موت کے لئے تیار ہو جائیے! زندگی ملے گی

                بعض کمزور لوگ خیال کرتے ہیں کہ عزت کے لئے بھاری اور ناقابل برداشت تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسی لئے وہ ان بھاری اخراجات سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے ذلت و رسوائی کو گوارا کر لیتے ہیں۔ بہت معمولی اور گھٹیا زندگی گزارتے ہیں، ہمیشہ ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے رہتے ہیں، اپنی پرچھائیوں سے خوف کھاتے ہیں۔ اپنی آواز بازگشت سے لرز اٹھتے ہیں اور ہر آواز کو وہ اپنے خلاف گردانتے ہیں۔ تم انہیں زندگی کا سب سے زیادہ حریص پاؤگے۔

                یہ ذلیل لوگ عزت کے اخراجات سے زیادہ بڑا تاوان ادا کرتے ہیں اور اس راہ میں اپنے نفوس، اپنی روایات و اقدار ،اپنی شہرت ، اپنا اطمینان و سکون سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اکثر اپنی جان اور مال بھی قربان کر دیتے ہیں حالانکہ انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔

                ان لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی عزت و شرافت کا سودا کرکے اور ذلت کا تاوان ادا کرکے انہیں اصحاب جاہ و اقتدار کا تقرب حاصل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ کتنے ہی تجربات شاہد ہیں کہ ان ذلیلوں کو ان کے آقا جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر پرستش کیا کرتے تھے، دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی مردانگی بیچ دی، آقاؤں کے قدموں میں جھکے، ان کے سامنے زمین پر اپنی ناک رگڑی، پیروں پڑے اور انسانی زندگی کی ضروریات، انسانیت کی مقدس چیزیں اور اللہ اور انسانوں کی وہ امانتیں جو ان کے سپرد تھیں، سب قربان کردیں مگر آخر میں پھر بھی بے حیثیت اور راندۂ درگاہ ہی رہے۔ یہاں تک کہ ان آقاؤں کے نزدیک بھی جنہوں نے ان ذلیل کتوں کی طرح خدمت لی تھی، جن کے پیچھے پیچھے وہ دوڑتے اور دم ہلاتے تھے اور جن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے زمین میں ناک رگڑتے تھے۔

                کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو کبھی عزت و شرافت کے مالک، امانت الٰہی کے محافظ اور حق و انسانیت کی عظمت کے نگہبان تھے۔ اس وقت لوگوں پر ان کا خوف طاری تھا۔ کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہ پاتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو نہیں چاہتے تھے کہ وہ امانت کی حفاظت اور حق کی نگہبانی کریں اور عزت کی زندگی گزار سکیں۔ لیکن جب انہوں نے خیانت کی، عزت کے اخراجات ادا کرنے سے کمزودی دکھائی اور حق کی عظمت کو باقی نہ رکھ سکے تو لوگوں کے دلوں سے ان کا خوف جاتا رہا، ان کی حمیت زائل ہو گئی اور ان کی نظروں میں ذلیل ہو کر رہ گئے۔ پہلے جو لوگ انہیں خریدنا چاہتے تھے، ان کے نزدیک بھی اب ان کی قیمت کم ہوگئی۔ اتنی کم کہ انہوں نے اب انہیں خریدنے سے انکار کر دیا۔ پھر انہیں مردار کی طرح پھینک دیا گیا اور قدموں سے روندا گیا۔ ان لوگوں کے قدموں سے جو کبھی ان سے بڑے بڑے وعدے کیا کرتے تھے اور انہیں لالچ دیا کرتے تھے۔

                ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جو بلندیوں سے پستیوں میں گر جاتے ہیں۔ کوئی ان سے رحم کرتا ہے نہ ان سے ہمدردی کرتا ہے۔ ان کے مرنے کے بعد کوئی ان کے جنازے میں شریک نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ ان کے وہ آقا بھی جن کے لئے عزت کی بلندی سے ذلت کی پستی میں اور حق کی چوٹی سے گمراہی کی کھائی میں جا گرے تھے۔

                اس قسم کے بہت سے تجربات اور عبرت کا بہت سامان موجود ہے اور ایسی مثالیں ہم آئے دِن دیکھتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ ذلت کا پورا پورا تاوان ادا کرتے ہیں۔ وہ اللہ سے بھی خیانت کرتے ہیںا ور انسانوں سے بھی۔ امانت اور عزت و شرافت کو قربان کر دیتے ہیں، آقاؤں کے پیچھے دم ہلاتے ہیں، مفادات کے اسیر ہوتے ہیں اور جھوٹے وعدوں اور سراب کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ لیکن آخر کار انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ پستی میں جاگرتے ہیں۔ لوگ بھی انہیں دیکھ کر ہنستے ہیں اور ان کے آقا بھی انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

                میں نے اپنی مختصر عمر میں دسیوں ایسے بڑے لوگوں کو دیکھا ہے۔۔۔ اور برابر دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔ جو خدائے واحد وقہار کو چھوڑ کر دوسروں کے آگے اپنا سر جھکاتے ہیں۔ ان کی بارگاہوں میں بڑے خشوع اور خضوع کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔ ذلت کا تاوان اپنی پیٹھ پر لادے رہتے ہیں جس سے ان کی کمر دوہری ہو جاتی ہے، ان کے سر جھک جاتے ہیں اور ان کی گردنیں ٹیڑھی ہو جاتی ہیں۔ پھر اپنا بوجھ اتار دینے اور اپنا سرمایہ حوالہ کر دینے کے بعد انہیں کتوں کی طرح دھتکار دیا جاتا ہے۔ وہ نہ دنیا کے رہتے ہیں نہ آخرت کے۔ انہیں غلاموں کے قافلے میں ہانک دیا جاتا ہے۔ کسی کو بھی حتیٰ کہ جلاد کو بھی ان پر رحم نہیں آتا۔

                یہ آزاد رہ سکتے ہیں مگر غلامی اختیار کر لیتے ہیں۔ طاقتور رہ سکتے ہیں مگر رسوائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ صاحب جلال رہ سکتے ہیں مگر بزدلی اور ذلت کو پسند کر لیتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ یہ لوگ عزت سے اس لئے بھاگتے ہیں کہ انہیں ایک درہم نہ خرچ کرنا پڑے۔ مگر ذلت کے لئے انہیں ایک دینار بلکہ ڈھیر سا مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ لوگ ہر گناہِ کبیرہ کرتے ہیں تاکہ اصحاب جاہ و اقتدار کو خوش رکھ سکیں اور ان کے سایۂ عاطفت میں آسکیں۔ حالانکہ وہ اپنی یہ حیثیت منواسکتے تھے کہ اصحاب جاہ و اقتدار ان کی ہیبت سے سہمے رہیں۔

                یہی نہیں، بلکہ میں نے ایسی قوموں کو بھی دیکھا ہے جو ایک مرتبہ آزادی کے اخراجات ادا کرنے سے کتراتی ہیں۔ نتیجتاً انہیں کئی بار غلامی کا تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔ اتنا تاوان جس کا آزادی کے اخراجات سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ آزادی کے اخراجات اس کے دسواں حصہ بھی نہیں ہوتے۔ حضرت موسیٰ  ؑنے جب یہود کو ارض مقدس پر حملہ کرکے قابض ہو جانے کا حکم دیا تو انہوں نے جواب دیا۔

یَا مُوْسٰی اِنَّا لَنْ نَدْخُلَھَا اَبَدًا مَّا دَامُوْ فِیْھَا فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ہٰہُنَا قَاعِدُوْنَ (مائدہ ۲۴)

’’اے موسیٰ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں۔ پس تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘

                چنانچہ عزت کے اخراجات ادا کرنے سے اعراض کی بھاری قیمت انہیں چالیس سال صحرانوردی کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ وہ بیابان میں ادھر اُدھر بھٹکتے رہے، پردیسی زندگی گزارتے رہے اور مختلف خطرات و اندیشوں میں گرفتار رہے۔ اگر وہ عزت اور فتح مندی کی قیمت ادا کرنے پر تیار ہو جاتے تو انہیں اس کا دسواں حصہ بھی خرچ نہ کرنا پڑتا۔

                تاوان ادا کرنا ہر ایک پر لازم ہے، خواہ وہ افراد ہوں یا جماعتیں یا قومیں۔ اب انہیں اختیار ہے کہ یہ تاوان عزت، عظمت اور آزادی کے لئے ادا کرتی ہیں یا ذلت، رسوائی اور غلامی کے لئے۔ تجربات اس حقیقت پر شاہد ہیں، اس سے مفر نہیں۔ پس جو لوگ آزادی کے اخراجات ادا کرنے سے ڈرتے ہیں، عزت و شرافت کے انجام سے خوف کھاتے ہیں، آقاؤں کے قدموں میں اپنی ناک رگڑتے ہیں، اپنی امانتوں، عزتوں اور انسانیت سے غداری کرتے ہیں اور ان عظیم قربانیوں کو کھوٹا کرتے ہیں جو ان کی قوم اور انسانیت نے آزادی کے لئے دی ہیں۔ ان تمام لوگوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ تاریخ کے صفحات پر نظر ڈالیں۔ ماضی قریب کو دیکھیں اور ان بار بار پیش آنے والی مثالوں پر غور کریں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ذلت کا تاوان عزت کے تاوان سے بڑھ کرہے اور آزادی کے اخراجات غلامی کے اخراجات سے کہیں بڑھ کر کم ہیں۔ جو موت کے لئے تیار رہتے ہیں، انہیں کو زندگی ملتی ہے۔ جو لوگ فقر و فاقہ سے نہیں گھبراتے، انہیں کو حسب ضرورت رزق ملتا ہے اور جو لوگ جاہ و اقتدار سے نہیں ڈرتے ان سے جاہ اقتدار خود خوف کھاتا ہے۔

                ایسے ذلیل لوگوں کی بکثرت اور قریب کی مثالیں ہیں جنہوں نے اپنے ضمیر کا سودا کر لیا ، امانتوں میں خیانت کی، حق کو رسوا کیا اور گندگی میں لت پت ہوئے۔ مگر ان کا جو انجام ہوا اس پر کسی کو افسوس نہیں ہوا۔ ان پر اللہ کی پھٹکار ہوئی اور انسانوں نے بھی لعنت بھیجی۔ اس طرح ایسے لوگوں کی بھی مثالیں ہیں۔۔۔۔۔ اگر چہ کم ہیں۔۔۔۔۔ جنہوں نے رسوائی اختیار کرنے، خیانت کرنے اور اپنی مردانگی کا سودا کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ لوگ جب تک زندہ رہے عزت کے ساتھ زندہ رہے اور جب مرے تو عزت کے ساتھ مرے۔

                من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ فمنہم من قضی نحبہ ومنہم من ینتظر وما بدلو تبدیلا (احزاب ۲۳)

                ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں کی۔‘‘

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *