آخری تحفہ

احد کا میدان شہیدوں کے خون سے رنگین تھا۔ دور دور تک حضورؐ کے جاں نثار ساتھی اپنے خون میں نہائے پڑے تھے اور خاموش کھڑے حضورؐ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ۱۵ سال کی محنت کے بعد جو چمن انہوں نے سر سبز کیا تھا۔ آج اسے مسل دیا گیاتھا اور مسلے ہوئے پھول دو دوقدم کے فاصلے پر پڑے ہوئے تھے۔

کیسا سکون تھا ان کے چہروں پر۔ وہ کچھ لوگ جو اپنا دیس چھوڑ کر اس پر دیس میں آپڑے اور پھر اس یثرب بستی کے باسیوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ پھر ایسا بھائی چارہ ہوا ان میں کہ سچے (سگے)بھائیوں میں بھی ایسا پیار شاید کسی نے دیکھا ہو۔۔۔ اور آج ان مہاجر اور انصاریوں کی ایک دوسرے پر لپٹی لاشیں اس بھائی چارے کا کیسا انوکھا ثبوت تھیں۔
شہیدوں کے چہروں پر نظر ڈالتے ہوئے حضورؐ ایک جگہ رک گئے اور دیکھتے ہی رہ گئے انکے پیارے چچا حمزہؓ مٹی اور خون میں لتھڑے ہوئے تھے۔
کافروں نے ان کے ناک کان کاٹ دئیے تھے، ان کاسینہ چیر کر دل نکال لیا تھا لیکن پھر بھی ان کے چہرے پر کیا دبدبہ تھا جیسے کوئی زخمی شیر سو رہاہو۔
’’آہ حمزہؓ۔۔۔‘‘ ایک ٹھنڈی سانس حضورؐ نے لی اور اپنے پیارے چچا کی ہمدردیوں کو یاد کرکے ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ مکہ میں حمزہؓ کا کیا دبدبہ تھا۔ حمزہ کو سب ’’شیر عرب‘‘ کہتے تھے اور ایک روز جب اپنے بھتیجے کے سر سے خون بہتا دیکھا تو ان کا پتھر دل بھی پگھل گیا تھا ۔ اللہ کے لیے میرے بھتیجے کو کتنے دکھ برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ کیا وہ لاوارث ہے؟ کیا کوئی اس کا سرپرست نہیں۔۔‘؟ اور یہی غیرت انہیں اسلام میں لے آئی اور پھر کیسا ساتھ نبھایا اس شیر دل چچا نے ابی طالب کی گھاٹی میں تین سال بھوکے پیاسے رہے۔ بھتیجے نے وطن چھوڑا تو خود بھی چلے آئے۔
زندگی اور حرارت سے بھر پور حمزہؓ۔۔۔۔ شجاعت اور غیرت کی تصویر حمزہؓ۔۔۔ آج اس حال میں پڑے تھے۔۔۔۔۔ایک شیر کو دھوکے سے مار کر مکے والوں نے کیسا سلوک کیا تھا حمزہؓ کے ساتھ۔
حضورؐ کا دل بھر آیا۔ آنسوؤں میں ڈوبی آواز میں پکار کر آپؐ نے کہا:
’’آہ چچا ۔۔۔۔میرے چچا۔۔۔۔۔۔ ایک دن میں ضرور انتقام لوں گا آپ کا۔۔۔آپ عرب کی آن تھے چچا۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے ستر آدمی بھی آپ کا بدلہ نہیںہو سکتے میرے چچا۔۔۔‘‘
حمزہؓ کا جسم دیکھانہیں جاتا تھا تو آپؐ نے چادر سے انہیں ڈھانک دیا۔
’’سنو زبیر۔۔۔۔۔‘‘ آپؐ نے ان کے بھانجے سے کہا
’’امی آئیں تو یہ منظر انہیں دیکھنے مت دینا، سگے بھائی کا یہ حشر دیکھ کر ایک شفیق بہن کا دل ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ میری پھوپھی صفیہ یہ سب برداشت نہ کر پائیں گی زبیر!‘‘
زبیرؓ نے دیکھا۔ امی تیزی سے چلی آرہی تھیں۔ اپنے بھائی کو الوداع کہنے کے لیے۔ آخری بار اپنے بھائی کا چہرہ آنکھوں میںبھر لینے کے لیے۔
’’نہیں امی۔۔۔‘‘زبیرؓ آگے بڑھ آئے۔
’’آپ ماموں کو نہ دیکھیں۔ حضورؐنے منع کر دیا ہے۔ کافروں نے ان کے ناک کان کاٹ دیئے ہیں۔‘‘
’’ تو یہ کون سی بڑی بات ہے بیٹے؟‘‘پورے حوصلے کے ساتھ صفیہؓ نے جواب دیا۔
’’حضورؐ سے کہو زبیر— اللہ کی راہ میں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ تم حضورؐ سے کہو زبیر میں صرف دو چادریں لائی ہوں اپنے بھائی کے لیے۔ ایک بہن کا آخری تحفہ۔۔۔۔۔کفن کی دو چادریں۔ کم از کم اپنے بھائی تک مجھے پہنچانے کی اجازت لو حضورؐ سے۔‘‘
زبیر ؓکی درخواست پر صفیہ ؓکو اجازت مل گئی تو وہ حمزہؓ کی لاش کے سرہانے کھڑی ہوگئیں۔ ایک بھی آنسوان کی آنکھوںمیں نہ تھا۔
’’ یا اللہ ! حمزہؓ کو بخش دے۔‘ ‘ بس ایک ہی دعا ان کے ہونٹوں پر تھی۔
اور جب ایک بہن کا آخری تحفہ’’کفن ‘‘ بھائی کو دیا جانے لگا تب ہی زبیرؓ کی نظر برابر میں پڑے ایک انصاری شہید پر پڑی۔ یہ انصاری حضرت سہیلؓ تھے۔
ایک مہاجر حمزہؓ اور انصاری سہیلؓ کی لاشیں برابر پڑی تھیں۔اسلام کے رشتے نے خاندان اور وطن کے سارے امتیاز مٹا دیئے تھے۔
دونوں کی لاشیں ایک ہی خاک و خون میں لتھڑی پڑی تھیں، اسلامی اخوت اور وفاداری کی یہ کیسی انوکھی تصویر تھی جس میں ان دونوں نے اپنے دل کا خون بھرا تھا۔
پردیس سے آئے ہوئے مہاجر مسلمانوں کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دینے کا جو معاہدہ انصاریوں نے کیا تھا—سہیلؓ کی لاش اس معاہدے کی کیسی عجیب سی تکمیل تھی۔
اور—یہ لاش بھی بے گور وکفن تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔زبیرؓ نے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔صفیہؓ نے بھی دیکھا اور صفیہ تڑپ اٹھیں۔
’’وہ بھی تو میرا بھائی ہے زبیر۔ ایک چادر اسے بھی دو۔ قرعہ ڈال کر دیکھو کون سی چادر کس کے حصہ میں آتی ہے۔‘‘
قرعہ ڈالا گیا ۔بڑی چادر سہیلؓ کے حصہ میں آئی اور چھوٹی حمزہؓ کے ۔
شیر کی طرح طویل قامت حمزہؓ اس چھوٹی سی چادر میں کفنائے نہ جا سکتے تھے۔ ان کے پاؤں ننگے رہے تو بھانجے نے ان کے پیروں کو گھاس سے ڈھک دیا۔
صفیہؓ نے ایک اطمینان بھر ی نظر دونوں جنازوں پر ڈالی اور انّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا الیہ راجعون پڑھ کر چپ ہوگئیں۔
ان کے دونوں بھائی ایک ہی طرح خون اور مٹی میں لتھڑے ہوئے اور ایک ہی جیسی سفید چادریں لپیٹے کتنے چین کی نیند سو رہے تھے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *