جارح تہذیبی یلغاراور اُمّتِ مسلمہ

                ابنِ خلدون سے لے کر آج کے معروف تاریخ داں ٹائن بی تک سب کا یہ ماننا ہے کہ تہذیبیں سوچ ‘فکر‘ نظریہ یا عقیدہ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں۔ تعلیم‘ معاشی سرگرمیوں و سیاسی عمل کے سایے تلے پنپتی و سنورنتی ہیں، جب فکر و نظر‘ عقیدہ و ایمان کمزور پڑجاتا ہے تو تہذیبیں بھی کمزور پڑتی ہیں اس طرح تاریخ کا ایک ورق بن کر رہ جاتی ہیں۔دنیا میں نظری بنیادوں پر صرف تین کلچر (Culture)دکھائی دیتے ہیں۔

                (۱)  مغربی تہذیب  (۲)  مشرکانہ تہذیب                (۳)  اسلامی تہذیب

                ہر تہذیب جو اپنی جلو میں خدا ‘ کائنات‘ انسان‘ کے بارے میں مخصوص خیال و ذہنیت رکھتی ہے۔ مغربی تہذیب خدا کے وجود کی انکاری یا کم از کم بے اختیار خدا کی پجاری ہے۔ کائنات کو حادثہ مانتی ہے تو انسان کو کبھی بندر کی ترقی یافتہ نسل‘ کبھی سماجی حیوان خیال کرتی ہے تو کبھی معاشی سرگرمیوں میں لت پت وجود ‘ تو کبھی جنسی حیوان گردانتی ہے۔

                اسی طرح مشرکانہ تہذیب میں خدا ہو یا نہ ہو‘ اگر ہو تو کتنے ہو اس کی تعداد متعین نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ زمانے کے گزرتے خداؤں میں اضافہ ہوتاجاتا ہے ضرورت پوری کرنے والی ‘ نفع و نقصان پہنچانے والی ہر شئے خدا ہے۔ کائنات کے بارے میں اس کی سوچ یہ ہے کہ وہ اُسے مائتھ (Myth)مانتی ہے۔ جس کا کوئی اصلی وجود نہیں ہے بلکہ سب نظر کا دھوکہ سمجھی جانے والی اشیاء ہیں۔ انسان کبھی خدا کا درجہ لے لیتاہے تو کبھی جانوروں سے بدتر اس کی حیثیت مانی جاتی ہے۔ کبھی وہ برھمان کا پالنہار وِدھاتا بن جاتاہے۔تو کبھی اتی شودر کے پیکر میں ڈھل جاتاہے۔

                اسلامی تہذیب میں خدائے واحد کا تصّور ایک زندہ تصّور ہے۔ جس نے کائنات کو بامقصد بنایا کُن کے ذریعے فیکون میںتبدیل کیا۔ ہر آن اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ انسان کی اس نے تخلیق کی‘ اُسے دنیا میں بااختیار بنایا۔ وہ اُسے موت دے گا۔ موت کے بعد زندگی کا لیکھا جوکھا سب دکھایا جائے گا۔ نیکوں کے لئے جنّت اور گناہ گاروں کے لئے جہنّم بنارکھی ہے۔ آخرت کا ایک زندہ تصوّر جو حقیقت سے بھرپور ہے‘ سامنے آتاہے۔

                مغربی تہذیب اپنے سائنسی بالادستی کے نتیجے میں سیاسی طورپر غالب تہذیب ہے جس نے انسانی نظریات ‘ سرمایہ دارانہ‘ اشتراکیاتی‘ جمہوری و لادینی نظام ہائے حکومت کو جنم دیا۔ جس میں انفرادیت کا قتل ہوجاتا ہے اور اجتماعیت آمر بن کر انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کرتی رہتی ہے۔ اس وقت مغربی تہذیب کا راست مقابلہ اسلامی تہذیب سے ہے۔ اسلامی تہذیب کے پاس صرف دعویٰ ہی نہیں مضبوط دلائل بھی موجود ہیں۔ دنیا میں اس کی نوخیز نسل سب سے زیادہ ہے۔ جو کسی بھی تہذیب کے لئے طویل عمر مہیّا کر سکتی ہے۔

                مشرکانہ تہذیب نظریات سے زیادہ ظاہری اختیاریت پر زور دیتی ہے۔ ظاہر سے اندرون میں تبدیلی کی خواہشمند ہوتی ہے۔ اس لئے وہ اپنے مخالفین کو اپنے آپ سے مربوط کر لیتی ہے اور اسے بھی اپنے کلچر کا حصّہ بنا ڈالتی ہے۔ ماضی میں بدھشٹ مؤومنٹ ہو یا جینیوں کی اہنسا پرمودھرم تحریک ۔ سکھوں کے معاملات ہوں یا ماضی بعید میں یادوؤں کا گھر سنسار۔ سب سناتن دھرم (برہمنیت)کا حصّہ بن کر رہ گئے ہیں۔ بعض لوگوں کو ہوش آیا تو وقت بیت چکا تھا۔ مول نیواسی ، او ۔بی۔ سی۔ او ربھٹکی جاتی جماتی و ادی باسی‘ اب اپنے آپ کو غیر ہندو کہلوانا پسند کر رہے ہیں۔ جب کہ ان کی عمومی شناخت ہندو کی حیثیت سے ہی مانی و جانی جاتی ہے۔ مسلمان اپنے عقیدہ اور اپنی سوچ و تہذیب کی وجہ سے آج تک بچا ہواہے۔ ایک اور بڑی وجہ ان کا 800 سالہ سیاسی اقتدار بھی ہے جو زوال کے باوجود اپنی ایک شناخت کا مظہر رہا ہے۔

                مئی 2014ئ؁ جب سے نئی حکومت آئی ہے جو کیشو بلی رام ہیڈ گوار‘ گولوالکر اور ساورکر کے ہندوتو والے نظریات رکھتی ہے۔ عام اقلیتوں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی جارح تہذیبی یلغار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے آنے سے ہندوتو وادیوں میں بے جا اعتماد و جرأت پیدا ہوئی ہے۔ آر۔ایس۔ ایس۔ کے اشاروں پر تھرکنے والی موجودہ مودی سرکار میں جتنے مذہبی افراد یا سادھو و سادھوی ہیں ۔ وہی ایسی زبان استعمال کررہے ہیں کہ قرآن کی سچائی کھل کر منظر عام پر آجاتی ہے۔

قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء  مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُورُہُمْ أَکْبَرُ ـ (آل عمران ـ 118)

(ان کے دل کا بغض ان کے منھ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔)

                کبھی یہ 2021ئ؁ تک مسلم وعیسائی مکت بھارت بنانا چاہتے ہیں‘ کبھی ہندوستانیوں کو “ہندو” کہنے پر اصرار ہوتا ہے تو کبھی مدرسوں میں مداخلت کی بات ہوتی ہے تو کہیں مساجد پر دن دھاڑے حملے (بلپھ گڑھ، پونہ) ہوتے ہیں۔ کہیں ان کی آبادی سے خوف دلایا جاتا ہے تو کبھی انہیں پاکستان چلے جانے کی صلاح دی جاتی ہے۔ کبھی ان کا حق رائے دہی سلب کرانا مقصود ہے تو کہیں لو جہاد کے فتنے اٹھائے جاتے ہیں۔ گائے بیل کے ذبیحہ پر پابندی لگائی گئی ہے، تو کبھی سوریہ نمسکار۔ یوگا لازمی قرار دیا جاتاہے تو کہیں وندے ماترم کہنا و سرسوتی وندنا کرنا ضروری قرار دیا ہے۔ گیتا پاٹھ کا مسئلہ ہے تو تعلیم کا بھگوا کرن ‘ کبھی گھر واپسی کے ڈرامے گھڑے جاتے ہیں تو کبھی حج سے روکنے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ سب تمہیں سوچنے پر مجبور کر دیتاہے۔ یوگا۔ سوریہ نمسکار‘ وندے ماترم‘ سرسوتی وندنا۔ انہیں کبھی سمجھا کر‘ کبھی دبا کر‘ کبھی زور لگاکر کروانے کی کوشش اہلِ اقتدار کا خاص و صف ہے جو اختیار کیا جارہاہے۔

یوگا____ سوریہ نمسکار____

                یوگا دراصل لفظ یوگ سے بناہے جس کے معنیٰ اکٹھا ہونے یا ملنے کے ہیں آتما‘ پرماتما اور شریر کے مربوط ہونے کا نام ہے۔ یوگا کی شروعات کرشن نے کی تھی جسے پہلا یوگی کہا جاتاہے۔ یہ تقریباً 26000سال قبل اس کی شروعات ہوئی تھی۔ جِسے”ست یوگ” کہا جاتاہے بعدمیں پتانجلی نے اُسے codified کیا ہے۔ اُسے آسنوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے 12 ؍آسن بتلائے جاتے ہیں۔ جس میں شروعات سوریہ نمسکار سے ہوتی ہے۔

                سوریہ نمسکار ہی سب سے اہم آسن ہے جس کا وقت طلوعِ آفتاب‘ غروبِ آفتاب یا پھر نصف النہار کے وقت۔ ان تین اوقات کے علاوہ سوریہ نمسکار ممکن نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تین اوقات کے وقت ہی یوگا کیا جاسکتاہے۔

سورج کی پوجا____

                ویدک دور میں سورج کی پوجا کی جاتی تھی یہاں تک کہ رام چندر کے بارے میں آتا ہے کہ انہیں سورج سوریہ ونش کا بادشاہ مانا جاتاتھا۔ اسی لئے سوریہ ونشی باضابطہ ایک نسل ہے جو چلی آرہی ہے جن کا تعلق برہمنوں سے ہے۔تاریخ میں قومِ سبا کے تعلق سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بھی سورج کی پرستش کرتی تھی۔ سورج کے وارثوں میں فرعون کا نام بھی ماضی کی تاریخ میں ملتاہے۔ جس کی پرستش کی جاتی تھی۔فرعون ‘ ملکۂ سبا ‘ رام چندر گویہ سورج کی نسل سے مانے جاتے تھے عوام ان کی پرستش کرتی تھی۔

                ریگ وید میںسورج کی تعریف کرکے‘ اُس کی پرستش کا بیان ہے۔ ” یہ چمکدار خدا‘ اے سورج‘ آسمانوں کے پرے بڑی جگہ توہے۔ کرنوں سے دنوں کو ملاتاہے اور گذرتی قوموں کا رکھوالا ہے۔ تو تمام کمزوریوں کو دور کرنے والا ہے اور بیماریوں سے شفاء دینے والا ہے۔ ہم تجھ میں دھیان گیان کرتے ہیں تاکہ ہماری عقلمندی بڑھے۔”

                پراچین کال میںکئی سورج کے مندر بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ اُڑیسہ ‘ گجرات‘ کشمیر ‘ آندھراپردیش میں بالخصوص 8سے 13 صدی عیسوی کے درمیان بنائے گئے تھے۔شری راجیو جین نے “سمپرن یوگ ودھیا” میںیہ بات لکھی ہے ہندو مذہب میں سورج کو خدا مان کر پوجا جاتاہے۔ کیونکہ سورن انسانوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور وہ توانائی سے بھرپور ہے۔ ” اوم ساوتر نما” اس کے معنی اے دنیا کے بنانے والے میں تجھے نمن کرتاہوں، سورج کو دنیا کا بنانے والا تسلیم کیا جاتاہے۔

                سورج کے سامنے نمن کے طریقے کو یوگا کہا جاتاہے ۔ جس سے بقول راجیو جین احساسات‘ روح‘ خیالات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے اور انسان کو مکتی ملتی ہے۔ بھگوت گیتا کے چھٹے باب میں یوگا کا خاص کر ذکر ہے۔ گیتا دراصل کرشن کے بیانات کا مجموعہ ہے۔ ارجن کو کرشن یوگا کی فلاسفی سمجھاتاہے۔ اُسے اختیار کرنے کی ترغیب دیتاہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی بھی یوگا کے حامی رہے۔وہ دانش مندی ‘روح کی بالیدگی اور جسم کی مکتی کے قائل ہیں۔ ان تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یوگا ایک طریقۂ عبادت ہے نہ کہ کوئی ورزش و کسرت کا عمل ۔ مسلمانوں کو قرآن حکم دیتاہے کہ :

’’وَ مِنْ آیٰتِہِ الَّیْلْ والنَّھَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُـ لَاتَسْجْدُوْالِلشَّمْسِ وَلَالِلْقَمَرِ وَاسْجدُوْالِلّٰہِ اَلّذِی خَلَقَھُنَّ اِنْ کُنْتُمْ اِیّاہ‘ تَعْبُدُوْن ـ (حٰم سجدہ: 37)

(اللہ کی نشانیوں میںسے ہیں یہ رات اوردن اور سورج اور چاند۔سورج اورچاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔)

                مخلوق کے سامنے جھکنے کے بجائے ان کے خالق کے سامنے جھکنے کا حکم دیا جارہاہے۔ طلوع و غروبِ آفتاب اور نصف النہار کے وقت سجدہ کی اجازت مسلمانوں کو نہیں ہے یعنی وہ اپنی نماز و سجدہ بھی ان اوقات میں نہیں کرسکتے تو سورج کونمن کیسے کرسکتے ہیں۔ مسلمان اِسے شرک مانتاہے۔ عمرو بن عبسہؓ کی روایت امام مسلمؒ لائے ہیں جس میں طلوع‘ غروب اور نصف النہار کے اوقات میں نماز پڑھنے سے محمد رسول ﷺ نے انہیں روکا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سوریہ نمسکار چھوڑ کر یوگا کیا جائے صحت کے لئے اچھا ہوتاہے۔ سوریہ نمسکار چھوڑ کر یوگا کیا جائے تو یہ ایک قوم کے طریقۂ عبادت کی نقّالی ہوگی اور تشبّہ  بقوم میں شمار کی جائیگی۔ محمدرسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہے‘‘۔

                صحت کے لئے 4% والی الکحل بیئر فائدہ مند ہے کیا ہم اُسے استعمال کرسکتے ہیں ؟ صحت کے ساتھ اسلام اخلاق کے اچھے ہونے پر بھی زور دیتاہے۔ صرف اچھی صحت کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ مسلمانوں نے اپنے دور میں نماز و روزہ جو اچھی صحت کے لئے آسان نسخے ہیں کبھی اپنی غیر مسلم عوام کے لئے لازمی قرار نہیں دیا۔ موجودہ حکومت نے 21؍ جون جوہیڈیگوار سے متعلق خاص د ن ہے اُسے دنیا پر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔ اسکولوں‘ اسپتالوں‘ جیلوں سرکاری دفاتر میں یوگا کروایا گیا اسکول میں نہ جانے کتنے مسلم‘ عیسائی ‘پارسی‘دلت‘ سکھ بچّوں نے اُسے کیاہوگا۔ دوسروں کو چھوڑدیجئے کیا مسلم بچّے جنہیں ابھی خدا کا شعور نہیں ہے غیر خدا کی پرستش کرنے لگ جائیں گے۔ اور بڑے ہو کر شعوری راہ اختیار کرینگے۔ اگر یہ یوں ہی چلتا رہاتو آئندہ 100؍ سال کے فاصلے پر ہم اورہماری نسلیں کہاں ہوں گی پتہ نہیں۔ حضرت یعقوب ؑ جب موت سے قریب تھے تواپنے کنبے کے لوگوں کو جمع کیا ‘کہا۔

                اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ المْوتُ ـ اِذْ قَالَ لِبَنِْیہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ ـقَالُوْانَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ آبَآیِکَ اِبْرٰھِمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰہاً وَّاحِداً وَنَحنُ لَہُ مُسْلِموْنْ ـ (البقرۃ: 133)

                (جب یعقوب ؑ دنیا سے جارہے تھے انہوں نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا : بچّو میرے بعد تم کس کی بندگی کروگے۔ ان سب نے جواب دیا۔ ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جیسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیمؑ ‘ اسماعیلؑ اور اسحاقؑ نے خدا مانا تھا اور ہم اسی کے مسلم ہیں‘‘۔)

                یہاں ایک باپ کو مستقبل میں اپنے بچّوں کی فکر کیاہے؟ کھانے‘ کمانے‘ تعلیم‘ منصب‘گھر ‘ کاروبار کی نہیں۔ صرف اور صرف یہ کہ میری اولاد اس مشن پر زندہ رہے جس پر میں چل رہا ہوں۔ جب بچّوں نے کہا ہم اسی خدا کو مانے گے جس کی پرستش آپ اور آپ کے آباء و اجداد کرتے رہے‘ اس وقت انہیں سکون سے موت آئی۔ ہم اپنے بچّوں کے بارے میں کتنے فکر مند ہیں؟ حضرت لقمانؑ اپنے بیٹے کونصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

وَاِذْقَالَ لُقْمٰنْ لِابْنِہِ وَھْوَ یَعِظُہ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِک باللّٰہِ ـ اِنَّ الشِّرکَ لَظُلْمُ عَظِیمُ ـ (سورۃ لقمان : 13)

(یادکرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کررہاتھا تو اس نے کہا ‘ بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ‘ حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔)

یہاں بھی حضرت لقمان اپنے بیٹے کو شرک سے روک رہے ہیں۔ حضرت یعقوبؑ اپنے بچّوں کو توحید کی تعلیم یاد دلارہے ہیں اور یہاں شرک سے روکا جارہاہے۔ اپنی نسلوں کو مسلمان رکھنے کے لئے یہ دو قرآنی واقعات میں باپوں کا عمل ہے۔ ہمیں کس کی فکر کرنی چاہئے اس پر اُمّت کو غور و فکر کرکے اقدامی فیصلوں پر آنا ہی ہو گا۔

ایمان کی سلامتی____

                عالمی منظر نامہ ہمیں بتلا رہا ہے کہ مسلمانوں کی جان و مال‘ عزّت و آبرو ‘قتل و غارت گری کی نذر ہورہی ہیںاور ملکی منظر نامہ ہمیں اپنے ایمان کے دفاع پر مجبور کررہاہے۔ عام انسان اپنی جان بچانے کے لئے ایمان داؤ پر لگاتے ہیں لیکن مسلمانوں کا تاریخی کردار رہا ہے وہ اپنے ایمان کے لئے جان قربان کرتے ہیں۔ اصحابِ کہف اور اصحابِ اخدود کے واقعات ہمیں بتلاتے ہیں ایمان کے تحفّظ کے لئے کیا کیا جاسکتاہے۔ ’’ہم اُن کا اصل قصّہ تمہیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے اُن کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کردئے جب وہ اُٹھے اور انہوں نے یہ اعلان کر دیاکہ’’ہمارا ربّ تو بس وہی ہے‘ جو آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے ہم اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جابات کریںگے‘‘(پھر انہوںنے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) ، یہ ہماری قوم تو ربِّ کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ اُن کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوںنہیں لاتے؟ آخر اُس شخص سے بڑھ کر بڑا ظالم اور کون ہو سکتاہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ اب جب کہ تم ان سے اوران کے معبودانِ غیراللہ سے بے تعلق ہوچکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا ربّ تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لئے سامان مہیّا کردیگا‘‘۔ (سورۃ الکہف: 13-16)

                اصحابِ کہف نے ایمان کی سلامتی کے لئے غاروں میں چلے جانا پسند کیا وہ اس وقت کی سب سے بہتر پالیسی و حکمت عملی تھی لیکن آج ایمان کی سلامتی کے لئے میدانوں میں آنا ضروری ہے یہ آج کی حکمت عملی ہوگی۔ کھڑے ہونا‘ ہمّت و حوصلوں سے مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ ایک دوسرے واقعہ میں ایمان کے تحفّظ کے لئے جان کی بازی کو لگا دینا عین کامیابی ہے۔

                ’’مارے گئے گڑھے والے جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔  جب کہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اُسے دیکھ رہے تھے اور ان اہلِ ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات آپ محمود ہے‘ جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔‘‘ (سورۃ البروج:4 – 9)

                مفسرین نے یہاں ایک عورت کاذکر بھی کیا ہے جس کے ہاتھوں میں دودھ پیتا بچّہ تھا۔ بچّے کی وجہ سے وہ کچھ ججھک محسوس کر رہی تھی۔ تاریخ انسانی میںیہ دوسرا بچّہ ہے حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد جس نے بچپن میں کلام کیا ۔ کہا ماں کیا دیکھتی ہے۔ توحق پر اس میں کود جا۔ وہ عورت بچّے سمت اس آگ کے الاؤ میں کود گئی لیکن اپنے ایمان سے دستبرداری اُسے منظور نہ تھی۔ ایمان کے لئے جان کے سودے ایسی زندہ تاریخ ہے جس سے زندگی میں تازگی آتی ہے۔ سرسبز و شادابی کا عنوان بنتی ہے‘ کامیابی و کامرانی کی ضمانت بن جاتی ہے۔

وندے ماترم و سرسوتی وندنا____

بنکم چندر چٹرجی کے ناول آنند مٹھ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو عام کرنے کے لئے سنسکرت و بنگالی میں نظم لکھی گئی ہے جسے وندے ماترم کہا جاتاہے۔جس میں زمین کی بھکتی و وندنا کی بات کہی گئی ہے۔ مسلمان خدا کے سوا کسی کی بھی وندنا نہیں کرسکتا ہے۔ خدا کے علاوہ کسی کے سامنے جھک نہیں سکتا اگرجھکتا ہے تو یہ شرک مانا جاتاہے۔ جسے قرآن کے تقریباًہر صفحے پر ممنوع قرار دیاگیاہے۔

قُلْ تَعَالَوْ ا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِ کُوْ ا بِہِ شَیْئاً ـ (سورہ انعام : 151)

(اے نبیﷺ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے ربّ نے تم پر کیا حرام کیا ہے یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔)

                ایسی نہ جانے کتنی آیات میں مسلمانوں کو شرک سے بچے رہنے کا حکم دیا گیاہے۔ تو مسلمان کیسے وندے ماترم اور سرسوتی وندنا کر سکتے ہیں۔ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے یوپی حکومت کے وندے ماترم کو اسکولوں میں لازمی کئے جانے کے بعد یہ کہا تھا کہ ’’ہم مسلمان اپنے بچّوں کو اسکولوں سے نکال لیں گے لیکن شرکیہ کلمات نہیں کہینگے‘‘۔ اس پر یوپی حکومت نے اس وقت اپنے حکم نامے سے رجوع کرلیا تھا۔

                اس وقت راجستھان سرکار نے سرسوتی وندنا ‘ یوگا‘ سوریہ نمسکار‘ گیتا پاٹھ کو لازمی قرار دیاہے۔اس پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بڑے سخت لہجہ میں اُسے اختیار نہ کرنے کا اعلان کیاہے۔ اس کے بعد حکومت نے اُسے ذرا ہلکا کیا ہے، اسی کے دوسرے دن مرکزی حکومت کی وزارتِ تعلیم نے 500؍ کروڑ روپئے کا بجٹ یوگا کے لئے طے کر دیا ہے۔ ڈگری  و  ڈپلومہ کورسس کو جاری کرنے، نیزیوگا ٹیچرس کی ایک فوج بنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ یوگا ٹیچر ہر اسکول و کالج میں متعین کئے جائیں گے اور بالخصوص مسلمانو ں کے ایمان کی آزمائش ہوتی رہے گی۔(جاری)

٭٭٭٭

(قسط سوم)

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *