جمہوریت اورو طنیت … علامہ اقبالؔ کی نظر میں

جمہوریت کی تائید میں بعض مذہبی افکار کے حامل گروہوں نے ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ کا کچھ ایسا مطلب بیان کیا ہے کہ علامہ اقبالؔ کی روح کانپ جاتی ہوگی اور چنگیز خاں عالم برزخ میں بھی کف افسوس ملتا ہوگا کہ اس نے کیوں اپنے سر ظلم و ستم کا تاج باندھا جب کہ وہ یہی کام جمہوریت کے نام پر کرسکتا تھا ۔ دراصل مذکورہ بالا مصرعہ کا مطلب کچھ اس طرح سمجھا اور سمجھایا گیا اور سمجھایا جاتا رہا ہے کہ سیاست کوئی شجر ممنوعہ نہیں کہ اہل دین اس سے دور رہیں بلکہ اگر اہل دین ‘ سیاست سے دور رہیں تو پھر چنگیزیت باقی رہ جاتی ہے۔ یہاں یہ پہلو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ سیاست سے کون سی سیاست مراد ہے۔ آیا وہ جمہوریت جس کی پناہ میں قومیں اپنی بقا ڈھونڈتی ہیں یا پھر وہ حکمرانی جسے اہل دین کا فرض منصبی قرار دیا گیا لیکن اہل دین نے غلامی کے طوق کو بشکل جمہوریت قبول کرتے ہوئے حکمرانی و خلافت کے تصور و تصویر کو دھندلادیا ہے۔ پچھلے برسوں ملک کی سب سے بڑی دینی جماعت ’جماعت اسلامی‘ نے جب راہ جمہوریت پر گامزن ہونے کا فیصلہ کیا تو اس کے لئے جو ’’زاد راہ‘‘ تیار کیا گیا اس میں علامہ اقبالؔ کا یہ مصرعہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ ایک جماعت پر ہی کیا موقوف ہے ‘ دنیا کی بیشتر دینی جماعتوں نے جمہوریت کو بحالت مجبوری قبول کرنے کے بعد بقدر ضرورت اپنانے کا فیصلہ کیا اور اب بالیقین ایسا لازمی طرز حکمرانی تسلیم کرلیا ہے کہ انہیں جمہوریت میں ہی اسلامی خوبیاں نظر آتی ہیں بلکہ اسلام کا طرز حکمرانی جمہوریت کا آئینہ دار دکھائی دیتاہے۔

 جہاں تک فکر اقبال کا معاملہ ہے انھوں نے جمہوریت کو بھی چنگیزیت کا حصہ مانا ہے۔ وہ کہتے ہیں ع

جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

یعنی معاملہ سیاست میں دیندار لوگوں کے داخل ہونے کا نہیں بلکہ اس سیاست کا علم بردار ہونے کا ہے جس کا نام ’’الدین‘‘ ہے اور جس کے دامن میں تمام انسانیت کو انصاف مل سکتا ہے ورنہ جمہوریت تو بذات خود چنگیزیت سے بھی خطرناک ہوتی ہے ۔ علامہ اقبال ؔنے ابلیس کی مجلس شوریٰ والی نظم میں ابلیس کے دو مشیروں کی گفتگو کا ماحصل پیش کرتے ہوئے جمہوریت پر اس طرح روشنی ڈالی  ع

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

چہرہ روشن اندروں ہے چنگیز سے تاریک تر

پروفیسر یوسف سلیم چشتی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’اس شعر سے واضح ہوتا ہے کہ جمہوری حکومتوں میں بھی عوام الناس پر وہی ظلم ہوتا ہے جو شخصی حکومتوں میں ہوتے ہیں فرق اتنا ہے کہ شخصی حکومت میں ’’بادشاہ‘‘ ظلم کرتا ہے اور جمہوری حکومت میں یہ کام ’’مجلس ملت‘‘ سرانجام دیتی ہے۔

جمہوریت کا چہرہ تو ضرور روشن ہوتا ہے یعنی یہ طرز حکومت بظاہر بہت دلکش ہے کہ بادشاہ نہیں ہوتا بلکہ عوام خود اپنے اوپر حکمران ہوتے ہیں لیکن اس کا باطنی پہلو یعنی دل چنگیز سے بھی زیادہ سیاہ اور ناپاک ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں بھی شخصی حکومت کی طرح مذہب کو سیاست سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جمہوریت اور ملوکیت اپنے اعمال اور نتائج کے لحاظ سے یکساں ہوجاتی ہیں۔‘‘   (شرح ارمغان حجاز ۔جدید ایڈیشن 2014۔ ص 30)

جمہوریت یعنی عوام کی حکومت کی حقیقت کو اقبالؔ نے ایک مقام پر یوں بیان کیا ہے :

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

یعنی جمہوریت میں دانا و نادان‘ عاقل و غافل‘ دین دار و بے دین سب یکساں وزن رکھتے ہیں ۔ حکمرانی اہل دانش کی نہیں بلکہ اہل مفادات کی ہوتی ہے ۔ طرز حکمرانی میں خدا پرستی کا نہیں بلکہ خود پرستی کا دخل ہوتا ہے۔

ایک مسلمان کو یہ بات ذہن میں واضح رکھنا چاہئے کہ وہ جس نظام توحید کا علمبردار ہے وہ ایک ہی ہے اور باقی سارے نظام ہائے حکمرانی باطل اور ابلیسی ہیں چنانچہ علامہ اقبالؔ نے ابلیس کی زبانی کہلوایا کہ اسے نہ جمہوریت سے خطرہ ہے نہ وہ اشتراکیت سے خوفزدہ ہے ان نظام ہائے طرز حکمرانی سے ابلیسیت ممتاز ہے لیکن

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو

یہ ’شرار آرزو ‘ ایک بندہ مومن کے دل میں موجود وہ چنگاری ہے جو ابلیس کے تمام ہائے نظام کو خاک میں ملادینے کی طاقت رکھتی ہے  ع

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب

پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین

اصل مسئلہ زمین پر اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کا ہے ۔ جہاں دنیا پر یہ نکتہ عیاں نہیں ہے وہیں خود بندہ مومن کا حال بھی امید افزا نہیں ہے ع

چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئین تو خوب

یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقین

بندہ مومن میں یقین کی کمی کی ایک اہم ترین وجہ یہ ہے کہ وہ ان حالات کو انگیز کرنے کو تیار نہیں جو انبیاء کے ساتھ بھی پیش آئے اور سلف صالحین نے بھی دہکتی ہوئی آتش نمرود کو کبھی آتش جہنم نہیں سمجھا کہ اس سے بچیں بلکہ بے خطر اس میں کود پڑے۔ دور حاضر کا بندہ مومن چاہتا ہے کہ ساحل پر رہتے ہوئے دریا میں غوطہ زنی کے فائدے حاصل کرے جو سعی لاحاصل ہی کہلائے گی  ع

محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص

کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا

اسلامی نظام کے غالب ہونے کے یقین میں کمی کی دوسری بڑی وجہ وہ فکری ارتداد ہے جس کی لپیٹ میں امت کا ایک بڑا حصہ آگیا ہے اور جس پر ابتدائی سطور میں روشنی ڈالی گئی۔ دور حاضر میں دانش مندی یہی سمجھی گئی ہے کہ اسلام کی حفاظت کو اللہ کے حوالہ کرکے مسلمانوں کی حفاظت کا ٹھیکہ لے لیا جائے حالانکہ اصل محافظ تو وہی حی و قیوم ہے جس کو فنا نہیں جو مشرق و مغرب کا مالک ہے۔ وہ حفاظت نہ کرے تو بڑے سے بڑا دانشور دانائی کی معراج پر پہنچ کر بھی کسی تدبیر سے امت تو درکنار خود اپنی رکھوالی سے قاصر ہے ۔ اور اگر وہ محافظ بن جائے تو آندھی و طوفان میں بھی فانوس جلتی رہے گی۔ اسلام کے بدلے مسلمان کی حفاظت کی سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری یہ فکر بن گئی کہ دین محصور و مغلوب رہے کوئی بات نہیں لیکن مسلمان کو آزاد ہونا چاہئے ۔ علامہ اقبالؔ کہتے ہیں

دین ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت

ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسارا

ملت کے دانشوران اس وقت جو آزادی چاہتے ہیں وہ نماز ‘روزہ‘ قرآن خوانی‘ مساجد سے اذان اور مسلمانوں کے عقد و نکاح کے مخصوص احکام پر عمل آوری کی اجازت ہے جسے ’مسلم پرسنل لا‘ کا نام دے دیا گیا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت ہو ملک میں جمہوریت باقی رہے اور مسلمانوں کو اپنے اس خود ساختہ ’’پرسنل لا‘‘ پر چلنے کی اجازت حاصل رہے ۔ خود ساختہ اس لئے کہ مسلمانوں کا کوئی شخصی قانون نہیں بلکہ وہ خدائی قانون کا پابند ہے ۔ درحقیقت یہ آزادی نہیں بلکہ غلامی کو تسلیم کرلینے کی محض تاویل ہے جس پر علامہ اقبال نے یوں چوٹ کی ہے  ع

ملا کو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

حیرت و تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ اقبالؔ کے شیدائی بھی اس غلامی سے قوم کو خبردار کرنے سے گریزاں ہیں جس کے بارے میں انھوں نے یہاں تک کہا تھا کہ موت کے بعد کی جو زندگی ہے وہ غلامی کی زندگی پر مطمئن رہنے والوں کے لئے نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں  ع

مرکے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام

گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوشِ لحد

ماہرین و شیدائیان اقبالؔ نے اس عظیم تصور کو چھوڑ کر کلام اقبال میں تصوف کے عناصر ڈھونڈنے کی سعی شروع کردی حالانکہ محکومی و غلامی اقبال ؔکی نظر میں ایسی ذلت ہے کہ قبربھی ایسے مردے سے پناہ مانگتی ہے اور کہتی ہے

الحذر محکوم کی میت سے سو بار الحذر

اے سرافیل! اے خدائے کائنات! اے جان پاک

یعنی غلامی و محکومی پر مطمئن بندہ کی آمد پر قبر کہتی ہے کہ خدایا کسی طرح یہ برزخ کا دور ختم ہو ‘ اسرافیل صور میں پھونک ماریں اور قیامت برپا ہوجائے تاکہ محکوم کی میت سے مجھے چھٹکارا مل جائے۔

دور حاضر میں امت مسلمہ کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے والی دو خطرناک چیزیں ہیں ۔جمہوریت اور وطنیت۔ دیگر نظریات کے مقابل ان میں بقائے آدمیت ‘ امن ‘ چین اور سکون جیسی پرکشش معنویت دکھائی دیتی ہے حالانکہ دونوں ہی طرز کا اسلام سے کوئی علاقہ نہیں ہے ۔ جمہوریت میں اگر عوام پر عوام کی حکومت ہے تو اسلام اس کی نفی کرتا ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی کا تصور پیش کرتا ہے ۔ وطنیت بذات خود کوئی نظریہ نہیں بلکہ چین و سکون کی حدود کا وہ حصار ہے جس میں ایک علاقہ کا حکمران طبقہ دوسرے علاقہ کے حکمرانوں کی مداخلت گوارا نہیں کرتا ۔ نتیجہ میں کسی علاقہ کا حکمران طبقہ اپنی محکوم اقلیت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑدے تب بھی اس اقلیت سے تعلق رکھنے والا دیگر علاقہ کا حکمران طبقہ کوئی بے چینی محسوس نہیں کرتا کہ مبادا اپنی قوم پر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں کہیں اقوام عالم اس کی سرحدوں میں گھس کر چین و سکون برباد نہ کردیں۔ اس کی مثالیں شام میں بشار الاسد کی چنگیزیت اور روہنگیا کے مسلمانوں کی دردناک و دل شکن داستانیں ہیں جن پر عربوں کا خون نہیں گرمایا اور نہ ہی قوم مسلم کے خون کی ارزانی نے انہیں بے چین کیا بلکہ سرحدوں کے ٹوٹنے کے خوف نے عرب اتحاد کو ’شیرِ بہادر‘ بنادیا ہے۔ علامہ اقبالؔ کی آرزو تھی کہ امت مسلمہ وطنیت کے کوزے سے نکلے اور جمہوریت کی پناہ ڈھونڈنے کے بجائے غیرت و حمیت اسلامی کا لبادہ اوڑھ لے ۔ سرحد‘ ملک‘ وطن‘ مال و دولت غرض تمام مادی اشیا ایک بندہ مومن کے نزدیک لات و منات کی حیثیت رکھتے ہیں  ع

مقام بندۂ مومن کا ہے ورائے سپہر

زمین سے تابہ ثریا تمام لات و منات

رسول مقبولؐ نے یہ جذبہ صحابہ کرامؓ میں کوٹ کوٹ کر بھردیا تھا جو آپؐ کی وفات کے بعد بھی صحابہؓ میں بدرجہ اتم موجود تھا وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے اور زندگی کی آرزو میں موت سے گھبراتے نہیں تھے ۔ ان کی یہی بے مثال صفت کے آگے قیصر و کسریٰ سرنگوں ہوئے تھے اور آج زندگی کی تمنا اور موت کے خوف نے امت مسلمہ کو غیروں کا اسیر بنادیا ہے ۔ اس کیفیت کو تبدیل کرنے کے لئے جذبہ جہاد کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبالؔ کی شاعری میں جابجا یہ پیام نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے کہ قوم کی حیات درحقیقت آزادی ہے اور اس کا راز جذبۂ جہاد میں پنہاں ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنے مخصوص انداز میں یہ راز یوں افشاکیا  ع

جو دیکھی ہسٹری اس بات پر کامل یقیں آیا

جسے مرنا نہیں آیا اسے جینا نہیں آیا

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *