنامنٹ کے دوران یکے بعد دیگرے اپنی فتح درج کراتی رہی اور میڈیا اسے آسمان پر اٹھاتا رہا لیکن آزمائش کی گھڑی میں وہ ٹیم کی مدد کیلئے میدان میں نہیں اتر سکا اورمیڈیا کے ذریعہ کھڑےکئے گئے گورکھ دھندے کی قیمت یووراج سنگھ نے چکائی۔ کوئی بعید نہیں کہ انتخابی نتائج کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہمدردو غمخوار اپنے غم و غصہ اتارنے کیلئے نریندر مودی کے گھر اسی طرح سے رخ کریں جس طرح کہ یووراج سنگھ کے گھر گئے تھے اگر ایسا ہوتا ہے اس کیلئے وہ جعلی سروے ذمہ دار ہوں گے جو ذرائع ابلاغ نے پیسے کھاکھاکر تواتر کے شائع کئے ہیں اورجس کے نتیجے میں نریندر مودی کے تئیں بی جے پی کارکنان کی توقعات میں بے شمار اضافہ ہو گیا ہے۔
ٹی ۲۰ ٹورنامنٹ میں تو ہندوستانی ٹیم فائنل کے اندرشکست دوچار ہوئی لیکن بی جے پی کی کشتی فائنل سے قبل ہی ہچکولے کھانے لگی۔ پولنگ والے دن یکے بعد دیگرے تین واقعات نے اس کی قلعی کھول دی ۔ اول تو انتخابی منشور کا معاملہ تھا جو شیطان کی آنت بنا ہوا تھا یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کی پابندی کا شکار ہوگیا۔ کسی قومی جماعت کیلئے جو بزعمِ خود اقتدار پر قابض ہونے کا خواب دیکھ رہی ہو ایک منشور تک کے ظاہر کرنے میں معذوری اس کی بہت بڑی کمزوری کا پتہ دیتی ہے ۔ اس تاخیر کیلئے مختلف وجوہات سامنے آئیں ۔ اول تو یہ بتایا گیا کہ کمیٹی کے سارے ارکان چونکہ انتخاب لڑ رہے ہیں اس لئے اپنے حلقۂ انتخاب میں مصروف ہیں۔ جب سارے ملک میں لہر چل رہی ہے تو ارکان کمیٹی کا اس طرح مصروف ہوجانا چہ معنی دارد۔ ایسا تو اس وقت ہوتا ہے جبکہ ہوا اُکھڑ رہی ہو۔بعد میں پتہ چلا داخلی اختلافات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
بی جے پی کے منشور میں تاخیر کی ایک اور وجہ غالباً ان سرمایہ داروں کا دباؤ رہا ہوگا جن کی دولت کے بل بوتے پر موجودہ انتخاب لڑا جارہا ہے ۔ اس صورتحال میں بی جے پی کیلئے عوامی فلاح و بہبود کی خاطر کوئی ایک بھی ایسا وعدہ کردینا جو کارپوریٹ دنیا کے خلاف ہو مہنگا پڑ سکتا تھا۔ اس لئے بی جےپی نے اس بارخاصہ محتاط رخ اختیار کیا۔ ٹیکس کی بابت اصلاحات سے مراد ٹیکس دہندگان کو حاصل ہونے والی سہولیا ت ہوتی ہیں۔ بی جےپی کے اس وعدے کا سرمایہ داروں نے کشادہ دلی سے استقبال کیا ہے مگر خوردہ بازار میں بیرونی سرمایہ کاری پر پابندی کی بات کرکے بی جے پی نے اپنے کرم فرماؤں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لے ہی لیا۔
بی جے پی کے مینی فیسٹو کو مودی فیسٹو بتانےوالے ایک دانشور نے کہا مودی کے ہوتے کسی منشور کی ضرورت ہی نہیں ہے جو کچھ مودی کہتا ہے وہی پارٹی کا منشور ہے۔ اس بیوقوف کو نہیں معلوم کہ مودی کبھی کہتا ہے سکندر اعظم کو بہاریوں نے شکست دی ۔ وہ کبھی بھگت سنگھ کو انڈمان پہنچا دیتا ہے تو کبھی اروند کیجریوال کو اے کے ۴۹ کے خطاب سے نواز دیتا ہےاور وزیردفاع اےکے انٹونی کو پاکستان کا ایجنٹ قرار دے دیتا ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ مودی خود نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ایسے میں اس کے کہے کو کسی جماعت کا منشور قرار دینا اس جماعت کی توہین ہے۔ نیز اگر یسا ہے تو پھرآگے چل کر منشور پیش ہی کیوں کیا گیا؟
بھارتیہ جنتا پارٹی کومودی نے فی الحال ایک ایسے دلدل میں دھنسا دیا ہے کہ اس کا دماغ ماؤف ہوچکا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر اس کو منشورکی ضرورت ہے یا مودی کی ؟ دہلی کے اندر ۷اپریل کو نریندر مودی کی رام لیلا گرؤنڈ پر ہونے والے جلسے کی منسوخی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ مودی سے پارٹی کا دل اچاٹ ہورہا ہے۔ اس ریلی کی منسوخی کے پیچھے اگلے دن ہونے والا راہل کا کامیاب جلسۂ عام تھا ۔ جب بی جے پی کو لگا کہ ہم اس سے زیادہ لوگ نہیں جمع کرپائیں گے تو ریلی کو منسوخ کرکے الکٹرانک تشہیر کا بہانہ بنایا گیااور اسے بھی تکنیکی خرابی کے چلتے ملتوی کرنا پڑا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اروند کیجریوال کے گڑھ دہلی میں ایک کامیاب ریلی کرکے مودی عاپ پارٹی کے احمدآباد میں منعقدہ جلسۂ عام کامنھ توڑ جواب دیتا لیکن بی جے پی ایسا کرنے میں ناکام رہی اور میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کو ان تینوں یعنی بی جے پی ، اس کے منشور یا اس کے یووراج مودی میں سے بھی کسی ضرورت ہے یا نہیں ؟
بھارتیہ جنتا پارٹی کا کانگریس کے خلاف یہ الزام ہوا کرتا تھا کہ وہ ایک فیملی بزنس ہے لیکن نریندر مودی نے یہ پیغام دے کر کہ لوگ اسے ووٹ دیں بی جے پی کو اپنا ذاتی کاروبار بنادیا ۔ کل تک بی جے پی کو اپنےکیڈر پر ناز تھا لیکن اب وہ امتیاز خاک میں مل گیا ہے۔اس اعلان کے پیچھے یہ اعتراف پوشیدہ ہے کہ بی جے پی کا نام اور کام نریندر مودی ملک کو وزیر اعظم بنانے کیلئےنا کافی ہے ۔ اس لئے اسے خود جھولی پسار کر راستے پر آنا پڑا ۔مودی نے اعلان کیا آج میں آپ سے اپنے لئے ووٹ مانگ رہا ہوں ۔ میری اپیل ہے کہ ہر گلی اور کوچے سےآپ کا ووٹ سیدھے سیدھے مجھے ملے گا۔ ریڈیو بی جے پی پریہ اعلامیہ سنتے ہوئےایسا محسوس ہوتا ہے گویاکوئی شخص ووٹ نہیں بلکہ بھیک مانگ رہا ہے۔شرد پوار نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ مودی نئے بھکاری کی مانند جلدی میں ہے۔ سنگھ پریوار نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وزارتِ عظمیٰ کا سنگھی امیدوار کرسی کی خاطر اس قدر نیچے گر جائیگا ۔
چندی گڑھ میں نریندر مودی نے اپنے آپ کو مستقبل کا وزیراعظم بتاتے ہوئےعوام سے۳۰۰ نشستوں کی دہائی دی ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہ مطالبہ ۱۰ سال بعد دوبارہ سامنے آیا ہے۔ ؁۲۰۰۴ میں اس نے چمکتا دمکتا ہندوستان کا نعرہ لگا کربی جےپی نے ۳۰۰ نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے سارےجائزے بی جے پی کی کامیابی کو یقینی قراردے چکے تھے۔ لیکن قوم نے اسے ۱۱۴ نشستوں پر اکتفاء کرنےپرمجبورکردیا۔دس سال قبل تومیڈیا کی پیشین گوئی غلط ثابت ہوئی تھی اس بار کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائیگا۔ میڈیا میں سونیا گاندھی کی ۸ کروڑجائیداد کا چرچا چل ہی رہا تھا کہ ارون جیٹلی کے ۱۱۳ کروڈ کی دولت اور بیس کروڑکی گاڑیاں و کوٹھیوں کا انکشاف ہو گیا۔ اگر اقتدار میں آنے سے قبل یہ حال ہے تو انتخاب میں کامیابی کے بعد یہ لوٹ کھسوٹ کا بازار کس قدر گرم ہو جائیگا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
نریندر مودی نے اپنی ایک انتخابی تقریر میں یہ بھی کہا کہ سونیا اپنے بیٹے راہل کیلئے قومی مفاد کو قربان کررہی ہیں۔ تاریخی واقعات اس مضحکہ خیز الزام کے خلاف ہیں ۔ سونیا گاندھی کی قیادت میں دو مرتبہ یوپی اے کامیاب ہوئی اس کے باوجود خود وزیراعظم بننے کے بجائےانہوں نےمنموہن سنگھ کو اس عہدے پر فائز کیاجبکہ مودی نےوزیراعظم بننے کے چکر میں اپنے گرو اڈوانی کا پتہ صاف کیا ایسے میں خود غرض کون ہے اور بے غرض کون ہے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ۔ ویسے اڈوانی جی خود بھی کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں اس لئے کہ انہوں نے بھی اپنے محسن اٹل جی کورسوا کرکے پارٹی کی قیادت ان سے چھین لی تھی اور خود وزیراعظم بننے کا خواب دیکھنے لگے تھے جو شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ اب نریندر مودی کے خواب کا کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا؟
بی جے پی کا بار بار الیکشن کمیشن کے دروازے پر دستک دینا بھی اس کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔ مہنت اویدیہ ناتھ برسوں سے بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑتے ہیں ۔ ساکشی مہاراج کو کانگریس سے بلا کر بی جے پی نے ٹکٹ دیاہے ۔ اس نے منشور سے قبل بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے تعمیر کا اعلان کردیا۔ وارانسی میں کبھی مودی کو ہرہر مہادیو کا درجہ دیا جاتا ہے تو کبھی شلوکوں میں اس کانام شامل کردیا جاتا ہے لیکن یہ سب مذہب کا غلط استعمال نہیں ہے۔ رام سینے کےپرمود متلک کو پارٹی میں شامل کرلینے پر بھی بی جے پی کے سیکولرزم پر آنچ نہیں آتی۔ عباس نقوی کے مطابق صابر علی کے تعلقات یٰسین بھٹکل سے ہیں مگر وہ بھی بی جےپی میں آکر گنگا نہا لیتے ہیں لیکن سونیا گاندھی کا شاہی امام سے ملاقات کرلینا قیامت برپا کردیتا ہے ۔ کیا شاہی امام ہندوستان کے شہری نہیں ہیں ؟ کیا انہیں کسی کی حمایت کرنے کا حق نہیں ہے؟ کیا مودی کاسابق مہتمم دارالعلوم مولاناغلام کے اعزازو تکریم کے لئے دعوت دینا سیکولرزم کی خلاف ورزی نہیں تھا۔ بی جے پی کو اوچھے الزام لگانے سے قبل اپنے دامن میں جھانک کر دیکھ لینا چاہئے۔
عمران مسعود کا معاملہ اچھال کر بی جےپی خود اپنے جال میں پھنس گئی ۔ عمران کی جس ویڈیو میں اس نے مودی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات کہی تھی وہ ۶ماہ پرانی تھی اور اس وقت عمران کا نگریس میں نہیں بلکہ سماجوادی پارٹی میں تھا اس کے باوجود جب کانگریس نےسہارنپور سے اسے ٹکٹ دے دیا توبی جے پی نے اس ویڈیو کی تشہیر کردی ۔ عمران کو گرفتار کیا گیا اور ضمانت بھی ہو گئی لیکن جب اس کے جواب میں کوبرا ٹائمز کی جانب سے بابو بجرنگی کی ویڈیو سامنے آئی تو بی جے پی بلبلا اٹھی ۔ اس نے کہا کانگریس والے ۱۲ سال پرانے زخموں کو تازہ کرکے ملک کی فضا مکدرّ کررہے ہیں ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران مسعودکی ویڈیو سے فضا مکدر ّ نہیں ہوئی تھی ۔ ان دونوں ویڈیوز میں جہاں ایک فرق مدت کا ہے وہیں یہ فرق بھی ہے کہ ایک میں کاٹنے کی کھوکھلی دھمکی دوسرے میں عملاً اس پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔ بابو بجرنگی کا جرم عدالت میں ثابت ہو چکا ہے ۔ وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے ایسے میں اس کا یہ کہنا کہ مودی نے نرودہ پاٹیہ آکرہمارا اتساہ(ہمت )بڑھا یا اور قتل عام کے بعد ہم نے اپنے کارنامہ کی انہیں فخریہ اطلاع دی مودی کونچلی عدالت سے ملنے والی کلین چٹ کی دھجیاں اڑا تا ہے۔
عمران مسعود کے جواب میں راجھستان کی وزیر اعلیٰ وجئے راجے سندھیا کا یہ کہنا کہ انتخاب ہو جانے دو اس کے بعد پتہ چل جائیگا کہ کون کس کو کاٹے گا سنگین اہمیت کا حامل ہے اس لئےکہ عمران کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے لیکن وجئے راجے راجستھان کی حدتک بااختیار ہیں اور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے وہ اپنے ارادےظاہرکرچکی ہیں ۔ ایسے میں کانگریسیوں کو چاہئے کہ وہ امیت شاہ کے بجائے سندھیا کے خلاف پولس میں شکایت درج کروائیں اس لئے کہ امیت شاہ کے بدلہ والے بیان میں دم نہیں ہے اور اس سے وہ باآسانی بچ نکلے گا لیکن سندھیا کو عمران کی طرح پریشان کیا جاسکتا ہے۔ کانگریس نے عمران مسعود کے معاملے میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ اس طرح کی زبان کا استعمال ہمارا شعار نہیں ہےلیکن نہ ہی اس کی امیدواری بدلی اور نہ راہل کی دیوبند میں ہونے والی ریلی کو منسوخ کیا گیا۔ اس طرح کانگریس نے مسلمانوں کو لبھانے کا کام کردیا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان رائے دہندگان جذباتیت کا شکار ہوکر کمزورکانگریسی امیدواروں پر اپنا ووٹ ضائع کردیں گے بلکہ وہ ان مضبوط امیدواروں کوکانگریسی امیدوار پرترجیح دیں گے جو بی جے پی کو شکست دے سکے۔
اس میں شک نہیں کہ نریندر مودی نے بی جے پی کے مردہ جسد میں جان ڈال دی لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے میدان میں اترنے سے ملک کا مسلمان بیدار ہو گیا۔اگر یہ انتخاب نتن گڈکری کی قیادت میں لڑا جاتا اور مودی حاشیہ پر ہوتا تو مسلمانوں کو اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی اس لئے کہ مظفر نگر فساد کے بعدوہ نہ صرف کانگریس بلکہ سماجوادی پارٹی سے بھی مایوس ہو چکے تھے اور ملک میں رائج جمہوری نظام سے ان کا اعتماد اٹھ سا گیا تھا لیکن نریندر مودی کی آمد نے انہیں ایک ہدف سے نوازدیا اور وہ اپنی سابقہ روایت کے مطابق ہرانے والی سیاسی حکمتِ عملی پر سرگرمِ کار ہوگئے۔ مودی نے جہاں اپنی حماقتوں سے بی جے پی کے اندر افتراق و انتشار پھیلایا وہیں مسلمانوں کے اندر انتخاب کے حوالے سےبلا کی یکسوئی اور سنجیدگی پیدا کردی۔ مسلمان کی مودی مخالفت کا جواب اس شعر میں دیکھئے کہ ؎
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
اس دوران کچھ پڑھے لکھےمسلمان خوف ودہشت کی نفسیات کا شکار ضرور ہوئے ۔ ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ انتخاب کو بھی کرکٹ کےٹورنامنٹ کی طرح سےدیکھیں جن کا انعقاد وقفہ وقفہ سے ہوتا رہتا ہے ۔ اس تماشے میں ٹی وی چینلس کو اشتہارات ملتے ہیں ، صنعتکاروں کا مال بکتا ہے ،کھلاڑی جیت یا ہار دونوں صورتوں میں مالا مال ہوتے ہیں اور تماشائیوں کو تفریح پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ انتخاب کے کھیل میں کھلاڑی سیاستداں ہیں جن کی اعلان شدہ جمع پونجی میں اقتدار کے بغیر بھی کروڈوں کا اضافہ ہوا ہے اور رائے دہندگانتماشائی ہیں ۔ جس طرح کرکٹ میچ کی شکست کا غم غلط کرنے کیلئے اعدادو شمار کا سہارا لیا جاتا ہے اسی طرح انتخابی اعدادو شمار پر نظر ڈالی جائےتو سارا غم غلط ہوجاتا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ پندرہویں لوک سبھا کے انتخابات ہیں اس سے قبل ۱۴ مرتبہ یہ تماشہ ہوچکا ہے اس میں جہاں ۸ مرتبہ کانگریس کو فتح حاصل ہو ئی وہیں ۶ مرتبہ اسے شکست سے بھی دوچار ہونا پڑا ۔ ان ۶ مرتبہ کی شکست میں جہاں ۳ مرتبہ غیر بی جےپی محاذ کو کامیابی ملی وہیں ۳ مرتبہ بی جے پی کو بھی کامیابی نصیب مل چکی ہے اس لئے بی جے پی کا انتخاب میں جیت جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بی جےپی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والےاڈوانی جی کسی طرح مودی سے کم نہیں تھے یہ اور بات ہے اقتدار اٹل جی کو مل گیا۔ ان اعدادوشمار کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں کانگریس نے کل ۶ وزیراعظم ہندوستان کو دئیے وہیں غیر بی جےپی محاذ نے بھی ملک کو ۶ عدد وزرائے اعظم سے نوازہ یہ اور بات ہے کہ ان کی مدت عمل قلیل تھی۔ کانگریس کے ۶ وزارئے اعظم میں سے ۳ کا تعلق اگر نہرو گاندھی خاندان سے تھا تو ۳ باہر والے بھی تھے وہ تو بیچاری بی جے پی ہی ہے کہ جو ۳ مرتبہ کامیاب ہونے کے باوجود صرف ایک وزیر اعظم تک سمٹ گئی ۔ دوسرے کا انتظار اس قدر طویل ہوا کہ تیسرے نے اس پر ہاتھ مارلیا اور اب تیسرا کس قدر انتظار کرے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔ اس لئے کہ بقول محسن بھوپالی ؎
نیرنگئ ِسیاست ِدوراںتودیکھیے منزل انہیںملی جوشریک سفرنہ تھے

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *