صیہونی پہاڑی سنیما سے دیکھتے ہیں فلسطینیوں کی موت کا تماشا

مقبوضہ یروشلم (ایجنسی) صدیوں پہلے جفا و جبر کے عادی بادشاہ ہاتھیوں اور شیروں کے آگے غلاموں کو ڈال کر ان کے تڑپنے پھڑکنے کے وحشتناک مناظر دیکھ کر جس طرح خاموش ہوتے، قہقہے برساتے اور تالیاں پیٹتے تھے آج ان کی جگہ جدید تعلیم یافتہ اسرائیلی شہریوں نے لے لی ہے۔ اس لئے اسرائیل سے اڑ کر غزہ پر بمباری کرکے عورتوں اور بچوں سمیت بڑے بوڑھوں کو خون میں نہلانے والا شاید ہی کوئی جنگی طیارہ ہو گا جس کی پرواز اور غزہ پر بمباری کے موقع پر عالمی سطح پر لاڈلی قوم اسرائیلیوں نے تالیاں نہ پیٹی ہوں گی یا قہقہے نہ برسائے ہوں گے۔ ایک طرف غزہ میں فلسطینیوں کے گھروں پر بم مارے جا رہے ہوتے ہیں اور دوسری جانب سدیروت شہر کے اس عارضی پہاڑی سنیما گھر میں خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ غزہ کے نزدیک اس سرحدی قصبے کے یہودی اپنے اس وحشیانہ پن کے اظہار کے لئے اپنے گھروں سے صوفے اور کرسیاں سروں پر اٹھا کر لاتے ہیں، تاکہ پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھ کر فلسطینیوں کے لاشے گرنے اور تڑپنے کا نظارہ کر سکیں۔ یہ منظر کشی کسی فلسطینی یا عرب صحافی نے نہیں کی ہے بلکہ اس کا اعزاز ڈنمارک کے ایک صحافی کو ملا ہے کہ وہ اسرائیلیوں کے وحشیانہ پن کا حوالہ بن سکے اور دنیا کو دکھا سکے کہ اصل پولیو زدہ لوگ قابل رحم نہیں ہوتے بلکہ وہ اقوام اور ان کے پولیو زدہ ذہن قابل رحم ہوتے ہیں جو انسانیت کو اپنے لئے بوجھ سمجھنے لگتی ہیں۔ ڈنمارک کے اس مشرق وسطی کے لئے تعینات صحافی نے اس پہاڑی ’سنیما گھر‘ کی تصاویر پوری دنیا کے ساتھ شیئر کی ہیں۔ اس تصویر میں یہودی مردخواتین یکساں طور پر غزہ پر ہونے والی بمباری پر چہکتے ہیں اچھلتے ہیں اور ناچتے ہیں کہ ان کے سامنے فلسطینیوں کے لاشے گر رہے ہیں۔ اس قصبے کے لوگ ایک دوسرے کو اس انسانی ہلاکتوں کو براہِ راست دکھانے والے سنیما گھر تک چل کر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان تصاویر کو اسرائیلیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا ہے اور اس بارے میں ٹوئٹر پر اپنے تبصروں سے نوازا ہے۔ اس موضوع پر اب تک سات ہزار ٹویٹ ہو چکے ہیں۔ ٹوئٹر کے ایک صارف کا لکھنا ہے کہ حیران ہوں کہ ’اخلاقیات کا یہ عالم ہوگا کہ انسانی قتل اور ہلاکت عوام کے لئے کھیل تماشا بن جائے گی۔‘ ایک اور ٹوئٹر صارف کا کہنا ہے کہ ’یہ اور کچھ نہیں بس انسانیت سے عاری حرکت ہے، اس لئے اس کا ارتکاب کرنے والے اسرائیلیوں پر لعنت ہے۔‘ سوشل میڈیا کے ایک اور صارف نے لکھا ہے کہ تصاویر میں دیکھے جانے والے لوگ ہلاکتوں کے کلچر کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ (بشکریہ انقلاب)

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *