صحابہ کرامؓ کا قرآن سے تعلق نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت اُن کی۔ !!

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقائے ذی مرتبت کو، جنہیں ہم صحابہؓ کے مبارک نام سے یاد کرتے ہیں، بفضل خدا وندی یہ اعزاز حاصل تھا کہ اُن کی نظروں کے سامنے نہ صرف نزول قرآن کا منظر موجود تھا، بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں، قرآن شریف ایک چلتا پھرتا نمونہ بھی ان کے سامنے تھا۔ اگر ہم ’صحابہ کے قرآن سے تعلق‘ کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم قرآن سے تعلق کی بات ہی نہیں کررہے ہوتے ہیں، بلکہ ہم صاحب قرآن سے صحابہؓ کی گہری محبت و اطاعت کی بھی بات کر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ حضرت عائشہؓ کے بقول۔۔۔۔۔۔ ’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار صرف اور صرف قرآن کے ہی سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، گویا، وہ چلتا پھرتا قرآن تھے۔ ‘ چنانچہ یہی پیکر دلنواز تھا جو صحابہؓ کے سامنے قرآن کا ایک مکمل نمونہ بنا ہوا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قرآن ہی سنایا کرتے، اسی کی تعلیم دیتے، اسی تلاوت و تعلیم کے حوالے سے ایک حکیمانہ طرزِ بلاغ کا درس اور اسی حکمت کے حوالے سے اُن کا تزکیہ فرماتے رہے تھے۔ سورۂ آل عمران (۳)میں نہایت صاف الفاظ ہیں:’یقیناً اللہ نے احسان کا معاملہ فرمایا ایمان والوں پر (اور وہ اس طرح) کہ اُن میں اُن ہی کی نسل سے ایک رسول ؐ کو مبعوث کیا، (جن کی شان یہ ہے کہ) وہ اُن پر اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں، اور انہیں الکتاب سے حکمت تعلیم دے کر اُن کا تزکیہ کرتے ہیں۔۔۔۔‘ (۱۶۴)۔ ان حقائق سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن سے صحابہؓ کے تعلق کا کیا عالم تھا اور قرآن سے ہمارے تعلق اور صحابہؓ کے تعلق کے درمیان وہ جوہری فرق کیا تھا، جس کی بنا پر وہ انسانیت کا ایک ایسا معزز و محترم گروہ قرار پائے، جسے چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا، سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے۔ اور اب صحابہؓ جیسے نفوسِ قدسیہ کو قیامت تک دنیا کبھی نہ دیکھ پائے گی۔ پھر یہ تعلق یک طرفہ بھی نہیں تھا، بلکہ خود قرآن بھی ان کے اوصاف حمیدہ کا واضح الفاظ میں قدردان تھا اور قیامت تک رہے گا، سورۂ الفتح (۴۸)کی یہ آیت اس حقیقت پر شاہد ہے: ’محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔ اللہ کے رسول ہیں اور وہ (صحابہ) جو ان کی معیت میں (کھڑے) ہیں وہ اہلیانِ کفر پر شدید (طور پر سخت واقع ہوئے) ہیں (مگر) باہم ذِکر نرم خو ہیں، تم انہیں (ہمہ دم )محو رکوع و مصروف سجدہ پاؤ گے انہیں (ہرلمحہ) دنیوی فضل خدا وندی اور اکل حلال کے حصول میں مصروف عمل پاؤ گے اور وہ (ہر لحظہ) اپنی آخرت کے لئے رضائے الٰہی کے متلاشی نظر آئیں گے۔ اُن کی (عبادت گزاریوں کی)علامت اُن کے چہروں پر موجود اثراتِ سجود سے (صاف) عیاں ہوگی اور (اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وہ صفات ہیں )جن کی مثال تورات میں (بیان ہو چکی ہے) اور (ایسی ہی مثال) انجیل میں بھی (درج ہے)۔ (اور وہ مثال یہ ہے کہ) جیسے کوئی کھیتی ہو، (جہاں زیر زمین بیج بوئے گئے ہوں اور ہر ایک بیج )اپنی ایک سوئی سطح زمین پر نمودار کرے، پھر اسے قوت ملی، پھر یہ (سوئی جسامت میں ) بڑی ہونے لگی، پھر وہ اپنی جڑ (کے بل) پر کھڑی ہو گئی۔ جیسے (لہلہاتی فصل کا) یہ (خوبصورت منظر) کسان کو بھلا معلوم ہوتا ہے ٹھیک ویسے ہی کفار چیں بجیں ہوتے ہیں ان (صحابہؓ ) پر، ان اہل ایمان پر اور ان میں سے اُن پر جو صاحبین عملِ صالح ہیں، اُن سے اللہ کا’مغفرت اور اجرِ عظیم‘ کا وعدہ (طے) ہے۔‘ (۲۹) اس آیت میں صحابہؓ کے جو اوصاف گنائے گئے ہیں اور مثال کے ذریعہ جس طرح ان کی تشریح خود رب ذو الجلال نے کی ہے، اُس کی مزید وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ سورۂ آل عمران (۳)میں بھی اُن کی جانفشانیوں کا اعتراف خود رب تعالیٰ نے فرمایا: ’جن لوگوں نے باوجود زخم خوردگی کے اللہ اور رسول ؐ کے حکم پر لبیک کہا، ان (ہی زخم خوردہ لوگوں ) میں سے احسن (و نکوکار) اور صاحبین تقویٰ کے لیے اجرِ عظیم (مختص) ہے۔۔۔۔۔۔ایسے ایمان کے پہاڑ صحابہؓ کو جب لوگوں نے یہ اطلاع دی کہ تمہارے خلاف (دشمن)لوگوں نے (ایک فوجی لشکر )مجتمع کر لیا ہے، پس (مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ) ان سے خشیت اختیار کریں تو (اس مشورے سے)ان کا ایمان فزوں تر ہوا، اور (جواباً) انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہمارے لئے اللہ (کی ذات) کافی ہے اور کیا ہی اچھا کار ساز ہے (وہ)۔‘ (۱۷۳، ۱۷۲)۔ سورۂ الفتح (۴۸) میں اللہ نے حضورؐ کے نطق مبارک سے یہ خوشخبری دی کے صحابہؓ سے وہ راضی ہو گیاـ: ’Indeedاللہ راضی ہوا مومنین سے جب وہ آپ سے ایک شجر کے نیچے بیعت کر رہے تھے۔ اللہ تو پتہ تھا کہ کیا کچھ اُن کے دلوں کے جذبات تھے۔ تو اُس نے (ان کی تسلی کا سامان)’ سکینت‘ (کی صورت میں) نازل کیا اور انہیں بدلہ میں ایک فتح قریب عطا کردی۔‘ (۱۸)۔ سورۂ توبہ (۹) میں بھی انکی حضور ؐ سے وفاداریوں کا اعتراف موجود ہے:’Indeedاللہ نے نبیؐ پر، انصار پر اور مہاجرین پر توجہ فرمائی، وہ جنہوں نے ساعت عسرت میں بھی (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی) اتباع کی، اس (بحران) کے بعد کہ اُن کے ایک فریق (گروپ) کے قلوب پھر جانے کے قریب تھے، پھر (ایسے میں اللہ) ان کی جانب متوجہ ہوا، بے شک وہ رؤف و رحیم ہے۔‘(۱۱۷)۔۶؍سن نبوی میں پیش آنے والا حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ بھی سراسر قرآنی اعجاز تاثیر کا پس منظر رکھتا ہے۔ انہوں نے پہلے تو خانہ کعبہ میں نبی صلی اللہ علیہ سے سورۃ الحاقہ (۶۹) کی تلاوت سنی، جس کی آیتیں تھیں:’بے شک یہ (قرآن)، ضرور ایک فرشتۂ کریم (کے ذریعے لایا ہوا) قولِ (وحی) ہے۔۔۔۔ نیز (یہ کہ) یہ کسی شاعر (کے منہ سے نکلا ہوا کوئی شاعرانہ) قول بی نہیں، پھر تم میں سے بہت قلیل لوگ مانیں گے۔ اور یہ کوئی قولِ کاہن بھی نہیں، لیکن تم میں بہت کم لوگ نصیحت قبول کرتے ہو۔ (حقیقت یہ ہے کہ) یہ (قرآن) تو رب العٰلمین کی تنزیل ہے، اور گر ہمارے (نام) پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض دیگر اقوال (کی آمیزش کے ساتھ کچھ) بنالاتے (اور کہتے کہ یہ قرآن ہے)، تو ہم یقینا ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ضرور ہم اُن کے رگِ گردن قطع کر دیتے۔ اور تم میں سے کوئی بھی انہیں بچا نہیں پاتا، اور بیشک اس میں اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے نصیحت موجود ہے۔ اور بے شک ہمیں اچھی طرح پتہ ہے کہ تم جھٹلانے والے ہو۔ اور بے شک یہ کافروں کے لئے ضرور حسرت (کا معاملہ ہے)، اور یہ (قرآن) ضرور حق الیقین (کا درجہ رکھتا )ہے، پس تم (اپنی کم مائیگی کو تسلیم کرتے ہوئے)اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح بیان کر نے میں مصروف ہو جاؤ۔‘ (۵۲)پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی بہن اور بہنوئی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی خبر لینے کی غرض سے اُن کے گھر کا رُخ کیا، اور وہاں کافی مکالمات کے بعد ان کے سے سورہ طٰہٰ لی اور خود مطالعہ فرمایا۔ محض یہ دو واقعات ایک حق پرست کی زندگی میں۔۔۔۔۔وقتی طور پر نہیں تا حیات۔۔۔۔۔ انقلاب برپا کرنے کے لئے کافی ثابت ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کی وہ تاثیر اب ختم ہو گئی، جس نے حضرت عمرؓ جیسی شخصیت کو ہلاکر رکھ دیا تھا، درآں حال یہ کہ قبولیت دین حق ان کا آخری آپشن بن گیا تھا؟۔۔۔۔ ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ آج بھی ضمیروں کو جھنجھوڑ نے کی یہ تاثیر صرف قرآن شریف میں ہی باقی ہے۔ الغرض قرآن ہی ایک ایسی طاقت ہے، جس کی اولین پیش کش پر ہی ایک انسان اپنے تمام تر مشرکانہ عقائد سے کنارہ کش ہو سکتا ہے اور اُسے توہمات کی دنیا سے یکسر آزادی نصیب ہو سکتی ہے، اور وہ دائرہ ایمان میں چھلانگ لگا سکتا ہے، جس کا تذکرہ اللہ نے اپنی آخری کتاب کی سورۃ البینۃ (۹۸) کی اس آیت میں کیا ہے:’اہل کتاب کے نافرمان اور مشرکین (اپنی نافرمانی اور اپنے شرک سے اور وقت تک) باز نہیں آنے والے، جب تک کہ ان کے سامنے اللہ کی واضح آیتیں نہ آجائیں، ایک رسول (پیغام رساں ) جو اُن پر پاکیزہ صحیفے کی تلاوت کرے، جس میں پچھلی تمام کتابوں کا نچوڑ موجود ہے۔‘ صحابہؓ کے ایمان اور جاں نثاری کا راز صرف اور صرف یہی تھا کہ وہ قرآن شریف کے احکامات کو خالص طور پر اپنی ذات پر لاگو کرنے کا جذبۂ بے پناہ رکھتے تھے۔ جب وہ نطقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صدائے وحی سنتے تو سرتاپا گوش بر آواز ہو جاتے، پھر اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں فرماتے، انکا یہ جذبہ فدا کاری انہیں مضطرب کر دیتا کہ اللہ کے کلام کو قرآن سے بے خبر بندوں تک کسی قدر جلد اور کیسے پہنچا دیا جئے!! صحابہؓ کے فریضۂ بلاغ کو نبھانے کی داستان بھی بڑی ایمان افروز داستان ہے۔ جب صحابہؓ نے خطبہ عرفات میں پیغام حدیث ’ بلغوا عنی ولو آیۃ‘۔۔۔ ’پہنچا دو میری طرف سے،اگر ایک ہی آیت کیوں نہ سنی ہو۔‘ کو سنا تو انہیں ایک لمحہ بھی خاموش بیٹھنا گوارا نہیں ہوا۔ جس وقت’پیغام حکم بلاغ‘ نطقِ رسول ؐ سے نشر ہو رہا تھا، تو اسے سننے والے صحابہ کی تعداد سو پچاس یا ہزار دو ہزاد کی تعداد نہیں تھی، بلکہ بلامبالغہ ان کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ اللہ کے کلام کو ساری دنیا کے انسانوں تک پہنچانے کی یا ’بلاغ ‘ کے حکم رسولؐ کی پابجائی کی اپنی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لئے نہ جانے دنیا کے کن کن خطوں میں صحابہؓ کی ہزاروں کی تعداد سارے عالم کے مختلف مقامات کی جانب نکل گئی اور پھر پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔ بیس سال کے اندر اندر ہی صحابہؓ قرآن کو لے کر عظیم فراغنہ کے عظیم مصر تک پہنچے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *