روزہ کے فوائد و مقاصد

تقویٰ
روزے کا بنیادی مقصد صفت تقویٰ پیدا کرنا ہے، تقویٰ اُس جوہرِ اخلاق کا نام ہے جو خدا کی محبت اور خدا کے خوف سے مل کر پیدا ہوتا ہے۔ خدا کی رحمت اور اس کے بے شمار احسانات کے حقیقی شعور سے انسان کے اندر خدا سے محبت کا جذبہ ابھرتا ہے، خدا کے قہر و غضب اور اخروی سزاؤں کے تصور سے خدا کا خوف پیدا ہوتا ہے، حق و باطل کے درمیان تمیز پیدا ہو جاتی ہے اس جذبۂ محبت و خوف سے مل کر دِل میں جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا نام تقویٰ ہے۔ یہ قلبی کیفیت روزہ رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ انسان جب شدید پیاس کے وقت میٹھے اور ٹھنڈے پانی کو دیکھتا ہے تو اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ چند گھونٹ ضرور پی لے مگر وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کے قہر سے بچنے کے لئے ایسا نہیں کرتا بلکہ اس حلال اور جائز پانی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے بھلا وہ شخص کسی حرام چیز کی طرف ہاتھ بڑھا سکتا ہے؟ پورے ایک مہینے کی یہ مشق مومن کے اندر صفت تقویٰ پیدا کردیتی ہے۔ اس طرح تقویٰ تمام نیکیوں کا سرچشمہ اور تمام برائیوں سے محفوظ رہنے کا یقینی ذریعہ ہے۔
روزہ کا یہی مقصد قرآن پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے:
یٰاَیھا الذین اٰمنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لعلکم تتقون۔ (البقرہ ۱۸۳)
’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو۔ تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے شاید کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو سکے۔‘
شہر رمضان الذی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من الہدٰی والفرقان (البقرہ: ۱۸۵)
’رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے سامانِ ہدایت ہے اس میں ہدایت کے واضح دلائل اور حق و باطل میں امتیاز کے واضح ثبوت ہیں۔‘
رمضان کے مبارک مہینے میں قرآن لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل ہوا اور بنی نوعِ انساں کو قیامت تک کے لیے ایک نسخۂ کیمیا عطا کیا گیا۔ اس نعمتِ ہدایت کا شکریہ ہم روزہ رکھ کر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں تک بھی قرآن کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اس طرح ہمارے اندر صفت شکر پیدا ہوتی ہے، ہر نعمت اور احسان کی قدر کرنے اور اس پر شکر گزار ہونے کی عادت پڑتی ہے۔ روزے کا یہ مقصد و فائدہ بھی قرآن پاک میں بیان کیا گیا۔ قرآن پاک میں بتانے کے بعد کہ رمضان کے مہینے میں قرآن اتارا گیا ہے اور جو رمضان کا مہینہ پائے وہ ضرور روزہ رکھے، فرمایا گیا:
ولتکبر اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولعلکم تشکرون (البقرہ: ۱۸۵)
’تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بات پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی، ہوسکتا ہے کہ تم شکر گزار ہو جاؤ۔‘
صبر و تحمل
روزے کے ذریعہ نفس کو کھانے پینے اور خواہشوں سے باز رکھ کر اس صبر و تحمل کا عادی بنانا مقصود ہے۔ اس لئے طاعات پر جمے رہیے اور معاصی سے مکمل اجتناب کیجئے۔ کوئی شخص آپ کے ساتھ برا سلوک کرے یا آپ کو مشتعل کرنا چاہے تو اپنے جذبات کو برانگیختہ نہ ہونے دیجئے۔ اگر کوئی آپ کی تحقیر و تذلیل پر آمادہ ہو تو آپ جو اباً حقارت آمیز رویہ نہ اپنائیے بلکہ صبر و تحمل سے کام لے کر نظر انداز کر دیجئے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
’تم میں سے جو کوئی روزے سے ہو تو اپنی زبان سے بے شرمی کی بات نہ نکالے اور نہ شور وہنگامہ کرے اور اگر کوئی اس سے گالم گلوچ کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو اس روزے دار کو سوچنا چاہئے کہ میں تو روزے دار ہوں، میں کیسے گالم گلوچ اور لڑائی کر سکتا ہوں۔‘ (بخاری)
روزے سے صبر کی صفت پروان چڑھتی ہے اور پائے دار ہوتی ہے۔ انسان بھوک پیاس کو برداشت کرکے راہِ حق میں مختلف مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ شدید گرمی میں بھوک اور پیاس کی شدت مومن کے روزے میں کوئی خلل نہیں ڈال پاتی، ٹھیک اسی طرح نرم و گرم حالات میں بھی مومن کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آسکتی، چنانچہ حضور ؐ نے فرمایا:
’رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔‘ (بیہقی)
اس ماہِ مبارک میں اپنے کو صبر و عزیمت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے رہئے۔ ہر طرح کی مصیبت اور پریشانی کا خندہ پیشانی سے استقبال کیجئے، بدسلوکی کا جواب حسنِ سلوک سے دیجئے۔ گالیوں کے جواب میں دعائیں دیجئے، ظلم و زیادتی کرنے والوں کے ساتھ عفو ودرگزر سے کام لیجئے۔ آپ سے کوئی کٹے تو آپ اس سے جڑجائیے۔ جو آپ کی حق تلفی کرے آپ اس کے حقوق ادا کیجئے۔ ہر پہلو اور ہر لحاظ سے اپنے کو صبر کا عادی بنائیے تاکہ پوری زندگی صبر و ثبات کا دامن آپ کے ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ ماہِ رمضان میں صبر کا بھرپور مظاہرہ کرکے تو شۂ آخرت جمع کیجئے۔
غم گساری
روزے کے شرعی مقاصد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انسان بھوک اور پیاس کی حالت میں ان لوگوں کی کیفیت کا اندازہ کرسکے، جو نانِ شبینہ کو بھی ترستے ہیں تاکہ انسان میں دوسروں کی تکلیفوں اور مصیبتوں کو سمجھنے اور ان کو دور کرنے کا جذبہ پیدا ہو سکے۔ رمضان المبارک میں جذبۂ غم خواری کو پروان چڑھائیے، باہم الفت و محبت، رحم دلی و نرم خوئی، نصح و خیر خواہی، ہمدردی و دِل جوئی، اخلاص و مروّت اور اخوت و بھائی چارگی کا ماحول پیدا کیجئے، بیواؤں، یتیموں اور غریبوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور سب کے لئے غم گسار بن کر اس ماہ کے فیوض و برکات سمیٹنے کی کوشش کیجئے۔
روزے کی حالت میں جب شدت کی بھوک پیاس ہو تو ان لوگوں کا تصور کیجئے جو نانِ شبینہ کو ترستے ہیں۔ جن کے پاس اپنی بھوک مٹانے کے لئے چند روپئے بھی نہیں ہوتے۔ ان کی راتیں فٹ پاتھ پر یا سردیوں میں آسمان کے نیچے بغیر کمبل اور بستر کے گزرتی ہیں۔ان کے دن بیماری سے ایڑیاں رگڑتے بسر ہوتے ہیں۔ ان کے لیے دواؤں اور پرہیزی کھانے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ ہر روز کتنے انسان غربت و افلاس کی بھوبھل میں جھلس کر اپنی جانیں گنوادینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے گردوپیش کتنے لوگ رہتے ہیں جن کے لئے اپنے پیٹ کی آگ بجھانا مشکل ہوتا ہے۔
پیارے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا: ’رمضان غم خواری کا مہینہ ہے۔ ‘(متفق علیہ)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سب سے زیادہ فیاض تھے۔ رمضان آتے ہی آپ سب سے زیادہ فیاض ہوجاتے تھے۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: ’جب رمضان کا مہینہ آتا تو آپؐ پہلے سے زیادہ سخی ہو جاتے۔‘
حضرت ابنِ عباسؓ کا بیان ہے:
’جب رمضان کا مہینہ آتا تو پیارے نبی ؐ ہر قیدی کو آزاد کر دیتے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے۔‘ بیہقی
معاصی اور خواہشات کو لگام
روزہ رکھنے سے نفسانی خواہشوں کو لگام لگتی ہے، جو انسان دِن بھر جائز طریقے پر بھی نفسانی خواہشوں کی تکمیل سے رُکا رہتا ہے، بھلا وہ ناجائز طریقے سے کس طرح اپنی خواہشیں پوری کر سکتا ہے۔ بھوک اور پیاس سے انسان کو ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسے شخص کو جو نکاح کا ضرورت مند ہو مگر اس کے معاشی حالات اجازت نہ دیتے ہوں تو اسے روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور روزے کو اس کے حق میں تریاق بتایا گیا ہے۔
روزہ نہ صرف نفسانی خواہشوں پر قابو پانے کی طاقت عطا کرتا ہے بلکہ جملہ برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ روزے دار کو ہر آن یہ شعور ہوتا ہے کہ نہ صرف کھانا پینا اس کے روزے کو فاسد کر سکتا ہے بلکہ وہ ہر آن احتساب کرتا رہتا ہے اور ہر برائی سے اجتناب کی کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کسی بھی برائی کے ارتکاب کی صورت میں اسے بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ نہ ملے گا اس کے سامنے ہر وقت پیارے نبیؐ کا یہ ارشاد رہتا ہے:
’کتنے ہی روزے دار ہیں جنہیں اپنے روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‘
روزے میں ہر برائی اور معصیت سے بچنے کی کوشش کیجئے۔ روزے کا مقصد ہی زندگی کو پاکیزہ بنانا ہے۔ بدکلامی و فضول گوئی، طنز و تعریض، لعن و طعن، کذب و اتہام، لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ سے مکمل اجتناب کیجئے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
اذا کان یوم صوم احد کم فلا یرفت ولا یصخب فان سابہ احد اوقاتلہ فلیقل انی صائم۔ (متفق علیہ)
’تم میں سے جو روزہ دار ہو نہ وہ بدکلامی و فضول گوئی کرے اور نہ شور و شرابا۔ اگر کوئی اس کو گالی دے یا لڑنے جھگڑے پر آمادہ ہو تو یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔‘
روزے کا مقصد انسان کو بھوکا پیاسا رکھنا نہیں بلکہ معصیت و نافرمانی سے بچنے اور اطاعت و فرماں برداری کا عادی بنانا ہے اگر روزہ رکھ کر بھی انسان برائیوں سے نہ بچ سکے تو ایسے روزے سے بھوک و پیاس کے سوا آدمی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *