انکاؤنٹرس اور عدالتیں

پیوپلز یونین فار سول لبرٹیز جس کا مخفف پی یو سی ایل ہے نے فروری ۱۹۹۹ میں ۱۹۹۵ سے ۱۹۹۷ کے درمیان پولس انکاؤنٹرس میں مارے گئے۱۳۵ لوگوں کے متعلق سپریم کورٹ میںایک پیٹیشن داخل کی تھی اب ۱۵ سال بعد جسٹس آر ایم لوڈھا کی عدالتی بنچ نے اس پر ایک اچھا فیصلہ سنایا ہے ۔اس فیصلے پر ہمارے بھائی بجا طور پر بغلیں بجا رہے ہیں۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں اس قسم کے فیصلے لفظاً اور معناًIn letters and spirit نافذ ہو نہیں پاتے۔ہمارے ایک بھائی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’ملک کے عوام اور ان کو حاصل شدہ دستوری حقوق کے تحفظ میںایک سنہری باب کا اضافہ کرنے میں(عدالت عالیہ)کامیاب ہوئی ‘‘بلا شک و شبہ ہماری عدالتیں بہت سارے اچھے فیصلے بھی سناتی ہیں ۔بڑی خوبصورت ہدایات بھی جاری کرتی ہیںکچھ suo motto actions بھی لئے جاتے ہیں مگر ان سب کے باوجودہماری عدالتوں کے ساتھ ایک بڑی خامی بھی ہے جس کا احساس قانونی عمل میں ملوث ہر شخص کو ہے وہ گنگناتا بھی ہے کہ justice delayed is justice denied مگر وہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں سب کچھ ممکن ہے سوائے اسلامی عدالتوں کی طرح جلد انصاف فراہم کر دینے کے ۔اب اسی فیصلے کو دیکھئے۔ پیٹیشن داخل کی گئی تھی ۱۹۹۵ سے ۱۹۹۷یعنی تین سالوں کے درمیان ہونے والے انکاؤنٹرس اور اسمیں ہونے والی ۱۳۵،اموات سے متعلق۔کیا ان ۱۳۵ ،انسانوں کی جانیں اس قابل نہیں تھیںکہ جج صاحبان محترم اس پر جلد سے جلد فیصلہ سناتے تاکہ ۱۹۹۹ سے لے کر ۲۰۱۴ کے درمیان پولس کے لئے تختہء مشق بننے والے بے گناہ اور معصوم انسانوں کی جانیں بچائی جا سکتیں۔محترم جج صاحبان کو تو چاہئے تھا کہ وہ سب کام چھوڑ کر اس پیٹیشن کی سنوائی کرتے کیونکہ یہ ایک دو اموات کا معاملہ نہیں تھا۔یہ عام مجرموں کے ہاتھوں قتل کا معاملہ نہیں تھا ۔عام مجرم سالوں میں ایک آدھ قتل کر دیتا ہے مگر یہ جن ’’خاص ‘‘مجرموں کا معاملہ تھاان کی تو عادت ہی قتل کرنا بن چکی ہے۔کبھی وہ اپنے مفادات کے لئے قتل کرتے ہیںتو کبھی اپنے سیاسی آقاؤں کی چشم ابروکے اشارے پر۔اور اس سے کون سی سیاسی پارٹی بچی ہوئی ہے ۔عدالتیں خود ہر سیاسی پارٹی کے لیڈروں کو مجرمانہ کارناموں کی بنیاد پر جیل میں ڈال چکی ہیں۔وطن عزیز کے ان حالات کے باوجودعدالتوں کا اتنے حساس معاملات میں۱۵ سال کا وقت لینا کم سے کم ہمارے لئے توکسی طرح بھی کسی بھی درجے میں قابل تعریف نہیں۔ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فیصلہ اب بھی نہ آتا تو کوئی کیا کرلیتا۔مگر ہمیں ججوں کے کارناموں سے زیادہ ان افراد خانہ کے جذبات کا احساس مارے ڈال رہا ہے جن کے جگر کے ٹکڑے ،جن کے سر کے تاج ان ۱۵ سالوں میںپولس کی درندگی یا پولس کے مفادات کی بھینٹ چڑھے ہیں۔کیا عدالتیں اپنی کوتاہی کی تلافی کی خاطران ۱۵ سالوں میں ہونے والے تمام انکاؤنٹرس کی انکوائری کرواکر ہونے والے نقصانات کی تلافی اپنی زیر نگرانی کروائے گی؟ہمیں یقین نہیں۔آئیے یہ بھی دیکھ لیں کہ سپریم کورٹ نے پولس والے جیالوں کو انکاؤنٹر کے تعلق سے کیا راہنما ہدایات دی ہیں۔
[۱]پولس کو کسی بھی مجرم کی آمدورفت یا سرگرمیوں کی خفیہ اطلاع ملے تو وہ کسی بھی عملی پیش قدمی سے پہلے تحریری یا الکٹرانک شکل میںکیس ڈائری یا جہاں بھی ممکن ہو ریکارڈ میں لائے ۔مکمل تفصیلات تحریر کرنا ضروری نہیں۔[۲] خفیہ اطلاع کی بنیاد پر اگر انکاؤنٹر واقع ہوتا ہے جسمیں پولس ہتھیار استعمال کرتی ہے اور کسی کی موت بھی واقع ہو تی ہے تو حادثے کی ایف آئی آر درج کی جائے گی نیز ایف آئی آر کی کاپی سی ار پی کی دفعہ ۱۵۷ کے تحت متعلقہ عدالت کو بھیجی جائے گی جس کے بعد دفعہ۱۵۸ کے تحت کاروائی آگے بڑھائی جائے گی [۳]انکاؤنٹر ؍حادثے کی جانچ سی آئی ڈی یا کسی دیگر تھانے کی پولس کے ذریعے کسی سینئر آفیسر کی رہنمائی میں ہوگی حادثے سے متعلق تمام ہی ثبوتوں کو احتیاط سے یکجا کیا جائے گا مثلاًمقتول و جائے حادثہ کی رنگین تصاویر ،خون بال اور فنگرپرنٹس وغیرہ کے نشانات ،گواہوں کے مکمل نام اور پتے وفون نمبروغیرہ کے ساتھ دفعہ ۱۶۱میں پولس کے سامنے دئے گئے عوامی اور پولس گواہوں کے بیانات،مکمل تفصیلات ۔پوسٹ مارٹم ضلع اسپتال میں ہوگا جو کم از کم دو ڈاکٹر جس میں ایک ضلع اسپتال کا ہیڈ؍انچارج ڈاکٹر ہونا چاہئے۔پوسٹ مارٹم کی ویڈیو گرافی کی جائے گی۔اس میں موت کی وجہ درج کرنی ہوگی۔[۴] کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ ۱۷۶ کے تحت ہر انکاؤنٹر کی جسمیں پولس کے ذریعے موت واقع ہوئی ہو مجسٹریٹ جانچ کی جائے گی جس کی رپورٹ متعلقہ جوڈیشیل مجسٹریٹ کو مذکورہ کوڈ(سی آر پی سی)کی دفعہ۱۹۰ کے تحت ارسال کی جائے گی ۔[۵]حادثے سے متعلق ایف آئی آر ،ڈائری اندراج ،پنچ نامے ،اسکیچ وغیرہ کو بغیر کسی تاخیر کے متعلقہ عدالت تک پہونچانا یقینی بنایا جائیگا۔ [۶]حادثے کی مکمل جانچ کے بعد سی آر پی سی کی دفعہ ۱۷۳ کے تحت مکمل رپورٹ متعلقہ با اختیار عدالت میں پیش کی جائے گی جس کے بعد مناسب مدت کے دوران ٹرائل مکمل کیا جائے گا[۷]ایسے تمام ہی انکاؤنٹرس کی رپورٹ،جن میں موت واقع ہوئی ہو تمام ڈی جی پی ہرچھ ماہ پر NHRC کو ارسال کریں گے جو جنوری و جولائی کی ۱۵ تاریخ تک ارسال کی جائیں گی۔جس میں ہر موت کی تفصیلات (فراہم شدہ فارمیٹ میں )نیز پوسٹ مارٹم وغیرہ کے کاغذات ساتھ بھیجے جائیں گے۔
[۸]اگر جانچ رپورٹ،مواد و ثبوتوں کی بنیاد پر یہ ثابت ہوگا کہ پولس کے ذریعے ہتھیار کا استعمال انڈین پینل کوڈ کی دفعات کے تحت کسی بھی جرم کے دائرے میں شمار ہوتا ہے تو متعلقہ پولس والوں کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے گی نیزاس دوران ان کو معطل کر دیا جائیگا۔[۹]پولس انکاؤنٹر میں مارے گئے شخص پر منحصر افراد کومعاوضہ فراہم کیا جائیگا[۱۰]متعلقہ پولس آفیسرس کو اپنے ہتھیار فورنسک و بیلسٹک جانچ کے لئے تفتیشی ٹیم کو پیش کرنے ہونگے جس کا نفاذ دستور ہند کے آرٹیکل ۲۰ کے تحت ہوگا۔ یہ وہ اہم نکات ہیںجو عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں انکاؤنٹر کرنے والوں کے لئے بیان کئے ہیںاور بھی بہت سارے نکات ہیں جنھیں ہم غیر اہم سمجھ کر نقل نہیں کر رہے ہیں۔عدالت عالیہ نے پولس والوں کو یہاں جو بھی ہدایات دی ہیںیہ سمجھ کر دی ہیں کہ وہ بہت شریف اور فرمانبر دار ہوتے ہیں۔کیا آئی پی سی میں پہلے ہی سے پولس والوں کے لئے ہدایات موجود نہیں ہیں؟اور کیا وہ ان ہدایات کی صد فی صد پابندی کر رہے ہیں؟قانون کہتا ہے کہ گرفتار کئے گئے شخص کو ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر کورٹ کے سامنے پیش کیا جا نا چاہئے۔کیا ایسا ہوتا ہے؟یہ تو اوپن سیکریٹ ہے کہ پولس تشدد کے ذریعے گرفتار شدگان سے اقبالیہ بیان حاصل کرتی ہے لاکھوں بار شکایت کے باوجود پولس کے کیس عدالتوں میں اوندھے منہ گرنے کے باوجودکیا اسے ختم کیا جا سکا ہے؟۹۰ فی صد انکاؤنٹرس نقلی ہی ہوتے ہیں۔ہمارے علم کے مطابق مجرم کو پہلے گرفتار کیا جاتا ہے مگر اس کی گرفتاری show نہیں کی جاتی ۔بڑے آفیسرس یہ طے کرتے ہیںکہ انکاؤنٹر ہونا ہے یا نہیں۔
مذکورہ ہدایات سے کچھ رکاوٹ تو پیدا ہوگی مگر انکاؤنٹرس مکمل بند ہوجائیںیہ اس طرح ممکن نہیں۔ہم نے ۳۰؍۳۵سال پہلے ایک مضمون پڑھا تھا کہ امریکہ میں ایک انڈسٹری ہوتی ہے loophole industry یہ انڈسٹری ہر نئے وجود میں آنے والے قانون میںکمزوریاں یا چور دروازے تلاش کرتی ہے ۔سوچئے اگر یہ حال امریکہ کا ہے تو ہمارا کیا ہوگا؟ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مطلوب سنجیدگی اور اپنے فرائض کو ایمانداری سے ادا کرنے والی قوت ارادی کا فقدان یہاں ہر ایک میں نظر آتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ جو جتنا بڑا ذمہ دار ہوگااسے اس کی غفلت کی جرم کی اتنی ہی بڑی سزا دی جائے گی۔مگر وطن عزیز میں یہ ہوتا ہے کہ جو جتنے بڑے عہدے پر ہے اسے اتنی بڑی Immunity حاصل ہے۔عدالت عالیہ کی رہنما ہدایات کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور انتظامیہ کے لئے ہمارے کچھ مشورے ہیں ۔ہم چاہیں گے کہ وہ ان پر بھی توجہ دے[۱]سب سے پہلے پولس سے جواب حاصل کیا جائے کہ انکاؤنٹر کیوں ضروری تھا؟[۲] اگر انکاؤنٹر جعلی ثابت ہو جائے تو متوفی کے اہل خانہ کو کم سے کم ۱۰ لاکھ معاوضہ ادا کیا جائیاور یہ ۱۰ لاکھ انکاؤنٹر میں شامل پولس والوں سے وصول کیا جائے اور بعد میں کیس چلا کر ان پولس والوں کو عام آدمی کے مقابلے دوہری سزا دی جائے۔ کیونکہ انھوں نے قانون کا محافظ ہونے کے باوجودقانون کو توڑا تھا۔آج ہر دوسری تیسری انڈین فلم میں پولس والوں کو قانون شکن دکھایا جاتا ہے ۔سوچئے ،ایسا کیوں ہوا؟ [۳] عدالت عالیہ کا باشندگان ملک پر سب سے بڑا احسان یہ ہوگا اگر وہ یئہ آرڈر جاری کرے کہ ہر کیس داخلے کی تاریخ سے ایک سال کے اندر اندرلازماً فیصل کر دیا جانا چاہئے ۔اگر یہ ممکن نہیں تو عدالت عالیہ کووجوہات بتا کر مدت بڑھوائی جائے۔ہمارے نزدیک صرف یہ ایک تبدیلی عوام کے ۵۰ فیصد عدالتی مسائل ختم کر سکتی ہے۔اگر اتنی جلدی فیصلے ہونے لگے توقانون کے مجرم محافظوں کے دلوں میں بھی ڈر پیدا ہوگا۔۱۰۔۱۰ اور ۲۰۔۲۰ سال بے گناہ لوگوں کے جیل میں ضائع ہونے سے بچیں گے جیلوں پر بوجھ کم ہوگا ۔بین الاقوامی سطح پر بھی ہمارے چہرے کی سیاہی میں کچھ کمی واقع ہوگی ۔چند سالوں پہلے ٹائمز آف انڈیا میں جیلوں اور قیدیوں پر ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کلکتہ جیل میں ایک قیدی ۳۱ سال سے بند ہے اور اس کا کیس ابھی تک شروع بھی نہیں ہوا ہے ۔ایسے ہزاروں کیس جیلوں میں ملیں گے عدالت عالیہ عوام کو صرف اتنا بتادے کہ اس صورتحال کا ذمے دار کون ہے؟ [۴] جس طرح آر آر ایس روزانہ شاکھائیں لگا کربرادران وطن کے ذہنوں کو مسموم کرتی ہے اسی طرح کوئی این جی اوروزانہ کلاس چلا کر پولس والوں کی ذہنی تربیت کرے ۔پولس والوں کے ذہنوں میںاپنے فرائض کے تئیںایشور اللہ اور گاڈ کا خوف پیدا کیا جانا چاہئے۔آج سے ۴۰؍۴۵ سال پہلے ممبئی پولس کا اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میںبین الاقوامی سطح پرنام تھا۔آج ایسا نہیں ہے ۔کیوں؟اسلئے کہ آج وہی پولس کرپٹ بھی ہو گئی ہے اور فرقہ پرست بھی۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *