ہم عرصۂ محشر میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

         اس وقت پوری مسلم دنیا مشکلات و مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ جہاں بظاہر مسلمانوں کا اقتدار ہے اور وہ ایک آزاد اور خود مختار حیثیت رکھتے ہیں وہاں بھی افسوس ناک حالات سے دوچار ہیں۔ یا تو وہ خود ہی باہم دست و گریباں ہیں یا مغربی استعمار کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جو ان کے اسباب و وسائل اور وقار و مفاد پر پنجے جمائے ہوئے ہے، مسلمانوں کا عروج اور ان کی عظمت رفتہ ایک قصۂ پارینہ نظر آتی ہے جس کے حصول کی تمنا محض ایک تمنا بن کر رہ گئی ہے۔ چند ممالک ایسے ہیں جہاں اسلام کے احیا ء کے آثار نمایاں تھے لیکن اُن کے بے ضمیر حکمرانوں کی چپقلش نے اُس کو بھی ناممکن یا کم سے کم محال بناکر رکھ دیا ہے۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہے کہ اسلام آج بھی بالقوۃ ایک عالمی نظام کی قیادت کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔اس حقیقت کا اعتراف اس کے دوستوں کو ہی نہیں اس کے دشمنوں کو بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کے بحیثیت ایک نظامِ زندگی قائم ہونے کی مخالفت میں ایڑی سے چوٹی تک زور لگا رہے ہیں اور اُس کی ایک مسخ شدہ تصویر کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو اسلام کے خلاف اس تشہیری جنگ (Propeganda War)کی ضرورت ہی کیا تھی جس کے نتیجہ میں اسلام دشمنی ایک قدر مشترک بنا کر رکھ دی گئی ہے۔ لیکن سطورِ ذیل میں ہم اپنی معروضات کو ہندوستان (بھارت) ،پاکستان اور بنگلہ دیش کے تناظر تک محدود رکھ رہے ہیں۔

          آج کے ہندوستان میں جسے بھارت کہا جاتا ہے ،مسلم آبادی ایک قابل ذکر تناسب میں موجود ہے۔ اگر مسلمانوں کی آبادی کو دیگر اقلیتوں (عیسائیوں، سکھوں، بودھوں اور پارسیوں) کے ساتھ شامل کرکے دیکھا جائے تو یہ یہاں کی کل آبادی کے پچیس فیصد تک پہنچتا ہے۔ ہندوستان کے پسماندہ طبقات (SC, ST, BC)کو علیحدہ علیحدہ رکھا جائے اور جمہوری ملک کے انتخابی عمل میں دیانت داری سے اس کی اہمیت تسلیم کی جائے تو ان کی سیاسی قدر و قیمت کو اچھی طرح محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان تینوں پڑوسی ملکوں کی مسلم آبادی دنیا کی ساری مسلم آبادی کا ایک تہائی حصہ بنتی ہے۔ اس طرح بھی یہاں کے مسلمانوں کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتااور دستوری طور پر دوسری اقلیتوں کی طرح مسلمانوں کے سیاسی وزن کا انکار بھی ممکن نہیں ہے۔ مسلم دنیا سے بھارت کے خوشگوار اور دوستانہ تعلقات ،سیاسی استحکام اور اقتصادی ارتقاء کے لئے بھی مسلمان بالخصوص پڑوسی ملکوں (بنگلہ دیش، پاکستان ، افغانستان اور ایران)سے بھارت کے بہتر تعلقات ضروری ہیں۔

۔        غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی بالادستی ایک ہزار سال کے عرصہ پر محیط رہی ہے ۔ اس پورے دور میں عوام کے فرقہ وارانہ تعلقات کی خوشگواری کی مثال دی جا سکتی ہے ۔جو تقسیم ملک کے پہلے اور بعد کے حالات سے کہیں زیادہ بہتر تھے ۔فرقہ وارانہ کشیدگی اور تصادم برٹش عہد کی دین ہے جس میں اضافہ خود کو دیش بھگت اور قوم پرست کہلانے والے کر رہے ہیں۔ آج بھی اگر بڑے بڑے شہروں کاجائزہ لیا جائے تو ان بستیوں اور محلوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جہاں صدیوں مسلمان اور غیر مسلم اچھے پڑوسی،ہمدرد اور ایک دوسرے کے دوست بن کر رہتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ وارانہ تصادم کو ایک سیاسی ضرورت کا درجہ دینے والی تنظیموں نے منظم جدوجہد کے ذریعہ فرقہ وارانہ تعصب اور منافرت کی فصل بوئی اور سو سال کی مشقت کے بعد آج اسے کاٹا جا رہا ہے۔ انگریزوں نے تاریخ کے نام پر ایسے واقعات کو تلاش کیا اور تراش خراش کے ساتھ ان کو پیش کیا جو ان کی سیاسی ضرورت میں کام آنے والے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد ہندو قوم پرستی کے علمبرداروں نے اس برطانوی میراث کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ اس میں من چاہے اضافے بھی کئے اور اقتدار کے زیر سایہ تاریخ گڑھنے کے ادارے قائم کئے گئے۔ اور ایسے لوگوں کو مؤرخ اور محقق کے طور پر پیش کیا گیا جو اس علم سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے بلکہ اس کے ماتھے کا کلنک ہیں۔ انہوں نے جھوٹ بولا اور جھوٹ میں اضافہ کیا۔ میڈیا کے ایک حصہ نے ہندو فرقہ پرست تنظیموں کے اس جھوٹ کو فروغ دینے میں پورا زور لگا دیا۔ ایسے اسکولی نصاب تیار کئے گئے جن میں بحیثیت قوم مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کی کردار کشی کی گئی۔ انہیں ایک حملہ آور قوم کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور بے بنیاد الزام تراشیوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھارت میں پائی جانے والی ہر برائی ،ہر خرابی اور ہر زیادتی کی وجہ صرف اور صرف مسلمان ہیں۔ حالانکہ صرف چند حکمراں ایسے ہیں جنہیں حملہ آور کہا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ان آریہ حملہ آوروں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جوہندوستان کے قدیم باشندوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ہندوستان کے ایک بڑے حصہ پر اپنا قبضہ جما لیا اور انہیں جنوبی یا مشرقی ساحلوں ،صحراؤں اور پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ آج بھی ان کی پہچان غیر آریہ ،قدیم ہندوستانی باشندوں کی حیثیت سے باقی ہے۔ انہیں حقارت کے طور پر شودر اور ملیچھ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور جنہیں آریوں کی مذہبی کتابوں میں دسیوں ، داس (غلام) کہا گیا ہے۔

         یہ ہندوستان ہے جس کو متحد کرنے ،متحد رکھنے ،اس کو ترقی دینے ، اس کی حفاظت کرنے اور آزادی دلانے میں مسلمانوں کا حصہ کسی بھی دوسرے فرقہ یا قوم سے زیادہ ہے۔ مگر آج ایک سیکولر اور جمہوری ہندوستان میں وہ کہاں کھڑے ہیں اور کہاں لاکر کھڑے کر دئیے گئے ہیں؟ یہ جاننے اور بتانے کے لئے ہمیں اپنے طور پر کام کرنا چاہئے تھا مگر افسوس کہ ہم فی الجملہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے سے قاصر رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بقول مولانا حسرت موہانی مرحوم ـ   ؎

ع۔        غیر کی جدو جہدپر تکیہ نہ کر کہ ہے گناہ        کوشش ذات خاص پر ناز کر اعتماد کر

        بر سبیل تنزل اپنی کہانی آپ نہ کہہ کر دوسروں کی زبانی سننا چاہیں تو سچر کمیٹی ، لبراہن کمیشن اور جسٹس راما کرشنا رپورٹ جیسی دستاویزات ایک حد تک کافی ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہم پسماندگی اور امتیاز ی سلوک برداشت کرنے والوں کی کس قطار میں لاکر کھڑے کر دئیے گئے ہیں اور کس درجہ محرومی میں مبتلا ہیں؟ یہ کس جرم کی سزا دی گئی ہے ؟ ایسے اہم سوالوں پر آکر بھی ہماری داستانِ مظلومیت پوری نہیں ہو جاتی ۔ بجا طور پر ہمیں یہ بھی تشویش ہے کہ بظاہر جو کچھ ہمارے پاس محفوظ ہے وہ بھی درحقیقت محفوظ نہیں ہے۔ کسی بات اور کسی مطالبہ کو ناقابل قبول ٹھہرانے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ بات ہم کہہ رہے ہیں اور وہ مطالبہ ہم کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے سیکولر سیاست دانوں کی موقع پرستی آڑے آتی ہے۔ جہاں سیاسی مفاد کی ترازو میں ہر چیز کو تولا جاتا ہے۔ اس کے بعد تعصب و نفرت پر قائم ہونے والی ہندو قوم پرست تنظیمیں اور وہ بازاری میڈیا ہے جو اپنے منصب کا خیال کئے بغیر جس کا کھاتا ہے اس کا گاتا ہے۔ گزشتہ دنوں پارلیمانی انتخاب میں جو تماشہ ہوا وہ سب نے دیکھا ہے۔ حتی کے بر سراقتدار میں آنے والے ایک سیاسی لیڈر اور سابق فوجی رہنما بھی یہ کہنے سے بعض نہ رہ سکا کہ ہمارا میڈیا تو طوائف (Prostitute)ہے۔ یعنی جو دیتا ہے اسی کے لئے ناچتا ہے۔ ان حالات کو مزید خراب کرنے اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے والی وہ سیاسی اور سماجی تنظیمیں ہیں جن کا وجود ہی مسلم دشمنی اور فرقہ وارانہ تعصب پر قائم ہے۔ جو بار بار کے تجربہ سے ثابت کر چکے ہیں کہ اگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنا نشانہ نہ بنائیں ،انہیں ڈرائیں دھمکائیں نہیں ،ان کے جان و مال کے دشمن نہ ہوں تو پھر اور کیا کریں؟ یعنی کیا اس کام کو چھوڑ دیں جس کے لئے وجود میں آئے ہیں؟ اور پھر کیا اس طرح وہ اپنے وجود کو آپ ہی ختم کر دیں؟ مسلم دشمنی کے اس کاروبار کو فروغ دینے میں انتظامیہ کا وہ بڑا حصہ بھی مجرمانہ کردار کا حامل ہے جو فرقہ پرستانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کی انتظامی صلاحیتوں کا دعویدار یہ طبقہ اپنی ساری منصبی دیانت کو فراموش کر دیتا ہے۔ کیونکہ ان کی ذہن سازی انہیں عناصر نے کی ہے جن کے یہاں انصاف، قانون اور اس کے تقاضوں کی تعریفات حسب منشاء بدلتی رہتی ہیں۔ جب آگ بجھانے والے ہی پانی کی جگہ تیل ڈالنے والے ہوں تو وہی نتائج برآمد ہوں گے جن کا سامنا ہندوستانی مسلمانوں کو کرنا پڑتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے المیہ نے ان عناصر کی پوری طرح نشاندہی کر دی ہے ۔ پھر بھی کوئی نہ سمجھے تو اس کی بصارت کے ساتھ بصیرت کا بھی شکوہ لازم آتا ہے۔

         عام طور پر یہ تأثر بھی دیا جاتا ہے کہ جو ظلم و زیادتی ،بے انصافی اور جانب داری مسلمانوں کے ساتھ برتی جارہی ہے وہ بعض لوگوں کا انفرادی اور اتفاقی رویہ ہے جس کے لئے حکومت یا کسی فرقہ کو مورید الزام یا جوابدہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ سطحی طور پر دیکھا جائے تو اس بات میں وزن محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی فرقہ کے ہر فرد کو اس ظلم و زیادتی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ دیا جانا چاہئے، لیکن یہ خیال اس وقت کیوں بدل جاتا ہے جب دوسروں کے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں۔ اور جب مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگاکر انہیں بدنام کیا جاتا ہے۔ کبھی بھی کسی قوم یا فرقہ کے سب لوگ کسی اجتماعی ظلم میں نہ تو شریک ہوتے ہیں اور نہ اسے پسند کرتے ہیں مگر جب ایک بڑی تعداد منظم ہو کر اپنے تائید و تعاون کے ساتھ کسی ظلم و زیادتی میں شریک ہوتی ہے اور اس کا دفاع کرتی ہے اور اسکی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوتی ہے تو ایسے روییّ کو کسی کا انفرادی فعل سمجھنا نا سمجھی ہی نہیں اس ظلم میں درجہ بدرجہ شریک ہونا بھی ہے۔ یہ اجتماعی بے ایمانی صدیوں تک یہاں کے پسماندہ طبقات کے ساتھ بھی ہوتی رہی ہے۔ جب انسان ہونے کے باوجود ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک رواں رکھا جاتا رہا اور اس کی تلقین مذہبی عقیدے کے طور پر بھی کی جاتی رہی ہے۔ انہیں تعلیم سے محروم رکھا گیا ،ان کی بستیاں الگ رکھی گئیں، ان کی صورت دیکھنا منحوس قرار دیا گیا ۔ آخر اس ظلم کو کس دلیل سے انفرادی و اتفاقی رویہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ آج ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ ۔۔۔۔۔ (جاری)

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *