عدل و انصاف قرآن و حدیث کی روشنی میں

                اللہ ربّ العزّت نے ساری دنیا کو وجود بخشا اور اپنی مخلوقات میں انسان کو اشرف المخلوق بنایا پھر اسے خلافت کے منصب سے سرفراز فرمایا، جیسا کہ اللہ رب العزّت نے ارشاد فرمایا، انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرہ) تاکہ وہ اللہ کے احکام کو اللہ کی زمین پر نافذ کرے، خالق کائنات نے انسان کے کچھ ایسے پہلوؤں کا ذکر فرمایا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان جنگ و جدال میں آگے بڑھ جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے وکان الانسان اکثر شیء جدلا (الکھف ۵۴) بسا اوقات انسان اپنی خواہشات اور جذبات کے سامنے کمزور پڑ جاتا ہے جیسا کہ اس کا اظہار قرآن کریم میں اس طرح کیا گیا ہے خلق الانسان ضعیفا (النسائ۲۸) اسلام جو آخری مذہب ہے وہ انسانوں کے لئے ہر حیثیت سے مکمل ہے، اور گم گشتہ راہ کی اصلاح کے لئے کافی ہے خواہ وہ جنگ و جدال کا مسئلہ ہو یا نفرت و شقاوت کا، اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دے کر اسے تقویٰ سے زیادہ قریب فرمایا ہے۔ اعدلو ہو اقرب للتقویٰ (القرآن) اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والے قیامت کے دن نورانی ممبروں پر فائز ہوں گے، مشہور صحابی حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ اپنی زندگی کا ایک دِن قضا کے مشغلہ میں گذاردوں ، وہ ایک دِن مجھے ستر برس کی عبادتوں سے زیادہ محبوب ہے، عدل الیوم افضل من عبادۃ سبعین سنۃ، قیام عدل و قضا کی اہمیت کی اصل وجہ یہ ہے کہ خود کار قضا بے حد اہم اور ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ قضا کے اس اہم فریضہ کوتاحیات خود نبی کریم ﷺ انجام دیتے رہے، حضور اکرم ﷺ حق تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر فائز کئے گئے تھے، اور اہل ایمان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے جملہ تنازعات میں حضور ﷺ کو ہی حاکم و قاضی مانیں، اور ان کے فیصلوں کو برضاورغبت قبول کرتے ہوئے ان کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کریں ورنہ ایمان باقی نہیں رہے گا ۔ فلاوربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدو فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما (القرآن) چنانچہ خاندان مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی ،قریش نے چاہا کہ وہ حد سے بچ جائے، انہوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓ سے جو رسول اللہ ﷺ کے محبوب خاص تھے، ان سے درخواست کی کہ آپ سفارش کیجئے، تاکہ وہ حد سے بچ جائے، حضرت اسامہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے سفارش کی ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم حد میں سفارش کرتے ہو تم سے پہلے لوگ (بنی اسرائیل) اسی سبب سے تباہ ہوئے کہ وہ غریبوں پر حد جاری کرتے اور امیروں کو چھوڑ دیتے، خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی ایسا کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ (لو سرقت فاطمۃ بنت محمد لقطعت یدہا) صحیح بخاری ۲/۴۶۸) بعد میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے افراد بھی تیار کئے جو اس فریضہ محکم کی ادائیگی کے اہل ہوں، چنانچہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خود عہد نبویؐ میں منصب قضا کی ذمہ داریاں انجام دیں، چنانچہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تو انہوں نے اپنی کم عمری کا عذر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان اللہ عز و جل سیھدی قلبک وثبت لسانک، اللہ رب العزت تیرے دِل کی رہنمائی فرمائے گا اور تیری زبان کو قوت بخشے گا، سیدنا حضرت علی رضی اللہ فطری ذکاوت اور فطانت اور امور قضا میں غیر معمولی بصیرت کے مالک تھے، یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے اس جوہر کا ان الفاظ میں اعتراف فرمایا لولا علی لھلک عمر ، اگر علی نہیں ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا، عہد نبویؐ میں نبی کریم ﷺ جب کسی کو کسی حلقہ کا قاضی مقرر فرماتے تو ان کا نٹر ویو خود لیتے، حضرت معاذ بن جبل ؓ اصحاب افتاء و قضا کے لئے نمونہ ہیں۔ کار قضا کی صلاحیت کے لئے اللہ کے رسول ﷺ نے خود ان سے سوال کیا، اور سوال کیا کہ تم کیسے فیصلہ کروگے؟ سیدنا حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کتاب اللہ و سنت رسول سے اور ان دونوں میں نہیں ملے تو میں اجتہاد کروں گا، اور کوئی کوتاہی نہیں کروں گا اس کے بعد رسول اللہ ﷺنے انہیں یمن کا قاضی مقرر فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بھی یمن کا قاضی بناکر بھیجا گیا، خود خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی عہد نبویؐ میں کارقضا انجام دیتے تھے، اسی طرح سیدنا ابی بن کعب، زید بن ثابتؓ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ بھی عہد نبویؐ کے قضاۃ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ حضور اکرم ؐ ﷺ نے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کو بھی بعض مقدمات کے فیصلہ کرنے کا حکم دیا تو حضرت معقل بن یسارؓ نے معذرت کی کہ میں کار قضا انجام دینے کے لائق نہیں ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ قاضی کے ساتھ ہے جب تک وہ جان بوجھ کر ظلم نہ کرے (رواہ احمد بن حنبل فی المسند) ،معاشرہ خواہ کوئی بھی ہو اس معاشرہ کے افراد کے درمیان زندگی کے تمام میدانوں اور تمام ضروریات میں ایک دوسرے کا تعاون اور مدد کرنے کا اصول پایا جاتا ہے۔ اگر یہ اصول ان کے درمیان عدل و مساوات کے میزان پر قائم ہو تو وہ معاشرہ عدل پر اور بہتر ہوگا، اور اگر اس کی بنیاد ظلم و جبر پر ہو تو وہ معاشرہ ظالم اور غیر متوازن ہوگا، اگر معاشرے کے افراد کے درمیان اخوت و محبت اور بھائی چارگی مفقود ہو تو حاکم وقت کے لئے ان کے درمیان عدل کے اصولوں کا نفاذ کسی صورت میں ممکن نہیں، بلکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ اصول ان افراد کے درمیان بغض و نفرت ظاہر کرتے ہیں۔ اس لئے حضرت محمد ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کو اس عدل اجتماعی کے اصولوں کی بنیاد بنایا، جس کے نفاذ پر دنیا کا سب سے عظیم اور بے مثال عدل و انصاف کا نظام وجود میں آیا، اسی عدل و انصاف کے اصولوں نے بعد میں ترقی کرکے لازمی شرعی احکام و قوانین کی شکل اختیار کر لی اگر یہ عظیم اخوت و ہمدردی نہ ہوتی تو اسلامی معاشرے کو تقویت پہونچانے اور اس کی بنیادوں کو مستحکم کرنے میں ان اصولوں کا کوئی عمل اور مثبت اثر نہ ہوتا۔ یاد رکھئے کہ عدل و انصاف اسلامی نظام کا بنیادی اصول ہے، جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا  ان اللّٰہ یامر بالعدل والاحسان (النحل ۹۰) کہ بے شک اللہ جل شانہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے اس آیت کی ایسی اہمیت ہے کہ پوری دنیا کی مسجدوں میں ائمہ اور خطباء جمعہ کے خطبہ میں پڑھتے ہیں، نیز دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل (النساء ،۵۸) اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ کتاب و سنت کے فیصلوں کا واجب التسلیم ہونا مادی حکومت و طاقت پر موقوف نہیں، بلکہ اس کا اندورنی ایمان اور آخرت کی فکر مجبور کرے گی کہ وہ اللہ کے احکام پر عمل کرے اگر کوئی خارجی رکاوٹ اسے اللہ کے حکم پر عمل کرنے سے روکے گی تو وہ ان مواقع کو اپنے بس بھر دور کرنے کی کوشش کرے گا، یہی وجہ ہے کہ جہاں قرآن کریم میں یہ کہا گیا فان تنازعتم فی شی فردوہ الی اللہ والرسول یعنی اگر کسی معاملے میں تمہارے درمیان باہم تنازعہ پیدا ہو تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کے پاس لے جاؤ۔ وہیں آگے کہہ دیا ان کنتم تؤمنون باللہ والیوم الاخر۔اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دِن پر یقین رکھتے ہو اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ ہمارے ایمان و یقین کا تقاضہ ہے کہ ہم کتاب و سنت ہی کو معمول بنائیں اور اپنی زندگی پر کتاب و سنت کے مطابق نافذ کریں، اسی میں ہماری فلاح و کامرانی ہے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *