باطل قوتوں کی مزاحمت مسلمانوں کا ’’کارنامہ‘‘ یا ’’جرم؟‘‘

ہر قوم اپنے کارناموں پر فخر کرتی ہے لیکن مسلمانوں کی تاریخ عجیب ہے۔ ہماری تاریخ کے ہر اہم مرحلے پر ہمارے درمیان ایسے لوگ نمودار ہوجاتے ہیں جو مسلمانوں کے ہیروز کو ولن اور مسلمانوں کے کارناموں کو جرم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف غیر معمولی مزاحمت کی، حالانکہ مسلمانوں کے پاس نہ کوئی مرکزی قیادت تھی اور نہ ان کی تحریکِ آزادی منظم تھی۔ اس مرحلے پر سرسید کو مسلمانوں کی مزاحمت پر سخت غصہ آیا اور انہوں نے تحریکِ آزادی کے مجاہدین کو جی بھر کر برا بھلا کہا۔ انہوں نے مجاہدین کو وحشی، درندے، نمک حرام اور حرام زادے قرار دیا۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست ابھر رہی تھی تو فیض احمد فیضؔ فرما رہے تھے ؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
پاکستان بن گیا تو سرحد کے سرخ پوش رہنما خان عبدالغفار خان نے گاندھی جی سے شکایت کی کہ آپ نے پاکستان کو تسلیم کرکے ہمیں بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کے خلاف بے مثال اور تاریخ ساز جدوجہد ہوئی ہے لیکن معروف صحافی سلیم صافی نے روزنامہ جنگ میں ’’امریکہ کی ہار اور ہماری جیت‘‘کے عنوان کے تحت شائع ہونے والے اپنے حالیہ کالم میں سوویت یونین اور امریکہ کے خلاف کامیاب مزاحمت کو مسلمانوں کا جرم بنادیا ہے۔ لیکن اس اجمال کی تفصیل کیا ہے؟
سلیم صافی نے لکھا ہے کہ ہم نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑی اور وہ نظریۂ اشتراکیت ختم ہوگیا جو امریکہ کو چیلنج کررہا تھا۔ نتیجہ یہ کہ امریکہ افغانستان میں چند سو ارب ڈالر صرف کرکے دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا، مگر ہم افغانستان میں امریکہ کی فتح کو اپنی جیت سمجھ رہے تھے اور اس کا جشن منا رہے تھے، حالانکہ سوویت یونین کی مزاحمت نے افغانستان کو تباہ کردیا اور سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد مجاہدین آپس میں لڑ پڑے۔ سلیم صافی نے اس سلسلے میں خان عبدالولی خان کا یہ تبصرہ بھی کوٹ کیا ہے کہ اپنی سرزمین پر اپنے بھائیوں کو مروا کر ہم نے یاسرعرفات کو امریکہ اور فلسطینیوں کو اسرائیل کے قدموں میں ڈال دیا۔ سلیم صافی نے لکھا ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ سوویت یونین سے بڑے جارح کی صورت میں سامنے آیا تو ہماری صفوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ جماعت اسلامی جیسی جماعتیں جو سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی فتح کا جشن منا رہی تھیں امریکہ مُردہ باد کی مہمیں چلانے لگیں۔ اب جبکہ امریکہ افغانستان میں دس سال گزارنے کے بعد واپس جارہا ہے تو کہا جارہا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں شکست ہوئی ہے اور وہ اپنا کوئی بھی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ لیکن سلیم صافی کے بقول ایسا نہیں ہے، اُن کے بقول امریکہ نے القاعدہ کی کمر توڑ دی ہے اور اب وہ امریکہ کے خلاف نائن الیون یا سیون سیون جیسی کارروائیوں کے قابل نہیں۔ اگرچہ القاعدہ پہلے سے زیادہ پھیل گئی ہے لیکن عالم اسلام میں… جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں اس کی کارروائیوں کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے۔ سلیم صافی کے بقول امریکہ نے ایسی چال چلی ہے کہ مسلم ملکوں میں مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں۔ پھر امریکہ نے اسامہ بن لادن کو قتل کرکے ایک نفسیاتی فتح حاصل کرلی۔ اگرچہ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے مگر وہ کئی صورتوں میں وہاں موجود رہے گا۔ سلیم صافی کے بقول افغانستان میں امریکہ کے چند سو ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور یہ امریکہ کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ تاہم ان حقائق کے باوجود سلیم صافی کے بقول پاکستان میں خوشیاں منائی جارہی ہیں کہ ہم جیت گئے، امریکہ ہار گیا۔ سلیم صافی کے کالم کا آخری فقرہ ہے کہ ’’واہ جی واہ کیا عجیب جیت ہے اور کیسی شاندار ہار ہے‘‘۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سلیم صافی نے جو کچھ کہا ہے اس کی معنویت کیا ہے؟
اسلام میں زندگی کا اصل اصول شہادتِ حق ہے۔ جہاد ہے۔ باطل کی مزاحمت ہے۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کے باوجود شکست ہوگئی، مگر یہ شکست بھی مسلمانوں کی کامیابی تھی، کیونکہ مسلمان حق پر تھے اور ان کے حریف باطل پر کھڑے ہوئے تھے۔ کربلا میں حضرت امام حسینؓ اور ان کا پورا خانوادہ شہید ہوگیا مگر شکست یزید اور اس کے لشکر کا مقدر بنی، اس لیے کہ حضرت امام حسینؓ حق پر تھے۔ جلال الدین خوارزم شاہ نے کئی سال تک تاتاری لشکر کی مزاحمت کی مگر وہ اس سے زیادہ دیر تک تاتاری لشکر کا مقابلہ نہ کرسکا، لیکن جلال الدین کامیاب ہوگیا اور ہماری تاریخ میں مزاحمت کی ایک علامت بن گیا، اس لیے کہ وہ حق پر تھا اور باطل کی مزاحمت کررہا تھا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے مجاہدین بھی بظاہر ناکام ہوگئے مگر انہوں نے اپنے دین، اپنی آزادی، اپنے ناموس کے دفاع کا حق اپنی سطح اور قوت کے مطابق ادا کردیا، چنانچہ وہ اللہ کے سامنے سرخرو ہوگئے۔ سوویت یونین افغانستان میں گلبدین حکمت یار یا قاضی حسین احمد کی درخواست پر نہیں آیا تھا، وہ ایک باطل اور توسیع پسند طاقت تھا، اور افغانستان میں اُس کی آمد کے بعد دو ہی صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ افغانستان کے باشندے ایک لادین قوت کے آگے سرتسلیم خم کرکے اس کے باطل نظام اور اس نظام کے غلبے کو مان لیں یا اُس کی مزاحمت کریں۔ افغان باشندے سوویت یونین کی مزاحمت کا آغاز نہ کرتے تو سلیم صافی آج کہتے کہ مسلمانوں نے حق و باطل کے معرکے میں حق کا ساتھ نہ دیا۔ لیکن افغانستان کے لوگوں نے سوویت یونین کی مزاحمت کی اور اسے شکست دی تو سلیم صافی فرمارہے ہیں کہ مزاحمت کرنے والوں نے حماقت کی۔ افغان جہاد کی ایک تاریخی حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے خلاف جہاد امریکہ کی سرپرستی میں شروع نہیں ہوا تھا۔ افغانستان میں جہاد کی جڑیں مضبوط ہوئیں تو امریکہ چلتی ہوئی دکان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے آگیا۔ بلاشبہ سوویت یونین کے خلاف جہاد میں امریکہ کا اسلحہ استعمال ہوا، لیکن جنگیں اسلحہ سے نہ لڑی جاتی ہیں نہ جیتی جاتی ہیں۔ جنگیں جذبے، قربانیوں اور قربانیوں پر استقامت سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں، اور سوویت یونین کے خلاف مجاہدین نے یہ تینوں کام کرکے دکھائے۔ سلیم صافی نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کے حوالے سے ولی خان کی مثال خوب دی ہے۔ ولی خان کا خاندان وہ خاندان ہے کہ برصغیر کے مسلمان اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد کررہے تھے تو یہ خاندان اسلام دشمنوںکے ساتھ تھا۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد ہورہا تھا تو یہ خاندان لادین سوویت یونین کی گود میں بیٹھا ہوا تھا۔ افغانستان میں امریکہ کے خلاف معرکہ برپا ہوا تو یہ خاندان امریکہ کی کٹھ پتلی بن کر کھڑا ہوگیا۔ سلیم صافی نے یہ بھی خوب کہا کہ سوویت یونین کو فتح کرکے مجاہدین نے یاسرعرفات کو امریکہ اور فلسطینیوں کو اسرائیل کے آگے ڈال دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل بھی مجاہدین نے بنوایا تھا؟ کیا عربوں نے اسرائیل سے تین جنگیں بھی مجاہدین کی وجہ سے اور سوویت یونین کے خاتمے کے سبب سے ہار دیں؟ بلاشبہ افغانستان میں جہاد کی کامیابی کے ثمرات نہ سمیٹے جاسکے، لیکن اس سے سوویت یونین کی شکست کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں تک امریکہ کے خلاف مجاہدین کی کامیابی کا تعلق ہے تو یہ کامیابی انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس لیے کہ مجاہدین اور امریکہ کی کشمکش میں کہیں ایک اور ایک لاکھ کا مقابلہ تھا۔ کہیں ایک اور ایک کروڑ کی جنگ تھی۔ کہیں ایک اور ایک ارب کا معرکہ تھا۔ اس معرکے میں امریکہ کی شکست کی گواہی اب خود امریکہ اور یورپ سے آرہی ہے۔ امریکہ کے 55 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں ناکام ہوگیا ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی سے متعلق 16اداروں کا اصرار ہے کہ افغانستان 2017ء تک طالبان کے قبضے میں چلا جائے گا۔ امریکہ جن طالبان کو خون آشام کہتا تھا اُن سے مذاکرات کررہا ہے۔ مغرب کے مبصرین کی اکثریت کہہ رہی ہے کہ امریکہ افغانستان میں کوئی ہدف حاصل نہیں کرسکا۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی ناکامی اور کس چیز کا نام ہے؟ سلیم صافی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں چند سو ارب ڈالر خرچ کیے ہیں جو اُس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ سلیم صافی کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ افغانستان میں امریکہ نے ایک ہزار ارب ڈالر صرف کیے ہیں۔ بلاشبہ امریکہ کی معیشت بڑی ہے مگر وہ قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور امریکہ گزشتہ دو برسوں میں دو بار دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا ہے۔ چنانچہ افغانستان میں ایک ہزار ارب ڈالر کی بربادی مذاق نہیں ہے۔ امریکہ نے عراق اور افغانستان کی جنگوں پر چار ہزار ارب ڈالر پھونک ڈالے ہیں، اور اس گھر پھونک تماشے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکہ کی جنگ پسندی کو لگام ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے شام میں مداخلت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر امریکہ کو پسپا ہونا پڑا ہے۔ یہ امریکہ کی افغانستان اور عراق میں ناکامی کا ایک نفسیاتی، عسکری اور مالی اثر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ ایک بڑی قوت نہیں رہا، مگر افغانستان کی جنگ نے امریکہ کے ناقابلِ شکست ہونے کے تصور کو پاش پاش کردیا ہے اور امریکہ کو اب اس شکست کے تجربے اور اس کے نفسیاتی اثر کے ساتھ تاریخ کا سفر طے کرنا پڑے گا۔ امریکہ کو ویت نام میں شکست سے دوچار ہوئے پانچ دہائیاں ہوگئی ہیں مگر یہ شکست آج بھی امریکہ کا تعاقب کررہی ہے۔ یہی معاملہ افغانستان میں امریکہ کی شکست کا ہے۔ یہ شکست برسوں تک اس کا تعاقب کرے گی۔ ویت نام میں امریکہ کی شکست نے امریکہ کی عالمی طاقت کو نقصان نہیں پہنچایا تھا لیکن افغانستان میں شکست نے اس کی عالمی ساکھ کو کئی حوالوں سے نقصان پہنچایا ہے۔ افغانستان بڑی طاقتوں کا قبرستان ہے اور اس قبرستان میں اب امریکہ کی بھی ایک قبر ہے۔ افغانستان میں جارحیت کی کوکھ سے ایمان اور ٹیکنالوجی کی کشمکش نے سر ابھارا، اور ایمان کی طاقت نے ٹیکنالوجی کی طاقت کو شکست دے کر ساری دنیا کو بتادیا کہ ایمان سے بڑی طاقت کوئی نہیں۔ افغانستان کے خلاف جارحیت سے گوانتاناموبے ابھرا، اور گوانتاناموبے امریکہ کی اخلاقی ساکھ کا ایسا قبرستان ہے جو ہمیشہ اس کے تعاقب میں رہے گا۔ لیکن سلیم صافی اور ان جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ طاقت پرست ہیں اور زندگی کو ایسی فتح و شکست کے تناظر میں تولتے ہیں جو فوری طور پر آشکار ہوجائے۔ لیکن یورپی طاقتوں کی کمزوری کو ظاہر ہونے میں ڈیڑھ سو سال لگ گئے۔ سوویت یونین کی موت کی اطلاع عام ہونے میں 70 سال صرف ہوئے۔ امریکہ کی موت کی خبر آنے میں ابھی کچھ عرصہ لگے گا، لیکن یہ خبر جب بھی آئے گی افغانستان میں امریکہ کی شکست اس کا ایک حوالہ ہوگی، اس لیے کہ افغانستان میں ظاہری اسباب کے اعتبار سے چیونٹی نے ڈائناسور کو شکست دی ہے۔ ان حقائق کے تناظر میںد یکھا جائے تو سلیم صافی امریکیوں سے بڑے امریکی ہیں۔ اس لیے کہ امریکہ کے 55 فیصد سے زیادہ عوام افغانستان میں اپنے ملک کی ناکامی کو تسلیم کررہے ہیں اور امریکہ کے 16 بڑے خفیہ ادارے مشترکہ طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ تین برسوں میں افغانستان میں ایک بار پھر طالبان غالب آسکتے ہیں۔
سلیم صافی نے بڑی ’’مسرت‘‘ اور جوش و جذبے کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ امریکہ نے ایسی چال چلی ہے کہ مسلم دنیا میں مذہب پسند اور لبرل باہم دست و گریباں ہیں۔ مگر مسلم دنیا میں یہ کشمکش تو پچاس ساٹھ سال سے برپا ہے۔ امریکہ اس سلسلے میں صرف جلتی پر تیل ڈال سکتا ہے۔ لیکن یہ کشمکش ایک الگ چیز ہے اور افغانستان میں امریکہ کی شکست ایک الگ شے۔ بلاشبہ افغانستان میں روس کی شکست کے ثمرات امت نہ سمیٹ سکی، مگر اس جہاد نے امت میں جہاد کے جذبے کو زندہ کیا اور مسلمانوں کی قوتِ مزاحمت کو بیدار اور متحرک کیا۔ یہ کہنا دشوار ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی شکست کا فائدہ بھی امت کو ہوگا یا نہیں، لیکن امت کی اس بے حسی کا سبب یہ ہے کہ امت کے حکمران اور عوام منقسم ہیں۔ امت کے حکمران امریکہ، یورپ اور ۔۔۔ کے ایجنٹ ہیں جبکہ امت کے عوام کی اکثریت کے دل اپنے دین، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور استعمار کی مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ جس دن عوام کے حقیقی نمائندے اقتدار میں آئیں گے اُس دن امتِ مسلمہ اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کا ایک اہم مرحلہ طے کرلے گی۔ اس دن کے بعد امت کی ہر جدوجہد کے ثمرات امت تک منتقل ہوں گے۔ لیکن اس دن امت کو سلیم صافی جیسے لوگوں کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *