اندلس/اسپین ایک تاریخی وتجزیاتی مطالعہ

اندلس براعظم یورپ کے جنوب مشرق میں بحر اوقیانوس( Atlantic Ocean)، آبنائےجبل الطارق اوربحیرہ روم(Mediterranean Sea )سے ملحق، شمالی افریقہ کے بالکل سامنےیورپ کے جنوب مغربی کنارے پر ایک حسین و جمیل جزیرہ نما ہے۔ آج کل اس میں پرتگال، اسپین اورمغربی فرانس کےکچھ علاقےشامل ہیں۔ہسپانیہ اور پرتگال کےجزیرہ نماکا قدیم نام آئبیریاتھا۔
قدیم زمانےسےیہاں ای بیری(Iberians)،کلٹ( Celts)،فنیقی(Phoenicians)،یونانی(Greeks)،رومانی (Romans)،شیوانی (Carthaginians)،الانی( Alans)،واندال( Vandals) اورقوطی (Goth) قوموں نےاپنی آبادیاں قائم کیں۔
ان میں سوائےفنقیوں کےسب کےسب مشرقی اوروسطی یورپ کی قومیں تھیں۔قوطیوں نے419عیسوی میں یہاں اپنی حکومت قائم کی اوران لوگوں نےعیسائیت قبول کرلیا۔اس وقت اندلس میں یہودی اوربت پرست بھی رہتےتھے۔ سلطنتِ رومہ والے اس ملک کو ہسپانیہ کہتے تھے۔ یہ جرمن قوم “واندلس” (Vandalus) سے موسوم ہے۔مسلمانوں کی فتح سے پہلے یہاں کی حکومت سلطنت روم کی ہمسر تھی۔ اس حسین و جمیل خطہ زمین پر اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں قبضہ کیا گیا۔ 19 جولائی 711 ء کو موسٰی بن نصیر کےحکم سے مسلمان سپہ سالار طارق بن زیادنے بادشاہ راڈرک (رودریگو)کو شکست دے کر فتح حاصل کیا ۔ اسلامی حملہ سے چند سال پہلے اسپین پر وٹیزا کی حکومت تھی ۔ یہ بادشاہ یہودیوں کا بہی خواہ ، غریبوں کا معاون اور شرافت کا حامی تھا۔ اس وجہ سے فوجی امراء نے اس کے خلاف بغاوت کرکے فوج کے زور سے راڈرک کو بادشاہ بنا ڈالا اور وٹیزا کو قتل کر دیا۔ اس سبب سے بہت سے امراء اور ویٹزا کے رشتہ دار اس نئے بادشاہ کے مخالف تھے اور اس کا تختہ الٹنے کے کسی بھی منصوبے میں تعاون کے لیے تیار تھے ۔ کاونٹ جولین سابقہ بادشاہ وٹیزا کا قریبی رشتہ دار غالباً داماد تھا،اورمزیدیہ حادثہ ہواتھاکہ کاونٹ جولین کی لڑکی فلورنڈاراڈرک کےمحل میں تھی۔فلورنڈا بہت خوبصورت تھی۔ راڈرک نے اخلاق و اعتماد کے تمام تقاضوں کو نظرانداز کرکے اس کی عصت دری کی۔چنانچہ اندلس کی فتح کاایک سبب یہ بھی ثابت ہوا کہ سبتہ کا حکمران کاونٹ جولین جس نے دو مرتبہ مسلمانوں کے حملے کو ناکام بنا دیاتھا۔ خودموسٰی بن نصیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے اندلس پر حملہ کرنے کی دعوت دی ۔ موسٰی نے اس کی عزت و تکریم کی ۔ جولین نےاسپین کی زرخیزی کے حالات بتائے۔پھرخلیفہ سےاجازت اورغوروفکرکےبعدموسی بن نصیرنے کاونٹ جولین کے ساتھ معاہدہ کیااورسابق مقتول بادشاہ وٹیزا کے دوسرے رشتہ داروں کو بھی معاہدہ میں شامل کر لیا۔ موسٰی بن نصیر نے پہلے صرف پانچ سو سواروں پر مشتمل ایک چھاپہ مار دستہ تیار کیا اور اپنے ایک بربر غلام طریف کو اس کا سربراہ بناکراسپین کے ساحل پر چھاپہ مارنے کے لیے روانہ کیا۔ یہ دستہ جولائی 710ء میں الخضراء پر حملہ آور ہوا اور فتح مند اور کامران واپس لوٹا؛ اس حملہ سے اسپین کی داخلی کمزوری فوجیوں کی بزدلی اور نظام عسکری کی خامیوں کا پتہ چل گیا اور کاونٹ جولین کی اطلاع کی بھی تصدیق ہوگئی۔اس وقت اندلس میں وہ ساری برائیاں موجودتھیں جوکسی معاشرہ کودیمک کی طرح کھاجاتی ہیں۔مثال کےطورپرعیش وعشرت،کمزوروں پرظلم،بدترین ٹیکس کابوجھ،جاگیرداروں کاخوبصورت لڑکیوں پرقبضہ،ہرطرف انارکی وجبروغیرہ۔
موسی بن نصیر نے اس کے بعد 7 ہزار سواروں پر مشتمل ایک لشکر تیار کیا جس کی قیادت اپنے آزاد کردہ بربر غلام طارق بن زیاد کے حوالے کی۔ یہ لشکر9 جولائی711ء کو اس جگہ پر پہنچا جسےجبل الطارق( Gibraltar)کہا جاتا ہے۔ کاونٹ جولین ان کے ساتھ تھا۔ اندلس پہنچنے کے لیے بحری بیڑہ اسی نے مہیا کیا تھا۔ طارق نے ساحل اندلس پر اترتے ہی ان جہازوں کو آگ لگا دی جن پر سوار ہو کر وہ شمالی افریقہ سے یہاں آئے تھے۔
طارق کا پہلا مقابلہ تھیوڈ میر،مرسیہ کےوالی کے ساتھ ہوا۔تھیوڈ میرراڈرک کا تجربہ کار جرنیل تھا لیکن وہ شکست کھا کر اس بری طرح سے بدحواس ہوا کہ اس نے بادشاہ کے پاس پہنچ کریہ اطلاع دی کہ‘‘ ہمارے ملک پر ایسے لوگوں نے حملہ کیا ہے جن کانہ وطن معلوم ہے نہ اصلیت اورنہ یہ کہ وہ کہاں سے آئے ہیں زمین سے نکلے یا آسمان سے اترے۔’’
راڈرک نے اس اطلاع پرشمالی اسپین کی جنگوں کو ملتوی کر دیا ۔ فوراً دارالحکومت پہنچا اور ہر طرف ہرکارے دوڑائے گئے۔ جاگیر داروں اور امراء کو فوجیں لے کر پہنچنے کا حکم دیاگيا۔ پادریوں نے مذہبی جنگ کا وعظ کیا اور ایک لاکھ لشکر اکھٹا ہو گیا ۔طارق کو ان سب تیاریوں کا علم ہوا اس نے موسیٰ بن نصیر کے پاس قاصد بھیجے توانہوں نے مزید پانچ ہزار فوج بھیج دی۔ اس طرح سے ایک لاکھ کے اندلسی لشکر کے مقابلے میں ۱۲ ہزار مجاہدین کی ایک جماعت تیار ہوگئی ۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو عجیب منظر تھا ایک طرف ایک لاکھ ٹڈی دل جو ہر طرح کے اسلحہ سے لیس تھا۔ اور دوسری طرف صرف بارہ ہزار انسان جو اپنے وطن سے دور کمک و رسد سے مایوس تھے اور جن کے پاس دشمن کی بہ نسبت اسلحہ بھی بہت کم تھا۔ طارق بن زیاد نے اس صورت حال کوبھانپ کراپنےساتھیوں سے خطاب کیا۔
‘‘اے جواں مردو! جنگ کے میدان سے اب بھاگنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ دشمن تمہارے سامنے ہے اور سمندر تمہارے پیچھے ۔ صبر اور مستقل مزاجی کے علاوہ اب تمہارے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ تمہارے دشمن کے پاس فوج بھی ہے اور اسلحہ جنگ بھی ۔ تمہارے پاس بجز تمہاری تلواروں کے اور کچھ بھی نہیں ۔اگر تم اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرناچاہتےہوتودشمن جو تمہارا مقابلہ کرنے کے لیے آگےبڑھ رہاہے، اس کے دانت کھٹے کر دو۔ اس کی قوت کو ختم کردو۔ میں نے تم کو ایسے کام کے لیے نہیں پکارا جس سے میں گریز کروں ۔ میں نے تم کو ایسی زمین پرلڑنے کے لیے آمادہ نہیں کیا جہاں میں خود لڑائی نہ کروں۔ اگر تم نے ذرا بھی ہمت وحوصلہ سے کام لیا تو اس ملک کی دولت و حشمت تمہارے جوتوں کی خاک ہوگی۔ تم نے اگر یہاں کے شہسواروں سے نپٹ لیا تو اللہ اوراس کےرسول کےاحکامات یہاں جاری و ساری ہو جائیں گے۔ یہ جان لو جس طرف میں تم لوگوں کو بلا رہا ہوں اس طرف جانے والا پہلا شخص میں ہوں۔ جب فوجیں ٹکرائیں گی تو پہلی تلوار میری ہوگی جو اٹھے گی۔ اگر میں مارا جاؤں تو تم لوگ عاقل و دانا ہو کر کسی دوسرے کا انتخاب کر لینا مگر خدا کی راہ میں جان دینے سے منہ نہ موڑنا اور اس وقت تک دم نہ لینا جب تک یہ جزیرہ فتح نہ ہو جائے ۔’’
کئی روز مسلسل راڈرک کا لشکر داد عیش دیتا رہا او ر مومنین سربسجود فتح و نصرت کی دعائیں مانگتے رہے۔ اسلامی لشکر بہت بہادری سے لڑ رہا تھا۔ لیکن اپنے سے آٹھ گنا لشکر کو جسے تمام سہولتیں حاصل ہوں شکست دینا اتنا آسان نہ تھا۔ آٹھویں روز طارق نے بھرپور حملہ کیا ۔ سابق بادشاہ وٹیزا کے رشتہ دار راڈرک کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ راڈرک کی فوج کا دایاں و بایاں بازو انہی کے کمان میں تھا۔ قلب کی وہ خود کمان کر رہا تھا۔ طارق نے پورا زور قلب ہی پر لگا دیا اورعرب وبربر اس بہادری سے لڑے کی عیسائی لشکر بھاگ کھڑا ہوا۔ خود راڈرک بھی میدان سے بھاگ نکلا اور کہا جاتا ہے کہ دریا عبور کرنے کی کوشش کرتا ہوا لہروں کی نذر ہو گیا۔
اندلس کی مرکزی حکومت کی شکست کے بعد طارق بن زیاد نے اپنی فوج چھوٹے دستوں میں تقسیم کرکے مختلف شہروں کی طرف روانہ کی۔ اور کاونٹ جولین کی راہنمائی کے مطابق ملک کے طول و عرض میں اسلامی فوج کے دستے فتوحات حاصل کرنے لگے۔ مسلمانوں نے پہلا حملہ اسیجہ پر کیا جہاں گاڈ ایسٹ کی شکست خوردہ فوج جمع ہو رہی تھی ۔ اللہ تعالٰی نے یہاں بھی مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور قرطبہ کی فتح کا سہرامغیث رومی کے سر بندھا۔ مالقہ اورغرناطہ بھی فتح ہو گئے دارلحکومت طلیطلہ کے باشندے مسلمانوں کی آمد کی خبر سن کر شہر چھوڑ کر بھاگ گئے ۔
فتح کی بشارت ملتے ہی موسی بن نصیر اندلس روانہ ہو گئے ۔ موسی نے فتح اندلس کی تکمیل کے لیے قرمونہ اشبیلیہ اور ماروہ کو فتح کیا اور اس کے بعد دارلحکومت طلیطلہ میں طارق کے ساتھ جا ملے ۔اسپین کے شمالی حصے کی تسخیر دونوں کی متحدہ فوجوں نے کی اورسرقونہ، ارغون اور برشلونہ کے علاقے فتح ہوئے۔
خلیفہ ولیدجب بیمار پڑ گیاتو اس نے موسی بن نصیر کو واپسی کا حکم دیا، چنانچہ موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد ۹۵ ھ میں بے پناہ مال غنیمت کے ساتھ پایہ تخت دمشق روانہ ہوئے ۔ واپسی پر اس نے اپنے بیٹوں عبدالعزیز،عبداللہ،عبدالملک کو علی الترتیب اسپین ، شمالی افریقہ اورمراکش کا والی مقرر کیا۔ موسی کی اچانک واپسی کی بنا پر مسلمانوں کے مفادات کو سخت نقصان پہنچا خلیفہ ولید کے مرنے کے بعد جانشین خلیفہ سلیمان نے محض اپنی ذاتی رنجش کی بنا پر بجائے موسی کی عزت و توقیر اور منصب میں اضافہ کے جیل میں ڈال دیا۔ بعد میں اگرچہ ایک سردار کی سفارش کی بنا پر اس کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن سلیمان نے اس پر کئی لاکھ کا تاوان جرمانہ کی صورت میں عائد کر دیا اس قدر بڑی رقم موسی ادا نہ کر سکا اور اسلام کے اس نامور فرزند اور عظیم سپہ سالار اور فاتح نے اپنی زندگی کے بقیہ ایام انتہائی کسمپرسی اور تنگ دستی میں گزارے-
امیرعبدالعزیزبن موسی بن نصیرنےاندلس کواسلامی بنانےکی بھرپورکوشش کی ۔انہوں نےایک قانون یہ بنایاتھاکہ اگرکوئي عیسائي غلام اسلام قبول کرلیتاتواسےآزادسمجھاجاتا۔اس بہترین اسکیم کےنتیجےمیں بہت سارےلوگوں نےاسلام کےدامن میں پناہ لےلی۔مگربدقسمتی سےعبدالعزیز کومعزول کردیاگيا۔اسلامی تعلیمات کی غیرپختگی کےباعث اندلس میں بربراورعربی قومیت کےجاہلی رجحان پیداہونےلگے۔بربروں کی خواہش تھی کہ انہیں مساوات ملےاوروہ عربوں،شامیوں اوریمانیوں کےہم پلہ شمارہوں۔لیکن یہ لوگ ماننےپرآمادہ نہیں ہوئے۔یہاں تک کہ جب شامیوں کاسردارثعلبہ اندلس کاحکمراں بناتومدنی اورافریقی عربوں کوشکست دینےکےبعدان کی عورتوں اوربچوں کوغلام بنالیا(تاریخ ہسپانیہ:پروفیسر رائن ہارٹ ڈوزی۔ اردوترجمہ،عبرت نامہ اندلس،مولوی عنایت اللہ)۔
علامہ ابن العذاری المراکشی لکھتےہیں کہ دمشق کےاموی خلفاءبربری عورتوں کےبڑےدلدادہ تھے۔بربرغلام اورلونڈیاں کثرت سےدمشق کے حکمرانو ں کی تسکین کےلیےبھیجی جاتی تھیں۔(اخبارالمغرب)
بدنظمی اورانتشارکایہ عالم تھاکہ 132ہجری بمطابق 755تک اندلس کےاندربیس حکمرانوں کاتقررہوا۔ان میں سےصرف دوافرادنےپانچ پانچ سال تک حکومت کی
جب عباسیوں نے دمشق پر قبضہ کرکے خلافت امویہ کا خاتمہ کردیا تو عباسیوں کے ہاتھوں خاندان امویہ کے قتل عام میں بچ جانے والا واحد فرد عبدالرحمن بن معاویہ تھا۔ اس وقت اس کی عمر 20 سال تھی۔وہ کسی طرح اندلس پہنچنےمیں کامیاب ہوگیاجہاں سطلنت امویہ کی باقیات موجود تھی اوروہیں اس کانانیہال بھی تھا۔وہاں پہنچ کراس نےاعلی صلاحیتوں اورجنگی مہارتوں سےاندلس کی حکومت سنبھال لی۔اس کو عبدالرحمن اول (عبدالرحمن الداخل)کےنام سےجاناجاتاہے۔یہ اندلس میں امارت امویہ کا بانی تھا، اس نے 756 سے 788ء تک اندلس پر حکمرانی کی۔ عباسی خلیفہ ابوجعفرمنصورنےعبدالرحمن الداخل کی سرکوبی کےلیےعلاء بن مغیث کی سربراہی میں اندلس پرحملہ کافرمان جاری کیا۔عبدالرحمن نےدانشمندی اورفوجی مہارت سےقرمونہ کےقلعہ میں دومہینےتک محصورہونےکےبعدعلاء کوزبردست شکست دی۔عبدالرحمان نےفتح کےبعد بڑےبڑےعباسی کمانڈروں کےسرکاٹ دیےاوراس میں نمک اورکافوربھردیا،پھراس کوخلیفہ منصورکےلیےتحفہ بناکربھیج دیا۔منصوراس کودیکھ کرچلایااورکہاکہ یہ انسان کانہیں کسی شیطان کاکام ہے،اللہ کاشکرہےکہ اس نےہمارےدشمن کےدرمیان سمندرحائل کردیا۔
(مجموعہ اخباراندلس) ۔
شہرقرطبہ(Cordova) کی پہلی فتح کےموقع پرمسلمانوں نےیہاں کےسب سےبڑےگرجاشنت تنجنت کےنصف حصہ کولےکرجامع مسجدبنا لیاتھااورنصف گرجےکواپنےحال پرباقی چھوڑدیاتھااورباقی دوسرےگرجوں کومسمارکرادیاتھا۔یہ وہی اسوہ تھاجوحضرت عمرنےفتح دمشق کےموقع پراختیارفرمایاتھا۔
عبدالرحمن نےاس کےنصف حصہ کوخریدناچاہالیکن عیسائیوں نےانکارکردیا،پھرباہم مشورہ کےبعدقرطبہ اوراس کےنواح میں تما م مسمارشدہ قلعوں اورگرجوں کوبنانےکی اجازت دی گئی توعیسائي لوگ اس گرجےسےدست بردارہوگئےاورعبدالرحمن نےاس کےبدلےعیسائيوں کومزید ایک لاکھ دیناردیے۔784عیسوی میں شنت تنجنت کی یہ اراضی حکومت کو حاصل ہوئی ۔عبدالرحمن کےزمانےمیں یہ مسجداس حدتک تیارہوگئی کہ اس میں نمازاداکی جاسکے۔اس نےاس میں نمازجمعہ اداکی اورمنبرپرخطبہ دیا۔اس کی تعمیرپرعبدالرحمن کےوقت میں اسی ہزاردینارصرف ہوئے تھے۔اس کی تعمیرکاسلسلہ اس کےبیٹےاورجانشین ہشام اول تک جاری رہا۔
عبدالرحمن الداخل نےقصرحکومت میں سیروتفریح کےلیےباغ رصافہ بنوایااوراس میں رنگ برنگےپھل اورپھول لگوائے۔اس کےدربارمیں شعراء وعلماء کااجتماع رہتا اورعلم وادب کی مجلسیں گرم رہتیں،خلعت وخاصےعطاکیےجاتےاورشعراء منہ مانگی مرادیں پاتے۔اس کےزمانےمیں شیخ غازی بن قیس اورشیخ ابوموسی مشہورعالم تھے۔شیخ غازی بن قیس موطاامام مالک اورنافع کی قرات کوپہلی مرتبہ اندلس لائے۔
ہشام بن عبدالرحمن الداخل کادورحکومت داخلی فتنہ وفسادفروکرنےمیں گذرا،وہ سیرت وکردارکےلحاظ سےکافی فائق تھا۔ابن اثیرنےلکھاہےکہ اس کے فضائل کےبیان میں اہل اندلس نےاس حدتک کہاہےکہ وہ اپنی سیرت وکردارمیں حضرت عمربن عبدالعزیزسےمشابہ تھا۔
اس کےبعداس کابیٹاحکم بن ہشام بادشاہ بنا،اس نے فرانس کےبادشاہ شارلیمین کوشکست دی اورکئی جنگی فتوحات حاصل کیں۔مگریہ صلاح وتقوی سےلیس نہ تھابلکہ شراب نوشی اورعیش وعشرت کادلدادہ تھا۔اس نےخدم وحشم کثرت سےبڑھائے اورلڑکوں کوخصی کرکےخواجہ سرابنایا۔
اس کےفسق وفجور سےنمٹنےکےلیےقرطبہ کےممتازعلماء وصلحاء نےاس کی بیعت سےخلع کرناضروری قراردیااورایک اموی شہزادہ محمدبن القاسم معروف بہ ابن الشماس کومسندحکومت پربٹھانےکاارادہ ظاہرکیا۔مگرشہزادہ خفیہ طورپرحکم بن ہشام سےمل گیااوران رازوں سےاسےباخبرکردیا۔ حکم نےشہادت کےبعدسب کوگرفتارکرلیا۔جولوگ اس کی گرفت سےباہرہوگئے،ان میں شیخ عیسی بن دیناراورشیخ یحیی بن یحیی لیثی ہیں اوراکابر میں جوحکم کےہاتھ لگ گئے،ان میں یحیی بن نصریحصبی،موسی بن سالم خولانی،موسی بن سالم بن ابی کعب ،یحیی بن یحیی لیثی کےسگےبھائی اورابویحیی زکریابن مطرغستانی جوحضرت امام مالک اورحضرت سفیان ثوری کےارشدتلامذہ میں تھےاوراندلس میں دین کےستون سمجھےجاتےتھےاوراسی طرح دیگرعلماء جن کی تعداد72تھی،چنددنوں کےبعدشاہی محل کےسامنےان سب کوسولی پرلٹکادیاگیااورسرزمین اندلس ان اکابرعلم کےفیوض وبرکات سےہمیشہ کےلیےمحروم ہوگئی ۔
حکم نےاپنی حفاظت کےلیےمحل میں ڈھیرساری شاہی فوج جمع کرلی ۔اوراس میں اضافہ کرتاگیا۔191ہجری بمطابق 808عیسوی میں حکم لشکرلیکرماردہ کی مہم کےلیےنکلاتواہل قرطبہ کوشہرمیں محصورہوجانےکاموقع ملا۔حکم یہ سنتےہی تین کےاندرواپس ہوااورشورش کنندوں میں کچھ لوگوں کوسولی پرچڑھادیا۔وقتی سکون پیداہوگيالیکن عوامی اشتعال باقی رہا۔فوج اورشہریوں میں جذبہ عنادترقی پاتارہا۔کوئی جری اذان کےبعد “الصلواۃ یامخمور”کی ندالگاتا۔
حکم نےمزیدایک جدت یہ کی کہ غلہ کاہروہ بوراجوقرطبہ میں باہرسےلایاجاتا،اس میں سےدسواں حصہ سرکاری محصول میں لےلینےکاحکم صادرکیا۔ اہل قرطبہ نےاس کوسخت ناپسندکیااورکچھ شورش پیداہوئی تودس لوگوں کوپھانسی پرچڑھادیا۔
اس کےبعدسب سےبدترین تباہی 198ہجری بمطابق813عیسوی کوپیش آئي ۔ایک شاہی فوجی نےاپنی تلوارصیقل کرنےکےلیےایک صیقل گر کودی ،دونوں کےدرمیان کچھ نزاع پیداہوااورشاہی فوجی نےصیقلگرکوقتل کرڈالا۔اس واقعہ سےعوام مشتعل ہوگئی اورالسلاح السلاح کےنعرے لگاتےہوئےشاہی محل کی طرف دوڑپڑی اورایک جم غفیرمحل کی محافظ فوج پرحملہ آورہوگیا۔فوج نےبھی مقابلہ کیامگروہ پسپاہوکر پیچھےہٹنے لگی تو پھر حکم خودنکلااوراپنی جنگی مہارت سےپانسہ پلٹ دیا۔اپنےچچازادبھائی عبداللہ کومحل سےنکل کرشہرپناہ کی پشت سےحملہ کرنےکوکہا۔وہ محل کے پیچھےسےنکلنےمیں کامیاب ہوگيااورپہلےشہرکےمحلوں میں آگ لگادی اورپھرعقب سےحملہ آوروں پرٹوٹ پڑا۔لوگوں نےجب اپنےمحلوں سےآگ کےشعلےنکلتےدیکھےتواپنےاہل وعیال کی فکرمیں بدحواس ہوکرمڑپڑے۔اب میدان صاف تھا۔فوج درندوں کی طرح آگےبڑھی اورشہرکےان محلوں پرٹوٹ پڑی اورتین دن تک قتل عام،آتش زدگی اورلوٹ مارکاسلسلہ جاری رکھ کرایک قیامت برپاکردی۔جوجہاں ملتااسےقتل کردیاجاتا۔ مکانات ڈھائےگئےاورمسجدیں مسمارکی گئيں۔جولوگ بچ گئےانہیں جلاوطن ہونےکاحکم دیاگیا لیکن راستےمیں شریرفوجی اورسپاہی چھپ جاتے اوران کےساتھ مال واسباب کی لوٹ مارکرتےرہتے،جوسامان بچانےکی کوشش کرتاجان سےماراجاتا۔ان ہی مصائب وآلام کےساتھ یہ لوگ اندلس سےباہرنکلے،کچھ لوگو ں نےمغرب کےشہرفاس میں اقامت اختیارکی اورکچھ بڑھتےہوئےمصرچلےگئے۔
ابن القوطیہ نےلکھاہےکہ اس خونریزی کےبعدحکم بدترین قسم کےلاعلاج مالیخولیامیں مبتلاہوگیااورقتل وخون ہی مناظرہروقت اس کی آنکھوں کےسامنےگردش کرتےرہتے۔
اس کےبعداس کابیٹاعبدالرحمن بن حکم بادشاہ بنا۔اس نےاندرونی بغاوتوں کاکامیابی کےساتھ سدباب کیا۔اس کےوقت میں اندلس کےسرحدی علاقےمیں نبوت کاایک مدعی ظاہرہوا۔اپنی تائیدمیں قرآن آیات کی تاویل پیش کی ۔غوغائیوں کی ایک جماعت اس کی معتقدہوگئی ۔اپنی شریعت میں اس نےناخن اوربال کاٹناممنوع قراردیا۔عبدالرحمان نےاس کوگرفتارکرکےسولی پرلٹکادیا۔اس نےنارمن قزاقوں کوبری طرح شکست دی اور اس کےبعداشبیلیہ میں دارالصناعۃ کےنام سےجہازسازی کاکارخانہ قائم کیا۔222ہجری بمطابق 836عیسوی میں بازنطینی شہنشاہ میکائیل نے عبدالرحمن ثانی کےپاس اپناسفیربھیجا۔اس کاایک خاص مقصدسلطنت عباسیہ پرحملہ تھا۔مگرمغرب کی اموی سلطنت داخلی معاملات میں الجھنے کے باعث کوئي واضح جواب نہ دےسکی ۔
افریقہ کےشہرتاہرت کےقریب سلطنت عباسیہ کےماتحت بنواغلب نےایک نئےشہرکی بناء عباسیہ کےنام سےکی تھی۔229ہجری بمطابق 843عیسوی میں اس شہرکوایک خارجی افلح بن عبدالوہاب اباضی نےحملہ کرکےجلاڈالااوراس نےاس کارگذاری کی اطلاع عبدالرحمن ثانی کےپاس بھیجی۔تواس نےاس حسن خدمت کےصلہ میں اس کوایک لاکھ درہم عطاکیا(ابن اثیر)۔
یہ صورت حال مفادپرستی اورذاتی بغص وعنادکےلیےاسلام تعلیمات کی پامالی کی مثال ہے۔
عبدالرحمن ثانی نےفرانس کےساتھ کئی معرکےلڑےجس میں فرانس کوبری شکست ہوئي ۔مسلمانوں نےفرانس کےبرشلونہ شہرکامحاصرہ کرلیااور یہودیوں کی مددسےشہرپرقبضہ ہوگیا۔اسی زمانےمیں عیسائیوں میں ایک نئی مذہبی تحریک پیداہوئي۔
لین پول رقم طرازہے”غالی مسیحیوں میں یہ خیال پیداکیاگياکہ مذہب کی اصل اس وقت پیداہوتی ہےجب روح زیادہ سےزیادہ تکلیف اٹھائے۔اس لیےحکمرانوں کومشتعل کرکےانسانی جسم اورگوشت پوست کوتکلیفیں پہنچائي جائيں تاکہ روح کاتزکیہ وتقدیس ہوسکے۔اس تحریک کابانی قرطبہ کا ایک راہب یولوجیس(Eulogius)تھا۔اس نےچندنوجوانوں میں فدائیت کاجذبہ پیداکیاکہ اپنی روح کوپاک کرنےکےلیےاس نئےدین اسلام اوراس کےپیغمبرپرسب وشتم کریں”۔
اس تحریک کوکامیاب بنانےمیں قرطبہ کےایک دولت مندعیسائی نوجوان الوارو(Alvaro)اورایک حسین لڑکی فلورا(Flora)نےنمایاں حصہ لیا۔
عبدالرحمن ثانی فنون لطیفہ اورموسیقی سےکافی دلچسپی رکھتاتھا۔اورکہاجاتاہےکہ ایک حدتک پابندشریعت بھی تھا۔اس نےبہت سارےمحلات ،حمام اورسیرگاہیں تعمیرکروائیں۔عورتوں سےخصوصی شغف رکھتاتھا۔
لین پول نےلکھاہےکہ نئےسلطان نےقرطبہ کوبغدادثانی بنادیا(مورس ان اسپین)۔
عبدالرحمن بن حکم کےبعداس کابیٹامحمدبن عبدالرحمن ثانی اس کاجانشین بنا۔اس کےبارےمیں کہاجاتاہےکہ یہ راست بازشخص تھا،اہل عقل کوقریب رکھتاتھااورخالص عربی النسل لوگوں پراہل شام کوترجیح دیتاتھا۔
اس کےبعداس کاشہزادہ منذربن محمدبادشاہ بنا۔اس نےسب سےبڑی غلطی یہ کی کہ ایک نہایت ہی وفاداراورصالح والی ہاشم بن عبدالعزیزکوسولی پرلٹکادیااورپھراپنی حکومت کےدوسرےہی سال میدان جنگ میں ماراگیا۔
اس کےبعداس کابھائی عبداللہ بن محمدبادشاہ بنا۔اس کےوقت میں ایک مدعی نبوت ظاہرہوا۔ بادشاہ نےفقیہ بقیی بن مخلدکےمشورےسےاس کوپھانسی دیدی۔اس کےدورمیں بہت ساری اندرونی بغاوتیں رونماہوئیں ۔
اس کےایک بیٹےمحمدنےاشبیلیہ میں بغاوت کردی ۔اس کوفروکرنےکےلیےبادشاہ عبداللہ نےاپنےبیٹےعبدالرحمن کوبھیجا۔اس جنگ میں شہزادہ محمدکوشکست ہوئي اوروہ گرفتارہوگیا۔زخموں کی تاب نہ لاکرچنددن بعدفوت ہوگيا۔اس وقت اس کی عمر28سال تھی ۔اس نےاپناایک بیٹاچھوڑا جوبعدمیں عبدالرحمن الناصرکےنام سےمشہورہوا۔
بادشاہ عبداللہ نےباغی مسلمانو ں کےمقابلےمیں جلیقیہ کےعیسائی بادشاہ سےمعاہدہ کرلیا۔اس سےبادشاہ کےخلاف ایک زبردست فضاپیداہوگئي ۔بعض جگہوں پربادشاہ کانام خطبہ سےنکال دیاگیا۔اورلوگوں نےبادشاہ کےخلاف تقریریں کیں۔بادشاہ نےاس کےایک سرغنہ شہزادہ القاسم کوگرفتارکرلیااوراس کوزہردیکرماردیاگيا۔پھربہت سارےمشہورعالموں کوجلاوطن کردیاگیا۔مشہورومعروف فقیہ زکریابن خطاب اسی اندیشےسے مشرق کی سمت بھاگ گئے۔
شاہان بنی امیہ کےزمانےمیں اندلس کےاندریہ دستورتھاکہ کوئی بھی وزیراپنےبرابروالےوزیرکےسواکسی اورکےگھرمیں داخل نہیں ہوتاتھا۔اور تعظیماکھڑاہوناشرط کےدرجہ میں ضروری تھا۔
285ہجری میں زبردست قحط پڑا۔اسپین اورافریقہ کےلوگ بھوکوں مرنےلگے۔یہاں تک غریب ایک دوسرےکوکھانےلگے۔اس کےبعدایک وبائی مرض پیداہوا۔اس میں بےشمارجانیں گئیں۔جولوگ مرنےکےقریب ہوتےوہ خودہی قبرستان پہنچ جاتےاوروہاں لیٹ رہتے۔299ہجری میں ایک بڑاسورج گرہن ہواجس میں پوراآفتاب غائب ہوگیا۔
بادشاہ عبداللہ اپنےپوتےعبدالرحمن بن محمدکابہت خیال رکھتا،اس نےاپنی وفات سےقبل اپنےبیٹےشہزادہ عبدالرحمن کوخصوصی وصیت کی کہ اپنےبھتیجےکی اپنےبیٹےکی طرح دیکھ بھال کرنا۔اوربادشاہ عبداللہ نےاپنےبائیس سالہ پوتےعبدالرحمن الناصرکواپناولی عہدمقررکیا۔اس کےچچا عبدالرحمن بن عبداللہ نےبخوشی اس کےہاتھ پربیعت کی ۔عبدالرحمن الناصرکی ماں مریم مسیحی النسل تھی۔ عبدالرحمن الناصر (912ء تا 961ء)اندلس میں خلافت امویہ کا سب سے مشہور حکمران تھا جو عبدالرحمن الثالث اور عبدالرحمن اعظم کے ناموں سے بھی معروف ہے۔
وہ جب تخت پر بیٹھا تو ملک کی حالت بہت خراب تھی۔ ہر طرف بغاوتیں پھیلی ہوئی تھیں ۔اس کے باوجود اس نے ایسی قابلیت سے حکومت کی کہ دس پندرہ سال کے اندر ملک میں امن قائم کر دیا۔ اس نے نہ صرف اسلامی اندلس میں امن قائم کیا بلکہ شمال کے پہاڑوں میں قائم عیسائی ریاستوں کو بھی باجگذار بنا لیا۔
عبد الرحمن نے فوجی قوت کو بڑی ترقی دی۔ اس کی فوج کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی۔اس کے دور میں بحری قوت میں بھی بہت اضافہ ہوا اور اندلس کے بحری بیڑے میں 200 جہاز شامل تھے جبکہ ساحلوں پر پچاس ہزار سپاہی ہر وقت حفاظت کے لیے موجود رہتے۔
بازنطینی سلطنت، فرانس اور جرمنی کی حکومتوں نے اپنے سفراء اس کے دربار میں بھیجے۔ اندلس کے اموی حکمران اب تک “امیر” کہلاتے تھے اور انہوں نے خلافت کا دعویٰ نہیں کیا تھا لیکن چوتھی صدی ہجری میں بغداد پر بنی بویہ کے قبضے کے بعد عباسی خلفاء بویہی حکمرانوں کے ماتحت ہوگئے تھے۔ عبدالرحمن نے جب دیکھا کہ خلافت میں جان نہیں رہی اور وہ ایک طاقتور حکمران بن گیا ہے تو اس نے امیر کا لقب چھوڑ کر اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔اورامیرالمومنین کالقب استعمال کرنےلگا۔ اس کے بعد سے وہ اور اس کے جانشیں خلیفہ کہلانے لگے۔
عبد الرحمن صرف ایک طاقتور حکمران ہی نہ تھا بلکہ وہ بڑا لائق، عادل اور رعایا پرور بادشاہ تھا۔ اس کے زمانے میں حکومت کی آمدنی ایک کروڑ بیس لاکھ دینار تھی۔ اس میں سے ایک تہائی رقم وہ فوج پر خرچ کرتا تھا اور باقی کوبوقت ضرورت کام آنے کے لیے خزانے میں جمع کر دیتا تھا۔
اس کےعہدمیں حمیم نام کاایک مدعی نبوت شخص ظاہرہوا۔اس نےنئی شریعت وضع کی۔بعدازاں اسےگرفتارکرکےسولی پرلٹکادیاگیا۔
اس کی اصول پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ اس کے لڑکے نے بغاوت کی۔ جب وہ گرفتار کر کے لایا گیا تو عبد الرحمن نے اس کو موت کی سزا دی۔ اس پرولی عہدنے اپنے بھائی کو معاف کر دینے کے لیے گڑ گڑا کر سفارش کی لیکن عبدالرحمن نے جواب دیا:
“ایک باپ کی حیثیت سے میں اس کی موت پر ساری زندگی آنسو بہاؤں گا لیکن میں باپ کے علاوہ بادشاہ بھی ہوں۔ اگر باغیوں کے ساتھ رعایت کروں تو سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی”اس کے بعد اس کا لڑکا قتل کر دیا گیا۔
مشہورطبیب زہراوی اس کےسرکاری طبیب تھے۔اسی زمانےمیں مشہورعربی ادیب ابوعلی قالی تھے۔ان کی کتاب الامالی کافی مشہورہے۔ابن عبدربہ القرطبی بھی اسی زمانےمیں تھے،ان کی کتاب عقدالفریدتاریخ وادب کاشاہکارسمجھی جاتی ہے۔
اس نے اپنی لونڈی زہرہ کے لیے قرطبہ کے نواح میں ایک بستی قائم کی جومدینہ الزہرا کہلاتی ہے۔یہ وادی الکبیرکےکنارےتعمیرکی گئی۔اس میں چارسوکمرےتھے،اس کےلیےسنگ مرمرمراکش سے،سنہری ستون اوردیگرسامان آرائش قسطنطنیہ سےمنگوایاگیاتھا۔ اس پر اس نے کروڑوں روپیہ صرف کیا۔ اس کی تعمیر بیس سال تک جاری رہی اورتقریبادس ہزارمزدوروں نےکام کیا۔ اس میں شاہی خاندان کے امراء کے بڑے بڑے محل اور ملازمین کے لیے مکانات اور سرکاری دفاتر تھے۔ اس میں ایک چڑیا گھر بھی تھا جس میں طرح طرح کے جانور پھرا کرتے تھے اور شہر کے لوگ تفریح کے لیے یہاں آیا کرتے تھے۔
مدینۃ الزہرہ کے محلات کی تکمیل ہونے کے بعد لوگوں نے خلیفہ کو مبارک باد دی۔ جمعہ کا دن تھا،مسجدمیں سب نماز کے لیے جمع ہوئے۔ قاضی منذر نے خطبہ پڑھا اور اس خطے میں عبدالرحمن کی اس فضول خرچی کی مذمت کی اور برا بھلا کہا۔ قاضی منذر بہت دلیر تھے اور حق بات کہنے سے کبھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ عبدالرحمن نے قاضی کی باتیں صبر سے سن لیں۔اس نےپچاس سال چھ مہینےحکومت کرکےبہترسال کی عمرمیں مدینہ الزہرامیں وفات پائی۔
عبدالرحمن کے بعد اس کا بیٹا حاکم بن عبدالرحمن معروف بہ المستنصرباللہ تخت حکومت پر بیٹھا۔یہ کتابوں کابہت زیادہ شائق تھا۔
قاہرہ کی الازہراوربغدادکی نظامیہ سےبہت پہلےعبدالرحمن الناصرسےقرطبہ میں ایک یونیورسیٹی قائم کی تھی۔جس میں مقامی طلبہ کےعلاوہ افریقہ، ایشیااوریورپ کی مختلف ریاستوں سےبھی متلاشیان علم آتےتھے۔حاکم نےیونیورسیٹی کومزیدوسعت دی۔سکےکےنل لگاکرپہاڑی چشموں کاپانی وہاں تک پہنچایا۔دمشق،بغداداورقاہرہ سےاساتذہ طلب کیے۔
اس نےبےشمار کتابوں سےقصرمروان کوبھردیااوراس مقصدکےلیےاہل علم کی ایک کمیٹی قائم کی اورسب کومختلف شہروں میں کتاب لانےکے لیےروانہ کیا۔حاکم نےابوالفرج الاصبہانی کوخط لکھاکہ اپنی کتاب الاغانی کی ایک نقل روانہ کردیں اوراس کےعوض جتنی بھی رقم چاہیں خزانے سےلےلیں۔
ابن حیان اندلسی لکھتےہیں کہ کتب خانہ مروانیہ جوقصرمرحان میں قائم کیاگیاتھااس کی فہرستیں چوالیس جلدوں میں تھیں۔ہرایک جلدکےپچاس پچاس ورق تھےاوران میں فقط کتاب اورمصنفین کانام تھا۔
اس وقت چرم سازی،ریشم بافی،شیشےاورتانبےکےظروف،قرطبہ کی مخصوص صنعتیں تھیں۔مالقہ سےلعل وگہرنکلتےتھے۔جین سےسونا،قرطبہ سےفولاداورسکہ،طلیطلہ کی تلواریں دنیابھرمیں مشہورتھیں۔عربوں نےایشیاسےاتنےپھل داردرخت اندلس میں منتقل کیےتھےکہ ہرطرف باغ ہی باغ نظرآتےتھے۔(تاریخ عرب:فلپ کےحٹی،ص،130)
355ہجری میں زبردست طوفانی تباہی آئی ۔عراق اوردیگرمقامات کےلوگوں کی صحبت سےان دنوں اہل اندلس میں شراب پینےکی بدترین خصلت علی العموم پیداہو گئی۔عوام ہی نہیں بلکہ اہل علم اورفقیہ بھی بلاپس وپیش پینےلگے۔ولیموں اوردیگرتقریبات میں شراب کادورخوب چلتا۔بادشاہ حاکم شریعت سےواقف تھااورشراب نہیں پیتاتھا۔ایک دن اس نےعالمو ں اورفقیہوں کوجمع کرکےسوال کیاتوان لوگوں نےجواب دیاکہ بادشاہ محمدکے عہدمیں یہ مسئلہ پیداہواتھا۔اس وقت سب لوگوں کی رائےیہ تھی کہ اندلس کےمسلمان چونکہ ہمیشہ دین اسلام کےدشمنوں کےمقابلےمیں برسر پیکاررہتےہیں،اس لیےان کےلیےشراب جائزہے۔شراب سےان کی قوت بڑھ جاتی ہے۔اورمیدان جنگ میں سپاہیوں کادل مضبوط رہتاہے۔ اسی بناء پرتمام سرحدی ممالک میں شراب کی عام اجازت دےدی گئی۔کیونکہ سپہ گروں کومصائب جنگ برداشت کرنےاوراپنی قوت بڑھانےمیں اس سےبڑی مددملتی ہے۔بادشاہ کوان کی یہ رائےنہایت ناگوارہوئي ۔اس نےسختی سےان کی تردیدکی اورپورےغیض وغضب سےحکم دیاکہ اندلس میں جتنی کھجورکی تاکیں ہوں ،اکھاڑکےپھینک دی جائیں۔فقط اتنےباغ چھوڑدیےجائیں جوتازہ اوردیگرایام میں سوکھےپھل کھانےکےکام آسکیں۔اس کےبعد ایک صالح قاضی القضاۃ عبدالملک بن منذربن سعیدالبلوطی کےذمہ اس طرح کےسارےمعاملات سپردکردیے۔
(تاریخ عرب اسپین:ڈاکٹرجےاےکانڈی،ص،462)
بادشاہ حاکم بن عبدالرحمن نےایک رجسٹربنانےکاحکم دیا۔اس میں مملکت کےکل شہروں کاحال لکھاگيا۔اس میں لکھاگياکہ اندلس میں چھ شہراول درجےکےہیں،جوفوجی اضلاع کےمستقرہیں۔80شہردوسرےدرجےکےہیں جن کی آبادی بہت زیادہ ہےاورتین سوشہرتیسرےدرجےکے ہیں۔اس میں کئی قریے،گاؤں ہیں۔بعض مورخ بیان کرتےہیں کہ بادشاہ حاکم بن عبدالرحمن کےوقت میں قرطبہ کےاندربارہ لاکھ مکان ،چھ سومسجدیں،پچاس شفاخانے،اسی مدرسےاورنوسوحمام عوام کےلیےتھے۔سلطنت کی آمدنی ایک کروڑبیس لاکھ مثقال سونےکےبرابرتھی۔اس میں زکواۃ کی رقم شامل نہیں ہے۔ سونے،چاندی ،ہیرے،جواہرات اوردیگردھاتوں کی بہت ساری کانیں تھی۔کاشت کاری اورزراعت بہت ترقی یافتہ تھے۔اس نےبہت سارےپل اورنہریں بنوائيں۔
اسی زمانےکےبارےمیں جرمنی کی ایک راہبہ نےکہاتھاکہ اگردنیاکوایک انگشتری فرض کیاجائےتوقرطبہ اس کانگینہ ہے۔
(تاریخ عرب،حتی،ص،129)
معروف امریکی مورخ جان ولیم ڈریپر نے لکھا ہےکہ جس زمانے میں قرطبہ کے کوچہ وبازار میلوں تک پختہ مکانات کی روشنیوں سے جگمگاتے تھے۔ پیرس میں بارش کے دن ٹخنوں تک کیچڑ میں چلنا پڑتا تھا اور لندن میں اندھیرا چھایا رہتا تھا۔( ہسٹری آف انٹی لیکچویل ڈویلپمنٹ آف یورپ)
قرطبہ یورپ کا پہلا شہر تھا جہاں سرکاری طور پر ہر گھر میں پانی پہنچانےکا انتظام تھا۔ یہاں آٹھ سو مدارس تھے، جن میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کو بلاتفریق تعلیم دی جاتی تھی۔ غرناطہ، اشبیلیہ اور قرطبہ کی یونیورسٹیاں پورے ایشیا، افریقہ اور یورپ میں نہایت عظمت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ قرطبہ یونیورسٹی میں اس وقت طلبا کی تعداد گیارہ ہزار تک ہوتی تھی۔
366ہجری میں پندرہ سال پانچ مہینےحکومت کرکے66سال کی عمرمیں حاکم کامدینہ زہراء میں انتقال ہوگیا۔
اس کےبعداس کابیٹاہشام بن حاکم مویدباللہ مسندحکومت پربیٹھا۔اس وقت اس کی عمرصرف دس سال تھی۔اس کی ماں سلطانہ صبیحہ بادشاہ حاکم کی محبوب نظرتھی اوراپنی حکومت کےآخری دس سالوں میں وہ اپنےہرکام اس کےمشورہ ہی سےکرتاتھا۔سلطانہ صبیحہ ظاہری حسن وجمال کےساتھ فراست ورزانت کی بھی ملکہ تھی ۔حکومت کےایک نہایت ہی معتمداورباصلاحیت سپہ لارمحمدبن عبداللہ المنصورکواس نےہشام کاوزیراعظم نامزد کیا۔جونہایت ہی وفاداراورلائق وفائق تھا۔اس نےعیسائیوں سےکئی کامیاب جنگيں لڑیں اورہرطرف امن وامان کابول بالاکردیا۔
اس کےانتقال کےبعداس کابیٹاعبدالملک المظفربن محمدالمنصوروزیراعظم بنا۔اس وقت سلطانہ صبیحہ کا انتقال ہوگیا۔ اس نےایک حدتک اپنےباوقار باپ کےنقش قدم کی پیروری کی ۔بادشاہ ہشام حکومت وسلطنت سےبےپرواہ اپنےمحل اورباغ میں سیروسیاحت کرتارہتا۔کچھ ہی دن بعدعبدالملک مرگياتواس کی جگہ اس کےبھائی عبدالرحمن بن محمدالمنصورنےلی۔مگراس نےخفیہ طورپربادشاہ ہشام کےبعداس سےاپنی حکومت کی نامزدگی کاحلف لےلیا۔
یہ خبرجب خاندان بنوامیہ میں پہنچی توایک نوجوان محمدبن ہشام بن عبدالجباربن عبدالرحمن الناصرنےاس سےجنگ کےبعدگرفتارکر کےپھانسی پرلٹکادیا۔اس نےبادشاہ ہشام کوبھی قتل کرنےکی کوشش کی لیکن ایک داروغہ کےمنع کرنےکی وجہ سےبازرہا۔داروغہ نےکہاکہ بادشاہ محل میں خاموش زندگی گذاررہاہے۔آپ اس پرقابل اعتمادپہرہ دارلگادیں اوراسےخفیہ طورپرکہیں قیدکردیں۔اس نےاس رائےکوپسندکیا۔
بعض مورخین نےبیان کیاہےکہ بادشاہ کوحسن بن حیی کےمکان پررکھاگیااورایک شخص کوتلاش کرکےجوعمر،قدوقامت اورشکل میں بادشاہ ہشام کےمشابہ تھاپکڑلیا۔پھررات کےوقت اس کاگلاگھونٹ دیااوربعض لوگ کہتےہیں کہ اسےپانی میں غرق کردیااوراس کی لاش کوشاہی بسترپرڈال کر یہ خبرمشہورکردی کہ بادشاہ بیمارہے۔پھریہ مشہورہواکہ بادشاہ نےحاجب محمدکووارث سلطنت مقررکیاہےاورچندگھنٹوں بعدبادشاہ ہشام کی موت کااعلان کردیاگیا۔اس کےبعداس فرضی بادشاہ کاجنازہ اٹھاگيااورپوری شان وشوکت کےساتھ محل کےبیرونی صحن میں دفن کیاگیا۔
اس کےبعدمحمد نےاپنی بادشاہت کااعلان کردیااوراپنالقب مہدی باللہ اختیارکیا۔یہ سن کرافریقی گارڈ،علاقہ بربراورقبائل زناتہ کےلوگ نئےبادشاہ سےلڑنےکےلیےآمادہ ہوگئے۔افریقی گارڈکےایک سپہ سالارہشام رشیدبن سلیمان بن عبدالرحمن الناصرنےلوگوں کوجوش دلایااورکہاکہ اس نئے بادشاہ نےہمارےشاہ ہشام کودغابازی کےساتھ قتل کرڈالاہے۔یہ سب لوگ شاہی محل کی طرف بڑھےاوراس کوگھیرلیا۔بڑی زبردست لڑائی ہوئي اوربالآخرمحمدمہدی باللہ نےان لوگوں کوشکست دی اورہشام رشیدکاسرتن سےجداکردیا۔
اس کےبعداس کےچچازادبھائی سلیمان بن حاکم الناصرنےعیسائیوں کےشہرجلیقیہ پہنچ کران سےمددطلب کی ۔غالبااندلس کی تاریخ میں یہ پہلاسیاہ ترین دن تھاجب کوئي مسلم مسلم سےمقابلےکرنےکےلیےعیسائیوں سےمددمانگنےگیا۔
حمیدی نےلکھاہےکہ مسیحی بادشاہ نےاس کومدددینےکا وعدہ کیااوراپنےچندسرحدی قلعےاس کےقبضےمیں دےدیے،جن پرافریقی سپاہیوں نے قبضہ کرلیا۔اس کےعوض میں سلیمان بن حاکم نےمسیحی بادشاہ سےوعدہ کیاکہ محمدمہدی باللہ سےمقابلےکےلیےجومددفراہم کی جائےگي اس کےعوض میں چندنہایت مضبوط قلعےاورمقامات جومسیحی ممالک کی حفاظت کےلیےضروری ہیں،مسیحی بادشاہ کےسپردکردیےجائیں گے۔اس معاہدہ کےبعدسلیمان بن حاکم مسیحی شہسواروں کی ایک بہترین اورمنتخب فوج لیکرقرطبہ کی جانب روانہ ہوا۔
400ہجری میں جبل قنطاس کےقریب محمدمہدی باللہ اورسلیمان کےدرمیان نہایت خوں ریزلڑائی ہوئي۔محمدمہدی باللہ کی فوج کےبیس ہزار سےزیادہ آدمی قتل کردیےگئےاوروہ خوداپنی بقیہ فوج کےساتھ بھاگ کرطلیطلہ پہنچ گیاجہاں اس کابیٹاعبیداللہ حاکم تھا۔
عبیداللہ کی مددسےمحمدمہدی باللہ کوبھی عیسائيوں سےمددمل گئی اوریہ معاہدہ طئےپایاکہ ایک رقم کےمعاوضےمیں کانوٹ برمنڈاورکاونٹ ارمن جودی مسلمانوں کومدددیں۔لہذافرانس کےیہ مشہوراوربہادرشہسواراپنی فوج کےساتھ مددکےلیےآئے۔قرطبہ کی فتح کےبعدسلیمان نےاپنالقب مستعین باللہ قراردیا۔اورمدینہ زہراء میں رہائش اختیارکی۔سابقہ جنگوں کی وجہ سےقرطبہ کےلوگ افریقیوں سےسخت نفرت کرتےتھے۔
ابومروان بن حیان بیان کرتےہیں کہ اسی زمانےمیں ملاغہ کےاندرخلف بن مسعودجوابن امین کےلقب کےبھی مشہورتھا،لوگوں نے کاٹ کراس کے ٹکڑےٹکڑےکرڈالے۔خلف نےاپنےقاتلوں سےدرخواست کی کہ دورکعت نمازپڑھ لینےدیں۔لیکن قبل اس کےکہ وہ نمازختم کریں، لوگوں نےان پربہت بڑاپتھرڈھکیل دیا،جس سےان کےجسم کےٹکڑےٹکڑےہوگئے۔
کچھ دن بعدمحمدمہدی باللہ ایک منتخب فوج کےساتھ جوطلیطلہ ،بنسیہ اورمرقیہ کےلوگوں پرمشتمل تھی قرطبہ کی طرف بڑھا۔اس میں تیس ہزار مسلمان اورنوہزارعیسائی تھے۔اس کےمقابلہ کےلیےسلیمان کےپاس اس کی آدھی فوج بھی نہیں تھی۔سلیمان کواس جنگ میں شکست ہوئی اوروہ افریقہ کی طرف نکل گیا۔محمدمہدی باللہ نےقرطبہ پرقبضہ کرلیااوراپناحاجب واضح العامری کومقررکیا۔اسی نےبعدمیں بادشاہ کوپھنساکرقیدمیں پڑےاصل بادشاہ ہشام کولوگوں کےسامنےپیش کردیااورپھرہشام نےمحمدمہدی باللہ کاسرتن سےجداکردیا۔بادشاہ ہشام نےاپناحاجب واضح العامری کومقررکیااوروہی پوری سلطنت پرحاوی رہامگربعدمیں سازش کی وجہ سےبادشاہ نےاسےقیدکردیااورپھرپھانسی کےپھندےپرلٹکادیا۔
رجب 401ہجری میں طلیطلہ کےحاکم اورمحمدمہدی باللہ کےبیٹےعبیداللہ نےفوج کےساتھ قرطبہ کی طرف انتقام لینےکےلیےکوچ کیا۔لیکن اس جنگ میں اس کوشکست ہوئي اوربڑےبڑےلوگ گرفتارہوئے۔ان میں احمدبن محمد،محمدبن ثمراوراحمدبن محمدبن وسیم نہایت مشہوراورقابل افرادمیں تھے۔ان کےہاتھوں اورپیروں میں میخیں ٹھونک دی گئیں۔انہوں نےسورہ یسین کی تلاوت شروع کی ۔لیکن سپاہیوں نےخنجرسےان کاچہرہ زخمی کردیایہاں تک کہ ان کاسرگردن سےلٹکنےلگا۔
402ہجری میں کئی وبائی امراض پھیل گئےاوردارالسلطنت قرطبہ میں غلہ کاقحط پڑگيا۔لوگوں میں بہت بےچینی پیداہونےلگي۔سلیمان بن حاکم نےاس صورت حال سےخوب فائدہ اٹھایااورسلطنت کےبہت سارےوالیوں اورقرطبہ کےبااثرلوگوں سےخط وکتابت کی ۔یہ معاملہ پورےطورپر کامیاب رہا۔حالات اس کےموافق ہوگئےاور403ہجری میں شاہ ہشام اورسلیمان کےدرمیان جنگ ہوئی ۔جس میں سلیمان نےفتح حاصل کی ۔ اوراموی بادشاہ ہشام بن حاکم کاانجام کیاہوا؟کسی کوکچھ نہیں معلوم۔
اس کےبعدسلیمان اورافریقہ والوں نےقرطبہ میں عام قتل وغارت اورلوٹ مارشروع کی ۔وہ تین دن تک شہرکولوٹتےاوربربادکرتےرہے۔ان لوگوں نےان کابھی کوئي لحاظ نہ کیاجوکہتےتھےکہ ہم تمہارےطرفدارہیں۔شہرمیں ہرجگہ نہایت خوفناک مظالم ہوئے۔ایک بہت بڑےعالم اور واعظ شیخ محمدقاسم الحلاتی کوان کےگھرمیں اورشیخ رشیدبن ابراہیم کوراستےمیں بڑی بےرحمی سےقتل کردیاگیا۔اسی طرح سےایک عادل قاضی خلف بن سالمہ خمیس قتل کردیےگئےاوربغیرغسل وجنازہ کےمقبرہ بنی عباس میں دفن ہوئے۔ابوسالمہ الزاہدجومسجدعین طارکےامام تھےاپنےمکان میں مارڈالےگئے۔مشہورعالم شیخ ایوب اورشیخ سعیدبن منذربڑی بےدردی سے ذبح کردیےگئے۔اوراس طرح قتل ہونےوالےلوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی ۔یہ وحشی لوگ قرطبہ والوں کےحرموں میں گھس پڑےاوران کایہ شرمناک فعل ان سب پربےرحمیوں اورمظالم سےبڑھاہواتھاجواس زمانےمیں پیش آرہےتھے۔(تاریخ عرب اسپین،ص،567)
اس واقعہ کےبعدبادشاہ ہشام کاحاجب حیران عامری کسی طرح بچ گيااوربادشاہ کےوفادارسبطہ کےحاکم حمودبن علی کےپاس پہنچ گیااوراسےسلیمان سےانتقام لینےکےلیےآمادہ کرلیا۔بالآخر407ہجری میں زبردست جنگ ہوئي اورسلیمان گرفتارہوگیا۔بعدازاں حمودبن علی نےاس کاسرکاٹ دیا۔ اور708ہجری میں علی بن حمودنےاپنی بادشاہت کااعلان کیااورمتوکل باللہ لقب اختیارکیا۔پھرحیران العامری اورعلی بن حمودمیں اختلاف ہوگیا۔ حیران بھاگ کرعلاقہ جیان میں پہنچا۔اس وقت وہاں بنوامیہ کاایک فردعبدالرحمن بن محمدبن عبدالملک بن عبدالرحمن الناصروالی تھا۔اورعبدالرحمن المرندی کےنام سےمشہورتھا۔حیران نےلوگوں کوابھاراکہ عبدالرحمن المرندی جوبنوامیہ کافردہےوہی دراصل اندلس کی سلطنت کاجائزوارث ہے۔اس علاقےکےشہروں اورکوہساروں کےلوگوں نےاسےاپنابادشاہ منتخب کرلیااوراس کےہاتھ پربیعت کی۔ادھرقرطبہ میں علی بن حمودکے ظلم سےپریشان ہوکرقرطبہ کےبااثرقائدین نےبھی عبدالرحمن المرندی سےربط وضبط استوارکرلیا۔
اب سارےمشرقی اندلس میں بادشاہ عبدالرحمن المرندی کےنام کاخطبہ جاری ہوگيا۔ان صورت حال سےعلی بن حمودبہت پریشان ہوا۔دونوں کےمابین غرناطہ کےقریب بڑی خونریزجنگ ہونےوالی تھی کہ محل کےاندرموجودعلی بن حمودکےبہت سارےدشمنوں نےاسےدوران غسل حوض میں ڈوباکرماردیا۔
اس کےبعداس کابھائی قاسم بن حموداندلس کابادشاہ بنا۔اس کےخلاف علی بن حمودکےبیٹےیحیی بن علی نےمحاذکھول دیااوراپنی حکومت کادعوی کیا۔دونوں کےدرمیان جنگیں ہوئيں اورپھر مشرقی اسپین کےخطرات کودیکھتےہوئے صلح ہوگئی اورپھریحیی بن علی نےاپنےچچاسےغداری کی۔ اوروہ قاسم کےغائبانہ میں قرطبہ پرقابض ہوگيا۔پھرمقابلےکےلیےآنےوالی قاسم کی فوج اورقوت دیکھ کرفرارہوگيااورقاسم پھرقرطبہ پرقابض ہوگيا۔قرطبہ والےاس کی ظلم وزیادتی سےبہت پریشان تھے۔اوروہ بادشاہ عبدالرحمن المرندی کےخیرخواہ تھے۔شہرکےلوگوں نےبہت منظم طریقےسےایک دن شاہی محل پرحملہ کیااوراس کامحاصرہ کرلیا۔413ہجری میں قاسم بن عبدالرحمن کسی طرح نکل بھاگنےمیں کامیاب ہوگيا۔
اب لوگ بادشاہ عبدالرحمن المرندی کےاستقبال کی تیاری کررہےتھےکہ غرناطہ کےقریب جاری جنگ میں جوقاسم بن حموداور عبدالرحمن المرندی کےمابین ہورہی تھی ،اس میں بادشاہ المرندی کی فوج فتح کےآخری مرحلےمیں تھی کہ کسی نےبادشاہ کوتیرسےزخمی کردیااوروہ کچھ دیربعدفوت ہو گيا۔
اس کی وفات کی خبرسن کراہل اندلس کےخواب چکناچورہوگئے۔اب اہل قرطبہ اوربنی امیہ کےطرفداروں نےعبدالرحمن بن ہشام بن عبدالجبار بن عبدالرحمن الناصرکی طرف رخ کیااور314ہجری میں اس کی بادشاہت کااعلان کیا۔یہ محمدمہدی باللہ کابھائي تھا۔اس سےلوگوں کوبہت ساری امیدیں وابستہ تھیں،کیونکہ وہ نہایت قابل اورباہمت تھا۔لوگوں نےاس کالقب مستظہرباللہ رکھا۔عبدالرحمن مستظہرباللہ کی اس تعریف اور عزت افزائی سےاس کےچچازادبھائي محمدبن عبدالرحمن بن عبیداللہ نےمخالفت کابازارگرم کردیا۔اس نےشاہی گارڈکورشوت دیکراپناہمنوابنالیا
اوررات میں بادشاہ کوقتل کردیا۔
اس کےبعدمحمدبن عبدالرحمن بن عبیداللہ کی بادشاہت کااعلان کیاگیااوراس کالقب المستکفی باللہ رکھاگیا۔اس نےاپناخزانہ بےدریغ لٹاناشروع کردیا یہاں تک کہ اس کی عیاشیوں اورفضول خرچیوں کی وجہ سےشاہی خزانہ خالی ہوگیا۔بادشاہ کواپنی دلچسپی کےعلاوہ کسی اوربات کی فکرنہیں تھی ۔وہ شاعروں کاکلام اوران کےقصائدمستی سےسنتاتھا۔اس کاایک وزیرزیدون اپنےقصیدےمیں بادشاہ محمدمستکفی باللہ کی بیٹی حبیبہ کےحسن وجمال کی تعریف کرتاتھا،کیونکہ اپنی اس بیٹی کےساتھ بادشاہ کی محبت حماقت وسفاہت کےدرجےتک پہنچ گئی تھی۔ان وجوہات سےبدامنی اورشرانگیزی میں زبردست اضافہ ہونےلگااورلوگ سازشوں کاجال بننےلگےاوربادشاہ محمدکووہاں سےفرارہوناپڑا،وہ کسی طرح طلیطلہ کےقلعہ اقلیس میں پہنچ گیا، وہاں بھی اس کےدشمن پہنچ گئےاورچندہی دن بعداس کاانتقال ہوگيا(تاریخ عرب اسپین،ص،595)۔
اس کےبعدیحیی بن علی بن حمودجواپنےچچاقاسم بن حمودکےوقت میں افریقہ واپس چلاگياتھا۔وہاں وہ اپنی حالت درست کررہاتھا۔اس زمانےمیں فقط جزیر‏ۃ الخضراء اورمدینہ ملاغہ اس کےقبضےمیں تھے،ا س کےطرفداروں نےاسےصورت حال سےآگاہ کیااورجوش دلایاکہ آپ قرطبہ پرقبضہ کریں۔یحیی اپنےعلاقےمیں نہایت نرمی اورانصاف سےحکومت کررہاتھا۔قرطبہ کےلوگوں نےبھی اس سےنیک امیدیں وابستہ کیں اورشہرکے باہرنکل کر اس کااستقبال کیا۔یحیی نےمختلف والیوں کوبیعت کےلیےبلایالیکن ان میں سےاکثرنےانکارکردیا۔
اشبیلیہ کےوالی محمدبن اسمعیل نےعلم بغاوت بلندکردیااوردونوں کےدرمیان زبردست جنگ ہوئي ،جس میں یحیی کوبدترین شکست ہوئي اوروہ ماراگیااورمحمدبن اسمعیل نےاس کاسرتن سےجداکرکےاشبیلیہ بھیج دیا۔یہ خبرجب قرطبہ پہنچی تولوگ بہت رنجیدہ ہوئے۔
اس کےبعددیوان یعنی مشیران سلطنت کی میٹنگ ہوئی اورشہرکےوزیرابوالجزام اوردیگراعیان شہرنےقلعہ حام البنت میں گوشہ نشیں ہشام بن محمدبن عبدالملک بن عبدالرحمن الناصرکواپنابادشاہ مقررکیا۔یہ عبدالرحمن المرندی کابھائی تھا۔اس کےپاس جب یہ خبرپہنچی نےتواس نےانکارکیا مگرکئي دنوں تک عوام کےمسلسل اصرارکےبعداس نےقبول کرلیا۔
بادشاہ کوعوام کی غیرمستقل مزاجی کابھرپورادراک تھالہذاسرحدپرچلاگیااورہیں فوج کی سپہ سالاری کرتارہا۔نہایت معمولی لباس پہنتااورسادہ کھانا تناول کرتا۔اس نےاپنی سلطنت کےابتدائی تین برس سرحدپربسرکئے۔لیکن عوام کےمطالبہ پرپھرقرطبہ آیا۔اس کےشریفانہ اخلاق،کریمانہ برتاؤ اورانصاف پسندی سےلوگ بہت خوش ہوئے۔یہ بذات خودزاویوں اورشفاخانوں میں جاتا۔اسی طرح
مکاتب ومدارس اوردرسگاہوں میں جایاکرتا۔ شاہ ہشام المعتدباللہ نےکوشش کی کہ صوبہ جات کےوالیوں کونرمی اورمحبت کےساتھ اطاعت گذاری کےلیےبلایاجائے۔اس نے نہایت عمدہ اورموثرالفاظ میں خط لکھےاوراتحاد ویک جہتی اورامن کی ضرورت کوبہت سی مثالو ں سےثابت کیاتاکہ پوری طرح کافروں سےمقابلہ کیاجاسکےاور سابقہ علاقےان سےواپس لےلیےجائيں مگر بادشاہ کی یہ ملخصانہ کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔
غرناطہ اورالویراکےسب شہروں پرمنصوربن زیری نےخودمختارحکومت قائم کرلی تھی ۔ملاغہ میں یحیی بن علی کےبیٹےادریس نےخودمختارحکومت قائم کرلی تھی اورلوگ اس کوامیرالمومنین کہتےتھے۔دانیہ میں عبداللہ المیطی حکومت کررہاتھا۔وہ وہاں کابادشاہ کہلاتاتھااوراس نےاپنےنام کاسکہ بھی جاری کردیاتھا۔قرمونہ اورسدونیہ کےوالی بھی خودمختاری کےساتھ حکومت کررہےتھے۔شاہ ہشام نےجب اپنی ساری کوششوں کی ناکامی اورقوت کی کمی کودیکھاتوملک کی فلاح وبہبود اورخانہ جنگی کومٹانےکےلیےمناسب سمجھاکہ ان حاکموں سےنامہ وپیام کرکےصلح کرلی جائےاور اکثروالیوں سےعہدنامےہوگئے۔لیکن اس کےساتھ قرطبہ کےکئی باشندےاس کےخلاف ہوگئے۔اس زمانےکی ساری خرابیوں کاملزم بادشاہ کوٹہرایا۔
شاہ ہشام المعتدباللہ نےاس وقت تبصرہ کرتےہوئےکہاکہ “اس زمانےکی نسل نہ اچھی طرح حکومت کرسکتی ہےاورنہ ہی ان پرکوئي عمدگي سے حکومت کرسکتاہے”(تاریخ عرب اسپین،ص،606)
کچھ شرپسندوں نےایک ٹولی جمع کرکےقرطبہ کی گلیوں میں یہ شورکرناشروع کردیاکہ ہم بادشاہ کوشہرسےنکال دیں گے۔جب شاہ ہشام کےپاس یہ خبرپہنچی ،تواس نےاللہ کاشکراداکیااور433ہجری میں صبح ہوتےہی اپنےخاندان والوں اورگارڈکےسواروں کےساتھ قصرشاہی سےنکلا اوردیہات کےایک محل میں جا کرگوشہ نشیں ہوگیااور468ہجری میں اپنےانتقال تک اسی گوشہ نشینی میں رہا۔اوراس طرح اندلس میں سلطنت امویہ کاخاتمہ ہوگیا۔
اسی زمانےمیں اندلس کےمشہورعالم ابن حزم (384ہجری تا456ہجری بمطابق994-1064عیسوی)تھے۔یہ شہرقرطبہ میں پیداہوئے۔ان کےوالددرباربنوامیہ میں وزیرکےعہدہ پرفائزتھے۔یہ بھی عبدالرحمن الخامس کےوزیرتھے۔لیکن اس کےقتل ہونےکےبعدسیاست سےکنارہ کش ہوگئے۔ان کی کتاب الملل والنحل،الناسخ والمنسوخ اورکتاب الاحکام کافی مشہورہیں۔ابن حزم کاشمارعلماء ظاہریہ میں ہوتاہے۔اسی بناء پران کےبہت سارےتفردات ہیں۔مثال کےطورپروہ عورتوں کی نبوت کےبھی قائل تھے۔اس کی دلیل وہ یہ دیتےتھے کہ حضرت مریم اورام موسی کےلیے قرآن کےاندروحی کاظاہری لفظ استعما ل
ہواہے،جوان کی نبوت کااثبات کرتاہے۔
اب پورےملک میں انارکی پھیلی ہوئي تھی ۔عیسائیوں کےحوصلےبلندہونےلگےتھے۔انہوں نےہرطرف حملےشروع کردیےتھے۔478ہجری بمطابق 1085عیسوی میں مشہورشہرطلیطلہ پرعیسائیوں نےقبضہ کرلیا۔بڑی عبرت نا ک بات ہےکہ اسی وقت طلیطلہ کےبادشاہ المامون نےاپنے دارالحکومت میں عجیب وغریب پن گھڑیاں بنائی تھیں ۔یہ پن گھڑیاں طلیطلہ کےمشہورمنجم ابوالقاسم عبدالرحمن نےبنائی تھی ۔ان پن گھڑیوں سے وقت کےعلاوہ دن اورتاریخ بھی معلوم کی جاسکتی تھی ۔لیکن یہ چیزیں ان کےکوئي کام نہ آسکیں اورمیدان کارزارکی شجاعت وفراست کی کمی نےان کوغلام بنادیا۔
پیئرگیچارڈنےلکھاہےکہ اس وقت لاکھوں مسلمانوں نےترک وطن کیا۔جامع مسجد کوکلیسامیں بدل دیاگيااوران پربہت زیادہ تاوان کابوجھ ڈالاگيا تاکہ یاتووہ عیسائیت قبول کرلیں یاجلاوطن ہوجائیں(Social History of Muslim Spain)۔
پھر512ہجری بمطابق1118عیسوی میں سرقطہ پرعیسائیوں نےقبضہ کرلیا۔یہاں تک کہ شمال میں عیسائیوں کی سب سےمضبوط مملکت جومملکت قشتالہ کہلاتی تھی،اس نےاشبیلہ اورقرطبہ کےبادشاہ معتمد کوخراج دینےپرمجبورکردیا۔معتمدکایہ حال تھاکہ وہ چاندنی راتوں میں زلف پریشاں کی نگہبانی کرتارہتا۔عورتیں اس کی سب سےبڑ ی کمزوری تھی۔اس کاباپ معتضدہرمذہب کوشک کی نگاہ سےدیکھتاتھا۔وہ صرف نجوم اورشراب کاقائل تھا۔اس نےکہاکہ شراب پیناہی اصل دین ہے،جواس حقیقت کونہ مانےوہ کافرہے۔(عبرت نامہ اندلس)
عیسائی جب مسلم علاقوں پرقبضہ کرتےتومردوں کوقتل اورعورتوں کوبےعزت کرتےتھے۔شراب کےایک مٹکے،روٹی یاگوشت کےکچھ ٹکڑوں کےعوض ایک گرفتارمسلم کوبیچ دیتےتھے۔جوفدیہ ادانہیں کرپاتااس کی زبان کاٹ دیتےاورآنکھیں نکال دیتےتھےیاکتوں سےپھڑوادیتےتھے۔ (تاریخ ہسپانیہ :پروفیسرڈوزی)
ان حالات نےمسلم علماء اورحساس لوگوں کوسخت مضطرب کردیااوربااثرلوگوں کی ایک تعدادمددمانگنےکےلیے مغربی افریقا میں دولت مرابطین کے امیر یوسف بن تاشفین کےپاس مراکش گئی ۔یوسف کی حکومت دریائےسینی گال تک بڑھ چکی تھی ۔یہ لوگ بربروں کےخلاف صرف جہاد ہی نہیں کرتےتھےبلکہ ان میں اسلام کی تبلیغ بھی کرتےتھے۔ان کی کوششوں سےبہت سےسارےلوگوں نےاسلام قبول کیا۔یہ کام یوسف کےچچا عبداللہ بن یسین کی نگرانی میں ہوتاتھا۔انہوں نےاس مقصدکےلیےایک خانقاہ بنالی تھی ۔شروع میں یوسف

اپنےچچاکےساتھ تھے،بعد میں میدان جہادکےشہسواربنے۔یوسف نےاپنی مددکاوعدہ کیااورکل 20ہزار افواج کے ساتھ شمال کی جانب کوچ کیا، جہاں ان کا ٹکراؤ زلاقہ کے میدان میں الفانسو ششم سے ہوا۔قشتالہ کے بادشاہ الفانسو ششم کو 80ہزار شہسواروں، 10ہزار پیادوں اور 30 ہزار کرائے کے عرب فوجیوں کی خدمات حاصل تھیں۔جبکہ 20 ہزار مسلم افواج میں 12 ہزار بربر (10 ہزار شہسوار اور دو ہزار پیادہ) بہترین جنگجو تھے اور 8 ہزارمقامی افواج شہسواروں اور پیادوں پر مشتمل تھیں۔ دونوں سپہ سالاروں نے جنگ سے قبل پیغامات کا تبادلہ کیا۔ یوسف نے دشمن کو تین تجاویز پیش کیں: ١۔ اسلام قبول کرو، ٢۔ جزیہ دو ٣ ۔یا جنگ کرو ۔
الفانسو نے مرابطین سے جنگ کو ترجیح دی۔ 23 اکتوبر1086ء بروز جمعہ صبح سورج نکلتے وقت الفانسو کے حملے کے ساتھ جنگ شروع ہوئی۔ یوسف نے اپنی فوج کو دستوں میں تقسیم کیا، پہلے دستے کی قیادت عباد ثالث المعتمد کررہا تھا جبکہ دوسرے دستے کی قیادت خود یوسف بن تاشفین کےپاس تھی۔ دوپہر تک المعتمد کی فوج ہی الفانسو کا مقابلہ کرتی رہی،اس کے بعد یوسف بن تاشفین اپنی فوج سمیت جنگ میں داخل ہوا اور الفانسو کی افواج کا گھیراؤ کرلیا جس پر عیسائی افواج میں افراتفری پھیل گئی اور یوسف نے سیاہ فام باشندوں پر مشتمل تیسرے دستے کو حملے کا حکم دیا جس نے آخری وفیصلہ کن حملہ کرتے ہوئے جنگ کا فیصلہ مسلم افواج کے حق میں کردیا۔ مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 60ہزار کے عیسائی لشکر میں سے 59ہزار 500 اس جنگ میں کام آئے جبکہ الفانسو زندہ بچ گیا تاہم اس کی ایک ٹانگ ضائع ہوگئی۔
اس میدان جنگ کو زلاقہ کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ”پھسلتا ہوا میدان“ ہے کیونکہ معرکے کے روز اس قدر خون بہا کہ افواج کو قدم جمانے میں مشکل ہونے لگی۔ عیسائی ذرائع اس جنگ کو( Battle of Sagrajas )کے نام سے یاد کرتے ہیں۔پھریوسف واپس چلےگئے۔ کیونکہ اہل اندلس یہی چاہتےتھے۔لیکن یوسف کےجاتےہی عیسائیوں نےدوبارہ شرارتیں شروع کردیں۔
وفي هذه الفترة تبلغ الحرب الصّليبيّة ذروتها شرقاً وغرباً، فسقطت بيت المقدس (مسرى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأولى القبلتين) عام 492 هـ في أيدي الصليبين، ودقّت الأجراس في كلّ أنحاء أوربا فرحاً بذلك ، فكان مرسومه بإعلان الحروب الصليبية في أسبانيا ضد المسلمين .
(الزَّلاَّقَة مَعركَةٌ مِنْ مَعَارِكِ الإِسْلاَمِ الحَاسِمَةِ فِي الأندَلُس،ص،169،للدكتور جميل عبد الله محمد المصري)
ترجمہ:اس عرصہ میں صلیبی جنگ ہرطرف مشرق ومغرب میں زبر
دست اندازمیں بپاہوگئي۔مسلمانوں کاقبلہ اول اورحضرت اقدس محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کامقام اسراء492ہجری میں صلیبیوں کےہاتھ میں چلاگيا۔پورےیورپ میں اس واقعہ سےخوشی کےنقارےبجنےلگے۔اس کی ایک علامت اسپین میں مسلمانوں کےخلاف صلیبی جنگوں کااعلان تھا۔
ان بدترین حالات کےپیش نظراندلس کےمخلص علماء نےیوسف نےدرخواست کی کہ اگرآپ نے ان اندلسی امراء کویونہی چھوڑدیاتویہ اس ملک کوکفارکےحوالےکردیں گےاوراس صورت میں آپ کوخداکےسامنےجوابدہ ہوناہوگا(فتوی اندلسی علماء)۔
اس مرتبہ یوسف جب اندلس آئےتو انہوں نےباقاعدہ مرابطین کی حکومت قائم کردی۔یہ لوگ بربرنسل سےتعلق رکھتےتھے۔یوسف کی کامیابیوں کو دیکھ کراندلس کی ریاستوں کےامراء نےآپس میں فیصلہ کیاتھاکہ”مرابطین کوآئندہ فوجیں اورسامان رسدہرگزنہیں دیاجائےگااوریہ بھی فیصلہ کیاکہ اندلس کی تمام اسلامی ریاستیں لیون کےعیسائي بادشاہ الفانسوسےاتحادپیداکریں”(عبرت نامہ اندلس:پروفیسرڈوزی)۔
یوسف بن تاشقین کاشماراسلام کےجلیل القدرقائدین میں ہوتاہے۔وہ شریعت اسلامی پرعمل پیراایک سادہ انسان تھے۔جفاکشی اورعدل وشجاعت جیسی صفات انکی شخصیت میں پیوست ہوگئ تھیں۔ان کی سلطنت تاریخ میں مرابطین کےنام سےجانی جاتی ہے۔اس کاماخذقرآن کی یہ آیت ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا١۫ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَؒ۰۰۲۰۰
ترجمہ:اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، صبر سے کام لو ، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پامردی دکھاؤ۔ حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔(آل عمران:200)
رأى المرابطون إن مبايعة الخليفة العبَّاسى واجبة، ولذلك أعطوا بيعتهم له لكونهم مالكيين سنيين، فاعترفوا بالخلافة العباسية واتخذوا السواد شعارًا لهم، ونقشوا اسم الخليفة العبَّاسى على نقودهم منذ منتصف القرن الخامس الهجري، واتصل بالخليفة العبَّاسى أحمد المستظهر بالله 487 – 512هـ / 1094م- 1118م وأرسل إليه بعثة۔
(فقه التمكين عند دولة المرابطين،ص،137 ،المؤلف: عَلي محمد محمد الصَّلاَّبي)
ترجمہ:مرابطین کاخیال تھاکہ عباسی خلیفہ سےبیعت کرناواجب ہے۔لہذاان لوگوں نےبیعت کی کیونکہ یہ مسلک مالکی اوراہل سنت والجماعت میں سےتھے۔ان لوگوں نےخلافت عباسیہ کوتسلیم کیااورکالےجھنڈےکوشعارکےطورپراپنالیا۔اورپانچویں صدی کےنصف سےسکوں پرعباسی خلیفہ کانام کندہ کردیا۔اورعباسی خلیفہ احمد مستظہرباللہ سےوابستہ ہوگئےاوران کی جانب ایک وفدروانہ کیا۔
مرابطین نےاہل اندلس کوہلاکت اورپسپائی سےنجات دی
۔لیکن اہل اندلس بعد میں اپنی فطرت کےمطابق ان سےنالاں ہوگئے۔کوئي بادشاہ ان کوپسندہی نہیں آتاتھا۔مرابطین کویہ لوگ وحشی اورجاہل گمان کرتےتھے۔ان لوگوں نےاسی زمانےمیں بادشاہ لیون ،الفانسوہفتم کی فوج میں ایک عہدےپرفائزمسلم سردارسیف اللہ کوخط لکھا:
“عیسائیوں کےبادشاہ کوہم مسلمانوں کی طرف سےیہ فریادپہنچادواوراس کی مددحاصل کرکےہمارےکندھےسےمرابطین کابوجھ اتاردو۔جب ہم مرابطین کی اطاعت سےآزادہوجائيں گےتوعیسائي بادشاہ کواپنےپیشرؤوں سےزیادہ خراج اداکریں گےاورپھرتم اورتمہارےاخلاف ہم پرحکومت کریں گے۔غرناطہ کی گلیوں میں آوارہ اورہوس پرست لوگ پھرتےاورکہتےکہ عیسائیوں کےبادشاہ لیون کےساتھ شامل ہوجاؤاورپہلےکی طرح اسےخراج دو۔ان مرابطین سےآزادی کےلیےہرتجویزاچھی ہے”۔(عبرت نامہ اندلس:ڈوزی)
1121عیسوی میں قرطبہ کےشہریوں نےمرابطین کی فوجی چھاؤنی پرحملہ کردیااوربہت سارےفوجیوں کوقتل کرنےکےساتھ ساتھ ان کے گھروں کوبھی لوٹ لیا۔
اہل اندلس خودکومرابطین کےمقابلےمیں برتراورفائق گمان کرتےتھے۔اوریہ سمجھتےتھےکہ وہ اپنےسےکم مہذب لوگوں کےماتحت آگئےہیں۔یہ مخفی بغض وعنادان کےمصنفین اورشعراءکی تحریروں میں بالکل عیاں ہے۔یہ لوگ ان رسواکن حالات کےباوجودچھوٹےچھوٹےبادشاہوں کے زمانےکویادکرتےرہتےتھے۔(دی پولیٹیکل ہسٹری آف اندلس:محمودمکی)
یوسف کےانتقال کےبعداس کےبیٹےعلی بن یوسف نے500ہجری بمطابق 1107عیسوی میں مسندحکومت سنبھالا۔دھیرےدھیرےمرابطین میں بھی بہت ساری خرابیاں درآئیں۔وہ مسلک کےحوالےسےبہت تنگ نظرہوگئے۔فقہ مالکی کےسواان کوہرمسلک شرک وکفرسےقریب معلوم ہوتاتھا۔امام غزالی کی کتاب احیاء علوم الدین کوبدعتی کتاب قراردےکراس کوجلادینےکافتوی صادرکیا۔

اسی زمانےمیں ابن باجہ(وفات1138عیسوی)تھا۔اسےہسپانیہ کافارابی کہاجاتاہے۔یہ سرقسطہ میں پیداہوا۔اسکے شاگردوں میں ابن طفیل اورابن رشدنےجہانگیرشہرت حاصل کی۔یہ موسیقی کاماہراورکئي راگينوں کاموجدتھا۔یہ کہتاتھاکہ یونانی فلسفہ سےعظیم ترفلسفہ کہیں اورموجودنہیں ہے۔ اس نےغزالی کےنظریات کوہدف تنقیدبنایااورفارابی کوغزالی پرترجیح دی۔سرقسطہ کےمرابطی حاکم نےاسےاپناوزیربنالیاتھا۔اس کی آزادخیالی کی وجہ سےعلماء اسےکافرکہتےتھے۔
فتح بن خاقان (وفات1141عیسوی)نےا
پنی کتاب قلائدالعقیان میں لکھاہےکہ ابن باجہ خدااورآخرت کامنکراور فرائض کاتارک تھا۔نیزغسل جنابت کاقائل نہ تھا۔عبدالسلام ندوی نےحکمائےاسلام میں ابن باجہ کی بائيس تصانیف کاذکرکیاہے۔
چوراورمکارلوگ رشوت دےکراپنی سرگرمیاں جاری رکھتےتھے۔ علی بن یوسف کی بیوی قمراس پرحاوی تھی۔مرابطین کاایک امیرابوبکربن ابراہیم سرعام شراب نوشی اورعیاشی کرتاتھا۔ان حالات میں کئي بغاوتیں ہوئيں۔
موحدین سےمرابطین کی کئی لڑائياں ہوئيں ۔کئي علاقوں پرموحدین نےقبضہ کرلیا۔علی نے37سال حکومت کی ،پھراس کابیٹاتاشقین بن علی 537ہجری بمطابق 1143عیسوی میں تخت حکومت پربیٹھا ۔مگرموحدین کےمقابلےمیں پسپاہوگيا اوراس کی حکومت 541ہجری بمطابق 1147میں ختم ہوگئي ۔
موحدین ایک اصلاحی تحریک کانام تھا۔اس کی بناء محمدبن تومرت نےمراکش میں رکھی تھی ۔یہ لوگ اسلامی تعلیمات اورفوجی تربیت دونوں سے آراستہ تھے۔یہ لوگ نسلی طورپر بربرتھے۔انہوں نےامربالمعروف اورنہی عن المنکرکوہرسطح پرقائم کیا۔524ہجری میں محمدبن تومرت کی وفات کےبعدعبدالمومن کوجماعت موحدین کاامیرمنتخب کیاگیا۔
عبدالمومن نے541ہجری بمطابق 1147عیسوی میں مراکش اوراندلس پرقبضہ کرکےمرابطین کی حکومت کاخاتمہ کردیا۔اس نےعیسائيوں سےکئي جنگیں کیں اورسب میں فتح حاصل کی۔
اس نےتیونس اورطرابلس پرفتح کرکےمغرب میں عیسائي اقتدارکاخاتمہ کردیا۔اس نےاپنی حکومت کوخوب وسعت دی ، اتنی بڑی حکومت شمالی افریقہ کےکسی مسلمان نےاب تک قائم نہیں کی تھی۔عبدالمومن ایک پاپندشریعت حکمراں تھا۔اس کےدربارسےمشہورفلسفی ابن طفیل اورطبیب عبدالملک بن زہروابستہ تھے ۔مشہورمورخ ابن حیان کاتعلق بھی اندلس ہی سےتھا۔
عبدالمومن نےپورایورپ فتح کرنےکاعزم کیا۔اس نےچارسوجنگي جہاز،تین لاکھ دس ہزارسواراورایک لاکھ پیادہ فوج جمع کی۔لیکن یہ فوج روانہ ہونےہی والی تھی کہ عبدالمومن کا558ہجری بمطابق 1163عیسوی میں انتقال ہوگیااوریہ خواب کبھی شرمندہ تعبیرنہ ہوسکا۔
اسی زمانےمیں مشہورجغرافیہ داں ادریسی کاانتقال 560ہجری بمطابق 1166عیسوی میں ہوا۔اس کی کتاب “نزہت المشتاق فی اختراق الآفاق” جغرافیہ کی اولین کتابوں میں شمارکی جاتی ہے۔اوراسی سال محمدبن عربی 560ہجری بمطابق 1165عیسوی میں اندلس کےشہرمرسیہ میں پیدا ہوئے۔
ابن عربی (1240-1165عیسوی) اندلس میں پیداہوئےمگران کی زندگی کےبیشرلمحات مصروشام میں گذرے۔تقریباچارسوکتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی کتاب فصوص الحکم اورفتوحات مکیہ کافی مشہورہے۔
عبدالوہاب شعرانی(وفات1566عیسوی) اپنی کتاب الکبریت الاحمرمیں لکھتے ہیں کہ مجھےفتوحات مکیہ میں چندمسائل خلاف شریعت نظرآئے۔ میں نےان کاذکرشمس الدین محمدبن ابی الطیب المدنی الشافعی (وفات1548عیسوی)سےکیا۔انہوں نےمجھےفتوحات مکیہ کاایک ایسانسخہ دکھایاجو ابن عربی کےہاتھ سےلکھےہوئےنسخےسےنقل کیاگیاتھا۔اس میں وہ قابل اعتراض موادموجودنہیں تھا۔اس سےمجھےیقین ہوگیاکہ فتوحات مکیہ کامصری نسخہ محرف ہے۔
ابن عربی کونظریہ وحدت الوجودکابانی سمجھاجاتاہے۔وحدت الوجودکی تشریح شیخ عبدالغنی النابلسی الدمشقی (وفات1731عیسوی)نےاپنی کتاب ایضاح المقصودمیں یوں کی ہےکہ کائنات کاوجودخالق سےالگ نہیں ہے۔سمندرکی لہریں سمندرسےالگ نظرآتی ہیں لیکن یہ فریب نظرہے۔اللہ زندگی کاایک سمندرہےجس سےیہ کائنات لہروں کاطرح ابھری۔نام جداسہی لیکن حقیقت ایک ہے۔شعائیں آفتاب سےاورلہریں سمندرسےالگ نہیں ہوسکتیں۔جس طرح پھول کےمرجھاجانےاورنغمہ کےختم ہونےکےبعدبھی خوشبواورموسیقی کی لہریں کائنات میں باقی رہتی ہیں،اسی طرح موت کےبعدانسان کل میں جذب ہوکرہمیشہ زندہ رہتاہے۔یہ کائنات بظاہرکثرت لیکن دراصل وحدت ہےاورخدابظاہروحدت لیکن دراصل کثرت ہے۔
فتوحات میں ابن عربی نےایک جگہ لکھاہےکہ کائنات میں اللہ کےسواکچھ اورموجودنہیں اوراللہ کواللہ کےسواکوئي نہیں جانتا(ص،272)
وحدت الوجودپرزبردست تنقیدکرنےوالوں میں سرفہرست علامہ ابن تیمیہ(1328عیسوی)،شمس الدین ذہبی(1348عیسوی)،تاج الدین سبکی(1370عیسوی)اورمجددالف ثانی احمدسرہندی(1625عیسوی)ہیں۔
ابن قیم ایک جگہ اس پرتنقیدکرتےہوئےلکھتےہیں کہ اگرکائنات کوعین خداسمجھاجائےتوپھرفرعون ونمرودکوجہنم میں ڈالنےکامطلب یہ ہوگاکہ خودخدا(نعوذباللہ)جہنم رسیدہوگيا۔اوراگرزیدنےچوری کی ہےتویہ کہنابھی درست ہوگاکہ(نعوذباللہ) خداچورہے۔چونکہ یہ نتائج ازسرتاپاغلط ہیں۔اس لیےنظریہ وحدت الوجودباطل ہے۔(حیات ابن قیم،ص،445)
عبدالمومن کےانتقال کےبعدیوسف بن عبدالمومن کوامیرمنتخب کیاگیا ۔لیکن یہ باپ کےمشن کوآگےنہیں بڑھاسکا۔اس نےاشبیلیہ شہرکو بہت ترقی دی اورمراکش میں ایک کتب خانہ قائم کیاجس میں تقریباچارلاکھ کتابیں تھیں۔ابن رشداورابن طفیل اس کےدربارسےوابستہ تھے۔
ابن رشد(1198-1126عیسوی)۔قرطبہ میں پیداہوئے۔ان کےوالداورداداقرطبہ کےقاضی تھے۔اوریہ خوداشبیلیہ کےقاضی تھے۔ان کی کتاب بدایۃ المجتہدفقہ مقارن کی اہم ترین
کتاب سمجھی جاتی ہے۔امام غزالی نےفلسفہ یونان پرسب سےبڑاحملہ اپنی کتاب تہافت الفلاسفہ میں کیاتھا، ابن رشدنےاس کی تردیدمیں تہافت التہافت لکھا۔
محمدیونس فرنگی محلی نےاپنی کتاب ابن رشدمیں ان کی کتابوں کی تعداد90بیان کی ہے۔ابن رشدنےکہاکہ انسان مجبورمحض ہےاورکائنات میں سب کچھ مشیت ایزدی کےتحت ہورہاہے۔انسانی روح کوئی الگ چیزنہیں ہےبلکہ جسم کاایک ضمیمہ ہے۔افلاک ازلی ہیں اورخداصرف حرکت افلاک کا خالق ہے۔عقیدہ حشرباطل اورجزاوسزاکانظریہ غلط ہے۔ارواح فانی ہیں۔اسلام کی وہی تعبیروتشریح صحیح ہےجوفلسفہ ارسطوکےمطابق ہو۔اس مسئلہ کومزیدوضاحت کےساتھ کتاب الحاوی کےمصنف ابوزکریارازی نےبیان کیاکہ یونانی علماء مثال کے طورپرافلاطون،ارسطووغیرہ نےانسانیت کوانبیاء سےزیادہ فائدہ پہنچایا(نگار،خدانمبر،فروری1956،ص،123)
ابن رشدکاخیال ہےکہ ستارےمادی نہیں ہیں بلکہ نفوس وارواح ہیں،جنہیں واقعات دہرکاعلم ہوتاہے۔کشف وجدان محض خیالی چیزیں ہیں،اصل حقیقت فکرہےجس سےحقائق کاادراک ہوتاہے۔سب سےبڑی اورانتہائی سعادت عقل کل سےاتصال ہے۔
ابن رشدسےبرطانیہ کاراجربیکن (1294عیسوی)،اسکاٹ لینڈکامائیکل سکاٹ(1300عیسوی)،اٹلی کافلسفی پادری تھامس ایکوناس (1274عیسوی)اورمشہوریہودی فلسفی موسی بن میمون(1204عیسوی)بہت متاثرہوئے۔عیسائیوں کافرانسکن فرقہ اس کےفلسفہ کی تبلیغ کیاکرتاتھا۔(فلسفیان اسلام،ص،45)
قاضی ابوعبداللہ محمدبن عبدالملک الانصاری المراکشی نےاپنی کتاب ذیل التکملۃ میں لکھاہےکہ ابن رشددراصل یہودی تھاجواسلام کومسخ کرنےکے لیےبظاہراسلام لایاتھا۔
ابن طفیل(وفات1185عیسوی)غرناطہ کےمضافات میں پیداہوئے۔سلطان یوسف بن عبدالمومن کےوزیرتھے۔ان کی صرف تین تصانیف لوگوں تک پہنچ سکی ۔ابن طفیل نےکہاکہ یونانی فلاسفہ عقل کوسب کچھ سمجھتےتھےلیکن حقیقت یہ ہےکہ خالی کشف اورتنہاعقل حققیت تک نہیں پہنچ سکتےہیں۔انہوں نےفارابی کےاس خیال کی تردیدکی کہ نبوت کسبی ہے۔
یوسف بن عبدالمومن نےبائيس سال حکومت کرکے580ہجری بمطابق1184عیسوی میں وفات پائی۔اس کےبعدیوسف کےبڑےلڑکے یعقوب المنصورنےحکومت کی باگ ڈورسنبھالی۔اس کےزمانےکاسب سےمشہورواقعہ جنگ ارک ہے۔یعقوب نےارک کےمقام پرالفانسوکو زبردست شکست دی۔اورطلیطلہ کامحاصرہ کرلیامگرصلح کی درخواست پرمحاصرہ اٹھالیااورطلیطلہ مسلمانوں کےقبضہ میں نہ آسکا۔
اس وقت طلیطلہ پرایک عیسائی شہزادی کاقبضہ تھا۔شہزادی نےابویوسف یعقوب کوپیغام بھیجاکہ بہادرلوگ عورتوں پرحملہ نہیں کیاکرتےتواس کےجواب میں یعقوب نےکہاکہ شہزادی کومیراسلام ہو،میں محاصرہ اٹھاکرجارہاہوں۔(تمدّن،ص،257)
ول ڈیوران نےلکھاہےکہ اندلس پرمسلمانوں کی حکومت اس قدرعادلانہ،عاقلانہ اورمشفقانہ تھی کہ اس کی مثال اسپین کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ان کانظم ونسق بےمثال تھا۔ان کےقوانین میں معقولیت تھی اوران کےجج نہایت اعلی تھے(Age of Faith,p,297)
یعقوب المنصوربےشمار خصائل اورنیک خصوصیات کاحامل حکمراں تھا۔یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کاہم عصرتھا۔اس نےعلماء،فقہاء اورمحدثین کےوظیفےمقررکیے۔کئي سڑکیں اورجگہ جگہ سرائيں بنوائيں۔یتیم بچوں اورضعیف عورتوں کےوظائف اورنگہداشت کابہترین انتظام کیا۔اورکئي شفاخانےبنوائے۔اس کو عمارتوں کابہت شوق تھا۔اس نےمراکش میں ایک مسجد بنوائي۔اس مسجدکامینارساڑھےتین سوفٹ اونچاہے۔اس مسجدکے چندسال بعددہلی میں قطب مینارتعمیرہوا،لیکن قطب میناردوسوفٹ اونچاہےاوراس کامیناراس سےسوفٹ بڑاہے۔اس مسجدکوجامع کتبیہ کےنام سےجاناجاتاہے۔کیونکہ اس کےنیچےکتابوں کی تقریباڈھائی سودکانیں تھیں۔اس نےاشبیلیہ کی مسجدمیں بھی مینارکااضافہ کیا۔اس کی بلندی بھی تقریباتین سوفٹ ہے۔اس نےپندرہ سال حکومت کی اور595ہجری بمطابق 1199عیسوی میں اس کاانتقال ہوگیا۔اس وقت اس کی عمرصرف چالیس سال تھی۔
اس کےبعد اس کابیٹامحمدناصربن یعقوب تخت نشیں ہوا۔العقاب کےمقام پر609ہجری میں اس کی عیسائیوں سےجنگ ہوئي مگرالناصراس میں شکست کھاگيا اوراس کےایک سال بعدہی 611ہجری بمطابق 1214عیسوی میں اس کاانتقال ہوگيا۔
اس کےبعدموحدین کی حکومت روبہ زوال ہونےلگی ۔ 634ہجری بمطابق 1237عیسوی میں بلنسیہ اور646ہجری بمطابق1248عیسوی میں اشبیلیہ پرعیسائیوں نےقبضہ کرلیا۔اندلس کابڑاحصہ مسلمانوں کےہاتھ سےعیسائیوں کےہاتھ میں چلاگيا۔
بعد سقوط دولة الموحدين في عام 668هـ/1269م مرت بلاد الاندلس بمرحلة طويلة امتدت قرنين ونصف ثم بعد ذلك سقط آخر معاقلها في يد النصارى الاسبان في عام 897هـ ويظهر جهاد بني الأحمر وزعامتهم القوية لغرناطة بعد سقوط الموحدين وهذه المرحلة من تاريخ الاندلس الاسلامي غنية بالعبر والعظات لمن كان له قلب أو ألقي السمع وهو شهيد، وتظهر سنن الله في سقوط الدول واضحة المعالم وكذلك الآثار المترتبة عن الابتعاد عن منهج الله تعالى.

(دولة الموحدين،ص،235،المؤلف: الدكتور عَلي مَحَّمد محمد الصَّلاَّبي)
ترجمہ:1269عیسوی میں سلطنت موحدین کےخاتمےکےبعداندلس تقریباڈھائی سوسال تک ایک طویل مرحلہ سےگذرا،پھراس کےبعد عیسائيوں کےہاتھوں اندلس کاآخری قلعہ غرناطہ بھی 1492عیسوی میں تہہ وبالاہوگیا۔سلطنت موحدین کےسقوط کےبعدان ڈھائی سوسال میں بنی احمرنےغرناطہ میں اپنی مضبوط سیادت وقیادت اورجہادوثبات کامظاہرہ کیا۔اوراندلس کی اسلامی تاریخ کایہ مرحلہ بےشمارعبرت ونصیحت سے لبریزہے۔لیکن یہ اہل دل اوران لوگوں کےلیےہےجوسماعت کےساتھ شہادت بھی رکھتےہوں۔اورملکوں کی تباہی اورسقوط میں اللہ کی سنتیں بڑی واضح نشانیوں کےساتھ ظاہرہوتی ہیں اوراسی طرح سےاللہ کےمنہج اورطریقہ کارسےدوری کےنتیجےمیں بتدریج اورتہہ بتہہ آثارنمایاں ہوتےہیں۔
مراکش کےاندربنی مرین نے667ہجری میں موحدین کی حکومت کاخاتمہ کردیا۔اورشمالی افریقہ کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا ۔بنی مرین قبیلہ بربرکی شاخ زناتہ سےتعلق رکھتےتھے۔سلطنت بنومرین کےبانی امیریعقوب نےمراکش میں شاندارحکومت قائم کی ۔اس کادارالحکومت فاس تھا۔اس نے اندلس کوعیسائیوں سےبچانےکےلیے 665ہجری اور674و76ہجری بمطابق1277عیسوئي میں کئي مرتبہ حملےکئے۔یعقوب نےقرطبہ اور اشبیلیہ تک کاعلاقہ فتح کرلیا۔یعقوب بہت عادل اورصالح حکمراں تھا۔
بنومرین نے667ہجری تا875ہجری بمطابق 1269عیسوی تا 1470عیسوی تک حکومت کی۔بنومرین کےدورزوال وانتشارمیں عیسائیوں نے1265عیسوی میں طنجہ اور1462عیسوی میں جبل الطارق فتح کرلیے۔
پرتگال نے1415عیسوی میں سبتہ پرقبضہ کرلیا۔بنو مرین کی حکومت صرف شہرفاس تک سمٹ گئی ۔اس کےبعدسعدی حسنی خاندان کی حکومت قائم ہوئي ۔ابن بطوطہ نےاپناسفرنامہ اسی زمانےمیں لکھاتھا۔ابن بطوطہ مراکش کےشہرطنجہ کارہنےوالاتھا۔
دوسری طرف ابوزکریایحیی نےبنوحفص کی آزادمملکت قائم کی ،اس کادارالحکومت تیونس تھااوراس کی حکومت طرابلس سےالجزائرتک پھیلی ہوئي تھی۔
اسی زمانے میں عبدالرحمن بن خلدون(1332-1406عیسوی) تیونس میں پیداہوئے۔ان کی مشہورکتاب ، العبر و ديوان المبتدأ و الخبر في أيام العرب و العجم و من عاصرهم من ذوي السلطان الأكبریاتاریخ ابن خلدون کےنام سےجانی جاتی ہے۔اس کتاب کامقدمہ
بہت مبسوط اورجامع ہے۔ابن خلدون نےاپنےمقدمےمیں فلسفہ تاریخ سےبحث کی ہے۔انہوں نےقوموں کےعروج وزوال کےاسباب اور اخلاق واطوارپرموسم،جغرافیہ اورماحول کےاثرات کامنطقی تجزیہ پیش کیاہے۔یہ مقدمہ اتنااہم ترین ہےکہ اس کی وجہ سےابن خلدون کوفلسفہ تاریخ اورعمرانیات کابانی کہاجاتاہے۔
1382عیسوی میں وہ مصرچلےگئےجہاں مملوک سلطان برقوق نےانہوں قاضی بنادیا۔ابن خلدون نےمصر،اندلس،اورمراکش کی سیاست میں عملی حصہ لیا۔مصری سفیرکی حیثیت سےانہوں نے1401عیسوی میں امیرتیمورسےملاقات کی ۔لیکن یہ بات بڑی تلخ ہےکہ ابن خلدون فلسفہ تاریخ اورقوموں کےعروج وزوال کےاسباب اپنےنظریات کےمطابق کتاب میں بیان کرگئے ۔لیکن عملی میدان میں وہ خودناکام ہوگئے۔اور زمین کے دیگرسنگلاخ حقائق کتابی نظریات کونگل گئے ۔عالم عرب کےایک اسکالرلکھتےہیں کہ:
إنه عندما كتب تاريخه لم يلتزم فيه بمنهجه النقدي الذي ذكره في مقدمته ، فجاء تاريخه تقليديا في معظمه ، لا يختلف عن التواريخ التي سبقته(ص-311)
ترجمہ:جب ابن خلدون نےاپنی تاریخی کتاب لکھی توخوداس نےمقدمہ میں بیان کردہ اپنےمنہج کواختیارنہیں کیا۔اس کی کتاب العبربھی تقلیدی نوعیت کی تاریخی کتاب ہے۔سابقہ تاریخی کتابوں کےمقابلہ میں اس کاکوئي امتیازنہیں ہے۔
في نقده للروايات التي انتقدها في مقدمته و تاريخه ، كان في بعضها مصيبا ،و في أخرى مجازفا متعصبا ،و مُغالطا مُخطئا ،و في بعضها الآخر مسبوقا ناقلا دون تصريح بذلك(ص-311)
ترجمہ:اپنےمقدمہ اورتاریخ میں اس نےجن روایات پرتنقیدکی ہے۔اس میں بعض صحیح ہیں۔بعض تعصب اورجہالت پرمبنی ہیں۔بعض میں اس نےغلطی اورخطاکی ہےاورکئي سابق چیزیں ا س نےبغیرصراحت کےنقل کردی ہیں۔
أن ابن خلدون لم يكن مبدعا و لا مكتشفا و لا مؤسسا لعلم العمران البشري ، و لا لفلسفة التاريخ (ص-313)
ترجمہ:ابن خلدون نہ توعمرانیات اورنہ ہی فلسفہ تاریخ کابانی تھا۔
تفصیل کےلیےملاحظہ کریں(أخطاء المؤرخ ابن خلدون في كتابه المقدمة-دراسة نقدية تحليلية هادفة-الدكتورخالد كبير علال)
ابن خلدون نےکہاکہ ماضی ،حال اورمستقبل میں زمانےکی تقسیم محض ایک منطقی فریب ہے۔زمانہ ازازل تاابدایک وحدت اورلمحات کاایک
تسلسل ہے۔نسل انسانی بھی ایک وحدت ہےاورعقیدہ تفریق حقیقت سےبےخبری کانتیجہ ہے( فلسفیان اسلام،ص،16)۔
بنوحفص نےان علاقوں میں تین سوسال 625ہجری تا941ہجری بمطابق 1228عیسوی تا1534عیسوی حکومت کی ۔1574میں ترکوں نےآسٹریاکےڈان جان کوحلق الوادی سےنکال کرتونس پرمکمل قبضہ کرلیااوربنوحفص کاکلی خاتمہ ہوگیا۔اورمصرسےالجزائرتک ساراشمالی افریقہ عثمانی سلطنت کاحصہ بن گیا۔
غرناطہ میں اقتدارکےلیےابن ہوداورابن احمرکےدرمیان جنگ بپاہوگئی ۔اشبیلہ میں یحیی حکمراں بن گیا۔بلنسیہ میں مروان بن عبدالعزیز نےاپنی حکومت کااعلان کردیا۔
ويقول لنا ابن خلدون إن هذه الحصون كانت ثلاثين، وأن ملك قشتالة تعهد بأن يتخلى عن معاونة ابن الأحمر، وأن يعاون ابن هود على تملك قرطبة (2).
(دولة الإسلام فى الأندلس،ص،417،تأليف،محمَّد عبد الله عِنَانْ)
ترجمہ:ہم سےابن خلدون نےبیان کیاکہ ابن ہودنےقشتالہ کےبادشاہ سےکہاکہ اگروہ بنواحمرکی حمایت ومعاونت سےدست بردارہوجائےتووہ تقریباتیس قلعے،اس کودےگااورقرطبہ پرقبضہ کرنےمیں اس کی مددکرےگا۔
عیسائیوں نےاس انتشارکابھرپورفائدہ اٹھایااورحملےشروع کردیےاوردھیرےدھیرے قرطبہ ،اشبیلیہ اوربلنسیہ جیسےشہرعیسائیوں کےقبضےمیں چلے گئےاورمسلمانوں کی حالت بہت دگرگوں ہوگئی۔ ان کےپاس اب صرف اندلس کےجنوب مشرقی کونےمیں ایک ریاست غرناطہ رہ گئی تھی ۔
غرناطہ کارقبہ سات ہزارمربع میل تھا۔مالقہ اورالمریہ اس کےبڑےبندرگاہ تھے۔یہاں 636ہجری تا898ہجری بمطابق 1238تا1492 عیسوی بنواحمرنےڈھائی سوسال تک حکومت کی۔غرناطہ اندلس کےمسلمانوں کےلیےپناہ گاہ بن گیا۔لوگ ہجرت کرکےیہاں آنےلگےاوریہ بہت جلدعلم وفن اورصنعت وحرفت کامرکزبن گیا۔ابن ہودکےبعدیہاں ابن احمرکی حکومت قائم ہوگئی ۔یہ لوگ انصاف پسنداوررعایاپرورتھے۔اسی وجہ کران کی حکومت ڈھائی سوسال تک مزیددرازہوگئی ۔لیکن مرورایام کےساتھ ان میں بھی فسادرونماہونےلگا۔
جب سلطان یوسف تخت نشیں تھاتب اس کےبیٹےمحمدنےبغاوت کردی۔اس وقت اس داناشخص نےنصیحت کی اورلوگوں کوبنی امیہ ،مرابطین ،موحدین اوربنی ہودکےانجام یاددلائےاورکہا:
“یہ تمام حکمراں خاندان آپس میں خانہ جنگی کی بدولت تباہ ہوگئے،اگریہ لوگ ایک دوسرکوختم کرنےکےبجائےمتحدہوکرعیسائیوں سےلڑتےتو آج یہ دن تمہیں دیکھنانہ پڑ
تا۔تم دیکھ رہےہوکہ اس باہمی کشت وخون کی وجہ سےتمام اندلس تمہارےہاتھ سےنکل گیاہےاوراب تمہارےحرکات وسکنات سےپتہ چلتاہےکہ یہ چھوٹاساحصہ بھی ،جس پرتم فی الحال قابض ہو،اسےعیسائيوں کےکےحوالےکردیناچاہتےہو”(خلافت اندلس)۔
لیکن اہل اندلس کی مسخ شدہ فطرت پرکچھ اثرنہ ہوااورتباہی وہلاکت ان کی بداعمالیوں میں اضافہ کرتی گئی ۔یہاں تک کہ عیسائویں کےمقابلےمیں ایک امیرنےیہ خط لکھاکہ
“میں یوسف بن محمدابن احمربادشاہ غرناطہ تمہارامطیع وفرمانبردار،عقیدت ونیازمندی کےساتھ عرض کرتاہوں کہ میں سیدھاغرناطہ آیااوریہاں کےتمام امراء وعلماءنےمجھ کواپنابادشاہ تسلیم کیا۔یہ دن مجھ کوخداکےفضل اورتمہاری عنایت ومددسےنصیب ہواہے”۔(خلافت اندلس)
لسان الدین ابن خطیب(1313-1374عیسوی) غرناطہ کےمشہورعالم تھے۔ان کی کتاب الاحاطہ فی اخبارغرناطہ ،مشہورکتاب ہے۔غرناطہ کی آبادی اس وقت چارلاکھ تک پہنچ گئی تھی ۔یہاں الحمراء کےنام سےمسلمانوں نےایک بہت شاندارقلعہ بنایاتھا۔اس میں ایک باغ تھاجوجنت العارف کےنام سےجاناجاتاتھا۔
سلطان ابوالحسن نےکےوقت میں قشتالہ کےحاکم فرڈیننڈاورارغون کی حاکم ازابیلانے874ہجری بمطابق 1469عیسوی میں شادی کرلی ۔اس سےقبل دونوں ریاستوں میں شدیدلڑائياں ہوتی رہتی تھیں۔880ہجری میں فرڈیننڈنےسلطان ابوالحسن کوخط لکھاکہ اگرخیرچاہتےہوتو ہمیں دیےجانےوالےخراج کی مقدارکی بلاتوقف اطلاع دو۔
ابوالحسن نےاس کےجواب میں لکھاکہ:
” غرناطہ کی ٹکسال میں اب خراج کےسکےڈھالنےکےبجائےفولادکی ایسی تلواریں تیارہوتی ہیں جوعیسائي گردنیں اڑاسکیں”۔
حالانکہ اس وقت سلطنت غرناطہ کارقبہ سمٹ کرصرف چارہزارمربع میل سےبھی کم رہ گياتھا۔جبکہ سلطنت قشتالہ اوراغون کارقبہ سوالاکھ مربع میل سےبھی زیادہ تھا۔
887ہجری میں فرڈیننڈنےبھرپورتیاری کےساتھ غرناطہ پرحملہ کیا۔غرناطہ کی سرحدپرلوشہ نامی شہرکےقریب بڑی زبردست جنگ ہوئي ۔ مسلمانوں نےشجاعت وپامردی کےساتھ جنگ لڑی اورفرڈیننڈاورازابیلاکےمتحدہ لشکرکوشکست فاش دی ۔مسلمانو ں کےعزم وحوصلہ میں زبردست اضافہ ہوگیااورانہیں ڈھیرسارامال غنیمت ہاتھ آیا۔
لوشہ کےمیدان میں فتح وعزم کاسماں تھاجبکہ دوسری طرف غرناطہ میں سلطان ابوالحسن کابدنصیب بیٹاابوعبداللہ اپنےاولوالعزم باپ کےخلا
ف سازشوں کےجال تیارکررہاتھا۔ابوالحسن ابھی لوشہ کےمیدان ہی میں تھاکہ اسےخبرملی کہ اس کےبیٹےابوعبداللہ نےغرناطہ پرقبضہ کرکےاپنی خودمختاری کااعلان کردیاہے۔سلطان ابوالحسن کوئی چارہ کارنہ پاکرمالقہ چلاآیا۔نصف مغربی حصہ میں باپ اورنصف مشرقی حصہ میں بیٹاحکمراں تھا۔عیسائیوں نےیہ منظردیکھ کرمالقہ پرحملہ کردیا۔بہادرسلطان نےپوری بےجگری سےمقابلہ کیااورپھرعیسائیوں کوزبردست شکست دی ۔ اشبیلیہ کےحاکم کودوہزارسوارو ں کےساتھ زندہ گرفتارکرلیااوربہت سارےعیسائی میدان جنگ میں مارےگئے۔
سلطان ابھی میدان جنگ ہی میں تھاکہ ابوعبداللہ مالقہ پرقبضہ کرنےکےلیےاپنالشکرلےکرپہنچ گیا۔سلطان نےمجبورہوکراس سےجنگ کی ، ابوعبداللہ بھاگ کرغرناطہ چلاگيا۔اورکچھ دن بعدعیسائیوں سےایک جنگ کےدوران گرفتارہوگرفرڈیننڈکی قیدمیں چلاگيا۔
سلطان ابوالحسن اپنےاوپرفالج کاحملہ ہونےکی وجہ سےحکومت سےعلیحدہ ہوگئےاورمملکت کی ذمہ داری اپنےبھائی زغل کےسپردکی۔عیسائیوں نےیہ صورت حال دیکھ کرایک بارپھرحملہ کیامگراس باربھی عیسائيوں کوزبردست شکست کاسامناکرناپڑا۔
میدان جنگ میں کثرت تعدادکےباوجودناکامی کودیکھ کر فرڈیننڈنےجنگ کادوسرامحاذکھولنےکاارادہ کیا۔اس نےاپنی قیدمیں پڑےابوعبداللہ کوباہر نکالااوراس کےساتھ خصوصی اعزازواکرام (Red Corpet Protocol)کامعاملہ شروع کردیا۔عبداللہ ان صورت حال سےبہت خوش ہوا اوراپنی خوش قسمتی پررشک کرنےلگا۔
ایک دن فرڈیننڈنےاس سےکہاکہ سلطنت غرناطہ کےاصل وارث تم ہو،تمہارےچچاکی حکومت غاصبانہ ہے۔میں چاہتاہوں کہ تمہیں تخت غرناطہ پربٹھاکرحق ہم سائيگی اداکروں(خلافت اندلس:ذوالفقارجنگ بہادر)۔
مختصریہ کہ فرڈیننڈنےاسےہرےہرےباغ خوب دکھلائے۔ابوعبداللہ فرڈیننڈسےرخصت ہوکرسیدھامالقہ پہنچااورعوام کویہ باورکرانےلگاکہ فرڈیننڈکی حمایت اس کےساتھ ہے،اگرتم لوگ مجھےاپناحکمراں مان لوتواس کےحملوں سےمحفوظ رہ سکتےہو،ورنہ زغل کےزیرانتظام علاقوں پربہت جلدحملہ ہونےوالاہے۔بزدلی اورمادہ پرستی کےمارےلوگوں نےامیرزغل کی بیعت توڑدی اورضمیرفروش ابوعبداللہ کومالقہ کاحاکم بنادیا۔سلطان زغل کوجب یہ خبرپہنچی تووہ ساری صورت حال بھانپ گیا۔زیرزمین سازشوں کی وجہ سےحالات سلطان زغل کےموافق نہیں تھے۔لہذاوہ ابوعبداللہ کی بغاوت ختم نہ کرسکا۔
قریبی مقام بیزین کےعیسائی ابوعبداللہ کی حمایت ومدد
میں سب سےآگےتھے۔ابوعبداللہ نےاپنےچچاسلطان زغل کوپیغام بھجوایاکہ کہ اگرلوشہ نامی مقام میرےحوالےکردیاجائےتومیں آپ کےساتھ مل کرفرڈیننڈکےخلاف جنگ لڑوں گا۔سلطان زغل کےکئي ماتحت افسر،سرداراورعوام بضدہوگئےکہ اس میں کیاحرج ہے؟بہرحال لوشہ (آج کل یہ اسپین کاایک صوبہ ہےجسےلوجاکہتےہیں)ابوعبداللہ کےحوالےکردیاگيا۔
لوشہ دفاعی لحاظ سےسلطنت غرناطہ کاسب سےاہم ترین مقام تھا۔عیسائي کئي سال کی کوششوں کےباوجودمیدان جنگ میں اسےپانےمیں ناکام ہوگئےتھےمگرآج ایک بدبخت ترین شخص ابوعبداللہ کی نحوست ورذالت کےباعث بغیرکسی خوں ریزی کے891ہجری میں عیسائيوں کےقبضہ میں آگياتھا۔
ابوعبداللہ غرناطہ کےقریب عیسائی آبادی میں بیٹھ کرغرناطہ پرقبضہ کےپلان بنارہاتھاکہ مالقہ کےباشندوں نےیہ دیکھ کر کہ لوشہ عیسائيوں کےحوالےکردیاگياہے،وہاں بغاوت کردیااورسلطان زغل کی اطاعت کاارادہ کرکےعیسائیوں کی ظاہری علامات کومٹادیا۔
یہ سن کرفرڈیننڈرواداری کاچولہ اتارکراپنےاصل روپ میں آگیااورمالقہ کامحاصرہ کرلیا۔سلطان الزغل اہل مالقہ کی اطاعت کاعہدسن چکاتھا۔باوجود مشکلات کےوہ ان کی امدادکےلیےغرناطہ سےروانہ ہوامگرابھی وہ راستہ ہی میں تھاکہ ابوعبداللہ نےموقع پاکرغرناطہ پرقبضہ کرلیا۔
سلطان الزغل یہ وحشتناک خبرسن کرایک وادی میں جسےوادی آش کےنام سےجاناجاتاہے،ٹہرگیا۔کیونکہ اہل غرناطہ نےبغیرکسی احتجاج کے ابوعبداللہ کی حکومت کوتسلیم کرلیا۔اہل مالقہ اب فرڈیننڈکےحصارمیں تھے۔اہل مالقہ نےہرطرف سےمایوس ہوکرمراکش ،تونس،مصراورترکی کےمسلم حکمرانوں سےمددکی التجاکی ۔ان ممالک کےمجاہدکئي مرتبہ ان کی مددکرچکےتھےمگراہل غرناطہ کےاخلاق وعادات اتنےبگڑچکےتھےکہ وہ عیسائیوں کاخطرہ ٹلتےہی ان کےمخالف ہوجاتے۔لہذااس بارکوئي بھی ان کی مددکےلیےنہیں آیا۔
ان دنوں سلطنت عثمانیہ کافرماں رواں سلطان محمدفاتح کابیٹاسلطان بایزیدثانی تھا۔اس کاحال یہ تھاکہ اس نےاپنےباپ کےذریعہ فتح کئےہوئےکئي اہم یورپی علاقےدشمنوں کوواپس کردیےتھے۔
اہل مالقہ نےفرڈیننڈسےصلح کی پیشکش کی لیکن فرڈیننڈنےجواب دیاکہ اب تمہارےپاس سامان رسدختم ہوچکاہےاورتم ہرطرف سےمایوس ہوچکے ہولہذابغیرکسی شرط کےشہرکی چابیاں ہمارےحوالےکردو۔فرڈیننڈنےشہرپرقابض ہوتےہی تمام مسلمانو ں کوغلام بنالیا،بہت ساروں کوقتل کردیا، اموال وجائدادضبط کرلی اوربقیہ کوافریقہ جلاوطن کردیا۔ان کوکسی قسم کاسامان ساتھ لےجانےکی اجازت نہیں تھی۔ان میں سےاکثرراستےمیں قتل کردیےگئےیاصحراء میں تڑپ تڑپ
کرمرگئے۔
فرڈیننڈاورازابیلانےگردونواح کےتمام مسلمان قصبوں کی مسلم آبادی کوقتل یاجلاوطن کردیا۔وہ سب قلعہ فتح کرتےہوئےوادی آش پہنچےجہاں سلطان الزغل مقیم تھا۔اس کےپاس مقابلہ کی تاب نہ تھی ،اس نےعلاقہ سپردکردیا۔اس کےبعدفرڈیننڈنےقلعہ المریہ پرقبضہ کرلیاجوغرناطہ کاآخری دفاعی مورچہ تھااوراب سلطنت صرف غرناطہ میں محدودہوگئي تھی۔
جس وقت اہل غرناطہ پرزمین تنگ ہوکرسکڑرہی تھی ابوعبداللہ قصراالحمراء کےباخانوں میں مصاحبوں اورمشیروں کےساتھ بیٹھااپنےچچاسلطان الزغل کی تباہی اوربدانجامی کاحال سن سن کرخوش ہورہاتھاکہ اب تنہامیری حکومت قائم رہےگي اورعیسائیوں کی حمایت اورخوشگوارتعلقات کااعزازبھی حاصل ہوگاکہ اچانک اسےفرڈیننڈیہ خط پہنچاکہ تمہارےچچاسلطان الزغل نےاپناساراملک میرےحوالےکردیاہےلہذاتم بھی غرناطہ اورقصرالحمراء میرےحوالےکردو۔(ہسپانیہ سےامریکہ تک)
ابوعبداللہ اپنی ماں اوردیگرلوگوں کےکہنےپرجنگ کرنےکےلیےراضی ہوگيا۔مسلمان پوری بےجگری سےلڑےاورعیسائیوں کےدانت کھٹےکر دیے۔یہ صورت حال دیکھ کرفرڈیننڈپیچھےہٹ گیااورمہم کومناسب وقت کےلیےملتوی کردیا۔اہل غرناطہ نےآگےبڑھ کروہ تمام علاقے اورقلعے واپس لےلیےجس پرعیسائيوں نےقبضہ کرلیاتھااورازسرنوپورےعلاقےمیں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی ۔اس فتح سےمسلمانوں کےحوصلےبلند ہوئےمگران کےبرےخصائل اوراطوارجوں کےتوں برقراررہے۔لہذازغل کی بدبختی کی شکل میں ان کی شامت اعمال ظاہرہوئي۔
سلطان زغل البشرات کےایک گاؤں میں مقیم تھا۔اس سےابوعبداللہ کی سربراہی میں غرناطہ کی کامیابی دیکھی نہ گئي ۔وہ ابوعبداللہ کونیچادکھانےکے لیےعیسائیوں سےمل گیا۔اس نےفرڈیننڈکوخط لکھاکہ ابوعبداللہ اس قدرطاقتورہوگیاہےکہ اگراس پرلگام نہ کسی گئی توبےلگام ہوجائےگا۔اگراسے عیسائی افواج اورباشندوں کاتعاون حاصل ہوجائےتووہ اس فتنےکوقابومیں کرسکتاہے۔
اس کےبعدوہ بذات خودالمیریہ گیا۔زغل نےماہ رمضان میں عیسائیوں کی مددسےغرناطہ کےآس پاس کےعلاقوں پرقبضہ کرلیا۔ان علاقوں پر عیسائیوں کاقبضہ ہوتےہی قتل وغارت برپاہوگيا۔مضبوط قلعےگراکرزمیں بوس کردیےگئےاورکوئي مسلمان ان علاقوں میں باقی نہ رہا۔
فرڈیننڈنےزغل کی خدمات کاصلہ دیتےہوئےکہاکہ اب تمہاری اس ملک میں کوئي ضرورت نہیں ہے۔ہم تم پرصرف اس قدراحسان کرسکتےہیں کہ اگرتم اس ملک سےکہیں باہرجاناچاہوتوہم تم کوجانےدیں گے۔(تاریخ اسلام،اکبرشاہ نجیب آبادی)
زغل اپنی نحوست وبدبختی کولپیٹ کوافریقہ کےشہرتلمسان میں جابسااورزندگی کےبقیہ ایام وہیں گوشہ گمنامی میں گذارے۔اس وقت فرڈیننڈنےاہل غرناطہ کوچھوڑدیااورکچھ دنوں کےلیےاپنی اسکیم ملتوی کردی۔اہل غرناطہ نےپیش قدمی کرکےبرشلونہ پرقبضہ کرلیالیکن عیسائیوں کی متحدہ فوج نےبرشلونہ کوفتح کرلیااوروہاں کےتمام مسلمانوں کومارڈالا۔اوربالآخرفرڈیننڈاورازابیلانےغرناطہ پرفیصلہ کن حملہ کی ٹھان لی ۔
پورےزوروشور سےتیاریاں ہونےلگیں،حوصلہ اورعداوت کی آگ بھڑکانےکےلیےفوجیوں کےساتھ پادریوں کوبھی شامل کیاگیا۔عیسائیوں نےغرناطہ کےگردونواح میں پہنچتےہی باغات اورکھیتوں کوجلاکرراکھ کردیا۔جوملااسےقتل کرڈالااورابوعبداللہ کویہ پیغام بجھوایاکہ اگرتم نے ہتھیارنہ ڈالےتوغرناطہ کی آبادی کوتہہ تیغ کرکےقلعہ الحمراء سمیت پورےغرناطہ کوجلاکرراکھ کردیاجائےگا۔
اس وقت پورےاندلس میں صرف غرناطہ کایہی ایک چھوٹاساعلاقہ مسلمانوں کےپاس رہ گیاتھا۔آٹھ مہینےتک عیسائی فوجوں کامحاصرہ جاری رہالیکن اس میں ان کوکوئي کامیابی نہیں ملی۔اس کی وجہ غرناطہ کامحل وقوع تھا۔اس کےایک طرف شیلرنامی پہاڑتھا،جس کی طرف سےمحاصرہ ممکن نہیں تھااورمسلمانوں کواس راستےسےامدادپہنچتی رہتی تھی ۔لیکن جب موسم سرماآیااوربرف باری شروع ہوئي توپہاڑی راستوں سےامدادپہنچناممکن نہ رہا۔اس سےاہل غرناطہ میں سخت بےچینی اوراضطراب پیداہوگيا۔
غرناطہ کےمحصورمسلمانوں نےخلافت عثمانیہ کوخط روانہ کیا۔اخوت اسلامی کےنام پرفوری امدادکی درخواست کی۔عرضداشت کےالفاظ میں ایسا دردوکرب اورسوزوگدازتھاکہ کہ سنگدل بھی پگھل جائے۔ترک خلیفہ نےمددکرنےکےبجائےیہ خط روم کےپاپائےاعظم کوبھیج دیاتاکہ وہ فرڈیننڈوغیرہ پراپنااثرورسوخ استعمال کرکےاس سلسلےمیں اسےظلم سےبازرکھیں۔پوپ نےوہی خط آگےفرڈیننڈکوبھجوادیا۔اس نےجواب میں لکھاکہ تمام اندلس پران کاحق ہے،دوسری طرف فرڈیننڈنےترک خلیفہ بایزیدثانی کوخط لکھ کریقین دہانی کرائی کہ کہ وہ ممالیک مصرکےمقابلےمیں ترکوں کاساتھ دےگا۔
لوگوں نےابوعبداللہ سےدرخواست کی ہماری فوج کی تعدادبیس ہزارہےاورعیسائیوں کی تعدادایک لاکھ ہےمگرہمیں اندلس کےفاتح اول حضرت طارق بن زیاداوران کےساتھیوں کےمعرکہ کوپیش نظررکھناچاہیےکہ انہوں نےکس طرح ایک لاکھ کےمتحدہ لشکرکوشکست فاش دی تھی ۔لیکن اس طرح کےالفاظ کہنےوالےلوگ بہت کم تھے۔بڑےلوگوں کوجوفکردامن گیرتھی وہ یہ کہ ہمارےبنگلے،باغات اورنعمتوں کاکیاہوگااور بعض لوگ ان حالات میں بھی باغات کےسایےتلے فنون لطیفہ اورشاعری کےاصناف پرتبادلہ خیال کرتےرہتے۔
ابوعبداللہ نےقصرالحمراء میں ایک میٹنگ طلب کی ۔اس نےسب سےپہلےکہاکہ عیسائي جب تک
شہرپرقبضہ نہ کرلیں گےمحاصرہ نہیں اٹھائيں گے، ایسےنازک حالات میں کیاتدبیراختیارکی جائے؟ابوعبداللہ کےالفاظ ان اسرارورموزکی بھرپورترجمانی کررہےتھےجووہ کھل کرنہیں بول سکتاتھا۔ امراء ووزراء کی عیش کوشی اورآرام طلبی معاہدہ کی خواہاں تھی۔اس میٹنگ میں کوئي حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔
عوام کی سخت بےچینی کومحسوس کرکےابوعبداللہ نےاپنےوزیرابوالقاسم عبدالملک کوخفیہ طورپرفرڈیننڈکےپاس بھیجا۔ادھرعیسائیوں کایہ حال تھاکہ آٹھ مہینےکےمحاصرےکےباجودکوئي کامیابی نہ ملنےکی وجہ سےبےبیزارہوگئےتھےمگراس صورت حال سےسب چہک اٹھے۔ابوعبداللہ اوراس کےوزراء نےشرائط صلح ترتیب دیا،جس میں املاک ،جان ومال اورعزت وآبرووغیرہ سبھوں کی ضمانت شامل تھی۔ مذہبی آزادی کےساتھ ساتھ ایک شق یہ بھی تھی کہ کسی مسلمان کامذاق نہیں اڑایاجائےگا۔ مزیداپنےاوراقرباء کےلیےمخصوص نعمتوں اوردولتوں کاذکرتھا۔اس معاہدہ پرایک ربیع الاول 897ہجری بمطابق 2جنوری1492عیسوی کودستخط کیاگیا۔ساٹھ روزکےاندرعمل درآمدہوناطئےپایاتھامگرابوعبداللہ نے12 ربیع الاول 897ہجری کوشہرغرناطہ عیسائیوں کےسپردکردیا۔اس وقت غرناطہ کی ریاست میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا(80)اسی لاکھ تھی ۔ صرف غرناطہ شہرکی آبادی تقریبادس لاکھ مسلمانوں پرمشتمل تھی ۔
اہل غرناطہ کی بےحسی اوربدبختی کااندازہ صرف اس ایک واقعہ سےلگایاجاسکتاہےکہ ان میں سےصرف ایک شخص نے غیرت وحمیت اورعملی شجاعت وپامردی کامظاہرہ کیا۔اورعیسائیوں سےلڑتےہوئےشہیدہوگيا۔ایک بھی شخص نےاس کی تائيدنہیں کی ۔سارےلوگ تماشائي بنےاس کودیکھتےرہےلیکن عملی طورپرکسی نےاس کاساتھ نہیں دیا۔تاریخ اس باہمت شخص کوموسی بن ابی الغسان کےنام سےجانتی ہے۔
ابوعبداللہ انپےپچاس ساتھیوں کےساتھ قلعہ الحمراء کےباب الجدورسےنکل کراس مسجدکےپاس گیاجوآج سان سباستیان کےنام سےجانی جاتی ہے۔وہاں اس کاانتظارہورہاتھا۔ابوعبداللہ نےکنجیاں فرڈیننڈکےحوالےکردیں۔فرڈیننڈنےیہ چابیاں اپنی ملکہ ازابیلاکودیں۔اس نےولی عہدکی طرف پھینک دیا۔ولی عہدنےاسےسپہ سالارماؤنٹ ٹیوڈلاکےحوالےکیااورپھراندلس کےسب بڑےپادری کوحکم ہواکہ وہ سب سےپہلےشہرکے اندرداخل ہواورقلعہ الحمراءکےسب سےبڑےبرج پرآٹھ سوچھو برس سےسربلنداسلامی جھنڈےاورنشان کوگراکرصلیب نصب کرے۔(ہسپانیہ سےامریکہ تک)
ایس پی اسکاٹ لکھتاہےکہ 2جنوری 1492کی تاریخ ہے،شاہی خاندان کےافراداوراراکین زرق
وبرق لباس زیب تن کئےہوئےبادشاہ کےساتھ تھے۔ملکہ ازابیلااپنےخدم وحشم کےبیچ میں چاندکی مانندلگ رہی تھی۔جب یہ باشکوہ جلوس،طبل وبوق،فوجی باجوں کی آواز،پرچموں کی جنبش اور لاکھوں افرادکےپرمسرت نعروں کےساتھ قصرالحمراء کی طرف بڑھاتوالحمراءکادروازہ آہستگی سےواہوا،چندخوبصورت نوجوان گھوڑوں پرسوارآداب بجانےکےلیےآگےآئے،انہوں نےرنگارنگ ریشمی ملبوسات پہن رکھےتھے۔ان کےہتھیاروں اورزربکتروں میں جواہرات چمک رہےتھے۔ان استقبال کرنےوالوں میں سب سےآگےبدقسمت ابوعبداللہ اورباقی سب اس کےامراء تھے۔(اخباراندلس)
ایل پی ہاروے(L.P.Harvey)لکھتاہے:
سقوط غرناطہ پرپوری عیسائي دنیامیں جشن منایاگیا۔(مسلم اسپین کی میراث)
ابوعبداللہ نےکوہ البشارات سےپلٹ کرجب قصرالحمراء کودیکھاتواس پرعیسائیوں کی صلیب چمچمارہی تھی ۔یہ منظردیکھ کرابوعبداللہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔اس کی ماں نےاس وقت کہاکہ:
” جس چیزکوتم مردوں کی طرح بچانہیں سکےاس کےچھن جانےپرعورتوں کی طرح آنسوں کیوں بہاتےہو”۔
تاریخ کی ایک گمنام عورت ملکہ عائشہ کایہ فکر انگیز جملہ مسلم ہسپانیہ کی عبرتناک تاریخ پر مجمل مگر مکمل تبصرہ ہے۔ مسلم اسپین کی تاریخ اڈورڈگبن ، سٹینلی لین پول ، سیدیو ، اکبر شاہ خان نجیب آبادی اورکئي مورخین نےلکھی ہے،مگران سب پر ملکہ عائشہ کا یہ چھوٹا سا جملہ بہت بھاری ہے۔اس جملہ میں محرومی کی تاریخ ، اس کے اسباب اور نتائج سب ہویداہیں۔
اس مقام کوبےچارگی اورشکست کی علامت کےطورپر”مورکی آخری آہ “کےنام سےجاناجاتاہے۔اندلسی مسلمانوں کوموریسکی کہاجاتاہے۔
مفتی ابولبابہ شاہ لکھتےہیں:
دوجنوری 1492کی سہ پہراندلس کےمسلمانوں پربہت بھاری تھی۔غرناطہ کی کشادہ مسجدیں ملکہ ازابیلااورفرڈیننڈکےعیسائی لشکروں اورگھوڑوں کےپیشاب سےمتعفن ہورہی تھیں۔مسجدوں کےصحن ان کےفوجی سازوسامان اورہتھیاروں سےلدےہوئےخچروں سےبھرےہوئےتھے۔اس شام غرناطہ میں اذان کےبجائےہرطرف مسلمانوں کی آہ وبکاسنائی دیتی تھی یاشراب سےمدہوش،جشن فتح مناتےہوئےعیسائی لشکروں کےہنکارے ۔غرناطہ میں جگہ جگہ آگ لگی تھی جس میں قرآن پاک،نادرکتابیں اورنایاب قلمی نسخوں کی صورت میں مسلمانوں کی آٹھ سوسالہ علمی میراث کو نذرآتش کیاجارہاتھا۔عبدالرحمن الداخل کےقائم کردہ مرکزی کتب خانہ کی تین لاکھ سےزیادہ جلدوں
کےجلنےسےغرناطہ میں ایساکثیف دھواں چھاگياکہ جس کی سیاہی مسلمانوں کی سیاہ بختی سےہرگزکم نہیں تھی ۔
ایل پی ہاروے(L.P.Harvey)لکھتاہے:
اگلےروزجب مسلمانوں نےہتھیارڈال دیےتوکچھ لوگ فوج سےالگ ہوکرمسلم محلوں میں جاکرلوٹ مارکرنےلگے۔یہ دیکھ کرمسلمانوں نےمزاحمت شروع کی ۔یہ صورت حال دیکھ کرفوج کی ایک بڑی تعدادوہاں پہنچ گئی ۔ڈھیرسارےلوگوں کوقتل کردیاگیا۔تین ہزارسےزیادہ مقتول افرادتھے۔ صرف جامع مسجدکےاندرچھ سوعورتوں کوذبح کیاگيا،جنہوں نےوہاں پناہ لےرکھی تھی۔(مسلم اسپین کی میراث)
آہ وبکاکی ہچکیاں اورنالہ وفریادکی سسکیاں بحیرہ روم کےدونوں کناروں پرواقع مسلم ممالک کی خودغرضی وبےضمیری کےغبارمیں گم ہوگئیں۔
شیخ منظورالہی لکھتےہیں:
“غرناطہ میں دوسوپبلک لائبریریاں اورایک درجن رہائشی مکان ایسےتھےجہاں بیش بہاکتابوں اورمخطوطات کاذخیرہ تھاجن میں قرآن پاک کےہزارہا نسخےاورعالمانہ تفسریں تھیں۔طب اورعلم الافلاک پرنادرکتابیں تھیں۔فلسفےکی کتابوں میں ابن رشدکےنایاب متون شامل تھے۔ایسےگوہرآبدار صدیوں کی ذہنی کاوش کاثمرہےجن کی ترتیب وتزئين میں سینکڑوں کاتب،نقاش،زرکوب اورجلدسازبرسوں منہمک رہےتھے۔کتابت میں آب زراستعمال ہواتھا۔حاشیےمیں کہیں بیل بوٹےاورگلکاری تھی،کہیں متنوع رنگوں کافشار۔ایک دسمبر1499عیسوی کوحملہ آوروں نےاس میراث پرہلہ بول دیا۔وہ صدیوں کی عقل ودانش کانچوڑریڑھیوں میں ڈال کرلےگئے۔کتابوں کےپشتاروں تلےاجڈسپاہیوں کی پشت تھی۔دن بھرباب الرملہ کےتلےکتابوں کےانبارایک پہاڑکی شکل اختیارکرتےرہے۔لوگوں کوتماشادیکھنےکےلیےاکٹھاکیاگیا۔غم وغصہ سےچورمسلم خون اتراہواتھا۔ چہرےنفرت وحقارت کامرقع تھے۔کچھ خالی الذہن ہوکرفضامیں تک رہےتھے۔اشارہ پاکرالاؤروشن کیاگيا۔جہنمی شعلےآسمانوں سےباتیں کرنے لگے۔ثانیہ دوثانیہ کربناک سناٹاتھا۔پھرصدیوں کاعلمی خزینہ خاکسترہوتادیکھ کرافسردہ مجمع سےدلدوزچیخیں سنائی دیں۔ساتھ ازلی وابدی صداقت کےاثبات میں اللہ اکبرکافلک شغاف نعرہ گونجا۔مجمع چھٹنےلگا۔نیلگوآسمان پرٹانکےہوئےستارےسلگتےاوراق کوبھسم ہوتادیکھاکیے۔قرطبہ ،اشبیلیہ اوردوسرےشہروں میں حاکموں اورپادریوں نےایسی لاکھوں کتابیں جلاڈالیں۔اس پرتاسف کااظہارکرتےہوئےمعاصرامریکی ناول نگارجیمزمچز کہتاہے:تاریخ اورعلم کےخلاف یہ ایک گھناؤناجرم
تھا۔سقوط غرناطہ کوکئي برس گذرچکےتھے۔اس وقت آتش انتقام سردپڑجانی چاہیےتھی،ایسابیش بہاعلمی ذخیرہ ضائع کرنےکی کیاضرورت تھی۔(نیرنگ اندلس)
ابوعبداللہ کی بدبختی اورفریب کایہ انجام ہواکہ علامہ مقریزی نےلکھاہےکہ جس وقت میں فاس شہرمیں اپنی تاریخ لکھ رہاتھا،ابوعبداللہ کےپسماندگان کی گذراوقات خیرات پرتھی۔
غرناطہ پرقبضہ کےفورابعدعیسائیوں نےسارےمعاہدےاورشرائط بالائےطاق رکھدیے۔عیسائي جنونیوں نےامن کےساتھ عبادت کرنےسے روکناشروع کردیا۔مسلمانوں کی تضحیک ایک معمول بن گئی ۔قدم قدم پرمشکلات ومصائب درپیش ہونےلگے۔ان حالات میں مسلمانوں نےایک چھوٹی سےبغاوت کردی۔لیکن عیسائي حکمرانوں نےاس بغاوت کوسختی سےکچل دیااوراس بغاوت کوبہانہ بناکرانہوں نےیہ اعلان کردیاکہ ہم 1492عیسوی کےمعاہدےکےپابندنہیں رہےاور1499میں ایک حکم نامہ جاری کیاگیاکہ مسلمان یاتوعیسائي ہوجائیں یاجلاوطنی اختیارکریں۔ ان حالات میں مسلمان مصرکےمملوک سلطان کےپاس گئے۔
أرسل الموريسكيون استغاثتهم إلى الملك الأشرف قانصوه الغوري (1501 – 1516 م) سلطان دولة المماليك البرجية في مصر، وأوضحوا له ما وصلت إليه حالهم من إكراه على الارتداد، وانتهاك للحرمات. ودعوه ليتوسط لدى الملكين لكي يحترما معاهدات الاستسلام، ويوقفا الأعمال البربرية ضدهم.( تاريخ العرب وحضارتهم في الأندلس،ص،309
المؤلف: د خليل إبراهيم السامرائي – د عبد الواحد ذنون طه – د ناطق صالح مصلوب)
ترجمہ:اہل اندلس نےمصرکےمملوک سلطان قانصوہ غوری سےمددطلب کی اوراسےباخبرکیاکہ ہم کوارتدادکےلیےمجبورکیاجارہاہےاورحرمتوں کی پامالی ہورہی ہےتوان لوگوں نےدرخواست کہ آپ بادشاہ سےرابطہ کریں تاکہ امن وامان کےمعاہدوں کی پاسداری ہوسکےاورظلم وناانصافی بندہوسکے۔
لیکن عیسائیوں نےمصرپہنچ کرغلط بیانی کی اوربادشاہ کومطمئن کردیا۔لہذا ممالیک مصرنےکوئي مددنہیں کی اوراپنی لاچاری وبےبسی کانغمہ گنگناناشروع کردیا۔
1512عیسوی میں ایک وفدخلافت عثمانیہ گیالیکن وہاں بھی مایوسی ہاتھ آئی اورکسی بھی طرح کاتعاون نہیں ملا۔
1503عیسوی میں وہاں کےایک مفتی عبیداللہ احمدالمغربی نےفتوی دیاکہ اگرمجبوری حائل ہوتومسلمان ظاہری طورپرعیسائیت اختیارکرسکتے ہیں۔عیسی اورمریم کی شبیہ کےسامنےسربسجودہوسکتےہیں۔شراب پی سکتےہیں اورساتھ ہی اپناایمان اندرونی طورپرباقی رکھ سکتےہیں۔اس فتوی نےعیسائیوں کاکام بہت آسان کردیا۔

اس سلسلےمیں پادریوں نےرسوائےزمانہ عدالت “احتساب”(INQUISITIONS)قائم کیا۔جوشخص بھی عیسائیت کاانکارکرتااس پراحتسابی قانون کےتحت شکنجہ کس دیاجاتااورآگ میں جھونک دیاجاتا۔ارغون کی ریاست میں پادریوں کےاکسانےپرعیسائی مجنونوں کاایک مسلح گروہ صلیبیں اٹھائےگاؤں گاؤں جاتا،مسجدوں کوویران کرتااورمسلمانوں کوپکڑکربپتسمہ دیتا۔قاندیہ میں جہاں یہ تحریک شروع ہوئي ،عیسائی جھاڑواورلکڑی کی شاخیں لےکرندی اورنالوں میں ڈبوتےاورایک ہی وارمیں لوگوں کوجمع کرکےبپتسمہ دیتےجاتے۔
پولوپ میں مسلمان عیسائی ہجوم کےڈرسےبھاگ کرایک قلعہ میں جاگھسے۔چنددن تک مزاحمت ہوتی رہی پھرانہوں نےخودہی عیسائيت قبول کرنےکی شرط پرخودکوہجوم کےحوالےکردیا۔لیکن بپتسمہ دینےکےبعدان چھ سوافرادکوقتل کردیاگیا۔کیونکہ پادریوں کےفرمان کےمطابق اس سےدوچیزیں ہوتیں۔ایک یہ کہ زیادہ سےزیادہ ارواح جنت میں اوردوسرےیہ کہ ڈھیرساری رقم جیبوں میں۔
(پولیٹیکل،سوشل اینڈکلچرل ہسٹری آف موریسکی:ایل پی ہاروے)
1525میں کوئي بھی شخص پورےاندلس کےاندرکھلم کھلامسلمان نہیں رہ سکتاتھا۔جولوگ تھےوہ چھپ کرتھے۔1567عیسوی میں باقاعدہ یہ قانون منظورکیاگیاکہ جن لوگوں نےظاہری طورپرعیسائيت قبول کیاہےانہیں کامل عیسائی بنایاجائے۔انہیں عیسائی رسم ورواج کاپابندکیاجائے۔اوریہ حکم صادرکیاگياکہ عربی زبان میں لکھنا،پڑھنااوربولنابندکردیاجائے۔تمام مسجدوں پرتالےلگادیےجائيں۔
نماز،روزہ ،زکواۃ اورحج پورےطورپرجرم عظیم قراردیاگیایہاں تک کہ گھروں میں جاسوس بٹھادیےگیےاورغسل جنابت،وضواورطہارت سےجبری طورپرروک دیاگيا۔نتیجۃ زیادہ ترمسجدیں کلیسامیں بدل گئیں۔ہرقسم کی کتابوں کوڈھونڈڈھونڈکرجلایاگيا۔صرف باب الرملہ پرتقریبااسی(80) ہزارنایاب کتابیں اورنادرمخطوطات نذرآتش کیےگئے۔
اب مسلمانوں کونابود کرنےکاآخری مرحلہ شروع ہوا۔شراب اورلحم خنزیرکااستعمال فرض تھاکیونکہ مسلمان کی پہچان کسی اوروجہ سےنہ ہولیکن لحم خنزیرسےضرورہوجایاکرتی تھی۔اس طرح بہت سارےمسلمان عیاں ہوجاتےتھے۔
غرناطہ میں ان مصائب کےخلاف ایک بارپھرایک چھوٹی سی بغاوت رونماہوئي۔اس بغاوت کاقائدابن معاویہ تھا۔بادشاہ فلپ دوم کوبغاوت فروکرنےمیں بہت دشواری کاسامناکرناپڑا۔کیونکہ مسلمان مقامی پہاڑیوں اورعلاقوں کےتعلق سے نسبتازیادہ واقفیت رکھتےتھے۔مگراس بدترین لمحےمیں بھی مسلمانوں
میں اتحادپیدانہ ہوسکا۔ان کی قیادت منقسم ہوگئی ۔ابن معاویہ کواس کےمخالف مسلمانوں نےہی قتل کردیااوریہی حشراس کےجانشین ابن ابوکاہوا۔عیسائيوں نےاس سےبھرپورفائدہ اٹھایااوربغاوت کوکچل دیا۔اورپھر1609میں حتمی اورقطعی انخلاء کافیصلہ کیاگيااور پورےاندلس کومسلمانوں کےوجودسےخالی کردیاگيا۔
فرڈیننڈاورازابیلاکی قبریں جس عظیم گرجاگھرمیں موجودہیں ،وہ کبھی غرناطہ کی جامع مسجدہواکرتی تھی۔12فروری 1502کوجوایک حکم نامہ جاری کیاگیاتھاکہ مسلمان یاتوعیسائیت کابپتسمہ (Baptism)لیں یااندلس/ہسپانیہ سےرخصت ہوجائيں۔اس لازمی انتخاب نےمسلمانوں کو بدترین حالات سےدوچارکردیاتھا۔اس میں بہت سارےلوگوں نےعیسائيت قبول کرلیاتھا،بہت سارےجلاوطن ہوگئےتھےاوربہت ساروں نے ظاہری طورپرعیسائيت کواپنایاتھالیکن اندرسےمسلمان ہی رہےتھے۔اس وقت پورےاندلس میں مسلمانوں کی تعدادایک کروڑکےلگ بھگ تھی۔ اتنی بڑی جمعیت کویک لخت قتل کرناممکن نہیں تھا۔ایک صدی سےدھیرےدھیرےقتل وغارت کےبدترین حربےجاری تھےیہاں تک کہ 9اپریل 1609میں بادشاہ فلپ سوم نےجبری انخلاء کافرمان جاری کیااورپورےاسپین کومسلمانوں سےخالی کرنےکاحکم صادرکیا۔
اس حکم نامہ کےبعدہرطرف چن چن کرمسلمانوں کوقتل کیاگیا۔تقریباتین لاکھ مسلمان اپنی رہائش گاہ سےبندرگاہ کی طرف جاتےہوئےراستے میں قتل کردیےگئے۔اس فیصلہ کاشکارہونےوالےمسلمانوں کی تعدادتیس لاکھ بتائي جاتی ہے۔مشہورمذہبی محقق ڈبلیوسی براؤنلی کی مہیاکردہ تعداد بھی 30لاکھ ہے۔
اس سیاق میں ایک بات کافی اہم ہے۔یہ گرچہ استنادکےاونچےدرجےمیں نہیں ہےلیکن مغربی تاریخ واطوارکےپیش نظرقریب ازعقل ہے۔
کہتےہیں کہ جب عیسائی افواج نے اسپین کو فتح کیا تو اس وقت اسپین کی زمیں پر مسلمانوں کا اتنا خون بہا یا گیا کہ فاتح فوج کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے تو ان کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوتی تھیں ۔جب قابض افواج کو یقین ہوگیا کہ اب اسپین میں کوئی بھی مسلمان زندہ نہیں بچا ہے تو انہوں نے گرفتار مسلمان فرما روا کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندان کےساتھ واپس مراکش چلا جائے جہاں سے اسکے آباؤ اجداد آئے تھے ،قابض افواج غرناطہ سے کوئی بیس کلومیٹر دور ایک پہاڑی پر اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی
جب عیسائی افواج مسلمان حکمرانوں کو اپنے ملک سے نکال چکیں تو حکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کوئی مسلمان نظر آئے تو اسے شہید کردیا جائے ۔جو مسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جا بسے اور وہاں جا کر اپنے گلوں میں صلیبیں ڈال لیں اور عیسائی نام رکھ لئے۔

اب بظاہر اسپین میں کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا مگر اب بھی عیسائیوں کو یقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے کچھ چھپ کر اور اپنی شناخت چھپا کر زندہ ہیں اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کی ترکیبیں سوچی جانے لگیں اور پھر ایک منصوبہ بنایا گیا ۔پورے ملک میں اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہوجائیں تاکہ انہیں انکے ممالک بھیج دیا جائے جہاں وہ جانا چاہیں۔اب چونکہ ملک میں امن قائم ہوچکا تھا تو مسلمانوں کو خود ظاہر ہونے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوا ، مارچ کے پورے مہینے اعلانات ہوتے رہے ، الحمراء کے نزدیک بڑے بڑے میدانوں میں خیمے نصب کر دیےگئے، جہاز آکر بندرگاہ پر لنگرانداز ہوتے رہے ، مسلمانوں کو ہر طریقے سے یقین دلایا گیا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا جب مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا تو وہ سب غرناطہ میں اکٹھے ہونا شروع ہوگئے اسی طرح حکومت نے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرلیا اور ان کی بڑی خاطرمدارات کی۔
یہ کوئی پانچ سو برس پہلے یکم اپریل کا دن تھا جب تمام مسلمانوں کو بحری جہازوں میں بٹھا یا گیا،جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کہا اور جہاز وہاں سے روانہ ہوگئے، ان مسلمانوں میں بوڑھے، جوان ، خواتین ، بچے اور کئی ایک مریض بھی تھے جب جہاز سمندر کے عین وسط میں پہنچے تو منصوبہ بندی کے تحت انہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا اور یوں وہ تمام مسلمان سمندر میں ابدی نیند سوگئے۔اس کے بعد اسپین میں خوب جشن منایا گیا کہ ہم نے کس طرح اپنےدشمنوں کوبیوقوف بنایا۔
پھر یہ دن اسپین کی سرحدوں سے نکل کر پورے یورپ میں فتح کا عظیم دن بن گیا اور اسے انگریزی میں(First April Fool) کا نام دےدیا گیا یعنی یکم اپریل کے بیوقوف ۔آج بھی عیسائی دنیا میں اس دن کی یاد بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہے اور لوگوں کو جھوٹ بول کر بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
طارق بن زیادکایہ جملہ کہ سمندرتمہارےپیچھےہےاوردشمن تمہارےسامنےہے۔دونوں میں سےکوئي ایک منتخب کرلو۔زوال اندلس کی پوری تاریخ میں معجزانہ طورپرواضح ہوا۔
اورکوشش کی آخری حدتک جاتےہوئےحتمی وقطعی فیصلہ کےطورپر22ستمبر1609کوتین دن کی مہلت دی گئی کہ ایک بھی مسلم پورے اندلس میں کہیں بھی نظرنہ آئے۔اب جوکسی طرح بچ گئےتھے۔وقت ووسائل کی کمی کےسبب قتل ہوئے،بہت سارےسمندرمیں ڈوب کرمرگئےاوربہت سارےعیسائی بن گئے۔یہاں تک 25ستمبر1609کوہسپانیہ مسلمانوں کےوجودسےپورےطورپرخالی ہوچکاتھا۔
بعدکی تاریخ میں تمام اندلسی مسلمانوں کوموریسکی کہاجانےلگا۔اس وقت اس عنوان پرعالم عرب کےایک اسکالرشیخ عبدالجلیل تمیمی بہت کام کررہےہیں۔یہ “موریسکی اسٹڈیز
سینٹر”کےڈائریکٹرہیں۔وہ600 سے زیادہ تحقیقی کتابیں اس موضوع پر چھاپ چکے ہیں۔اس وقت 250 سے زیادہ اسپینی، امریکی، فرانسیسی مؤرخین موریسکی اسٹڈیز میں منہمک ہیں، جبکہ عربوں کے یہاں دس لوگ بھی اس کام کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔
اسپین کے ایک بڑے مؤرخ رافائیل نے موریسکیوں کے موضوع پر تحقیق کی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب تمیمی کو ترجمہ کے لیے دی، تمیمی اس کتاب کو پڑھ کر روتے رہے۔ 1609ء میں موریسکی نکال دیے گئے‘ لیکن اس کے بعد بھی بہت سے لوگ باقی رہ گئے۔
ڈاکٹر عبدالجلیل تمیمی نے اپنے ایک انٹرویو میں تفتیشی عدالت کی دستاویز کی روشنی میں بتایا کہ غرناطہ کے پانچ بڑے چرچوں کے موریسکی پادری سقوط غرناطہ کے کافی عرصہ بعد یعنی 1728 ء میں اس لیے زندہ جلادیے گئے کہ وہ ظاہراً عیسائی اور اصلاً مسلمان تھے۔
ابوالبقاء الرندی کہتےہیں کہ1609عیسوی کےبعد ابھی سقوط ہسپانیہ کاکفن بھی میلانہیں ہواتھاکہ مصر،ترکی اورملک شام کےمسلمان امیروں کےسفارت کارملکہ ازابیلا اوربادشاہ فرڈیننڈکےدربارمیں خیرسگالی کےپیغامات پہنچانےکےلیےشرف باریابی کےمنتظربیٹھےرہتےتھے۔
اندلس کی اس عبرتناک تباہی اورفقیدالمثال بربادی کےبےشماراسباب ہیں جن میں سےچنددرج ذیل ہیں:
1۔جس وقت اندلس فتح ہوا۔اس وقت مسلمانوں میں ملوکیت کےزیراثربہت سارےفسادات رائج ہوچکےتھے۔اس کےبرخلاف وہ ممالک جن کوصحابہ کرام نےفتح کیا۔وہ آج بھی ان کےپاکیزہ جذبات اوراخلاص وشعور کے امین ہیں۔اوران کی برکت سےوہ جگہیں کافروں سےمحفوظ ہیں۔ موسی بن نصیراورطارق بن زیادبلاشبہ عظیم سپہ سالاراوراسلامی تاریخ کےمایہ نازاورصالح جرنیل تھےمگرملوکیت کی آگ میں جل گئے۔ اوراندلس کےاندراسلامی تبلیغ واشاعت کےمواقع سلیمان بن عبدالملک کی ناعاقبت اندیشی اورجاہلانہ مفادپرستی کےطوفان میں بکھرگئے۔اس خبث کےنتیجےکےطورپراندلس میں قوم پرستی کاعذاب مسلط ہوگیا۔اس کی ابتداءہی میں کوئي ٹھوس اسلامی مظاہرہ اورایمانی نمونہ نظرنہیں آیا۔جب کہ صحابہ کرام اوران کےتربیت یافتہ افرادعملی نمونہ ہوتےتھےاوران کےاخلاص کی برکت سےلوگوں کوبھی اسلام کی طرف دلی میلان ہوتاتھا۔ اس معاملہ کی ایک مثال مصرہے۔مصرواندلس کےمابین موازنہ کاخلاصہ یہ ہےکہ مصرصحابہ کرام کےوقت میں فتح ہواجبکہ اندلس ملوک کےوقت میں فتح ہوا۔
2۔ملوکیت کےتحت رائج بدعات وخرافات نےاذہان کومسموم کردیا۔جب اوائل ہی میں اسلامی نمونہ پیش نہیں کیاگیاتولوگ خام اذہان کےساتھ اسلام میں فتح کی وجہ سےداخل ہوئے۔جاہلی غباران
کےقلب ودماغ سےزائل نہیں ہوااورکثیرتعداد اسلامی شعورکی بازیافت میں ناکام رہی۔افتراق وانتشارکےبرےنتائج اوراس کےعذاب سےلوگ بےپرواہ ہوگئے۔اورلغویات وخرافات میں امن وسکون تلاش کرنےلگے۔
3۔اسلام کی بہت بڑی خصوصیت یہ تھی حاکم ومحکوم کےدرمیان کوئي فرق نہیں تھا بلکہ ہرطرف مساوات کےنمونےبکھرےہوئےتھے۔اورفاتح اپنےآپ کوعوام کاخادم تصورکرتےتھے۔اندلس میں شروع ہی سےمساوات کاکوئي نمونہ دیکھنےمیں نہیں آیا،جبکہ صحابہ کرام مساوات کی منہ بولتی تصویرتھے۔انصاف کےمعاملےمیں رعایااورحاکموں کےلیےیکساں سلوک تھا۔ابتداہءہی میں بربرقومیت اورعرب قوم پرستی کےجذبات سر اٹھانےلگےاوراس کےنتائج بہت بری شکل میں ظاہرہونےلگے۔اس کی بنیادی وجہ اسلام کےمساوات کوچھوڑکرجاہلی تصورات کواپناناتھا۔اوران جاہلی تصورات کےتحت غلط اسلامی مزاج تشکیل پاتےگئےاوردھیرےدھیرےبدترین روپ دھارتےگئے۔
4۔شراب وشباب اورزنان وجمال کی فتنہ انگیزی شخصیت کےکمال ووقارکوتباہ کردیتی ہے۔ذہنی وفکری سطح پست کردیتی ہےاوراولوالعزمی وجواں مردی کی خصوصیات ماؤوف کردیتی ہے۔اندلس کی آٹھ سوسالہ تاریخ میں اسی چیزکاغلبہ رہااوراس ماحول کےپروردہ شاہان اسلامی بلندحوصلگي کی کوئي سطح عبورنہ کرسکے۔اس کاایک اضافی سبب مسلم حکمرانوں کےحرم میں یہودی وعیسائی عورتوں کی موجودگی بھی ہے۔اس کےذریعہ اسلام دشمن طاقتوں نےبھرپورفائدہ اٹھایااورمسلم حکمرانوں کی بداعمالیاں ،کج فکریاں اورجام ولب کوشیاں اس کےادراک میں مانع رہیں۔
5۔عیش وعشرت اندلس کےحکمرانوں کاشعاربن گيا۔اوریہی چیزان کےزیراثروزراء اورپھرعوام میں رائج ہوئي ۔عیش وعشرت اورمادہ پرستی دراصل تصورآخرت کی کمزوری کانتیجہ ہے۔اس کمزوری کےنتیجےمیں مادہ پرستی وجودمیں آتی ہے۔لوگ محلات اورباغات کی تزئين وآرائش کےلیےبےشمارقربانیاں دیتےہیں اوراپنےلیےراحت ووجاہت کےسامان کرتےہیں۔اوریہی چیزدین کےغلبہ کےلیے سب سےبڑی رکاوٹ رہی ہے۔اوریہی مزاج اسلامی جہادکی راہ میں سب سےبڑاروڑارہاہے۔اسلامی جہاداللہ کےدین کےغلبہ کی ہرکوشش کانام ہےیہاں تک جان ومال اس کےسپردکردیاجائے۔اوریہ اسی وقت ممکن ہےجب ایک شخص عملی سطح پر دنیوی ضرورتوں کوپوراکرتےہوئےفکری وذہنی سطح پردنیاسے بےزارہو۔ یہی ذہنی سطح انسان کوقناعت پسنداوراسلامی طریقہ زندگی کےاختیارکرنےکےلائق بناتی ہے۔تاریخ اس بات پرگواہ ہےکہ عیش وعشرت میں ڈوبےاورمادہ پرست لوگ ہی ہمیشہ جہادکی راہ میں حائل ہوتےہیں اوراسےعظیم تباہی
گردانتےہیں۔اوراس طرح کےلوگ وسیع ترمقصدکےلیےقربانی دینےپرآمادہ نہیں ہوتےاورنہ ہی آخرت کی زندگی کوترجیح دینےکےلیےتیارہوتےہیں۔اورجوشخص یاقوم آخرت کی زندگي کوترجیح دینےکےلیےتیارنہ ہواس کےاندراسلامی خصوصیات اوربہادری واولوالعزمی کےجوہرپروان چڑھ ہی نہیں سکتے۔
6۔ظلم وزیادتی تیرگی وتاریکی کی علامت ہوتی ہے۔اندلس کی آٹھ سوسالہ تاریخ میں مفادپرستی اورذاتی اغراض کےلیےملی مفادکوہرموقع پرذلت ورسوائی کاسامنارہا۔بےقصوراورمعصوم لوگوں کوظلم وغارت کانشانہ بنایاگيا۔علماء کوقتل کیاگیا۔عزت وناموس کوپامال کیاگیا۔
7۔اللہ سےمددطلب کرنےکےبجائےعیسائیوں سےمددطلب کیاگيا۔اللہ کےکلمہ کوبلندکرنےکےبجائےذاتی بادشاہت کےلیےجنگیں کی گئيں۔اللہ پربھروسہ اورجہاد کرنےکےبجائےعیسائیوں سےامن وعافیت کی بھیک مانگی گئی ۔اپنی نااہلی اورپستی کےادراک کےبجائےدشمنوں کی سازشوں کوحقیقت کل سمجھ لیاگيا۔یہ ایک معلوم بات ہےکہ دشمن ہمیشہ سازش کرتےرہےہیں لیکن اس سازش کاکامیاب ہوجانادرحقیقت ہماری کمزوری اورنااہلی کوبتاتاہے۔
8۔اندلس کی سرزمین پربڑےبڑےعلماء وفضلاء پیداہوئے۔اس کی تفصیل ابوالقاسم ابن بشکوال(المتوفى: 578 هجری)کی کتاب”الصلة في تاريخ أئمة الأندلس” میں دیکھی جاسکتی ہے۔لیکن عجیب بات ہےکہ اندلس کی سرزمین بہت حدتک صادقین وصالحین کےوجودبابرکت سےخالی رہی ۔جامع شخصیات مفقودرہیں۔یہاں وہ نمونے دیکھنےمیں نہیں آئےجوقرآن کی اس آیت کےپیکرہوتے تھے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَۚۖ۰۰۲
ترجمہ:سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں، (انفال:2)
اگرکچھ اصحاب صدق وصفاتھےبھی توان کافیض جاری وساری نہ ہوسکا۔اس معاملہ میں جوخوش بختی مشرق کوحاصل تھی،وہ مغرب کےلیےخواب ہی رہی ۔لہذاتربیت وتزکیہ اورعلم وتذکیرکےحامل افرادتیارنہ ہوسکےاوراندلس کی سرزمین کافی حدتک ان مطلوب وجامع اسلامی شخصیات کے فیضان سےمحروم رہی ۔البتہ ایک حدتک بحث ومباحثہ ،فلسفہ ومجادلہ اورمناقشہ ومشاعرہ کےمیدان میں کافی جولانی کامظاہرہ کیاگيا۔لیکن مطلوب اسلامی کردارواطوارکےگوہروہاں ناپیدرہے۔

9۔ٹکراؤ اورمقابلہ آرائی کی اس دنیامیں فاتح ومفتوح اورغالب ومغلوب کےکچھ فطری قوانین ہیں ۔غلبہ کی خصوصیات وصفات جب مضمحل ہونے لگتی ہیں تب فطری طورپراس سےفائق خصوصیات وصفات سراٹھانےلگتی ہیں اوردونوں میں ٹکراؤشروع ہوجاتاہے۔غلبہ کی بہت ساری سطحوں میں ایک خارجی سطح ہے۔خارجی سطح پرغلبےکےجوتقاضےہیں ،اس میں اگرکمی ہونےلگتی ہےتوغلبہ کی خارجی سطح ناقص ہوجاتی ہے۔اورمخالف محاذاگر غلبہ کی برترخصوصیات کاحامل ہوتاہےتووہ غالب ہوجاتاہے۔اسی فطری ٹکراؤکےسبب وہ خدائي سنت پیداہوتی ہےجسےقرآن میں مداولت کہاگیاہے:
وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ١ۚ
ترجمہ: یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔(آل عمران:140)
اندلس میں عیسائی بیدارہونےلگےاوران کی بیداری بڑھتی گئی ،انہوں پاپائےروم کی حمایت ومعاونت حاصل کی ۔اورلوگوں کی زبردست ذہنی ترتیب کی اوران کوجنگ کےلیےبامقصدطورپرآمادہ کیا۔اوراس خارجی محاذپروہ مسلمانوں سےکافی برترہوگئے۔
10۔عیسائیوں نےاندلس کےاندرمسلمانوں سےجنگ کوصلیبی رخ دیااور یہ صلیبی جنگ پوپ کےفتوی سےجاری ہوئي ۔پاپائےاعظم نے عیسائیوں کوشرعی ودینی ذمہ داری کےطورپرحملہ کاحکم دیا۔اوراس معاملہ میں عرب وبربرقوم پرستی کاخوب استعمال کیاگيا۔اس کاایک نتیجہ یہ ہواکہ جب الفانسواوّل نےاپنی مملکت کی وسعت کےلیےشمالی اندلس کےعیسائیوں کومسلمانو ں کےخلاف بغاوت پرآمادہ کیاتوکچھ علاقےمسلمانوں کےہاتھ سےنکل گئے۔اورعیسائي اپنی دینی ذمہ داری اورعزم وحوصلہ کےساتھ آگےبڑھتےرہے۔اس کےمقابلےمیں مسلمانوں میں موجودیہ چیزیں بری طرح پامال ہوگئی تھیں۔اور غرناطہ کے مزیدڈھائی سوسال تک باقی رہنےکی خاص وجہ اس کی کوہستانی حیثیت اورافریقہ کےنزدیک ہوناتھا۔خطرہ کی صورت میں شمالی افریقہ کےمسلمان ان کی مددکرتےتھے۔
11۔عیسائيوں نےمنصوبہ بندطریقےسےمسلم معاشرہ میں لاغری وسستی ،لادینیت اوربےحیائی وبےپروائي کےبیج بودیے۔کہتےہیں ایک مسلمان جس کانام براق بن عمارتھا۔اس نےعیسائی سرداروں اورکلیساکےعہدیداروں کےساتھ مختلف مباحث اورگفتگومیں انہیں نصیحت کی کہ مسلمانوں سےبراہ راست جنگ کرنےسےپرہیزکریں اور صلح کرنےکی کوشش کریں تاکہ مسلمان معاشرہ اندرسےکھوکھلاہوجائے،اس نےان سےکہاکہ مسلمانوں سےتین چیزوں میں صلح کریں:
(1)دینی تبلیغ واشاعت میں آزادی

(2)مسلمانوں کوتعلیم دینےمیں آزادی
(3)مسلمانوں کےساتھ تجارت میں آزادی
اس کےنظریہ کےمطابق پہلی دوچیزوں سےمسلمان بالخصوص نوجوان،مسلمان استادکےحوالےسےاپنےفطری وطبعی احترام کی بناءپرپورپی اور عیسائي لوگوں کےلیےایک طرح کی برتری اوراحترام کےقائل ہوجائیں گے اورانہیں بلندمقام عطاکریں گےاوران کواپنےسےبرتراورفائق خیال کریں گے،اس طرح وہ اپنےاصول وعقائدمیں سست اورکمزورہوجائيں گے۔
اورجب تجارت میں آزادی کامعاہدہ ہوگاتب دھیرےدھیرےغذاء،پوشاک اورخوراک میں حرام اشیاء کی شمولیت بھی ہوگی اوراس حوالےسےوہ بتدریج غیرذمہ داراورلاپرواہ ہوجائیں گے۔
مسلم حکمرانوں نےجب عیسائیوں سےصلح کیاتوعیسائیوں نےاپنےان اہداف ومقاصدکوخوب حاصل کیا۔وہ مسلم معاشرہ پرغالب آنےلگے۔ اباحیت اوربےحیائی پھیلنےلگی۔راہبوں نےخوبصورت تفریح گاہیں اورباغات بنوائيں۔ان میں وہ عیسائیت کی تبلیغ کرتے۔مسلم نوجوان اوراصحاب ثروت اس میں سیروتفریح کےلیےجاتے۔لوگ وہاں فطری مناظرکی رعنائی ودلکشی کانظارہ کرتےاورساتھ ساتھ خوبروعیسائي دوشیزاؤں کےحسن وجمال اورنازوانذازکامشاہدہ بھی خوب کرتے۔اسی زمانےمیں یورپ سےبہترین قسم کی شرابیں اندلس میں لائی گئیں اورنوجوانوں کومائل کرنےکی کوششیں کی گئیں۔اس کانتیجہ یہ ہواکہ نوجوانوں کااکثریتی طبقہ شراب کاعادی بن گیااوراس کےخبائث ورذائل ان کےاندرظاہرہونےلگے۔ جولوگ شراب نہیں پیتےتھے،ان کوقدامت پرست اورمتعصب کہاجاتاتھا۔نوجوان دینی ومعاشرتی اقدارکوپامال کرنےلگے۔مساجدصرف بوڑھے افرادکےلیےمخصوص ہوگئي۔مسلم نوجوانوں کی بھیڑعیسائی مراکزمیں جاتی اوروہاں لڑکیوں کےجمال ومذاق کےساتھ شراب وشباب سےخوب لطف اندوزہوتی اورمستیاں کرتی۔
اس بدعملی وجہالت کےنتیجےمیں پیسےکےبحران کی صورت حال رونماہوگئی ۔حلال راستوں سےیہ آسائش ممکن نہیں رہی ۔اورنتیجہ کےطورپر حرام خوری ،رشوت،دھوکہ دھڑی،ادارےاورمختلف شعبہ جات میں فسادات عام ہونےلگے۔معاشرہ کابنیادی طبقہ جواشیاء پیداکرتاہےمثال کے طورپرکسان،صنعت کاراورمختلف قسم کےکاریگرعد م توجہ اورلاغری کےشکارہونےلگے۔غربت اورتنگ دستی میں اضافہ ہونےلگا۔عیسائيوں نے ان حالات سےفائدہ اٹھاتےہوئے،کئي مسلمان سرداروں کوخریدلیااوروالانس نام کےایک شہرپرقبضہ کرلیا۔قبضہ کرنےکےبعدبےشمارلوگوں کوقتل کردیااورمسلم
خواتین کی عزت وناموس کوان کےشوہروں کےسامنےپامال کیا۔
12۔سقوط اندلس کا ایک سبب جغرافیائی سیاسی (Geopolitical)بھی ہے۔مسلمانوں نےپورااندلس فتح نہیں کیااوربہت سارےحصےشروع ہی سےعیسائيوں کےقبضےمیں رہے۔خصوصیت کےساتھ اندلس کاشمال مغربی علاقےکابڑاحصہ مسلمانوں کی فتوحات میں شامل نہ ہوسکاتھا۔اور بہت سارےعلاقےایسےبھی تھےجہاں موثرقبضہ مسلمانوں کانہیں تھا۔اندلس بنیادی طورپرگرچہ عیسائیوں کےہاتھ سےنکل چکاتھامگرکچھ علاقےاس کےقبضےمیں بھی تھے۔اندلس کےشمال میں کچھ ساحلی علاقے اورخلیج بیسکے(Biscay)کےقریب کئي پٹیاں عیسائیوں کےپاس تھیں۔انہوں نے اس پراسی لیےقبضہ جمایاہواتھاکہ وقت آنےپر مسلمانوں کےافتراق وانتشاراوربےپروائی سےفائدہ اٹھاکردوبارہ اندلس پرقبضہ کرلیں گے۔
اندلس میں مسلمانوں کادہشت ناک انجام تاریخ کاعدیم المثال سانحہ ہے۔درج بالاسطورایک حدتک اس کےاسباب وعوامل کوبتاتےہیں ۔تاہم اس کالب لباب یہ ہے مسلمانوں کی کامیابی صرف غلبہ دین میں مضمرہے۔اورغلبہ دین اسی وقت ممکن ہےجب اللہ کی رحمت اورنصرت کی سعادت حاصل ہو۔اس کےلیےشرط ہےکہ اللہ کی رحمت اورنصرت کوباقی رکھنےکےاسباب وذرا‏ئع اختیارکیےجائيں۔ہرچیزسےزیادہ اس کی حفاظت کی جائےاورباطل سےاس کی تلبیس نہ کی جائے۔اس کی ابتداءیہ ہےکہ اپنی ذات اورشخصیت میں دین کوغالب کیا جائے۔اس کےبعداپنے گھرمیں دین کونافذکیاجائےاوراس طرح کئی اسلامی گھرمل کراسلامی معاشرہ میں ڈھل جائے۔اورپھراس کاجغرافیہ سرحدیں عبورکرتاہواآگے بڑھتا جائے۔مگرجب اس کےبرخلاف اللہ اوراس کےرسول کی مرکزی حیثیت کونظراندازکیاجائےگا،اللہ اوراس کےرسول کوچھوڑکرغیرکاحوالہ دیا جائےگا،وہاں ہلاکت وفسادسےامت مسلمہ کوکوئي چیزروک نہیں سکتی ۔ساری ٹکنالوجیاں اورکتابیں افسردگی ومحرومی کی تصویربن کربدعملی وخدا دشمنی کی آگ میں خاکستر ہوجائیں گی۔وحشی وجاہل تاتاری اور عیسائي بغدادوقرطبہ کی تہذیب وثقافت کوتاریخ کاعبرتناک قبرستان بنادیں گے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *