حصو لِ تعلیم میں مادری زبان کی اہمیت

حصو لِ تعلیم انسان کی فطری ضرورت ہے۔جس طرح انسان اپنی بنیادی ضرو رتوں کے لئے کو شاں رہتا ہے۔ اسی طرح حصو لِ تعلیم بھی اس کے دائرہ کار کا ایک اہم حصّہ ہے۔ یوں تو انسان رسمی((formalاور غیر رسمی (Informal)طریقوںسے تعلیم حا صل کرتا ہے۔جسے آپ اور ہم بخوبی جا نتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔یہاں زیر قلم مو ضو ع روایتی حصو لِ تعلیم پرمر کوزہے۔
تحقیقاتی رپوٹو ںکا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ ماضی اور حال کے اکثر بڑے بڑے مفکرین تعلیم اس بات سے اتفاق رکھتے ہیںکہ کسی بھی بچّے کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان ہی میں ہو نا چاہئے ،کیوںکہ بچہ اسکول جا نے سے قبل ہی اپنی مادری زبان کے مختلف موضو عات کے کچھ ذخیرہ الفاظ سے واقف ہو جاتا ہے۔یہاں اس نے باقاعدہ کو ئی قواعد یا املا نویسی وغیرہ نہیں سیکھا ،مگر اپنے گھر میں بولی جا نے والی زبان بار بار سن کر اس نے یہ سب کچھ سیکھ لیا ہے۔اور وہ اب اپنے گھر کے ما حول سے نکل کر اسکول کے ماحول میں قدم رکھنے والا ہے،جہاں اسے ابتدائی تعلیم کھیل کھیل میں ،بڑ بڑ گیت کے ذریعہ ،اشارتی زبان کا استعمال وغیرہ مو ئثر طریقوں کو اپنا کر دی جا تی ہے۔مگر یہا ںسب سے اہم بات ہوتی ہے استاد کے ذریعہ دی جانے والی چھوٹی چھوٹی ہدایتوں کو بغورسننا اور ان پر متوقع حد تک عمل کرنا ۔اب اگر ابتدائی دنوں ہی میں اس کا واسطہ کوئی ایسی زبان سے ہوجاتا ہے جسے وہ نہیں کے برابر یا بہت کم حد تک جانتا ہو توسوچئے کہ اس کا کیاردّ عمل سامنے آئے گا۔کلاس روم میں یا گرائونڈپرجب اس کے اساتذہ کے ذریعہ اسے مختلف ہدایتیں دی جائے گی تو وہ ادھر ادھر دیکھے گا،دوسرے بچّوں کی تقلید کرے گا،کیونکہ جس زبان میں وہ ہدایتیں دی جا رہی ہیں وہ زبان اس بچّہ کے لیے قدرِ نئی یا انجان ہے۔یہاں فطری طور پر بچّہ احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے دیگر ساتھی وہ سب کر پا رہے ہیں جو وہ نہیں کر سکتا۔ والدین اور سرپرست اسکول اوقات میں اسے پیش آنے والی دقّتوں سے ناواقف ہیں،اس کی بیزارگی انہیں دکھائی نہیں دے گی ۔وہ یہی کہیںگے کہ شروعات میں تو ایسا ہوتا ہی ہے۔دھیرے دھیرے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔یہاں دراصل والدین اپنی سوچ وفکر اور خواہشوں کو اپنے ننھے پر لاد رہے ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو کم از کم یہ بات ضرور ہے کہ والدین اپنی رشتہ داروں،بھائی بہن،پڑوسی اور شناسا کی برابری کرنے کے لیے،یا انھیں یہ بتانے کے لیے کہ ہم بھی اپنے بچّوں کو انگریزی اسکول میں تعلیم دلوا سکتے ہیں،یا اپنے قلب کی تسکین کے لیے اپنے بچّوں کو اردو ذریعہ تعلیم اداروں کے علاوہ دیگر اداروں خصوصی انگریزی اداروں میں داخل کروا دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جب بچہّ ایسے تعلیمی ادارے میںقدم رکھتا ہے جہاں وہی زبان اس کے کانوں پر پڑرہی ہے جو وہ اپنے گھر پر سنتا ہے،سمجھتا ہے ،بولتا ہے تو وہ بہت جلد اس ماحول کو اپنا لیتا ہے۔یہاں بیزارگی نہیں خوشی دکھائی دے گی،اکتاہٹ کی بجائے دلچسپی نظر آئے گی،اور اس کا من کریگاکہ وہ شوق سے اسکول جائے۔
ایک سروے کے مطابق اکثر وہ طلبہ جن کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں نہیں ہوتی وہ بہت جلدDrop Out کا شکار ہو جاتے ہیں۔تحقیق بتاتی ہے کہ مادری زبان میں تفہیم وادراک کا عمل بہت پختہ اوردیرپا ہوتا ہے۔(UNESCO,2008 a ) ۔مادری زبان در اصل طالبِ علم کی انفرادی ،سماجی،قومی اور تہذیبی سر گر میوں کی عکّاسی کرتی ہے جسے حصولِ تعلیم کے لیے بہت معاون تسلیم کیا جاتاہے ۔حصولِ تعلیم کے دوران ہی کسی بھی طالبِ علم کے مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔اس کی قوتِ فکر و عمل یہیں سے پروان چڑھتی ہے۔یہی مادری زبان طالبِ علم کو ہر موڑ پر استقامت اور پختگی بخشتی ہے۔مادری زبان کے ذریعہ طالبِ علم میںزریّں عادات و اطوار،برتائو،سماجی ومعاشی فہم،اقدار کی بلندیاںاور عمدہ تہذیب و تمدّن کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔اور الحمداللہ ہمیں یہ فخر ہے کہ ہماری مادری زبان اردو اپنے دامن میں یہ تمام بیش بہا خزنے سموئے ہوئے ہے۔تجربات کی روشنی میں دیکھا گیا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے دیگر SecondیاThirdزبان کی تعلیم پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتابلکہ مادری زبان کی پختگی دیگر زبانوں کے حصول میںبے حد معاون ثابت ہو سکتی ہے۔حصولِ تعلیم میں اگر ابتدائی جماعتوں میںمادری زبان پر خاص دھیان دیا جائے تویقینا ہمارا طالبِ علم Bilingualیاmultilingualبن کر سامنے آئے گا۔اردو اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والاطالبِ علم اردو کے ساتھ ساتھ اگر مراٹھی،ہندی اور انگریزی پر بھی توجّہ مرکوز کرے تو بہت اچّھے نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔دسویں اور باروہویں بورڈ میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اردو ذریعہ تعلیم کا طالبِ علم ہندی ،مراٹھی کمپوزٹ یا انگریزی( 3rd language)میں بورڈ اوّل آیا ہے ۔ایک اضافی بات یہ بھی ہے کہ اردو اداروں سے فارغ طلبہ کے انگریزی اور مراٹھی کے تلفّظ قدر بہتر ہوتے ہیں۔اور یہ طلبہ اردو کے ساتھ ہندی،مراٹھی اور انگریزی زبانوں سے بھی واقف ہو جاتے ہیں۔
اکثر یہ سننے کو ملا ہے کہ اردو تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کو کہاں نوکریاں ملتی ہیں،وہ دربدر بھٹکتے ہیں،تجارت میں وہ جم نہیں پاتے وغیرہ۔یہاں یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ ہم والدین دراصل اردو اداروں کے کند ذہن یا اوسط طلبہ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا لیتے ہیںکہ اردو اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔آج اردو اداروں سے فارغ طلبہ میڈیکل ،انجینیئرنگ، آئی۔ٹی۔کمپیوٹر سائنس ،وکالت،صحافت،الیکٹرانک میڈیا،درس و تدریس اور تجارت کے ساتھ سا تھ سرکاری یا پرائیوٹ سیکٹر میں بڑی کامیابی سے جمے ہوے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو ذریعہ تعلیم اداروں کے صدرِ مدرسین و انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے اداروں سے فارغ ان طلبہ کو آج حاضر طلبہ اور ان کے والدین کے سامنے پیش کریں جو مختلف میدانوں میں کامیابیوں کے پرچم بلند کیے ہوئے ہیںاور یہ پیش قدمی جاری ہے۔مختلف پروگراموں، پمفلٹ اور برائوچر کے ذریعہ اردو اداروں کے اسٹار طلبہ کو ہمارے مسلم معاشرہ میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔تاکہ والدین و سرپرستوں کے ذہنوں میں بسی غلط فہمیوں اور اشکال کو دور کیا جا سکے ۔اس عمل کے دو فائدہے ہیں ایک تو اردو اداروں کے اسٹار طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوگی اور دوسرا یہ کہ والدین و سرپرستوں کے انگریزی ذریعہ تعلیم کی طرف بڑھتے رجحان پر کچھ حد تک روک لگے گی اور سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ اردو زبان ہمارے گھروں میں ،تعلیمی اداروں میں،معاشرہ میں،تہذیبی و ثقافتی امور میں زندہ رہے گی۔
حصولِ تعلیم کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مادری زبان میں حصولِ تعلیم میںاساتذہ کرام بہتر طور پر درس و تدریس انجام دے سکتے ہیں ،یہاں افہام و تفہیم کا عمل پختہ ہوگا۔اساتذہ خود اعتمادی سے برا ہِ راست سرپرست سے رابطہ کر سکتے ہیں اور طالبِ علم کے تعلیمی و دیگر مسائل پر کھل کر بحث کر سکتے ہیںجبکہ غیر مادری زبان سے خود طالبِ علم خائف ہے،سرپرست بھی اور ایک حد تک اساتذہ کرام بھی۔جس طرح مادری زبان اسکول میںاساتذہ اور طالبِ علم کے لیے معاون ہے اسی طرح گھر پرسرپرست اور طالبِ علم کے لیے بھی آسانی پیدا کرنے والی ہے۔پرائمر ی تعلیم سے لیکر سیکنڈری اور سینیئر سیکنڈری درجات کے Drop Outکو دیکھتے ہوئے خود UNESCOمادری زبان کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے مختلف پالیسیاںترتیب دے رہا ہے جبکہ چین، جاپان ،جرمنی اور فلپائن جیسے دیگر ممالک اپنے طلبہ کو مادری زبان سے جوڑے رکھنے میںبہت حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔
غیر مادری زبانیں خصوصََا انگریزی زبان کی اہمیت و افادیت سے ہر گز انکار نہیں،لیکن یہ بات بھی زیرِ غور ہونی چاہیے کہ واقعی ہم اپنے طلبہ کو اپنے گھروں میںاور اپنے اطراف وہ ماحول دے سکتے ہیں جو انگریزی زبان کے حصول کے لیے ضروری ہے؟انسانی ذہن،قلب اور سوچ و فکر کو پختگی دینے کا دوسرا نام تعلیم ہے۔اس کے حصول کو لازمی بنائیے یہ ہم سب کی اوّلین ذمہّ داری ہے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *