فکو العانی (تیسری قسط) یوسف صفت اسیرانِ بلا سخت تعذیب کا شکار

ظالموں نے بے قصوروں کو جیلوں میں سڑا ئے رکھنے کیلئے نئے نئے قانون کا سہارا لے رکھا ہے ۔ اور یہ ظالمین پوری دنیا کو یہ باور کرانے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہیں کہ ان تمام سے نہ صرف انہیں بلکہ پوری انسانیت کو خطرہ ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ انہیں پابند سلاسل کیا جائے ، ان پر پابندیاں لگائی جائیں ، جیلوں میں انہیں سخت ٹارچر کیا جائے ، اس لئے کہ یہ انسانیت کے دشمن ہیں ، یہ اسلامی حکومت کا قیام ، اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قرآن پاک کو دستور حیات مانتے ہیں ۔ یہ صرف اللہ کو ہی حاکم اعلیٰ ، حاکم مطلق، الٰہ، رب مانتے ہیں، ان کی سو چ بڑی خطرناک ہے، یہ کلمہ کی بنیاد پر مسلم امت کو جوڑنا چاہتے ہیں ، یہ امت کے اندر انتشار کے سخت مخالف ہیں ، یہ نہیں چاہتے کہ عورتیں بے پردہ بازاروں میں نکلیں، یہ عورتوں کی آزادی کے دشمن ہیں ، یہ ہماری پیاری تہذیب کے مخالف ہیں ، یہ نہیں چاہتے کہ زمین پر جوا، شراب ، ناچ اور گانا ہو، یہ اختلا ط مردوزن کے مخالف ہیں ،یہ باہمی رضا مندی سے ہونے والے زناکے بھی سخت مخالف ہیں ۔۔۔ الغرض یہ ہماری پیاری تہذیب اور ہمارے وضع کردہ دستور حیات کو ڈھانا چاہتے ہیں ، ایسے لوگوں کو پوری دنیا میں جہاں بھی ہوں ان پر سخت پابند ی عائد کی جائے ، ان کو سختی سے کچلا جائے، ان کو ایسی کال کوٹھریوں میں بند کیا جائے جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھے ۔ انہیں ایسی جگہوں پر قید رکھا جائے کہ اس کے تصور سے ہی وحشت ہو ۔ ان پر تعذیب کے ایسے پہاڑ توڑے جائیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوجائیں ، ان کو ایسے ایسے طریقوں سے عذاب دیا جائے کہ پھر اس کے بعد پوری دنیا میں کوئی دوسرا ایسی فکر نہ رکھے ۔
ان ظالموں نے کیسے کیسے عقوبت خانے کھول رکھے ہیں کہ ان کا تصور ہی مہیب ہے ، ملاحظہ فرمائیں روزنامہ انقلاب اردو کی ایک خبر ۔ ’’بحر ہند کے جزیرے میں امریکی خفیہ جیل کا انکشاف‘‘ لندن (ایجنسی) برطانیہ کے اخباردی گارڈین نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے بحر ہند کے جزیرے دی گو گارسیا میں ایک خوفنا ک خفیہ جیل خانہ بنا رکھا ہے ، اس اخبار کے مطابق اس دور افتادہ جزیرہ میں اس جیل میں قیدیوں کو جسمانی ایذائیں پہنچائی جاتی ہیں ، برطانیہ بھی امریکہ کے ساتھ اس جزیرے میں قیدیوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے میں شامل ہے ۔ اسی وجہ سے برطانیہ میں رائے عامہ اور سیاسی حلقوں نے دباؤ ڈال رکھا ہے کہ دیگو گار سیا جزیرے میں جاری سرگرمیوں کے بارے میں وضاحت پیش کرے ۔ امریکی سینیٹ نے دی گوگارسیاجزیرے کو خفیہ سرگرمیوں کے زمرے سے نکال دیا ہے اور کہا ہے کہ سی آئی اے نے اس جزیرے میں ہائی پروفائل افراد کو قیدی بنا کر رکھا ہو اہے ۔ امریکی سینٹ نے کہا ہے اس جزیرہ میں امریکہ کا فوجی اڈا برطانیہ کے تعاون سے قائم کیا گیا ہے ۔
واضح رہے کہ امریکہ کی بدنام زمانہ جاسوس تنظیم سی آئی اے نے دنیا کے تیس ملکوں میں تقریباً ایک سو خفیہ جیلیں بنا رکھی ہیں ، جہاں مختلف ملکوں سے لوگوں کو اغوا کرکے ان سے معلومات لینے کے لئے وحشیانہ طریقے سے جسمانی ایذائیں پہنچائی جاتی ہیں ۔ گیارہ ستمبرکے دہشت گردانہ واقعات کے بعد امریکہ کی ان بہیمانہ کاروائیوں میں تیزی آئی ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں میں سعودی عرب ، امریکہ اور قدس کی غاصب صہیونی حکومت ملوث ہیں ۔ ‘‘
’’(روزنامہ انقلاب ۱۵؍اپریل ۲۰۱۴ء؁) امریکہ نے جارحیت کا ثبوت دیتے ہوئے افغانستان پر حملہ کیا اور بے گناہ افغانیوں کو گرفتار کرکے جیلیں بھر دیں ، ایسی ہی ایک جیل گوانتاناموبے ہے ، اس جیل میں ان بے گناہ قیدیوں پر تعذیب کے حسب ذیل طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
Torture Techinqes used in Guantanamo
(۱) Sexual Assault/ Humilliation Techinques ابو غریب جیل بلگرام جیل گوانتاناموبے جیل اس طریقے کو ضرورہی اپنایا جاتا ہے، اس کے ذریعہ سے قیدی سب کچھ مان لینے کیلئے جلد تیار ہو جاتا تھا۔(اس کی تفصیلات ناقابل بیان ہیں )
(۲) Sleep Deprivation قیدی کو مسلسل جگا کے رکھنا ، نہ سونے دینا ، اس ذریعہ سے قیدی عاجزآکر گناہ ناکردہ کو قبول کرلیتا ہے ۔
(۳) Sensory Deprivation خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنے کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ آنکھ پر پٹی ، دونوں ہاتھ، دونوں پیر بالکل بندھے ہوئے ، کانوں کو بالکل بند رکھنا ، کہ قیدی نہ دیکھ سکے نہ سن سکے۔۔ اور ہر وقت شدید ٹارچر کا اندیشہ رہے ایسے ہی خوف کی نفسیات کا مسلسل شکار رکھنے کیلئے یہ طریقۂ تعذیب اختیار کیا جاتا ہے ۔
(۴) Solitary Confinement /Isolation بالکل اکیلا تن تنہا چھوڑ رکھنا جس سے مریض شدید نفسانی عوارض کا شکار ہوجاتا ہے ۔
(۵) Moke Execution قیدی کے ساتھ ایسا بے رحمانہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس سے اس کو لگے کہ اس کو گولی مار دی جائے گی یا اسے جان سے مار دیا جائے گا۔
(۶) Forced Medication زبردستی دواؤں کا استعمال
’’یو ایس ملیٹری‘‘ نے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے تعذیب کیلئے Larium کی زیادہ مقدار استعمال کی جس سے قیدیوں کے اندر شدید قسم کے نفسیاتی عوارض پیش آئے ، جیسے خودکشی کرنے کے رجحانات یا سوچ کا پیدا ہوجانا ۔
(۷) The use of Dogs to Scare Detainees قیدیوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے کتوں کا استعمال ۔
گوانتاناموبے میں قید ایک قیدی کے تاثرات کہ میں اب بھی خواب میں کتوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ ابھی جست لگاکر مجھے نوچنے اور بھبھوڑنے لگیں گے ۔۔
(۸) Temperature Extremes قیدیوں کی تعذیب کا یہ طریقہ کہ وہ قیدیوں کو ہر طرف سے بند سیل میں بند کر دیتے ہیں اور پھر اس روم کا ٹمپریچرناقابل برداشت حد تک بڑھا دیتے ہیں اور اس کے بعد اس روم کے ٹمپریچر کو نقطہ ٔ انجماد تک پہنچا دیتے ہیں ، شدید ٹھنڈک اور فوراً بعد شدید گرمی کی وجہ سے قیدیوں کو حد درجہ اذیت ہوتی ہے ۔
(۹) Sensory Bombardament (noises)
ٹارچر و تعذیب کا یہ انوکھا طریقہ جس میں قیدی کو مضبوطی کے ساتھ ایک کرسی سے باندھ دیا جاتا ہے اور اس کے کان کے پاس بہت تیز آواز سے میوزک بجائی جاتی ہے اور ایسا گھنٹوں گھنٹوں کیا جاتا ہے ، تعذیب کی یہ انوکھی شکل دماغ کو حد درجہ متاثر کرتی ہے اور جسم پر کسی بھی طرح کا کوئی بھی نشان نہیں پڑتا ۔
(۱۰) Watching Other Being Torchered اس میں ایک قیدی کو دوسرے کے سامنے بری طرح ٹارچر کیا جاتا ہے ، مار کھانے سے ایک قیدی کا جسم اور محض دیکھتے رہنے سے دوسرے قیدی کا دل زخمی ہوتا ہے ۔
(۱۱) Phsycological Technique
سونے نہ دینا ، مسلسل جگائے رکھنا، ٹمپریچر کم یا زیادہ کرنا، شور وغل یا تیز میوزک ایسا مسلسل کرنے کی وجہ سے ملزم قیدی بے خوابی کی شدید اذیت نہ جھیل پانے کہ وجہ سے گناہ ناکردہ کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہوجاتا ہے اور اس پورے عمل کے دوران Psychologist اورPsychiatrist
Sat behind double sided glass to watch detaineesڈبل شیشوں کے پیچھے بیٹھ کر یہ ماہرین تماشہ دیکھتے ہیں ، ان کا کام بس یہ ہوتا ہے کہ وہ بتائیں کہ قیدی کو زیادہ سے زیادہ عذاب کیسے دیا جائے ، قیدی کے تکلیف دہ اور نازک اعضاء کہا ں کہاں ہیں ، زیادہ سے زیادہ تکلیف کیسے پہنچائی جائے۔
إِذْ ہُمْ عَلَیْہَا قُعُودٌ وَہُمْ عَلَی مَا یَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُہُودٌ وَمَا نَقَمُوا مِنْہُمْ إِلَّا أَن یُؤْمِنُوا بِاللَّہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ الَّذِیْلَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْئ شَہِیْدٌ
سورۃ البروج
جب وہ اس گڑھے کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے ، اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے ، اسے دیکھ رہے تھے ، اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لائے تھے جو زبردست اور اپنے آپ میں محمود ہے ، جو سب آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے ، اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔
تشریح : بادشاہ اور اس کے مشیر و وزیر خندقوں کے آس پاس بیٹھے ہوئے نہایت سنگدلی سے مسلمانوں کے جلنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے ، بدبختوں کو ذرا رحم نہ آتا تھا ۔ ان مسلمانوں کا قصور اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کفر کی ظلمت سے نکل کر ایک زبردست اور ہر طرح کی تعریف کے لائق خدا پر ایمان لائے ، جس کی بادشاہت سے زمین و آسمان کا کوئی گوشہ باہر نہیں ۔ اور جو ہر چیز کے ذرہ احوال سے باخبر ہے ۔ (مولانا شبیر عثمانی ) ؒ
ہمارے ملکی گوانتاناموبے ۔۔ اور اسکی تفصیلات
ان ظالموں نے ملک کے بیشتر حصوں میں تعذیب و ٹارچر کیلئے تعذیب خانے کھول رکھے ہیں جنہیں یہ ملکی گوانتاناموبے کہتے ہیں جہاں ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔ ۔۔ انگریزی ہفت روزہ The week میں سید نزاکت کی ایک تحقیقی رپورٹ اس عنوان سے ’’They are our Gitmos‘‘ شائع ہوئی ہے ۔ اس میں انہوں نے ایک اعلیٰ پولیس آفیسر کی زبانی درج کیا ہے ۔
As one top police officer told The Week in the course of our investigation. These torcher chamber sprade across the country are our “Precious assets” They are our own little Guantanamo Bays or Gitmos. (The Week July 12, 2009)
منیشا سیٹھی بیان کرتی ہیں ان ٹارچر سیل کے حسب ذیل لوازمات ہیں ۔ (In the creation of torcher infra structre (Consisting) of gases, oils, chairs, screw drivers & electrical gadgets inside paded cell”
شبیر مسیح اللہ جسے مالیگاؤں بم بلاسٹ میں پھنسایا گیا وہ اپنی داستان الم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ATS کے اعلیٰ افسران ’’سوریہ پرکاش ‘‘تیل میری شرم گاہوں میں داخل کر دیتے تھے وہ اسی تیل کو زیادہ مقدار میں میری مقعدمیں داخل کردیتے تھے ، جس سے میر ے پورے بدن میں جیسے آگ لگ جاتی تھی ۔ مسیح اللہ کو جب آرتھر روڈ جیل میں منتقل کیا گیا اس وقت وہ خون کی الٹیا ں کر رہا تھا ، یہ سب کچھ شدید ٹارچر کا نتیجہ تھا ۔ آج جبکہ اسے رہا ہوئے کئی سال ہوگئے آج بھی اس کے سر میں درد کی شدید ٹیسیں اٹھتی ہیں جس کے لئے آج تک اسے مسلسل درد سر کی دوا کھانی پڑتی ہے ۔ (بحوالہ مضمون Wrongly convicted Muslim men survived tourchered)
ان عقوبت خانوں میں تعذیب کے سارے حربے اپنائے جاتے ہیں جرم ناکردہ کو قبول کروانے کیلئے انسانی حدو ں کو پار کر دیا جاتا ہے ، خود انہیں ظالمین کی زبانی سنیں ۔ ’’ ہم قیدیوں کے مقعد میں زبردستی ایسی دوائیں داخل کرتے ہیں جس سے قیدی انتہائی درجہ تڑپ اٹھتا ہے ، اکثر کیسیز میں ہم Pethadine انجیکشن استعمال کرتے ہیں یہ انجکشن متاثرہ فرد کو بالکل پاگل بنا دیتا ہے ۔(بحوالہ مضمون Wrongly convicted Muslim men survived torchered)
ہمارے ملک میں قیدیوں کو اذیت دینے کے مختلف طریقے رائج ہیں ، معروف صحافی افتخار گیلانی جو خود تہاڑ جیل میں سات ماہ تک قید رہے ، اپنی کتاب ’’میرے تہاڑ کے روز و شب ‘‘ میں انہوں نے لکھا ہے کہ تعذیب کے وہ مختلف طریقے جس کو اپنا کر قیدیوں کو ناکردہ گناہوں کو قبول کرنے کیلئے آمادہ کیا جاتا ہے وہ حسب ذیل ہیں ۔
(۱) ملزم کے ہاتھ پشت پر باندھ دیئے جاتے ہیں اور اسے گھٹنوں کے پیچھے کی طرف سے کوئی پائپ یا سلاخ ڈال دی جاتی ہے ، پھر اسی پائپ یا سلاخ کی مدد سے اسے زمین کی سطح سے اوپر اٹھایا جاتا ہے ، یہ بہت تکلیف دہ اذیت ہے ، کیونکہ سارے جسم کا بوجھ گھٹنوں پر ہوتا ہے ۔
(۲) ملزم کو الٹا لٹکا دیتے ہیں ،اور اس کے تلووں پر ضرب لگائی جاتی ہے ، خون جیسے ہی تیزی سے دوڑتے ہوئے سر میں پہنچتا ہے اس سے تیز درد معلوم ہوتا ہے ، تلووں پر مار پڑنے سے یا اسی حالت میں کسی اور قسم کی اذیت دینے سے تکلیف اور بڑھ جاتی ہے
(۳) ملزم کو زبردستی پیٹ کے بل لٹا دیتے ہیں اور اس کی ٹانگوں اور جسم پر بیلن جیسی گول چیز چلائی جاتی ہے جس کے آخری سرے پر ایک یا دو آدمی کھڑے ہو جاتے ہیں
(۴) مرچ کے پاؤڈر میں سنی ہوئی کوئی چھڑی مقعد میں گھسا دی جاتی ہے جس سے شدیدتکلیف ہوتی ہے ۔
(۵) لوہے کی ایک پتلی سی سلاخ مقعد میں ڈال دی جاتی ہے جس سے جلد اور پٹھے کٹ جاتے ہیں ۔
(۶) ملزم کے اعضائے رئیسہ میں بجلی کے جھٹکے دئیے جاتے ہیں جس کے مضر اثرات دیرپا ہوتے ہیں ۔
(۷) تفتیش کاروں اور ملزم کے اعزہ و اقارب کے سامنے اسے ننگا کرکے گھمایا جاتا ہے ۔
(۸) قید تنہائی میں رکھے گئے ملزم کو مسلسل جگائے رکھنے کیلئے دوا یا بہت تیز روشنیوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔
(۹) جبراً پانی پلانا پیشاب نہ کرنے دینا ایک نیا طریقہ ہے اس صورت میں ملزم کے عضو تناسل کو کسی دھاگے سے باندھ دیتے ہیں تاکہ پیشاب نہ نکلنے پائے ، اس کے طبی نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں ۔
(۱۰) ملزم کے سارے کپڑے اترواکر طاقت ور ائیر کنڈیشن کے استعمال سے انتہائی گرم یا انتہائی سرد درجہ حرارت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، یہ حد درجہ تکلیف دہ طریقہ ہے اور جسم پر کوئی نشان نہیں پڑتا ہے ۔
ممبئی ٹرین بلاسٹ کے ملزمین نے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی تفصیلات کو ایک رپورٹ کی شکل میں جج کے سامنے پیش کیا ، اسی رپورٹ کی فوٹو کاپی میرے مطالعے میں ہے ، رپورٹ کے سر ورق پر درج ہے ’’ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکوں کے ایک سال کے موقع پر 7/11 ایک خصوصی رپورٹ‘‘
اس رپورٹ میں اذیت اور ٹارچر کے وہ تمام طریقے اپنائے گئے ہیں جو اسرائیل کی سفاکیت کو شرما دینے والے ہیں ۔
(۱) ATSکے پاس ایک مشین رہتی ہے جس سے کرنٹ پیدا کرکے ملزمین کو کرنٹ کے جھٹکے دئیے جاتے ہیں ، کرنٹ کے جھٹکے اتنے شدید ہوتے ہیں کہ ناقابل بیان۔ اکثر یہ ظالم شرم گاہوں پر بجلی کے جھٹکے دیتے ہیں ۔
(۲) لکڑی کے ایک پٹرے پر ملزم کو لٹا دیا جاتا ہے اور رسیوں سے مضبوطی سے باندھ دیا جاتا ہے ۔ باندھنے کے بعد پیر کی طرف سے لکڑی کا پٹرہ اٹھا دیا جاتا ہے ، ملزم کا سر نیچے ہو جاتا ہے ، پھر اس کے منھ پر پانی ڈالا جاتا ہے ، کئی گھنٹوں تک یہی ٹارچر جاری رہتا ہے ، بسا اوقات ملزم کی موت ہو جاتی ہے ، اس تعذیب سے جب ملزم بے ہوش ہو جاتا ہے تب اسے پٹرے سے اتارا جاتا ہے ۔
(۳) ایک خاص قسم کا تیل جسے ’’سوریہ پرکاش تیل ‘‘کہا جاتا ہے ، ملزم کی ناک میں ٹپکا دیا جاتا ہے ، جس سے پورے چہرے میں کئی گھنٹوں تک جلن رہتی ہے ، کبھی کبھی اس تیل کو انجکشن کے ذریعہ عضو مخصوص میں ڈال دیا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے ملزم درد سے تڑپتا رہتا ہے ۔
(۴) کبھی کبھی گھر والوں کو پولس اسٹیشن لایا جاتا ہے اور ان کو ملزم کے سامنے ہی مارا پیٹا جاتا ہے ، یہ اذیت ملزم کے لئے حددرجہ ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔
ہمارے ملکی گوانتاناموبے کے ایک اسیر پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان پڑھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’وہ مجھے دہلی لودی روڈپولس اسٹیشن لائے ، انہوں نے میرے سارے کپڑے اتروادیے ، اور جانوروں کی طرح بے رحمی سے مجھے پیٹنا شرو ع کر دیا ۔اس بری طرح مارنے اور کچلنے کی وجہ سے میرے ہاتھوں او ر پیروںکی انگلیوں سے خون بہنے لگا اور فرش پر ٹپ ٹپ گرنے لگا ، تو ان ظالموں نے کہا کہ میں اپنی انڈر ویر سے فرش پر گرے ہوئے خون کو صاف کروں ، …انہوں نے مجھے بجلی کے جھٹکے دئیے …… انہوں نے دونوں ٹانگوں کو زبردستی پھیلا دیا … اس زوراور شدت کے ساتھ کہ میرے پیشاب اور پاخانے کے راستے سے خون آنے لگا ۔
( The Week July 12, 2009)
ایک دوسرے ساتھی نور الہدیٰ اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ …… وہ تمام مجھے ننگا کر دیتے تھے، میرے دونوں ہاتھ اور پاؤں کو باندھ کر مجھے الٹا لٹکا دیتے تھے، میرے پیر کے تلوے پر مارتے ، اسی کے ساتھ ساتھ وہ ڈنڈے پر کپڑا لپیٹ کر میرے سر پر ڈنڈے برساتے ، اور ایسا ظلم صرف وہ اس لئے ڈھاتے کہ وہ اپنے من چاہے بیان پر مجھ سے دستخط کرانا چاہتے تھے ، اور وہ مجھے دھمکیاں دیتے ہوئے کہتے کہ اگر ایسا کرنے سے انکار کیا تو وہ میری بہن کو اٹھا کر لائیں گے اور میرے سامنے ہی زنا کریں گے ، تعذیب کا یہ مرحلہ بڑا ہی اعصاب شکن ہوتا ۔
(تہلکہ ، ۳؍دسمبر ۲۰۱۱ء)
خالد مجاہد پر ڈھائے جانے والے مظالم کی الم ناک تفصیلات
خالد مجاہد جماعت اسلامی ہند کے ناظم علاقہ مولانا ظہیر عالم فلاحی کے بھتیجے ، جامعۃ الصالحات ، مڑیاہوں، ضلع جونپور میں استاذ تھے، جنہیں ۱۶؍دسمبر ۲۰۰۷ء؁ کو ان کے گھر کے پاس سے اغوا کیا گیا اور پولس کی جھوٹی کہانی کو قبول کرنے کیلئے جس طرح مظالم ڈھائے گئے ، دنیا کے بڑے بڑے سفاک بھی دانتوں تلے انگلی دبا لیں ۔خالد مجاہد نے اپنی المناک داستان جسٹس آر ڈی نمیش کے سامنے جن الفاظ میں بیان کی وہ حرف بحرف نمیش کمیشن کی رپورٹ میں درج ہے ۔
’’ننگا کر کے مارا پیٹا جاتا تھا، داڑھی کے بال نوچے جاتے، دیوار کے سہارے بٹھا کر ٹانگ کو چوڑا کیا جاتا ایک پیر پر ایک پولس والا کھڑا ہوتا دوسرے پر دوسرا پولس والا کھڑا ہوکر ہمارے منھ میں پیشاب کر تا ۔۔ اور پاخانے کے مقام پر پٹرول ڈالتا، ہمارے عضوِ مخصوص کے راستے پر دھاگا باندھ کر پتھر لٹکایا جاتا تھا اور عضو مخصوص کو سگریٹ سے داغا جاتا ، سور کے گوشت کا کباب منھ میں ٹھونسا گیا، برف کی سل پر لٹا کر ناک و منھ سے پانی پلایا گیا ، کرنٹ کے جھٹکے لگائے گئے ، ہماری کمر سے رسی باند ھ کر اوپر چھت میں رسی پھنسا کر کھینچا جاتا تھا ، اور نیچے پانی بھرے ٹب میں ڈبکی لگوائی جاتی تھی، اور یہ سب کام باری باری چار چار گھنٹہ کے وقفے سے کیا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ کچہری بم بلاسٹ اسی نے کیا ہے ۔ اور جب میں یہ کہتا کہ جو کام میں نے نہیں کیا ہے اس کی ذمہ داری کیسے لے لوں، تو اس پر یہ ظالم کہتے کہ ذمہ داری لے لو ورنہ تمہاری ماں اور بیوی کو اٹھا لائیں گے اور تمہارے سامنے ………… ۔
(جسٹس آر ڈی نمیش، نمیش کمیشن رپورٹ ۵۲(
حکیم طارق قاسمی کو ۱۲؍دسمبر ۲۰۰۷ء؁ بروز بدھ رانی کی سرائے اعظم گڑھ راستے سے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ اور دوران تفتیش جھوٹی اور گڑھی ہوئی کہانی کو قبول کرلینے کیلئے جس بہیمیت کا سلوک کیا گیا اسکی تفصیلات خود طارق قاسمی کی زبانی سنیں ۔
’’ایک گروپ چار چار گھنٹے تک ٹارچر کرتا تھا ، اس کے بعد دوسرا گروپ آتا وہ دوسرے گروپ کو گالیاں دیتا ، ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتا ، ہمیں چائے ناشتہ دیتا ، ہم سے وہ قبول کروانا چاہتا جو ہم نے کبھی کیا ہی نہیں ، ہمیں ٹارچر کرنے کیلئے ننگا کیا جاتا ، بجلی کے جھٹکے دئیے جاتے، ہمیں زبردستی پیشاب پلایا جاتا، زبردستی شراب پلائی جاتی، ہمارے منھ میں گندی چیزیں ٹھونس دی جاتیں ……دونوں ٹانگوں کو چیر کر بالوں کو نوچا جاتا … مقامِ خاص میں پٹرول ڈالا جاتا اور اس طرح کی سزائیں مسلسل ۲؍۱؍۲۰۰۸ء؁تک دی جاتی رہیں ۔
(جسٹس آر ڈی نمیش، نمیش کمیشن رپورٹ ص ۴۶)
حیدرآباد کی حقوق انسانی کی علمبردار تنظیم سول لبرٹیز مانیٹرنگ کمیٹی سے وابستہ کنیز فاطمہ حیدرآباد مکہ مسجد کے بلاسٹ کے ملزمین پر ظلم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں:
’’ ان ملزمین کو الٹا گھنٹوں لٹکایا جاتا، انہیں لاٹھی ڈنڈے ، ربڑ یا چمڑے کی بیلٹ سے نہایت بے دردی کے ساتھ پیٹا جاتا ، یا اوندھا لٹکاکر تلووں پر مارا جاتا، ان کے حساس مقامات پر سوئیاں چبھوئی جاتیں ، ملزمین کی عضو تناسل سے تار باندھ کر وزن لٹکا دیا جاتا ، ان کے کان کے پاس فائر کیا جاتا اور دھمکایا جاتا کہ اگلی گولی تمہارے سر میں اتار دی جائے گی، جب وہ درد سے کراہ کر اللہ اللہ پکارتے تو یہ کہتے ’’بھگوان کہو‘‘ اور جب وہ پیاس کی شدت سے پانی مانگتے تو انہیں پیشاب پلایا جاتا ۔ ‘‘
(Scape Goats P 294)
نیشنل کمیشن فار مائنارٹیز کی چار رکنی ٹیم نے حیدرآباد مکہ مسجد کے ملزمین سے تفصیلات لیں ۔ اس کمیشن نے تعذیب کا خلاصہ کرتے ہوئے ان الفاظ میں لکھا ۔ ’’ ان تمام کو ننگا کیا جاتا ، بڑی ہی بے دردی سے ماراجاتا، بجلی کے جھٹکے جسم کے مختلف حصوں پر دئیے جاتے، بطور خاص عضو تناسل پر ، ماں اور بہنوں کے حوالے سے بڑی ہی شرم ناک گالیاں دی جاتیں ۔ (Scape Goats P 279)
……ایودھیا حملے کے الزام میں نینی سینٹرل جیل میں قید سہارن پور ضلع کے تیترو گاؤں کے ڈاکٹر عرفان احمد نے صدر جمہوریہ کے نام خط لکھا ہے اس خط میں انہوں نے اپنے اوپر پولس کے ذریعہ ڈھائے جانے والے مظالم کی جو تفصیلات لکھی ہیں وہ ابو غریب اور گوانتاناموبے کے مظالم کو پھیکا کر دینے والی ہیں ۔ جس سے ایس ٹی ایف کا تعصب اور سفاکیت کا اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عرفان ابھی بھی ملزم ہیں لیکن ایک ملزم کو اول روز سے گرفتار کرنے کے بعد جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ پوری امت کے لئے لمحہ فکریہ ہی نہیں حد درجہ تکلیف دہ ہے ۔ ڈاکٹر عرفان کے طویل خط کی تلخیص ہم یہاں نقل کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر عرفان اپنے خط میں لکھتے ہیں ۔
’’کوئی تیاگی نام کا پولس والا تھا جس نے گرفتاری کے فوراً بعد ہی (لاک اپ میں لانے کے بعد) میرے منھ پر تھونکنا شروع کر دیا ، ننگا کر کے ۔۔۔۔۔ بال اکھاڑا گیا ، وہ مجھے الٹا لٹکا کر ناک میں پانی ڈالتے تھے ، موم بتی کو ترچھا کرکے پگھلا ہوا موم خفیہ مقام پر گراتے تھے ، میں چیختا تھا، تڑپتا تھا، وہ لوگ قہقہے لگاتے تھے۔ ۔۔ وہ میرے منھ پر پیشاب کرتے تھے اور اسے پینے کیلئے مجبور کرتے تھے اگر تھوک دوں تو وہ مجھے بری طرح پیٹتے تھے،۔۔۔۔ تیاگی کہتا تھا کہ دیکھ ایس ٹی ایف کے کمانڈو کیا کرتے ہیں، اور ابھی آگے دیکھتا جا۔۔۔ تیاگی لمبا ہاتھ ۔۔۔۔منھ پر چیچک کے داغ تھے ، باقی جو چار پانچ پہلوان ٹائپ کے لڑکے تھے وہ ورزش کرکے صبح ہنومان چالیسا اور درگا چالیسا پڑھتے تھے ، ان کے پاس رائیفلیں تھیں ۔۔۔ دن بھر ہزاروں با ر مجھے ماں، بہن کی گالیاں دی جاتی تھیں، میرے گنجے سر پر چپلوں سے پیٹا جاتا ۔۔۔۔ پچیس چپل گن کر مارتے پھر گنتی بھول جانے کا بہانا کرکے پھر مارتے ۔۔۔۔ سہارنپور سے بذریعہ جیپ فیض آباد کیلئے چلے، راستے میں دو راتیں تھانے پر گذاریں ، دونوں تھانوں میں رات میں مجھے برہنہ کرکے رکھا گیا، مقامی پولس والے میرے پاس صرف میرے اوپر تھوکنے کیلئے آتے تھے، کیا سپاہی ، کیا داروغہ کیا پولس افسران ۔۔۔۔۔ پھر مجھے فیض آباد عدالت میں پیش کیا گیا ، جہاں میڈیا والوں نے وکلاء کے ساتھ ملکر میری زبردست پٹائی کی ۔۔۔۔ فیض آباد جیل پہنچا وہاں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا ۔۔ چھوٹی سی کوٹھری۔۔۔ اندر ہی بیت الخلاء۔۔۔۔ ایک گھڑا پانی۔۔۔۔۔ بدبو سے دم گھٹتا تھا، سانس لینا محال، اسی کے درمیان کھانا۔۔۔۔ وکلاء نے کیس لڑنے سے صاف انکار کر دیا ۔۔ جو وکیل بھی میرے گھر والے بھیجتے تھے انہیں فیض آباد کے وکلاء جج کے سامنے ہی کورٹ روم کے اندر ہی دوڑا دوڑا کر پیٹتے تھے ۔
(روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو، ۵؍جولائی ۲۰۱۳ء؁ (
تعذیب کے دلفگار طریقے
سخت تعذیب و ٹارچر جس کا تعلق جسم کی کھال ، ہڈیوں اور گوشت سے ہوتا ہے ، چوٹ لگتی ہے، کھال ادھڑ جاتی ہے ۔۔۔ ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں ۔۔پھر آہستہ آہستہ وہ زخم مندمل ہو جاتے ہیں ، لیکن وہ تعذیب جس سے روح زخمی ہوتی ہے ، اعصاب مجروح ہوتے ہیں ۔۔۔ دل تڑپ جاتا ہے ۔۔۔ اس تعذیب کا جسم کے ظاہری حصہ سے تعلق نہیں ہوتا ۔۔۔یہ ظالم تعذیب کے نت نئے ہتھکنڈے اپناتے ہیں ، جسم کے ساتھ روح کو بھی زخمی کرتے ہیں۔
قید ۔۔ اسیری۔۔۔ اعزاء سے دوری۔۔۔ مجبوری ایسے میں اچانک سے احاطہ عدالت میں بیوی اور پیارے بچے نظر آجائیں تو کون ہوگا جو اپنے بچوں کو دیکھ کر تڑپ نہ اٹھے ، بچوں کو پیار سے گود میں اٹھا لینے اور ان کو بوسہ دینے کیلئے دل مچل نہ جائے ۔۔۔ اسیری کا درد۔۔ فرقت کا غم ۔۔ جیل کی کوفت۔۔ اچانک جب ایسے مواقع آجائیں اور یہ ظالم بے رحمی سے انہیں ننھے پھولوں کو ڈھکیل دیں ، سوچئے دل پر کیا گزرے گی ۔’’ مسیح اللہ مالیگاؤں بم بلاسٹ کے ملزم بیان کرتے ہیں کہ وہ دن میری زندگی کا انتہائی اذیت ناک اور سخت ترین دن تھا جب عدالت میں میرا تین سالہ بیٹا معاذ ارقم مچل کر ابو ابو کہتے ہوئے میری گود میں آگیا تو پولس والوں نے بے دردی سے میرے بیٹے کو پیچھے ڈھکیل دیا اور مجھے بے رحمی سے کھنچتے ہوئے دوسری طرف لے کر چلے گئے ، میں بت بنا ہوا گھسٹتا ہوا چلا جا رہا تھا ۔۔ بچہ ابو ابو کہہ کر رو رہا تھا ۔۔اور بیوی پر جیسے سکتہ تاری تھا ۔‘‘
(بحوالہ مضمون (Wrongly convicted Muslim men survived tourchered
ماہ رمضان کی آمد اس کا تصور ہی ہر مومن کیلئے بڑا خوش کن اور ایمان افروز ہوتا ہے ۔ رمضان میں ایک دوسرے کیلئے آسانی فراہم کرنا اجر و ثواب کمانے کا باعث ہوتا ہے ، رمضان میں نیکیاں کمانے کیلئے لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ افطار کی رونقیں ۔۔یہ سحور کی برکتیں ۔۔ ان کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے ۔۔ لیکن حالت قید میں رمضان اور ہر بہانے ظالمین کا ظلم اذیت کو بڑھا دیتا ہے ۔۔ روزے کے ایام میں ان ظالمین کی تواضع کی جھلکیاں ملاحظہ کریں۔ سید علی شاہ گیلانی جو کہ یوپی کی نینی جیل میں قید تھے ۔ جیل میں ان کی افطار و سحری کیسی ہوتی وہ خود بیان کرتے ہیں ۔
’’ روزوں کے ایام میں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، شام کو جو روٹیا ں ملتی تھیں وہی سحری کیلئے رکھ چھوڑتے تھے ، سحری تک وہ خشک ہو چکی ہوتی تھیں، چنانچہ کئی روز تک سحری کے وقت خشک روٹیاں پانی کے ساتھ کھانا پڑیں۔۔ گلاس میں گھڑے سے پانی لے لیا ۔۔ اور رات کی روکھی روٹیاں مشکل سے توڑ توڑ کر زبردستی چبانا پڑتیں ۔۔ اور یوں سحری کی ضرورت پوری کرنا پڑتی تھی ۔ ۔ سحری کے وقت چائے تو خواب بن کر رہ گئی ۔۔ پھر شام کو افطار کے بعد گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ۔۔ ایسے میں مجھ جیسے کمزور انسان کیلئے واقعی ایک آزمائش کا ماحول پیدا کر دیا ۔ایسے حالات میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیق ِ مدد اور استقامت کے بغیر روزے رکھنا کم ازکم میرے بس کی بات نہیں تھی ۔ ‘‘ وہ مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ روزوں کے موسم میں ہم دو توس رکھتے تھے ، دن بھر ان کو کسی کاغذ میں لپیٹ کر رکھ دیتے تھے، شام کے وقت میں چائے آتی تھی تو گلاس میں چائے لے کر ان دو ٹکڑوں کے ساتھ افطار تو ہم کر لیتے ۔۔ پھر شام کے کھانے کیلئے جو انتظار کرنا پڑتا تھا ۔۔ وہ بہت ہی تکلیف دہ ہوتا تھا ۔۔ کبھی نو بجے ، کبھی دس بجے کھانا آتا تھا ، اس طرح روزوں کے وقت میں یہ طویل انتظار ہمیں نڈھال کر دیتا تھا اور نمازیں ادا کرنے کے بعد میں قریب قریب نیم بیہوشی کی حالت میں پڑا رہتا تھا ۔۔ جب تک ’’لالہ‘ ‘ اپنی روایت کے مطابق کھانا لے کر آجاتا تھا ۔۔ بار بار اسکو کہا جاتا تھا کہ ان روزوں کے مقدس ایام میں وقت پر کھانا لایا کریں ۔ ‘‘ ( رودادِ قفس ج اول ص۲۱۴
تعذیب روزے کی حالت میں
نورالہدیٰ کا بیان ۔۔۔ ناسک پولس کسٹڈی میں رہتے ہوئے مجھکو رات میں مالے گاؤں سے ممبئی اے ٹی ایس کالا چوکی میں لایا جاتا تھا اور مجھے مار مار کر بیان دینے کیلئے مجبور کیا جاتا تھا، رمضان میں روزے کی حالت میں مجھے سحری میں بھی کچھ کھانے کو نہیں دیا گیا اور ایسی حالت میں مجھ کو اتنا مارا گیا کہ میں بیہوش ہو گیا۔۔ میرے دونوں ہاتھوں اور پیروں کو باندھ دیا جاتا۔۔ ظالم میرے سینے پر بیٹھ جاتے ۔۔ آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی۔۔ لاٹھی اور پٹے سے پاؤں کے تلؤں پر اور جسم کے دیگر حصے پر اتنا ماراجاتا تھا کہ میں بے ہوش ہو جاتا تھا ۔ ‘‘( بھارت میں بھگوا دہشت گردی ، ص ۳۶۵
عید اور اسیری
عید اور وہ بھی حالت قید میں تصور کریں دل پر کیا گزرتی ہوگی ۔۔ خیالات کا ہجوم۔۔ یادوں کی بارات۔۔ اشکوں کی برسات۔۔ حالت قید میں عید کی سوغات ہے۔۔ دل مسوس کر رہ جاتا ہے ۔ کاش آج ہم بھی اپنے گھر بچوں کے درمیان ہوتے ۔۔ صبح عید بچوں کی شوخیاں ۔۔ عید کی مسرتیں ۔۔ نئے لباس۔۔ دوگانہ کی تیاری۔۔ تکبیر وتہلیل کے ساتھ عید گاہ جانا۔۔ مصافحہ و معانقہ ۔۔ عید کی مبارکباد۔۔ دعوت و مدارات کی دھوم۔۔ خوش و خرم ، شاداں و فرحاں چہرے ۔۔ لبوں پر عید مبارک کے کلمات ۔۔ کہاں اسیری۔ مجبوری، تمام طرح کی خوشیوں پر قدغن۔۔ نہ نماز دوگانہ اور نہ باہم گلے ملنے کی اجازت ۔۔ ہر چہرے پر یاس کی پرچھائیاں ۔۔ مایوسیوں کا عکس۔۔ ہر شخص ضبط و یاس کی تصویر بنا ہوا۔ ایسے میں اگر کسی کو عید کی مبارکباد دیں تو زبان و ہونٹ سے پہلے آنکھیں بول پڑتی ہیں ۔ نماز عید ادا کرنے سے محرومی باہم رفقاء سے ملاقات پر پابندی یہ غم کیا کم ہے ۔۔مزید تعذیب ۔۔ ایک دلفگار عمل ہے ۔
نور الہدیٰ عین عید کے دن اپنے اوپر توڑے جانے والے مظالم کی تفصیلات بیان کرتے ہیں ۔ ’’ عید کا دن تھا اور اے ٹی ایس والے مجھ کو دس سے بارہ بجے تک مارتے رہے اور کہتے رہے کہ آج تیری عید کا تہوار ہے ہم لوگ بھی خوشیاں منا رہے ہیں ، یہ کہہ کر وہ شیطانوں کی طرح ہنستے تھے ، اس طرح انہوں نے مجھ پر مظالم کے پہاڑ توڑے ۔‘‘ ( گوڈسے کی اولاد ، ص ۳۶۴
عین عید کے دن اے ٹی ایس افسران آئے اور کہا کہ آج عید کا دن ہے ، خوشی کا دن ہے ، ہم بھی خوشیاں منائیں گے ، آج ہم نور الہدیٰ کے ساتھ خوشیاں منائیں گے ، ان ظالموں نے میرے ہاتھوں ، پیروں کو بے دردی سے باندھ دیا ، اور میری شرم گاہ کو ٹھوکریں مارنے لگے ، میری چیخیں بلند ہو جاتی تھیں ۔ ‘‘
(بحوالہ مضمون (Wrongly convicted Muslim men survived tourchered)
ایک انوکھا تحفہ
مالیگاؤں بلاسٹ میں جھوٹے پھنسائے گئے تمام اسیروں نے بیک زبان ہو کر بتا یا ،ماہ رمضان بڑی دقتوں میں گزرا سخت اذیت اور مشقت میں ، وہ زبردستی روزہ تڑوانے اور سختی سے کھلانے کی دھمکیاں دیتے ، اسی دھمکیوں میں رمضان گزرا اور جیل میں عید ۔اوپر سے ٹارچر کی اذیت عین عید کے دن آفیسروں نے ہمیں بری طرح مارا، روندا کچلا، اور یہ کہتے تھے کہ ہم تم لوگوں کو عید کی مبارک باد دے رہے ہیں ۔ وہ ہمیں عین عید کے دن مارتے پیٹتے اور کہتے تھے یہ لو یہ تحفۂ عید ہے ۔ ‘‘
(Saying it was an Eid Gift) تہلکہ ۳؍دسمبر ۲۰۱۱ء؁
اعظم گڑھ کا سرور نامی نوجوان جو کہ جے پور جیل میں قید ہے عید بعد جب سرور کے چچا محمد عاصم چاند پٹی اعظم گڑھ بھتیجے سے ملنے جے پور جیل پہنچے انہیں سرور نے بتایا کہ جب پورا عالم اسلام عید کی خوشیوں میں غرق تھا ، ہم تمام جے پور جیل ہائی سیکورٹی کے قیدیوں کو اس دن انتہائی بے رحمی سے مارا گیا ، مقدس کتابیں پھاڑی اور پھینکی گئیں ۔ یہ تمام عید کے دن ہوا۔
گوانتاناموبے جیل میں قید کے ایام گذار لینے کے بعد ایک قیدی ان الفاظ میں اپنی داستان الم سناتا ہے کہ میں ایک پنجرے میں قید حد درجہ تعذیب کا شکار تھا کہ ریڈ کراس کا ایک نمائندہ آرمی اسکارٹ کے ساتھ میرے پنجڑے کے پاس آیا ، گوشت کی چھوٹی بوٹی اور باسی بریڈ میری طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا ’’ عید مبارک ‘‘ مجھے اپنی سماعت پر اعتبار نہیں آرہا تھا ، یہ میری اپنے اہل خانہ سے جدائی کی پہلی عیدتھی ،وہ میرے بغیر اور میں ان کے بغیر پہلی عید منا رہے تھے ، جب کہ گوانتاناموبے میں قید دیگر قیدیوں کی عید الفطر اور عید الاضحی ملاکر یہ سولہویں عید تھی ۔
اف کیسے گذرا یہ ماہ مبارک ، نہ غسل نہ وضو ، نہ باجماعت نماز تراویح ، نہ نماز جمعہ نہ نماز عید ، نہ باآواز بلند تلاوت نہ اذان ، ہمیں دو بارکھانا دیا جاتا تھا ، سحری اور افطار میں ، لیکن افطار کا کھانا گھنٹوں تاخیر سے دیا جاتا تھا ، اور عید کے دن تو ہمیں صبح سے آدھی رات تک بھوکا رہنا پڑتا تھا۔ ‘‘
(The Best of times : A former prisoner remembers Ramadhan at Guantanamobe)
جیل میں عید کے پکوان
سید علی شاہ گیلانی رقم طراز ہیں ’’نینی جیل میں ایک ماہ کے روزے کے بعد کھانے کا پہلا دن عید کا دن ہے جب اپنی کوٹھری میں آیا تو دیکھا کہ ’لالہ‘ نے روٹیاں رکھی ہیں ، تھالی میں پھول گوبھی ڈال رکھی ہے، جو بغیر نمک کی بے لذت، بے مزہ ہیں دو ایک روٹیاں تر کر کے کھالیں اور باقی سبزیاں رکھی رہیں ، شام ۷ بجے جب حسب معمول باہر جانے کا وقت ملا تو تھا ل ساتھ اٹھا کر یہ سبزی باہر پھینک دی گئی۔ یوں ہمارے عید الفطر کی ’’خوشیاں‘‘، ’’مسرتیں‘‘، ’’ضیافتیں‘‘ تمام ہو گئیں۔کال کوٹھری میں ساکت و صامت بیٹھے ہوئے اپنے ساتھیوں کی صورت حال پر دل مسوس کر رہ گیا ،سب ساتھیوں نے کیا کھایا ہوگا ، سبزی تو بالکل کھانے کے لائق نہیں تھی۔
بھر نہ آئے جو کسی کی بے بسی پر اے حفیظؔ
اس کو کیسے آنکھ کہہ دیں ، اس کو کیسے دل کہیں
(روداد قفس جلد اول ، ص ۲۵۰
خون حیض نجس ہے ، یہ بیماری ہے ، اس خون کے کپڑے پر لگ جانے سے کپڑا ناپاک ہو جاتا ہے، ان ظالموں نے تعذیب و تذلیل کیلئے خود اس نجاست کو استعمال کیا ہے جو یقینا ًتعذیب کی دلفگار شکل ہے ۔ ابوغریب میں یوں تو قیدیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، الگ الگ انداز کی سزائیں دی گئیں ، بعض سزاؤں میں سخت جسمانی تکالیف اور شدید مصائب تھے ، وہیں دوسری سزائیں سخت تذلیل و تضحیک کی تھیں ، کہ جس کو برداشت کر پانا تقریباً ناممکن تھا ۔ ’’ایک قیدی نے بیان کیا کہ ایک خاتون تفتیش کار قیدیوں کو جنسی طور پر بار بار طنز و تضحیک کامعاملہ کرتی ، جس کی ایک مثال اس خاتون تفتیش کار نے اپنا خون حیض اس قیدی کے منھ پر لا کر مل دیا ۔ (The book inside the wire)
گوانتاناموبے کے ایک قیدی محمد القحطانی نے جسے 9/11کے الزام میں گوانتاناموبے میں قید رکھا گیا تھا ،ا س نے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ اسے مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ کتے کی طرح تیز تیز بھونکے ۔ اور اس کی داڑھی اور سر کے بال مونڈ دیے گئے تھے ، اور اسے بالکل ننگا کرکے رکھا جاتا تھا ، اس کے چہرے پر خون حیض مل دیاجاتا تھا ، زبردستی عورتوں کی BRAپہنائے رکھا جاتا تھا ، اور اسی حالت میں اسے ناچنے کیلئے مجبور کیا جاتا تھا ۔
(The Washington Post 8th May 2004)
تصور کریں کس قدر تذلیل اور دلوں کو زخمی کردینے والے یہ ہتھکنڈے ہیں جو اپنائے جا رہے ہیں ۔ ابو غریب جیل میں قید مصطفیٰ نامی قیدی اپنے اوپر مظالم کی داستان ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ۔’’ یو ایس فوجیوں کے ذریعہ اس کے دونوں ہاتھ ہتھکڑی سے ایک ساتھ باندھ کر ایک میز پر اوندھا لٹا کر میز کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا ، اس کے بعد اس کے مقعد میں زبردستی ایک ڈنڈا ڈال دیا جاتا تھا ، مجھے اس شدت کا درد ہوتا کہ میں چیخنے اور چلانے لگتا ۔
(By Stephen Lendman 12/02/2005)
قیدیوں کے ساتھ تعذیب و تذلیل کی یہ شرمناک اور اذیت ناک شکلیں جسکی چند مثالیں ہی نقل کی گئیں ہیں ، سوچئے، تصور کیجئے کس قدر تعذیب کے دلفگار عمل سے یوسف صفت اسیران ِ بلا کو گذارا جا رہا ہے ۔
فرمانِ الٰہی ہے ۔۔
إِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوبُوا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیقِ إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْکَبِیرُ إِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِید إِنَّہُ ہُوَ یُبْدِئُ وَیُعِید وَہُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ ذُو الْعَرْشِ الْمَجِیدُ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیدُ (سورۃ البروج)
ابتلا و آزمائش کی بھٹی میں تپنے والے اہل ایمان کیلئے سورۃ البروج میں سامان تسکین و راحت ہے ۔ مولانا مودودی ؒ سورۃ البروج کے موضوع اور مضمون بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’اس کا موضوع کفار کو اس ظلم وستم کے برے انجام سے خبردار کرنا ہے جو اہل ایمان پر توڑ رہے تھے ، اور اہل ایمان کو تسلی دینا ہے کہ اگر وہ ان مظالم کے مقابلے میں ثابت قدم رہتے ہیں تو ان کو اسکا بہترین اجر ملے گا، اور اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے بدلہ لے گا، اس سلسلے میں اصحاب الاخدود کا قصہ سنایا گیا ہے جنہوں نے ایمان لانے والوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڈھوں میں پھینک کر جلا دیا تھا ۔ اور اس قصے کے پیرائے میں چند باتیں مومنوں اور کافروں کو ذہن نشین کرائی گئی ہیں ، ایک یہ کہ جس طرح اصحاب الاخدود خدا کی لعنت اور اس کی مار کے مستحق ہوئے اسی طرح سردارانِ مکہ بھی اس کے مستحق بن رہے ہیں ، دوسرے یہ کہ جس طرح ایمان لانے والوں نے آگ کے گڈھوں میں گرکر جان دے دینا قبول کر لیا تھا ، اور ایمان سے پھرنا قبول نہیں کیا تھا اسی طرح اب بھی اہل ایمان کو چاہئے کہ ہر سخت سے سخت عذاب بھگت لیں مگر ایمان کی راہ سے نہ ہٹیں، تیسرے یہ کہ جس خدا کے ماننے پر کافر بگڑتے اور اہل ایمان اسرار کرتے ہیں وہ سب پر غالب ہے، زمین و آسمان کی سلطنت کا مالک ہے ، اپنی ذات میں آپ حمد کا مستحق ہے ، اور وہ دونوں گروہوں کے حال کو دیکھ رہا ہے ، پھر کفار کو خبردار کیا گیا ہے کہ خدا کی پکڑ بڑی زبردست ہے ، اگر تم اپنے جتھے کی طاقت کے زعم میں مبتلا ہو تو تم سے بڑے جتھے فرعون اور ثمود کے پاس تھے ، ان کے لشکروں کا جو انجام ہوا ہے ،ا س سے سبق حاصل کرو، خد اکی قدرت تم پر اس طرح محیط ہے جس کے گھیرے سے تم نکل نہیں سکتے ، اور قرآن جس کی تکذیب پر تم تلے ہوئے ہو ، اس کی ہر بات اٹل ہے وہ اس لوح محفوظ میں ثبت ہے جس کا لکھا کسی کے بدلنے سے نہیں بدل سکتا ۔
(تلخیص تفہیم القرآن سورۃ البروج)
’’بیشک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا ، پھر توبہ بھی نہ کی توان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے ۔ ( ۱۰)بیشک ایمان قبول کرنے والوں اور نیک کام کرنے والوں کیلئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔(۱۱) (یعنی یہاں کی تکلیفوں اور ایذاؤں سے نہ گھبرائیں ، بڑی اور آخری کامیابی انہیں کے لیے ہے ،جس کے مقابلہ میں یہاں کا عیش اور تکلیف سب ہیچ ہے ۔تفسیر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ) یقیناًتیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ۔(۱۲) وہی پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے ، وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔(۱۳) (پس مجرم اس دھوکہ میں نہ رہے کہ موت جب ہمارا نام و نشان مٹا دے گی پھر ہم کس طرح ہاتھ آئیں گے ۔ تفسیر شبیر احمد عثمانی ؒ) وہ بڑا بخشش کرنے والا اور بہت محبت کرنے والا ہے ۔ (۱۴) عرش کا مالک عظمت والا ہے ۔ (۱۵) جو چاہے اسے کر گزرنے والا ہے ۔ (۱۶) (سورۃ البروج )
(مضمو ن ابھی جاری ہے لیکن موضوع کی وسعت اور پرچے کی تنگ دامنی کے باعث مصنف نےاسے کتابی شکل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے یہ سلسلہ یہیں روک دیا جاتا ہے۔ شائقین اس کی کتابی شکل میں آنے کا انتظار کریں۔(

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *