امن کے نصف کی فکر کی فکر کون کریگا؟

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ مجوزہ عوامی بیداری مہم برائے اقلیتی حقوق کی تیاریوں کے دوران ایک اہم تشویشناک خبر 23/8/15کے تمام اخباروں میں جلی طور پر شائع ہوئی۔ جس میں ایک غیر معروف مبینہ مسلم خاتون تنظیم بی۔ایم۔ایم۔اے کے سروے کا تجزیہ شائع ہوا ہے۔ اخباروں کی سرخیاں ہی کچھ بتارہی ہیں کہ کھیل کیا ہے۔ مگر سروے میں بتائے گئے اہم حقائق کو سامنے رکھ کر ملت اسلامیہ ہند کو اپنا احتساب کرنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کی 10ریاستوں کی 4710مسلم خواتین کی آراء میں پایا گیا کہ 90%مسلم خواتین 3طلاق پر روک لگانے کی حامی ہیں۔ 88%مسلم خواتین قانونی عمل کے ذریعہ طلاق کی حامی ہیں۔ 92%مسلم خواتین نے کہا کہ دوسری شادی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ۔53.3%خواتین کی شادی 18سال سے کم عمر میں ہوئی اور گھریلو تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 75%خواتین چاہتی ہیں کہ لڑکی کی شادی کی عمر 18سال سے اوپر اور لڑکے کی 21سال سے اوپر ہونی چاہئے۔ 83.3%خواتین کا کہنا ہے کہ اسلامی قانون نافذ ہو تو ان کے خاندانی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو اس کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ (یہ بات صرف روزنامہ صحافت نے لکھی ہے ،ہندی ،انگریزی اخبارات اسلامی قوانین کے اطلاق کی مانگ کا ذکر نہیں کرتے) تعلیم کے میدان میں پسماندگی کا بھی ذکر ہے کہ 50%مسلم خواتین تعلیم یافتہ ہیں جبکہ ملکی اوسط 53%ہے مگر ڈگری یافتہ کی شرح میں زبردست فرق ہے جو کہ ملکی 37%کے مقابلہ میں محض 01%ہے۔ (ایجنسیاں ہندی ہندوستان ،نئی دہلی 23/8/15، روزنامہ صحافت نئی دہلی 22/8/15)
خواتین کے تعلق سے بھارتیہ مسلم معاشرہ خصوصاً شمالی ہند کے مسلمان معاشرہ کا رویہ تشویشناک بلکہ مجرمانہ حد تک لاپرواہی، تغافل اور شترمرغی ہے۔ کسی طرح زور زبردستی کرکے اپنی مرضی کے اسلام پر عمل کروا دینے کو دین پر عمل آوری سمجھ کر مطمئن ہیں۔ ایک طرف حصول تعلیم کے لئے بے روک ٹوک دوڑ لگی ہے ،مخلوط تعلیمی اداروں میں بے دھڑک بچیوں کو بھیجا جا رہا ہے۔ اپنے ادارہ قائم نہیں کئے جا رہے ہیں۔ پہلے سے قائم شدہ تعلیمی ادارہ مسلم اساتذہ کی عموماً فرائض سے لاپرواہی اور ادارہ جاتی سیاست وانتظامیہ کی آپسی رسّہ کشی کی نذر ہو گئے ہیں۔ بہت کم مسلم اداروں میں واقعتا تعلیمی ماحول ہے۔ دوسری طرف میڈیا اور تفریح کے دوسرے ذرائع خصوصاً ٹی وی سیریل ڈراموں اور فلمی میگزینوں ، ہندی، انگلش اور بڑی حد تک اردو اخباروں نے بھی خواتین میں بیداری کم گمراہی زیادہ پھیلانے کے ایجنڈہ پر عمل کر رکھا ہے۔ مگر سب سے زیادہ غفلت آمیز، خودکشی کے رجحان کا حامل مجرمانہ رویہ ہماری دینی قیادت کا ہے۔ مسلم خواتین کی ذہنی، فکری، اخلاقی اسلامی تربیت کا کوئی پروگرام عام طور پر مستقل بنیادوں پر ہمارے یہاں نہیں چلایا جاتا۔ جتنا کامیابی سے ہم نے خواتین کے مساجد میں داخلہ سے متعلق مختلف فیہ عدم اجازت کے فتویٰ پر عمل کرایا اتنی کامیابی سے مسلم خواتین کو بازاروں، سنیماگھروں، سیریلوں، عریانیت سے بھرپور لباس اور مخلوط تعلیم و مخلوط نوکریوں کے اثرات مہلکہ سے نہیں روک سکے۔ اہل مدارس کہتے ہیں سارے کام ہم کو تھوڑا کرنے ہیں، پرسنل لاء بورڈ کی خواتین ونگ کبھی کبھار اصلاح معاشرہ کے خواتین اجلاس منعقد کر لیتی ہیں۔ مسلم تعلیمی اداروں میں اردو کو سیکولر نصاب کے علاوہ دینیات کے نام پر شاید کچھ کرایا جاتا ہو مگر فکری تربیت جو امت کی تقریباً نصف آبادی یعنی 7کلچر (Consumerism)سے مقابلہ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
اسلام وہ دین ہے جو تمام انسانیت کے ہر طبقہ کے لئے انصاف اور بھلائی کا ضامن ہے اس کی تعلیمات پر اگر امت مسلمہ کا نصف ہی مطمئن نہ ہو اور اس میں تبدیلی ، ترمیم یا تنسیخ کی مانگ کر ے تو یہ امت غیر مسلمین کو کس فکر یا نظام کی طرف دعوت دے گی؟ پھر یہ دین ’’ھدیً للناس‘‘ اور یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ اللعالمین کیسے ہوں گے جو اپنے ماننے والوں کو ہی اپنی تعلیمات پر مطمئن نہ کر سکے؟؟ ہم جانتے ہیں کہ امتی باعث رسوائی پیغمبرؐ ہیں کے مصداق قصور ہمارا ہی ہے ،ہم خود ہی مجرم ہیں۔ ہم نے حالات کی سختی کے عذر کے ذریعہ کاہلی، ہزیمت اور کھاؤ پیو موج کرو کو مقصد بنا لیا۔ صبر و توکل کے نام پر بے عملی، سستی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ مذکورہ سروے رپورٹ کے بعد ہندوستانی میڈیا میں مختلف قسم کے رد عمل آرہے ہیں۔ جس میں پہلے سے حکومت کے پیش نظر دیرینہ مقصد یکساں سول کوڈ کے مطالبہ کو تقویت ملی وہیں اسلامی تعلیمات کو بھی نشانہ بناکر دل کے پھپھولے پھوڑنے کا بہترین موقع ہاتھ آگیا ہے۔ انڈین ایکسپریس میں ایک خط میں کہا گیا کہ حکومت کہتی تھی کہ ہم زبردستی یکساں سول کوڈ لاگو نہیں کریں گے۔ جب تک کہ خود فرقہ کے اندر سے اسکی مانگ نہ اٹھے۔ جبکہ 90-91%کی غالب ترین اکثریت سے خود مسلم خواتین ہی مانگ کر رہی ہیں تو اب یکساں سول کوڈ لاگو کرنے میں دیر کیوں کی جائے؟
پوری انسانیت کی بھلائی کی لئے جو نظام زندگی اللہ پاک نے دینِ اسلام کی صورت میںعطا کیا ہے اسی میں ترمیم اور تبدیلی ہوجائیگی تو انسانیت کی کامیابی کیسے ممکن ہے۔؟ عورت مرد کے درمیان واضح جسمانی، نفسیاتی، حیاتیاتی فرق کے باوجود یکساں ذمہ داری اور رول کے نظریہ سے کیا عورت کا یا انسانیت کا بھلا ہوا ہے؟ امریکہ ،یوروپ، مشرق کے ترقی یافتہ ممالک جہاں اسی غیر فطری نظریہ مساوات پر عمل ہوا جو معاشرہ وجود میں آیا کیا وہ بحیثیت مجموعی انسانیت کے لئے کامیابی یا بھلائی کا نمونہ ہے۔ جن معاشروں میں ایک سے زیادہ شادی کی اجازت نہیں ہے کیا اُن معاشروں میں غیر قانونی ،غیر اعلانیہ جسمانی تعلقات اور جسم فروشی کا بول بالا نہیں ہے؟ بظاہر ایک خاتون سے قانونی تعلق مگر حقیقتاً فرینڈشپ، Dating، ریڈلائٹ ایریا اور جسم فروشی کے بنیادی حق اور قانونی پیشہ مان لینے کی آڑ میں ان گنت خواتین سے ہوس کا تعلق بنانا ہی عورتوں اور انسانی معاشرہ کے استحکام کا سبب بن گیا ہے کیا؟ یہ صورت حال زیادہ باعزت ہے یا زیادہ سے زیادہ چار کے ساتھ (عدل کی شرط کے ساتھ) تعلق خواتین کے لئے زیادہ محفوظ اور باوقار ہے؟ ہمارے ملک کی حالیہ مردم شماری میں 65لاکھ خواتین غائب ہیں وہ کسی کی بیوی ہیں مگر اعلان نہیں ہو سکتا۔ یوروپ ،امریکہ اور ان کے نقلچی ممالک میں شرح طلاق کی رفتار کیا ہے؟ بھارت میں فیملی کورٹ میں التوا میں پڑے خوانگی جھگڑوں اور طلاق کی تعداد کیا ہے؟ غیر قانونی تعلقات سے پیدا ہونے والے بچوں کی بڑھتی تعداد کا مستقبل کیا ہے؟ ان کا سرپرست ،کفیل، وارث کون ہے؟ جس ہندو میرج ایکٹ کو سول کوڈ بنانے کی بات ہے اس سے چلنے والے معاشرہ میں طلاق کی شرح کیا مسلم پرسنل لاء سے چلنے والے معاشرہ سے کم ہے؟ قانونی پابندی کے باوجود ہندو/غیر مسلم سماج میں غیر قانونی تعدد ازدواج مسلم سماج سے زیادہ نہیں ہے؟ حالیہ مردم شماری کی رپورٹ اور اس سے پہلے کی رپورٹ چلّا چلّا کر بتا رہی ہیں کہ غیر مسلم معاشرہ میں تعدد ازدواج زیادہ ہے۔ فلموں اور برھمنی میڈیا میں طلاق جتنا آسان بتایا جاتا ہے وہ حقیقت ہوتی تو ½یا 1/3مسلم خواتین مطلقہ ہوتیں اور گھروں میں بیٹھی ہوتیں۔ کیا انسان اپنے خالق سے زیادہ اپنے آپ کو جانتا ہے کہ وہ اپنے لئے اللہ سے بہتر قانون بنا سکتا ہے ؟ رہی بات قوانین اور رعایتوں کے غلط استعمال کی ۔ وہ تو ہر قانون کے ساتھ ممکن ہے۔ جہیز مخالف قوانین، چھیڑ چھاڑ مخالف قوانین کیا ان سب کا غلط استعمال ہونے کے باوجود قوانین برقرار نہیں ہیں؟ قوانین پر مکمل عملدرآمد کے لئے اللہ کا ڈر اور اس کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے یہ کام پورے مسلم معاشرہ کو اس کے ہر ادارہ کو لازماً کر نا ہوگا۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *