بنی اسرائیل کے جرائم اورقرآن مجید کی گواہی

اسلاف کی تابناک تاریخ، انبیاء علیہم السلام کا تسلسل،انعامات الٰہیہ کا لامتناہی سلسلہ،استخلاف فی الارض کی نعمت ان تمام کے مقابلہ میں بنی اسرائیل کا رویہ قتل انبیائ،بام عروج کو پہنچی ہوئی ماضی کی تاریخ کی محض یاد، اللہ کی جناب میں بغاوت و سرکشی، تمکن فی الارض ملنے کے بعد زمین میں فتنہ و فساد،ہمت و حوصلہ کی زبردست کمی بلکہ بزدلی کی حد تک کمی،جہاد فی سبیل اللہ سے انکار،ان جرائم نے بنی اسرائیل کو ان بیماریوں کا خوگر بنا دیا جس کا تذکرہ قرآن مجید ہمارے سامنے تفصیل کے ساتھ رکھتا ہے۔کسی قوم کے علمائ،درویش،دانشوران اور سیاسی قائدین اس حالت کو پہنچ جائیں کہ ان کا مطمح نظر محض اور محض دنیا کی دولت،دنیا کی ذلیل زندگی رہ جائے اس بیچاری قوم کے عام لوگوں کی کیا حالت ہوگی ہم اندازہ لگا سکتے ہیں۔اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کے ان تمام جرائم کا تذکرہ کیا ہے جن کی وجہ سے وہ قابل لعنت قرار دیے گئے۔اور امت مسلمہ کو ان سے آگاہ بھی کردیا کہ اگر ان جرائم کا ارتکاب کروگے تو اسی انجام کو پہنچوگے۔
اللہ و رسل کی معصیت اور حدود سے تجاوز:
یہود کے جرائم میں جو جرم اولیت کا مقام رکھتا ہے وہ اللہ اور رسولوں کی جان بوجھ کر نافرمانی اور حدود اللہ کی پامالی ہے۔یہ ایسی عادت تھی جس نے انہیں ہر طرح کے جرم پر جری بنا دیا تھا۔یہود کے جرائم اور نافرمانیوں کی ایک طویل فہرست ہے جسے قرآن مجید ہمارے سامنے رکھتا ہے:
وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمْ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُونَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(بقرہ:۶۱)
’اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔یہ اس لیے ہوا کہ بے شک وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور قتل کرتے تھے نبیوں کو ناحق یہ سبب سے کہ انہوں نافرمانی کی اور وہ حد سے بڑھ جانے والے تھے۔‘
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ کُونُوا قِرَدَۃً خٰسِئِیْنَ۰(البقرہ:۶۵)
’اور یقینا تمہیں ان لوگوں کا علم ہے جنہوں نے تم میں سے ہفتے(کے دن)میں زیادتی کی تو ہم نے ان سے کہا: تم ذلیل بندر بن جائو۔‘
وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَا اٰتَیْنَا کُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا(البقرہ:۹۳)
’اور (یاد کرو)جب ہم نے تم سے پکا وعدہ لیا اور ہم نے تم پر طور پہا ڑ کو بلند کیا (اور کہا):ہم نے جو تم کو دیا ہے اسے قوت کے ساتھ پکڑو اور سنو!انہوں نے کہا: ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔‘
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اسْکُنُوْا ھٰذِہِ الْقَرْیَۃَ وَ کُلُوْا مِنْھَا……وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌوَادْخُلُوْا الْبَابَ سُجَّدًا……فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ قَوْلاً غَیْرَ الَّذِی قِیْلَ لَھُمْ(اعراف:۱۶۱ /۱۶۲)
جب بستی میں حطۃ کے ورد کے ساتھ داخلہ کا حکم دیا تواسے بدل کر حنطۃ کردیا۔
ذٰلِکَ بِأَنَّھُمْ شَآقُّوْا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ ج وَمَنْ یُّشَآقِّ اللّٰہَ فَأِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۰(الحشر:۴)
’یہ اس لیے کہ بے شک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی،اور جو کوئی اللہ کی مخالفت کرے تو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘
وَاِذْ قَالَ مُوسٰی لِقَوْمِہِ یٰاقَوْمِ لِمَا تُوْذُوْنَنِی وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۰(الصف:۵)
’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم!تم مجھے ایذا کیوں دیتے ہو؟حالانکہ تم جانتے ہو کہ بلا شبہ میںتمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں،پھر جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیے،اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘
دیندار طبقہ کے جرائم:
کسی بھی قوم کا دیندار طبقہ پوری قوم کے لیے ہدایت و رہنمائی کا سامان ہوتا ہے۔افراد قوم انہیں دیکھ کر اپنی دینی و مذہبی زندگیوں کو سنوارتے ہیں اور اس آئنہ میں اپنے نفوس کو برائیوں اور منکرات کی گندگیوں سے پاک و صاف کرتے ہیں۔لیکن اگر قوم کے یہی محترم اور مقدس لوگ بے دینی،بے غیرتی،اکل حرام،ظلم و تعدی،آیاتُ اللہ کو بیچنے والے،تحریف کتاب،بلکہ خود ہی گناہوں کے خوگر بن جائیں تو پھر قومی صورت حال کیا ہوسکتی ہے ہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔چنانچہ قرآن مجید یہودی علمائ،مشائخ اور سیاسی دانشوران کی زندگی کے اس پہلو کو بھی ہمارے سامنے رکھتا ہے:
اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ(توبہ:۳۱)
احبار’حَبر‘کی جمع ہے جس کا غالب استعمال یہودکے فقہا کے لیے ہوا ہے۔(تدبر قرآن)
’اَلْحَبْرُ‘عالم کو کہتے ہیں اس لیے کہ لوگوں کے دلوں پر اس کے علم کااثر باقی رہتا ہے۔اور افعال حسنہ میں لوگ اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ (مفرادت القرآن،ج۱،ص۲۳۱)اور احبار سے مراد علماء اور’ قرّائ‘ ہیں۔(تفسیر مظہری)
امام ابن ابی حاتم ؒ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت فضیل بن عیاض ؒ نے فرمایا کہ:’الاحبارسے مراد علماء ہیں اور الرھبانسے مراد عبادت گزار ہیں۔‘(تفسیر در منثور،ج۳،ص ۷۰۶)
یٰااَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّھْبَانِ لَیَأْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ(توبہ:۳۴)
اے ایمان والو!بے شک(یہود کے ) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کا مال ناحق ہی کھاتے ہیں اور وہ(لوگوں کو)اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔‘
ابو الشیخ نے ضحاک سے کہا ہے کہ: ’الحبارسے مراد علماء یہود ہیں اور الرھبان سے مراد عیسائیوں کے علماء ہیںاور ’لَیَأْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ باِلْبَاطِلِ‘کا مفہوم یہ ہے کہ تحریر باطل ہے۔وہ، وہ کچھ لکھتے ہیںجو اللہ تعالیٰ نے نہیں نازل کیا اور اس کے عوض لوگوں کا مال کھاتے اور اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِأَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً۰(البقرہ:۷۹)’پس ہلاکت ہو ان کے لیے جو لکھتے ہیں کتاب خود اپنے ہاتھوں سے پھر کہتے ہیں یہ نوشتہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ حاصل کرلیں اس کے عوض تھوڑے سے دام۔ ‘
(تفسیر درمنثور، ج۳،ص۷۰۸)
یہود کے علماء کو قِسِّسِیْنَ بھی کہا گیا ہے:ذٰلِکَ بِأَ نَّھُمْ قِسِّسِیْنَ وَ رُھْبَانًا آیت کا مقصود لوگوں کو برے علماء اور گمراہ صوفیوں اور عابدوں سے ہوشیار کرانا اور ڈراناہے۔ حضرت سفیان بن عینیہؒ فرماتے ہیں ہمارے علماء میں سے وہی بگڑتے ہیں، جن میں کچھ نہ کچھ شائبہ یہودیت کا ہوتا ہے اور ہم مسلمانوںمیں سے صوفیوں اور عابدوں میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں نصرانیت کا شائبہ ہوتا ہے۔(ابن کثیر، ج۱،ص۴۶۱)
احبارِ یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا رسوخ حاصل تھا۔ان کے تحفے،ہدیے،خراج،چراغی مقرر تھی جو بغیر مانگے انہیں پہنچ جاتی تھی۔رسول اللہﷺ کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انہیں اسلام قبول کرنے سے روکا۔علماء و مشائخ جو صحیح معنوں میں قومی اخلاق و عادات کے آئنہ دار ہوتے ہیں۔ان کی یہ حالت ہے کہ اکل حلال کی توفیق سے محروم ہیں۔ مشخیت و علم کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے، طرح طرح سے لوگوں کو ٹھگتے ہیں۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص پہلو سے بنی اسرائیل کی دینی خستہ حالی بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام الناس کے کردار کے بجائے علماء اور مشائخ کے کردار کو بے نقاب کیا گیا تاکہ یہ حقیقت سامنے آجائے کہ جن کے علماء اور مشائخ کا کردار اس درجہ فاسد ہوچکا ہے ان کے عوام کا کیا ذکر اور اب ان کی اصلاح و تربیت کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔قوم کی اصلاح تو علماء و مشائخ ہی کے ذریعہ ہو سکتی ہے جب وہی اس درجہ فساد کا شکار ہوگئے اور اس قدر مال کے حریص ہیں کہ ہر غلط طریقے سے مال جمع کرنا چاہتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے صاحب تدبر قرآن لکھتے ہیں:’یہود کے ہاں قضا و افتاء وغیرہ کے تمام مناصب ان کے علماء اور فقہا ہی کے ہاتھ میں تھے ………پھر اس پر مستزاد یہ کہ ان لوگوں نے زکوۃ و صدقات وغیرہ کی آمدنیوں کا مصرف اپنے آپ کو قرار دے لیا تھا اس وجہ سے ان کے لیے ناجائز ذرائع سے دولت سمیٹنے کے نہایت وسیع دروازے کھلے ہوئے تھے۔……ہیکل کی انتظامیہ اور اس کے کارپردازوں کا جو حال تھا اس کو دیکھ کر حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ:’ تم نے میرے باپ(رب)کے گھر کو چوروں کا بھٹ بنا دیا ہے، اوریہ بھی فرمایا کہ تم اوروں کو زِیرے اور سونف پربھی عشر کا حساب بتاتے ہو لیکن خود دوسرو ں کا مال ہڑپ جاتے ہو۔(تدبر قرآن،ج۳،ص۵۶۵)
شریعت الٰی سے انکار:
انسان عموماً اپنی انفرادی زندگی میںدین پر عمل پیرا بھی ہوتا ہے اور اس کا جزبہ بھی رکھتا ہے۔لیکن جب قانون کی بات آتی ہے کہ اجتماعی زندگی میں الٰہی قانون پر عمل کیا جائے تو اچھے اچھے دیندار یا تو پلہ چھاڑ لیتے ہیں یا پھر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ احکامِ شریعت جو خصوصاً قانونی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں وہ دین کا حصہ ہی نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو اقامت توحید پر اپنا سارا زور صرف کردیتے ہیں لیکن ان کی نگاہ میں غیر الٰہی قانون ماننا اور اس کی بقا کی کوشش کرنا کوئی بے عقیدگی کی بات نہیں ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ بنی اسرائیل کا بھی تھا۔قرآن نے یوں بیان کیا:
اَلَمْ تَرَ اِلٰی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِنَ الْکِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ وَ ھُمْ مُعْرِضُوْنَ۰(آل عمران:۲۳)
’کیا نہیں دیکھا آپ نے ان لوگوں کی طرف جنہیں دیا گیا کچھ حصہ کتاب کا (جب)بلائے جاتے ہیں کتاب الٰہی کی طرف تاکہ تصفیہ کردے ان کے باہمی جھگڑوں کا تو پیٹھ پھیر لیتا ہے ایک گروہ ان میں سے درآنحالیکہ وہ رو گردانی کرنے والے ہوتے ہیں۔‘
اَفَتُوْ مِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَائُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِالدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۰(البقرہ:۸۵)
’کیا تم کتاب اللہ کے بعض احکام کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کردیتے ہو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت عذاب میں ڈال دیے جائیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔‘
وَلْیَحْکُمْ اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ ط وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۰(المائدہ:۴۷)
’اور اہل انجیل کو چاہیے کہ اللہ نے اس میں جو کچھ نازل کیا اس کے مطابق فیصلہ کریں، اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی نافرمان ہیں۔‘
قُلْ یٰآ اَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوْا التَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ ط(المائدہ:۶۸)
’(اے نبیﷺ)کہہ دیجیے!اے اہل کتاب!تم ہرگز اصل دین پر کاربند نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور اپنے رب کی طرف سے نازل کی گئی(دوسری)کتابوں کے احکام پر ٹھیک ٹھیک عمل نہ کرنے لگو۔‘
قتل انبیائ:
وَ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآؤُوْا بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ بِأَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۰(البقرہ:۶۱)
’ذلت وہ خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔ یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔‘
یہود کی تاریخ کی یہ انتہائی المناک حقیقت ہے کہ ان ظالمو ں نے اپنے خیر خواہوں کو یا تو موت کے گھاٹ اتار دیا یا پھر انہیں پابند سلاسل کردیا۔اس ذیل میں کئی سارے انبیاء علیہ السلام کے نام آتے ہیں۔حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمارواآسا کو سخت تنبیہ کی مگر آسا نے اس تنبیہ کو قبول کرنے کے بجائے خدا کے پیغمبر کو جیل بھیج دیا۔حضرت الیاس ؑ نے جب بعل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور ازسر نو توحید کی دعوت کا صور پھونکنا شروع کیا توسامریہ کا اسرائیلی کا بادشا ہ آپ کی جان کا دشمن ہوگیا یہاں تک کہ آپ کو جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔اس موقع پر جو دعا آپ نے مانگی وہ یہ ہے:تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور میں اکیلا بچا ہوں، سو وہ میری جان کے درپے ہیں۔‘ایک اور نبی حضرت میکایاہ ہیں جنہیں حق گوئی کے صلہ میں جیل بھجوایا گیا۔ یہودمیں جب بت پرستی پھیلی اور اس وبا نے عمومی شکل اختیار کرلی توحضرت زکریا ؑ نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔آپ ؑ کی دعوت و اصلاح کے صلہ میں آپؑ کو عین ہیکل سلیمانی کے سامنے آپ کو سنگسار کردیا گیا۔یہود کی اس بگڑی صورت حال کی اصلاح کے لیے جب حضرت یرمیاہ اپنی قوم کو متنبہ کرنے اٹھے تو شدید تعذیب کا شکار ہوئے۔اس طرح سے کئی اور نبیوں کے نام آتے ہیں جنہیں یہود نے یا تو قتل کردیا یا پھر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا۔(یہودیت و نصرانیت) قرآن مجید نے ان کی زبانی ان کا اقبالیہ جرم بیان کیا ہے:
وَ قَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ۰(نسائ:۱۵۷)
تجارت آیات،کتمان حق اور تحریف کلام:
کلام اللہ میں تحریف یہ یہود کی ایک عمومی صفت قرآن مجید نے بیان کرتا ہے۔علماء یہود نے تحریف کی مختلف شکلیں اختیار کی تھیں۔
۱)ایک بات کی دیدہ و دانستہ ایسی تاویل کردی جائے جو قائل کے منشا کے بالکل خلاف ہو۔
۲)کسی لفظ کے طرز ادا اور قرأت میں ایسی تبدیلی کردی جائے کہ جو لفظ کو کچھ سے کچھ بنا دے۔مثلا مروہ کو بگاڑ کر مورہ یا مریا کردیا گیا۔
۳)کسی عبارت یا کلام میں ایسی کمی بیشی کردی جائے جس سے ا س کا اصل مدعا بالکل خبط ہوکر رہ جائے مثلا حضرت ابراہیم ؑ کے ہجرت کے واقعہ میں یہود نے اس طرح رد و بدل کردیا کہ خانہ کعبہ سے ان کا کوئی تعلق ثابت نہ ہوسکے۔
۴)کسی ذو لفظ کا وہ ترجمہ کردیا جائے جو سیاق و سباق کے بالکل خلاف ہو۔مثلا عبرانی کے ابن کا ترجمہ بیٹا کردیا گیا درآنحالیکہ اس کے معنی بندہ اور غلام کے بھی آتے ہیں۔
۵)ایک بات کا مفہوم بالکل واضح ہولیکن اس کے متعلق ایسے سوال اٹھادیے جائیں جو اس واضح بات کو مبہم بنادینے والے یا اس کو بالکل مختلف سمت ڈال دینے والے ہوں۔اہل کتاب تحریف کی ان تمام قسموں کے مرتکب ہوئے اور قرآن نے ان کو ان سب کا مجرم گردانا۔(تدبر قرآن، ج۱،ص۲۵۲)
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِأَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُولُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہِ ثَمَنًا قَلِیْلاً۰(بقرہ:۷۹)
’ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت لے لیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَشْتَرُوْنَ بِہِ ثَمَنًا قَلِیْلاً اُوْلٰئِکَ مَا یَأْکُلُوْنَ فِی بُطُوْنِھِمْ اِلاَّ النَّارَ۰(البقرہ:۱۷۴)
جو لوگ (اللہ کی)کتاب سے ان (آیتوں اور ہدایتوں) کو جو اس نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے ہیں اور ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (دنیوی منفعت) حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں۔‘
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّومِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلاَمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ(بقرہ:۷۵)
اس آیت میںاللہ رب العزت اہل ایمان کو یہود کے ایمان سے مایوس کر رہا ہے کہ یہ اسلام قبول نہیں کریں گے۔بنی اسرائیل کے کتمان حق اور تحریف کلام کی ایک عجیب مثال علامہ ابن کثیر ؒنے تفسیر ابن کثیر میں دی ہے:’حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ سننے کو فرمایا ہے۔اس سے مراد حضرت موسی ؑکے صحابیوں کی وہ جماعت ہے جنہوں نے آپؑ سے اللہ کا کلام اپنے کانو ںسے سننے کی درخواست کی تھی اور جب وہ پاک و صاف ہو کر روزہ رکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ طور پہاڑ پر پہنچ کر سجدے میں گر پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انہوں اپنا کلام سنایا۔جب یہ واپس آئے اور نبی اللہ حضرت موسی نے اللہ کا یہ کلام بنی اسرائیل میں بیان کرنا شروع کیا تو ان لوگوں نے اس کی تحریف اور تبدیلی شروع کردی۔(تفسیر ابن کثیر،ج۱،ص۱۵۸)او ر بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دیا کہ کلام کے آخر میں ہم نے یہ بھی سنا کہ کر سکو تو ان احکام کو کر لینا ورنہ ان کے ترک کرنے کا بھی تم کو اختیار ہے۔
مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہِ وَیَقُولُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَیًّا بِأَلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ (نسائ:۴۶)
’یہودیوں میں سے کچھ لوگ الفاظ کو ان کے موقع محل سے پھیر دیتے ہیں اور پھر اپنی زبانوں کو توڑموڑ کر سچے دین کے خلاف طعنہ زنی کرتے ہوئے (نبیﷺسے) کہتے ہیں:’ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی ‘اور کہتے ہیں:’سنو!اگرچہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں کچھ سنایا جائے۔ ‘اور آپﷺ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: (راعنا)یعنی ’اے ہمارے چرواہے‘۔(نعوذاللہ من ذلک)
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُْولٰئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ۰(البقرہ:۱۵۹)
’بے شک جولوگ چھپاتے ہیں ان چیزوں کو جو ہم نے نازل کیں روشن دلیلوں اور ہدایت سے اس کے بعد بھی کہ ہم نے کھول کر بیان کردیا انہیں لوگوں کے واسطے (اپنی)کتاب میں یہی وہ لوگ ہیں کہ دور کرتا ہے انہیں اللہ تعالیٰ (اپنی رحمت سے)اور لعنت کرتے ہیں انہیں لعنت کرنے والے۔‘
امام ابن جریر ؒ نے حضرت قتادہؒ سے روایت کیا ہے کہ یہ اہل کتاب تھے جنہوں نے اسلام جو اللہ کا دین ہے اسے چھپایا اور محمدﷺ کی شانوں کو چھپایا حالانکہ وہ تورات و انجیل میں اپنے پاس آپﷺ کا ذکر لکھا ہوا پاتے تھے۔
فَوَیْلٌ لِلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِأَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہِ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِمَّا یَکْسِبُوْنَ۰(البقرہ:۷۹)
’ہلاکت ہو ان کے لیے جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھوں سے پھر کہتے ہیں یہ نوشتہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ حاصل کرلیں اس عوض تھوڑے سے دام، سو ہلاکت ہو ان کے لیے بوجہ اس کے جو لکھا ہے ان کے ہاتھوں نے اور ہلاکت ہو ان کے لیے بوجہ اس مال کے جو وہ (یوں)کماتے ہیں۔‘
ابن جریر نے عثمان بن عفانؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’ویل دوزخ میں ایک پہاڑ ہے۔ یہود کو یہ سزا اس لیے ملے گی کیوں کہ انہوں نے تورات میں تحریف کی اور اس میں من پسند چیزیں داخل کردیں اور خواہشات سے روکنے والے احکام مٹا دیے اور انہوں نے تورات میں سے نبی مکرمﷺ کا اسم گرامی مٹا دیا۔‘(تفسیر طبری آیت ذیل،ج۱،ص۴۳۶)
امام ابن حاتم نے حضرت ابن عباسؓ سے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ یہ یہود کے علماء کے متعلق ہے جنہوں نے نبی کریمﷺ کی صفات کو تورات میں لکھا ہوا پایا کہ آپﷺ کی آنکھیں سرمگیں ہیں،آنکھیں موٹی موٹی ہیں،درمیانہ قد،بال مناسب گھنگریالے ہیں،چہرہ نہایت حسین ہے،تو انہوں نے حسد اور بغض کی وجہ سے ان صفات کو مٹا دیا، ان کے پاس قریش کے لوگ آئے اور انہوں نے پوچھا کہ تورات میں امی نبی کا ذکر پڑھتے ہو؟انہوں نے کہا ہاں تورات میں ہم
اس کی یہ صفات پاتے ہیں زیادہ طویل ہے،آنکھیں نیلی ہیں، بال سیدھے ہیں،پس قریش یہ سن کر انکار کرنے لگے اور کہا یہ ہم میں سے نہیں۔‘(تفسیر درمنثور،ج۱،ص۲۲۵)امام بیہقی ؒ نے دلائل میں حضرت ابن عباسؓ سے یہ مزید روایت کیا ہے کہ: ’یہود کے علماء نے یہ گھنونی حرکت اس لیے کی تھی کہ انہیں یہ جاہل اور زیر نگیں لوگ ان کو تورات کی حفاظت کی وجہ سے نذرانے پیش کرتے تھے۔پس انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ یہ جاہل لوگ ایمان لے آئے تو ان کے نذرانے بند ہوجائیںگے۔
خواہشات نفس کی پیروی:
انسانی جسم میں ’نفس‘ایسی شئی ہے کہ اگر اسے قابو کر لیا جائے تو انسان اپنی اصل معراج کو پا جائے یعنی وہ ’عبد‘بن جائے لیکن یہی نفس جب بے قابو ہو جائے تو پھر انسان کی خیر نہیں۔ نفس آدمی کو ہر اس ڈگر اور راہ پر سرپٹ دوڑا دیتا ہے جو انسان کو ہلاکت میں ڈال کر رہتا ہے، طرفہ تماشہ یہ کہ آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میں صراط مستقیم پر ہوں۔یہود کی ایک بہت بڑی بد قسمتی یہ تھی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو معبود اور پیغمبروں کو اپنا مطاع بنانے کے بجائے اپنا نفس اور اس کی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیاتھا۔قرآن مجید نے اس کو مختلف جگہوں پر بیان کیا ہے:
اَفَکُلَّمَا جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لاَ تَھْوٰی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ۰(البقرہ:۸۷)
’جب کوئی رسول تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آیا جن کو تمہارا نفس نہیں چاہتا تھا توتم سرکش ہوجاتے اور کچھ انبیاء کو جھٹلاتے رہے اور کچھ کو قتل کرتے رہے۔‘
وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلاَ النَّصَارٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی وَلَئِنِ اتَّبَعَتَ اَھْوَائَھُمْ بَعْدَ الَّذِی جَائَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٌّ وَّلاَ نَصِیْرٌ۰(البقرہ:۱۲۰)
’اور تم سے نہ یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی،یہاں تک کہ ان کے مذہب کو اختیار کرلو۔ (ان سے)کہہ دیجیے کہ اللہ کی ہدایت(یعنی دین اسلام)ہی ہدایت ہے اور (اے پیغمبر)اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحی)کے آجانے پر بھی ان کی خواہشوں پر چلوگے تو تم کو اللہ (کے عذاب)سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہوگا نہ کوئی مددگار۔‘
ان آیات کے علاوہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت ۱۴۵،المائدہ آیت۴۸،الرعد آیت ۳۷ میں بھی بنی اسرائیل کی نفس پرستی کا ذکر کیا ہے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *